ادبستان

میراجی: زندگی قلندرانہ اور حرکتیں مجذوبانہ

میراجی پراسراریت اور حیرت کے قائل تھے۔ ان کی شخصیت بھی ان کی شاعری کی طرح پراسرار تھی۔ وضع قطع، لباس اور باتوں سے تو وہ پراسرار نظر ہی آتے تھے وہ حرکتیں بھی کچھ ایسی کرتے  تھے کہ لوگ انہیں حیرت سے دیکھیں۔

میراجی

میراجی

دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا۔ جب جی چاہا منہ اٹھایا اور چل پڑے۔ کھانے دانے سے فارغ ہو رات کو فرنٹیر میل میں سوار ہوئے اور سو گئے۔ آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ گاڑی لاہور پر کھڑی ہے۔ سال میں کئی کئی پھیرے  لاہور کے ہو جاتے تھے۔ لاہور ادیبوں کی منڈی تھا۔ سرسید نے انہیں ‘زندہ دلانِ پنجاب’ کہا اور واقعی یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس خطے میں زندگی ابلتی ہے اور گنگناتی گاتی پھرتی ہے۔

کتنا خلوص تھا یہاں کے لوگوں میں اور کتنی محبت! ٹوٹ کر ملتے، ہاتھوں ہاتھ لیتے اور سر آنکھوں پر بٹھاتے۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔ ان میں تیر میر نہیں آئی تھی۔ ادیب اور شاعر نرےادیب و شاعر ہی تھے۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ آرٹسٹ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اس کی تصدیق لاہور ہی میں ہوتی تھی۔

اور سچ بھی ہے، آرٹسٹ کا مذہب تو آرٹ ہی ہوتا ہے۔ اب کی مجھے خبر نہیں،یہ کوئی سترہ اٹھارہ سال ادھر کی باتیں ہیں۔اب تو زمین آسمان ہی بدل گئے تو بھلا ادب و شعر کی قدریں کیوں نہ بدلی ہوں گی؟ خیر کچھ ہوگا۔ یہ وقت اس بحث میں پڑنے کا نہیں۔

ہاں تو اچھے وقت تھے، اچھے لوگ تھے۔ ان سے مل کر جی خوش ہوتا تھا، ایک بار ملتے، دوبارہ ملنے کی ہوس! اور سچ تو یہ ہےکہ ان میں سے بعض کے ساتھ برسوں یکجائی رہی اور جی نہیں بھرا۔ بلکہ ان سے بےملے چین نہیں پڑتا تھا۔ بےغرص ملتے، جی کھول کر ملتے، اجلی طبعیتیں تھیں۔ بعض دفعہ بڑی ناگوار باتیں بھی ہو جاتیں۔ مگر کیا مجال جو آنکھ پر ذرا بھی میل آ جائے۔ تم نے ہمیں کہہ لیا ہم نے تمہیں کہہ لیا۔ ایلودل صاف ہوگئے۔ اچھے لوگوں میں یہی ہوتا ہے۔ زمانہ سدا ایک سا نہیں رہتا۔ جب تک بندھن بندھا ہوا ہے بندھا ہوا ہے۔ جب ٹوٹا ساری تیلیاں بکھر گئیں۔ جو دم گزر جائے غنیمت ہے۔ اب وہ دن جب بھی یاد آتے ہیں تو دل پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے۔

یہی کیا کم عذاب تھا کہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔اب ان کی سناؤنی سننے کو کہاں سے پتھر کا دل لاؤں۔ بڈھے مرے، انہیں تو مرنا ہی تھا۔ میر ناصر علی مرے، ناصر نذیر فراقؔ مرے۔ میر باقر علی داستان گو مرے، علامہ راشد الخیری مرے، مولانا عنایت اللہ مرے، کس کس کو گناؤں؟ ایک ہو تو بتاؤں۔ انہوں نے اچھی گزاری اور عمر طبعی کو پہنچ کر مرے۔ مگر جوانوں کا مرنا قیامت ہے۔

البیلا رفیعیؔ، ہنس مکھ چغتائیؔ، عجوبہ افسانہ نگار رفیق حسین، اب آخیر آخیر میں رومانیؔ اختر، اور اب پُراسرار میراجیؔ! ہائے کیسیا کڑیل جوان تھا، یہ کیسے لوٹ گیا؟ ہو نہ ہو اسے تو زمانے کی نذر کھا گئی۔

گر پیر نود سالہ بمیردعجبے نیست!

این ماتم سخت است کہ گویند جواں مرُد

بمبئی سے خبر آئی کہ میراجیؔ کسی ہسپتال میں مر گیا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ بے کسی کی موت! ماں، باپ، بھائی بہن، دوست احباب، سب کے ہوتے ساتے پردیس میں بےکسی کی موت!

آسماں راحق بد گرخوں ببارد برزمین

لیکن نہیں۔ میں تو جذبات کی رو میں بہہ گیا۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو تعجب ہوتا۔ جو یوں نہ ہوتا تو میراجیؔ کی عظمت میں فرق آ جاتا۔ اس کی عظیم شخصیت کا ایسا ہی عبرت ناک انجام ہونا چاہیے تھا۔ عبرت ناک اس کے لیے نہیں ہمارے لیے۔ زمانے کی یہی ریت ہے۔ رونا اس کا ہے کہ وہ عظیم شاعر، وہ عظیم نثار، وہ عظیم حسن کار اب ہم میں نہیں ہے۔ اب وہ وہاں ہے جہاں ہماری آرزوئیں رہتی ہیں۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

موت نے اسے کس قدر پیارا بنا دیا۔

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

سن تو ٹھیک یاد نہیں، ہاں پندرہ سولہ سال ادھر کی بات ہے میں حسبِ معمول لاہور گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ‘نیرنگِ خیال’ گر رہا تھا اور ‘ادبی دنیا’ ابھر رہا تھا۔ کرشن چندر، اور راجندر سنگھ بیدی خوب خوب لکھ رہے تھے۔ صلاحؔ الدین احمد اور میراجیؔ کی ادارت میں ‘ادبی دنیا’ اِس نفاست سے نکل رہا تھا کہ دیکھنے دکھانے کی چیز ہوتا تھا۔ میراجیؔ کی شاعری سے مجھے کچھ دلچسپی تو نہیں تھی مگر ایک عجوبہ چیز سمجھ کر میں اِسے پڑھ ضرور لیتا تھا۔

اسے سمجھنے کی اہلیت نہ تو اس وقت تھی اور نہ اب ہے۔ اس کے مختصر سے مختصر اور طویل سے طویل مصرعے خواہ مخواہ جاذبِ نظر ہوتے تھے۔ چھوٹے سے چھوٹا مصرعہ ایک لفظ کا اور بڑے سے بڑا مصرعہ اتنا کہ ‘ادبی دنیا’ کے جہازی سائز کی ا یک پوری سطر سے نکل کر دوسری سطر کا بھی آدھا پونا حصہ دبا لیتا تھا۔ خیر تو مطلب وطلب تو خاک سمجھ میں آتا نہ تھا۔ البتہ میراجیؔ کی نظم میں وہی کشش ہوتی تھی جو ایک معمے میں ہوتی ہے مگر ان کی نثر میں بلا کی دل کشی ہوتی تھی۔

مشرق کے شاعروں اور مغرب کے شاعروں پر انہوں نے سلسلے وار کئی مضامین لکھے تھے اور سب کے سب ایک سے بڑھ چڑھ کر۔ اس کے علاوہ ادبی جائزے میں جس دقت نظر سے میراجیؔ کام لیتے بہت کم سخن فہم اس حد کو پہنچتے۔

ہاں تو میں لاہور گیا تو مال روڈ پر ‘ادبی دنیا’ کے دفتر بھی گیا۔ کمرے میں داخل ہوا تو صلاح الدین احمد نظر نہیں آئے۔ سامنے ایک عجیب وضع کاانسان بیٹھا تھا۔ زلفیں چھوٹی ہوئی، کھلی پیشانی، بڑی بڑی آنکھیں، ستواں ناک، موزوں دہانہ، کترواں مونچھیں، منڈی ہوئی ڈاڑھی، تھوڑی سے عزم ٹپکتا تھا۔ نظریں بنفشی شعاعوں کی طرح آرپار ہوجانے والی۔ خاصی اچھی صورت شکل تھی۔مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ موانست کی بجائے رمیدگی کا احساس ہوا۔

گرمیوں میں گرم کوٹ! خیال آیا کہ شاید گرم چائے کی طرح گرم کوٹ بھی گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتا ہو گا، دل نے کہا ہو نہ ہو میراجیؔ ہو۔ یہ تو اس شخص کی شاعری سے ظاہر تھا کہ غیرمعمولی انسان ہوگا۔ پوچھا ‘صلاحؔ الدین احمد صاحب کہاں ہیں؟’ بولے ‘کہیں گئے ہوئے ہیں۔’ پوچھا ‘آپ میراجی ہیں؟’ بولے ‘جی ہاں۔’ میں نے اپنا نام بتایا۔ تپاک سے ملے۔ کچھ دیر ان سے رسمی سی باتیں ہوئیں۔ ان کے بولنے کاانداز ایسا تھا جیسے خفا ہو رہےہوں، نپے تلے فقرے ایک خاص لہجے میں بولتے اور چپکے ہو جاتے۔ زیادہ بات کرنے کے وہ قائل نہ تھے اور نہ انہیں تکلف کی گفتگو آتی تھی۔

پہلا اثر یہ ہوا کہ یہ شخص اکھل کھرا ہے، دماغ چوئٹا ہے۔ مختصر سی بات چیت کے بعد اجازت چاہی۔ باہر نکلے تو میرے ساتھی نے کہا ‘ارے میاں یہ تو ڈاکو معلوم ہوتا ہے۔ اس نے ضرور کوئی خون کیا ہے، دیکھا نہیں تم نے؟ اس کی آنکھیں کیسی تھیں؟’ میں نے کہا ‘یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ وہ کیا ہے۔ مگر آدمی اپنی وضع کا ایک ہے۔’

تھوڑے ہی عرصہ بعد ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ اب کے دلی میں۔ ریڈیو پر وہ تقریر کرنے آئے تھے۔ مجھ سے ملنے میرے گھر آئے۔ جب گئے تو بہت کچھ پہلا اثر زائل کر گئے۔ آدمی تو برا نہیں ہے۔ دماغ چوئٹا بھی نہیں ہے ورنہ ملنے کیوں آتا؟ پھر ایک دفعہ آئے اور بولے کہ ‘ریڈیو میں مُلازمت کے لیے بلایا ہے۔’ مجھے کچھ تعجب سا ہوا کہ یہ شخص ریڈیو میں کیا کرےگا؟ بہرحال معلوم ہوا کہ گیت لکھیں گے اور نثرکی چیزیں بھی۔ تنخواہ ڈیڑھ سو ملےگی۔ میں نے کہا ‘تنخواہ کم ہے۔ ادبی دُنیا میں آپ کو کیا ملتا تھا؟’ بولے ‘تیس روپے’۔ میں نے حیرت سے کہا ‘بس!’ کہنے لگے ‘مولانا سے دوستانہ تعلقات تھے۔’ میں نے کہا ‘تو ٹھیک ہے۔ حساب دوستاں دردل۔’

معلوم ہوا کہ بیوی بچے تو ہیں نہیں کیونکہ شادی ہی نہیں کی۔ اپنے خرچے بھر کو ڈیڑھ سو روپے بہت تھے۔ چنانچہ میراجیؔ ریڈیو میں نوکر ہو گئے اور ان سے اکثر ملاقات ہونے لگی اور ان کی نظمیں اور مضامین ساقی میں چھپنے لگے۔ ریڈیو میں اس وقت اچھے اچھے ادیب اور شاعر جمع ہو گئے تھے۔ ن۔م۔راشدؔ، کرشن چندر، منٹو، چراغ حسن حسرت، اوپندر ناتھ اشک، انصار ناصریؔ، میراجیؔ، اخترالایمان وغیرہ سب خوب لکھ رہے تھے۔ اور دلّی ریڈیو کا طوطی بول رہا تھا۔

راشدؔ صاحب کے مشورے سےمیراجیؔ نے دو ایک سوٹ بھی سلوائے تھے مگر انھیں کپڑے پہننے کا کبھی سلیقہ نہ آیا۔ عجیب اَولو اَولو معلوم ہوتے تھے۔ مارے باندھے سے کہیں کپڑے پہنے جاتے ہیں؟ کچھ مدت بعد میراجیؔ پھر اپنی پرانی دھج پر آ گئے۔ نہایت موٹے اور بھدے پٹو کا اچکن نما کوٹ اور اسی کا پتلون، جاڑا، گرمی، سب میں یہی گرم لباس چلتا تھا۔

ریڈیو کے مسودات لکھنے میں میراجیؔ کو کافی مہارت ہو گئی تھی اور حسبِ ضرورت بےتکلف لکھ لیتے تھے۔ گیت ریڈیو ہی میں آکر لکھے اور اتنے کہ ان کا مجموعہ ‘گیت ہی گیت’ کے نام سے شائع ہوا۔ نثر میں بھی صاحبِ طرز تھے۔ انداز فکر فلسفیانہ اور طرز بیان انشاد پردازانہ تھا۔ نظمیں جب کہنے پر آتے تھے تو کئی کئی کہہ لیتے تھے۔ مگر خدا جانے کب کہتے تھے اور کس کیفیت میں کہتے تھے۔ چند نظمیں خود ان سے سمجھیں تو سمجھ میں آئیں اور بعض خود ان کی سمجھ میں بھی نہیں آئیں۔ غزلیں بھی کہیں ہیں اور بہت ستھری۔

فی البدیہ بھی کہتے تھے۔ اشعار کے معاملے میں میرا حافظہ کمزور ہے، صرف ایک مصرعہ ان کا چپک کر رہ گیا، وہ بھی اپنے عجب کی وجہ سے۔ اور کچھ نہیں تو اس سے ان کی حاضر دماغی اور قادرالکلامی ضرور ظاہر ہوتی ہے۔ ہم چند دوست چائے پینے کسی ہوٹل میں داخل ہوئے۔ ایک صاحب نے چائے پینے سے انکار کردیا یہ کہہ کر کہ اتنی تو گرمی پڑ رہی ہے۔ دوسرے صاحب بولے ‘گرمیوں میں گرم چائے ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔ پھر چائے والوں کے مقولوں پر بات چل نکلی۔ کسی نے کہا ‘اگر اشعار میں مقولے باندھے جائیں تو بہتر’ دوسرے بولے اشعار میں بھی ہیں مثلاً:

ایک پیسہ ماں سے لو

اتنی چائے باپ کو دو

یا…

یہ شخص اور اس کا بھائ

پیتے ہیں روزانہ چائے

بھائ کے قافئے چائے پر سب سر دھننے لگے۔ پھر کسی نے کہا ‘گرمیوں میں گرم چائے ٹھنڈک پہنچاتی ہے’ بھی دراصل چائے والوں کا مصرعہ ہی ہوگا۔ کسی نے کہا یہ تو مصرعہ کسی طرح بن ہی نہیں سکتا۔ میراجیؔ اب تک چُپکے بیٹھے تھے۔ بولے، مصرعہ تو بن سکتا ہے۔

گرمیوں میں گرم چائے ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔ ڈک

اس پر خوب قہقہہ پڑا۔ واقعی نہ تو کوئی لفظ بڑھا اور نہ گھٹا۔ ہلدی لگی نہ پھٹکری رنگ چوکھا آ گیا۔

میراجیؔ مشاعروں اور مجلسوں میں نہیں جاتے تھے۔ یوں بھی وہ بہت کم آمیز تھے۔ اور بڑے آدمیوں سے ملنا تو عار سمجھتے تھے۔ بڑے آدمیوں کے بڑے پن کے وہ کبھی قائل نہیں ہوئے اور کسی سے مرعوب ہونا تو وہ جانتے ہی نہیں تھے۔ افسروں کےبارے میں وہ کہتے تھے کہ یہ دفتر میں تو افسر ہوتے ہی ہیں۔ دفتر کے باہر بھی افسر ہی بنےرہنا چاہتے ہیں۔ دفتر کے ہوٹل تک میں ان کی کرسیاں مخصوص ہیں۔ بخاری کی کرسی پر بیٹھنا سو ادب ہے، ادبی مجلسوں میں صدر مقام ان کے لیے خالی رکھے جاتے ہیں۔ افسر ہرجگہ افسر بنا رہتا ہے۔ آدمی کبھی نہیں بنتا۔

میراجیؔ کا مطالبہ بہت وسیع تھا۔ سنا ہے کہ لاہور کی دیال سنگھ لائبریری وہ چاٹ چکے تھے۔ دلی آکر ان کے مطالعہ کا شوق غرقِ مئے ناب ہو گیا تھا۔ نثر کی کتابوں میں الف لیلہ کے عاشق تھے۔ اردو صحیح بولتے تھے اور صحیح لکھتے تھے۔ غلطی کی پچ کبھی نہ کرتے تھے۔ عروض سے خوب واقف تھے اور جملہ اصناف شعر پر حاوی۔

ایک دفعہ ایک اسٹیشن ڈائریکٹر نے ان کے کسی مصرعہ پر اعتراض کیا کہ ناموزوں ہے۔ اسے توتقیطع کرکے بتا دیا کہ موزوں نہیں ہے، باہر نکل کر کئی دن تک اسے گالیاں دیتے رہے کہ یہ اپنے آپ کو افسر تو سمجھتا ہی ہے شاعر بھی سمجھنے  لگا۔ میراجیؔ میں چاپلوسی کی عادت بالکل نہیں تھی۔ اور افسروں کا آگا تاگا لینا بھی وہ سخت معیوب سمجھتے تھے۔

افسروں میں راشدؔ کے بہت گرویدہ اور مداح تھے یا پھر محمود نظامی کے۔ راشدؔ نے میراجیؔ کو بہت نبھایا۔ اس وقت بھی جب کہ مجھ سمیت سب نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔

شراب کی لت خدا جانے میراجیؔ کو کہاں سے لگی؟ جب لاہور میں انہیں تیس روپے ملتے تھے تب بھی وہ پیتے تھے اور جب دلی آئے اور پانچ گنی تنخواہ ملی تو اور زیادہ پینے لگے۔ پہلے رات کو پیتے تھے، پھر دن کو بھی پینے لگے، پھر ہر وقت پینے لگے۔ سوڈا یا پانی ملانے کی ضرورت بھی نہیں رہی تھی۔ یونہی بوتل سے منہ لگاکر غٹاغٹ چڑھا جاتے تھے۔ جب ریڈیو اسٹیشن پر آتے تو ایک ہاتھ میں کاپیاں اور کتابیں ہوتیں اور دوسرے میں اٹاچی کیس۔ اس میں بوتل رکھی رہتی تھی۔ ذرا دیر ہوئی اور کہیں جاکر پی آئے۔

اس شراب نے میراجیؔ کو تباہ کر دیا اور ان میں وہ تمام خرابیاں آتی گئیں جو بالآخر ان کی اخلاقی موت کا باعث بن گئیں۔ ادھر تنخواہ ملی اور ادھر قرض خواہوں اور شراب میں ختم۔ پھر ایک ایک سے ادھار مانگا جا رہا ہے۔ میراجیؔ کے قدردانوں نے انہیں سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہیں مانے اور گرتے ہی چلے گئے۔ پھریہ نوبت آئی کہ قرض ملنا بند ہو گیا۔ انہوں نے اپنے مضامین اور نظموں کی کتابیں مرتب کر کرکے بیچنی شروع کیں۔ اس میں مجھ سے سابقہ پڑا۔

ایک کتاب لے لی، دو لے لیں، گھر پہ ہر مہینے یا دوسرے مہینے ایک مجموعے لے کر پہنچ جاتے۔ میں انکار کرتا اور وہ اصرار، میں انہیں سمجھاتا کہ ‘میراجیؔ میں آپ کی کتابیں نہیں چھاپ سکتا، میرے پاس بیسیوں مسودے خریدے ہوئے رکھے ہیں، ان کے چھپنے کی نوبت بھی نہیں آتی، کاغذ نایاب ہے۔ مگر وہ کچھ ایسے بہانے تراشتے کہ مجھے مجبوراً ان سے مسودہ خریدنا پڑتا۔ کبھی باپ کی بیماری کی خبر سناتے، کبھی بھائی کی تعلیم کی مجبوری بیان کرتے، کبھی کہتے والد کی آنکھیں جاتی رہیں، آپریشن ہوگا۔ میں انکار کرتا تو اتنے ہراساں ہوتے کہ ان پر ترس آنے لگتا۔ کئی دفعہ انہیں یہ بھی سمجھایا کہ میراجیؔ آپ اپنے مسودے مجھے سستے دے جاتے ہیں۔ آپ کسی اور کو دیجیے۔ تو روپے بھی زیادہ ملیں گے، مگر انہیں ضد تھی کہ نہیں میں کسی اور کو اپنی کتاب نہیں دوں گا۔ میں نےان سے ایک ایک کرکے آٹھ مسودے لیے جن میں سے صرف تین شائع ہو سکے۔ باقی دلی برد ہوئے۔

آخری قسط جب انہوں نے روپوں کی مجھ سے مانگی تو میں نے پوچھا اب کون سا مسودہ باقی رہ گیا۔ کہنے لگے ‘باتیں’ جو ساقی میں لکھ رہا ہوں، یہ بھی کبھی ایک کتاب ہو جائےگی۔ بہت حیل حجت کے بعد میں نے انہیں اس شرط پر روپے دیے کہ آئندہ وہ مجھ سے کبھی کچھ نہیں مانگیں گے۔ مگر اس کے بعد پھر انہیں روپے کی ضرورت ہوئی تو میں نے صاف انکار کر دیا اور انہیں کچھ سخت سست بھی کہا۔ بہت افسردہ اور نادم ہوئے۔ کہنے لگے ‘الف لیلہ’ کا ایک نایاب نسخہ بیس جلدوں میں بِک رہا ہے۔ ایک ناقدرے کا دادا مرگیا ہے۔ کتب خانے کی کتابیں اونے پونے بیچ رہا ہے، آپ ایسا کیجیے کہ وہ جلدیں اپنے پاس گروی رکھ لیجیے اور ڈیڑھ سو روپے مجھے دے دیجیے۔ میں آپ کو روپے دے کر کتابیں آئندہ چھڑالوں گا۔’ میں نے کہا یک نہ شُد دوشُد۔ بھائی میں گروی گانٹھا نہیں کرتا، مجھے تو تم معاف ہی کرو۔

کیوں رہی سہی دوستی پر پانی پھیرتے ہو؟ میں تمہارا کتنا بڑا قدردان ہوں۔ اب مجھے اس پر تو مجبور نہ کرو کہ مجھے تم سے نفرت ہو جائے۔’ یہ بات کچھ ان کی سمجھ میں آ گئی اور وہ خاموش چلے گئے۔ بس اس کے بعد میراجیؔ نے مجھ سے کچھ نہیں مانگا اور نہ کوئی اور مسودہ لے کر میرے پاس آئے۔ ویسے ان سے جب تک وہ دلّی میں رہے برابر ملنا جلنا ہوتا رہا۔ اور اکثر گھر بھی آ جاتے تھے۔

کتابوں کی قیمت کے بارے میں ان کی ایک خاص مت تھی۔ مثلاً میں نے کہا یہ کتاب تو بہت چھوٹی ہے، اس کے میں دو سو روپے سے زیادہ نہیں دوں گا، تو وہ کہتے ‘دو سو بالکل ٹھیک رقم ہے۔ بائیس روپے دو آنے اور دو پائی اور بڑھا دیجیے تاکہ رقم ہموار ہو جائے۔ یعنی دو سو بائیس روپے دو آنے، دو پائی’ اسی طرح ان کی سب کتابوں کی قیمتیں تجویز کی گئی تھیں۔ تین تین، چارچار، پانچ پانچ روپے اور ‘اجتنے کے غار’ جو ان کی نظموں کا دوسرا مجموعہ تھا اس کی قیمت چھ روپے دی گئی تھی۔

میراجی بڑے گندے آدمی تھے۔ وہ ان میں سے تھے جو کہتے ہیں کہ یا نہلائے دائی یا نہلائیں چار بھائی۔ انہیں کبھی کسی نےنہاتے نہیں دیکھا، بلکہ منہ دھوتے بھی نہیں دیکھا۔ بال کٹوانے کے بڑے چور تھے۔ وحشیوں کی طرح ہمیشہ بڑھے رہتے۔اور ان میں کبھی تیل نہ ڈالتے اور نہ انہیں بناتے۔جب دلّی آئے تھے تو مونچھیں بھی مونڈ ڈالی تھیں۔

ایک دفعہ جانے دل میں کیا سمائی کہ چار ابر واکا صفایا کر گلے میں سادھوؤں کی سی کنٹھی بھی ڈال لی تھی۔ ہمیشہ سنجیدہ صورت بنائے رہتے تھے، انہیں قہقہہ مار کر ہنستےمیں نےکبھی نہیں دیکھا۔ باتیں اکثر ہنسنے ہنسانے کی کرتےمگر خود کبھی نہ ہنستے تھے۔ بہت خوش ہوتے تو خندۂ دنداں نما فرمایا۔ ان کے غچلے پن سے بڑی گھن آتی تھی۔مگر یہ ان گھناؤنی چیزوں میں سے تھے جنہیں اپنے سےدور نہیں کیا جا سکتا۔

زندگی قلندرانہ اور حرکتیں مجذوبانہ۔ دو چار آدمیوں نے مل کر ایک کمرہ کہیں باڑے کی طرف لے رکھا تھا مگر رات کو اگر کہیں گھاس میں پڑے رہے تو وہیں سو گئے اور اگر پٹری پر لیٹ گئے تو وہیں صبح ہو گئی۔ ایک دو دن نہیں برسوں یہی حال رہا۔

شراب کے نشے میں میراجیؔ کو رونے کی دھن سوار ہو جاتی تھی اور وہ ایسے بے سدھ ہو جاتے کہ تن بدن کا بھی ہوش نہ رہتا۔ ایک دن ہم موری دروازے کے پل پر سے آ رہے تھے۔ جب نہر سعادت خاں کے سنیما کے آگے پہنچے تو دیکھا کہ ایک مجمع سڑک پر لگ رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایک آدمی ڈاڑھیں مار کر رو رہا ہے۔ اور دو ایک اسے سڑک پر سے اٹھا رہے ہیں۔ ہم نے سوچا کوئی حادثہ ہو گیا ہے۔ بچارے کے سخت چوٹ آئی ہے، اسے فوراً ہسپتال بھیجنا چاہیے۔ اتنے میں اخلاقؔ نے گھبراکر کہا ‘بھائی شاہد! یہ تو میراجیؔ ہیں!’ اور میراجیؔ سڑک پر پڑے رو رہے تھے اور بڑبڑا بھی رہے تھے۔ مگر زبان قابو میں نہیں تھی کہ بات سمجھ میں آتی۔

ایک صاحب جو انہیں اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ بھی جاننے والے ہی تھے۔ ہمیں دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔ جھٹ ایک تانگہ منگاکر سب نے اٹھاکر میراجیؔ کو تانگے میں ڈالا مگر وہ پھسل کر پھر نیچے آ رہے۔ دوبارہ انہیں آگے کی سیٹ پر ڈالا اور اخلاقؔ کو ساتھ بھیجا کہ ان کے گھر پہنچاکر آئے۔ اگلے دن اخلاقؔ نے بتایا کہ میراجی اپنی اماں کے لیے رو رہے تھے۔

یہ اخلاق احمد ریڈیو اناؤنسر تھے اور میراجیؔ کے بڑے مداح۔ میراجیؔ نے اپنی ایک کتاب بھی ان کے نام معنون کی ہے۔ دونوں میں بہت اخلاص تھا۔

ایک دن ان کے چند دوست انہیں گھیر گھار کر ایک نستعلیق طوائف کے کمرے پر لے گئے۔ وہاں کچھ گانا سنا، کچھ شراب پی اور بہکنے لگے۔ زینےسےاتر کر سڑک پر آئے تو حالت اور بھی خراب ہو گئی۔ سڑک پر لوٹنا اور چیخیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ نظموں کا دوسرا ضخیم مجموعہ مسودے کی شکل میں ان کے پاس تھا اسے اس بری طرح اچھالا کہ رات کے اندھیرے میں اِس کا ایک ورق بھی کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ دوستوں نے جو ان کی یہ حالت دیکھی تو گھبرا گئے۔ لاکھ انہیں چمکارا پچکارا مگر وہ اپنے اوسانوں میں نہ آئے۔

اتنے ہی میں پولیس کے چند آدمی گشت کرتے آ گئے۔ دوست بچارےسب دم بخود ہو گئے کہ اب آوارہ گردی میں سب کے سب بند ہوتے ہیں۔ بھلا رات کے بارہ بجے اس بدنام بازارمیں اور اس حالت میں دیکھ کر کون چھوڑےگا؟ مگر اخلاق احمد کے حواس قائم رہے۔ ہمت مردانہ تو ان کی بھی جواب دے چکی تھی۔ مگر جب پولیس والوں نے ٹوکا تو اس نے جرأت رندانہ سے کام لے کر کہا ‘بچارے کی ماں مر گئی ہے۔’ یہ کہہ کر میراجیؔ کو سمجھانے لگا کہ ‘ماں باپ سدا کسی کے جیتے نہیں رہتے۔ صبر کرو صبر۔ چلو اٹھو۔ کوئی دیکھے گا تو کیا کہےگا۔ ارے بھئی تم تو بڑے بودے نکلے۔ بچوں کی طرح رو رہے ہو۔ لو چلو اٹھو۔ گھر چلو اور ہاں سنتری جی کوئی تانگہ ملے تو ادھر بھیج دینا۔’ خدا خدا کرکے آئی بلاٹلی اور سب کی جان میں جان آئی۔ نظموں کے دوسرے مجموعے کے ساتھ اس مہینے کی تنخواہ کا بقایا بھی میراجیؔ اسی بازار میں اچھال آئے۔ چلو

جان بچی لاکھوں پائے

خیر سے بدھو گھر کو آئے

صبح انہیں کچھ بھی یاد نہیں رہتا تھا کہ رات کو اپنی جان پر اور دوستوں پر کیا مصیبت توڑ چکے ہیں۔

ایک دن ریڈیو اسٹیشن پر میراجیؔ کو دیکھا کہ جگہ جگہ سے ان کا منہ سوجا ہوا ہے اور سارے چہرے پر زخم اور نہٹے لگے ہوئے ہیں۔ میں نے گھبراکر پوچھا ‘میراجیؔ کیا کہیں گر پڑے۔’بولے ‘نہیں، مجھے مارا ہے۔’ ‘آپ کو کیوں مارا؟ آپ تو لڑنا جانتے ہی نہیں۔’ کہنے لگے ‘مجھے سوتے میں مارا ہے اس نے۔’ ‘کس نے؟’ ‘میرا شبہ ہے ایک آدمی پر۔’ اور آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ اس بیہوش آدمی کو کس ملعون نے مارا تھا! میراجیؔ کو زیادہ جاننے والوں میں سے بعض یہ بھی کہتے تھے کہ اس نے خود نشےمیں اپنے آپ کو مارا ہے۔ واللہ عالم بالصواب!

میراجیؔ پراسراریت اور حیرت کے قائل تھے۔ ان کی شخصیت بھی ان کی شاعری کی طرح پراسرار تھی۔ وضع قطع، لباس اور باتوں سے تو وہ پراسرار نظر ہی آتے تھے وہ حرکتیں بھی کچھ ایسی کرتے تھے کہ لوگ انہیں حیرت سے دیکھیں۔ مثلاً ایک زمانےمیں مرغی کے انڈے کے برابر لوہے کا گولا ہاتھ میں ہر وقت رکھتے تھے اور کوئی پوچھتا تھا کہ یہ کیا ہے تو کچھ نہ بتاتے تھے۔ پھر ایک کے دو گولے ہوگئے تھے اور یہ خاصہ ڈیڑھ پاؤ کا بوجھ خواہ مخواہ اٹھائے پھرتے تھے۔ اس کے بعد ان گولوں پر سگریٹ کی پنی چڑھائی جاتی تھی۔ لکھنؤ میں جب میں نے انہیں آخری بار راشدؔ صاحب کے ہاں دیکھا تو گولے ان کے پاس نہیں تھے۔

کھانے میں میٹھا اور نمکین ملاکر کھاتے تھے اور دیکھنے والے چہ میگوئیاں کرتے تھے۔ بعض جو انہیں جانتے تھے انہیں ‘باؤلا’ کہتے تھے۔ منٹوؔ انہیں فراڈ کہتا تھا۔

آواز بہت عمدہ اور بھاری پائی تھی۔ ریڈیو پر اکثر ڈراموں میں بولتے تھے۔ پنجاب کے رہنے والے تھے مگر ان کی زبان یا ان کا لہجہ چغلی نہیں کھاتا تھا۔ انگریزی کی استعداد اعلیٰ درجے کی تھی مگر جہاں تک ممکن ہوتا بولنے سے گریز کرتے۔ موسیقی سے دلچسپی تھی۔ راگ جے جے ونتی سنتے تو وجدطاری ہو جاتا اور سر پھوڑنے لگتے۔ سمجھتے خاک نہ تھے۔

مذہب سے میراجیؔ کو کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ہندو صنمیات سے انہیں شغف تھا۔ اسی کا رچا پچا تصور ان کی شاعری میں بھی جھلکتا ہے۔ بس مسلمان اس لیے تھے کہ ایک مسلمان کے ہاں پیدا ہو گئے تھے۔ جو شخص اخلاقی ضابطوں کی پابندی کرنا بھی ضروری نہ سمجھتا ہو وہ بھلا مذہبی قید و بند کو کیسے گوارا کر لیتا؟ میراجیؔ کے تو دل اور دماغ دونوں ہی کافر تھے۔

میراجیؔ جنسی اعتبار سے ایک گنجلک تھے۔ ابتداً انہیں عورتوں سے رغبت تھی۔اور یہ کوئی ہندو لڑکی ‘میرا’ ہی تھی جس کی ناکام محبت میں اپنا نام انہوں نے ‘میراجیؔ’ رکھا تھا۔ ورنہ اصلی نام تو ان کا ثناء اللہ تھا۔ خدا جانے استمنا بالید کا انہیں چسکا کہاں سے لگا کہ جیتے جی نہ چھوٹا اور انہیں کسی جوگا نہیں رکھا۔ وہ اِسے فخریہ بیان کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کی بدولت میری سب تمنائیں پوری ہوجاتی ہیں۔ آپ ایک ایک کامنہ تکتے ہیں اور دل میں حسرت لیے رہ جاتے ہیں۔

میں کسی کو دیکھتا ہوں تو اس کالطف بھی حاصل کر لیتا ہوں۔ ایک دن اپنے ایک ہم مذاق سے تعارف کرایا تو یہ کہہ کر کہ ‘یہ بھی دستکار ہیں۔’ ان سے جب کہا گیا کہ یہ تو بڑی غلط چیز ہے تو جواب ملا کہ میں سائنٹفک طریقے کا دستکار ہوں۔ اس میں کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور دست کاری میں انہیں اتنا غلو تھا کہ قیدِ مقام سے بھی گزر چکے تھے۔ ان کے پتلون کی بائیں جیب تو بنی ہوئی تھی مگر جیب کا کپڑا غائب تھا۔

میراجی کی سیرت میں بیسیوں خرابیاں آ گئی تھیں لیکن طبعاً وہ ایک شریف انسان تھے۔ دوستوں کے لیے دامے، درمے، قدمے، ہر طرح خدمت کرنےکو تیار رہتے تھے۔ دانشوروں کے ایک خاص حلقے میں ایک صاحب نے ایک مضمون پڑھا جو پوری اردو شاعری پر حاوی تھا۔ اس مضمون کی بہت تعریف ہوئی۔ اچنبھے کی بات یہ تھی کہ صاحب مضمون یوں تو پڑھے لکھے تھے لیکن انہیں ادب و شعر کا کوئی خاص ذوق نہیں تھا۔ ہمارا ماتھا وہیں ٹھنکا تھا کہ یہ مضمون ان کا نہیں ہوسکتا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مضمون میراجیؔ کا لکھا ہوا تھا۔

شروع شروع میں جب ان کی شراب نہیں بڑھی تھی وہ روپے پیسے سے بھی بعض دوستوں کی مدد کرتے تھے۔ تنخواہ میں سے کچھ پس انداز کرکے اپنے والد اور چھوٹے بھائی کو بھی کچھ بھیجا کرتے تھے، اور یہ چھوٹے بھائی وہی صاحب تھے جنہوں نے میراجیؔ کی تمام نظمیں چند پیسوں میں بیچ ڈالی تھیں۔ ہوا یہ کہ انہوں نے سارے گھر کی ردی کسی پھیری والے کے ہاتھ میں دو تین آنے سیر کے حساب سے بیچی اور اس میں میراجیؔ کی وہ دو ضخیم کاپیاں بھی تول دیں جن میں ان کی نظمیں لکھی ہوئی تھیں۔

میراجیؔ نے لاہور کے تمام ردی بیچنے والے چھان ڈالے مگر وہ مجموعے نہ ملنے تھے نہ ملے۔ اس کا انہیں بے حد رنج پہنچا، اتنا کہ انہوں نے اپنا گھر اور اپنے عزیزوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔ جس گھر میں ان کے ہنر کی یہ توقیر ہو وہ وہاں کیسے رہ سکتے تھے اور جن کے ہاتھوں ان کے حاصل عمر کا یہ حشر ہو بھلا وہ ان سے ملنا کیسے گوارہ کرسکتے تھے؟ گھر تو گھر انہوں نے لاہور ایسا چھوڑا کہ پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا۔

میراجیؔ کو میں نے کبھی کسی سے بدزبانی کرتے نہیں دیکھا۔ وہ تو کسی سے مذاق تک نہیں کرتے تھے۔ ان کا رکھ رکھاؤ ایسا تھا کہ کیا مجال جو کوئی ان سے ناشائشتہ بات کر لے۔ ادب آداب ہمیشہ ملحوظ رکھتے۔ ان کی بھونڈی وضع قطع پر بےتکلف دوست پھبتیاں کستے مگر وہ صرف مسکراکر رہ جاتے اور کبھی الٹ کر کوئی سخت جواب نہ دیتے۔ اس سے یہ ہوتا کہ معترض خود شرمندہ ہو جاتا۔

عجیب بات میراجیؔ میں یہ تھی کہ ان کی جملہ خرابیوں کے باوجود سب ان کی عزت کرتے تھے۔ انہیں دیکھ کر اندر سے دل کہتا تھا کہ یہ ایک عظیم انسان ہے اور عزت و احترام کا مستحق۔ نہ جانے اس شخص میں کیا بات تھی کہ اتنی نفرت انگیزیوں کے باوجود دل اس کی طرف کھنچتا تھا۔ ایسا مقناطیسی شخصیت کا انسان میں نے کوئی اور نہیں دیکھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان کا ظاہر و باطن ایک تھا۔

انہوں نے کبھی اپنے عیبوں کو نہیں چھپایا اور نہ کبھی اپنی خوبیوں کو سراہا۔ ریاکاری ان میں نام کو نہیں تھی۔ ان کے لیے خلوت اور جلوت دونوں ایک تھے۔اخلاقی قدریں اضافی تو ہوتی ہی ہیں، ان کے نزدیک مروّجہ اخلاق کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ بلکہ وہ انہیں برا سمجھتے تھے اور ان کی تحقیر کرتے تھے۔ یا شاید انہوں نے انتقاماً ظاہر کو تج دیا تھا اور ان کا باطن ہی ظاہر بن گیا تھا۔ اور شاید یہی ان کی عظیم شخصیت کا راز ہو۔

(بہ شکریہ ؛گنجینۂ گوہر)