خبریں

بی بی سی ڈاکیومنٹری پر بولے آسٹریلیائی ایم پی اور کارکن – ہندوستان میں سچ بولنا جرم ہو سکتا ہے

وزیر اعظم نریندر مودی کےآسٹریلیا دورے کے دوران وہاں کے پارلیامنٹ ہاؤس میں گجرات فسادات میں ان کےرول کو اجاگر کرنے والی بی بی سی ڈاکیومنٹری دکھائی گئی۔اس کے بعد ایک پینل ڈسکشن میں آسٹریلیائی گرینس سینیٹر نے ہندوستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے موضوع پر وہاں کے وزیر اعظم کے مودی سے بات نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔

کینبرا کے پارلیامنٹ ہاؤس میں بی بی سی ڈاکیومنٹری کی اسکریننگ ، فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ

کینبرا کے پارلیامنٹ ہاؤس میں بی بی سی ڈاکیومنٹری کی اسکریننگ ، فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ

نئی دہلی:جس دن ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے سڈنی میں اپنے آسٹریلیائی ہم منصب سے دو طرفہ بات چیت کی،اسی دن  کینبرا کے پارلیامنٹ ہاؤس میں2002 کے گجرات فسادات میں ان کے مبینہ رول کو اجاگر کرنے والی بی بی سی ڈاکیومنٹری دکھائی گئی۔

رپورٹ  کے مطابق، اسکریننگ کا اہتمام ارکان پارلیامنٹ اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ایک گروپ نے کیا تھا۔

چالیس  منٹ کی ڈاکیومنٹری کی اسکریننگ کے بعد ایک پینل ڈسکشن میں آسٹریلیائی گرینس سینیٹرز جارڈن اسٹیل جان، ڈیوڈ شوبریج، سابق آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کی بیٹی آکاشی بھٹ اور ساؤتھ ایشین سالیڈریٹی گروپ کی ڈاکٹر کلپنا ولسن  نے شرکت کی۔

سینیٹر ڈیوڈ شوبرج نے کہا، ہندوستان میں سچ بولنا جرم ہو سکتا ہے۔ یہ فلم ہندوستان میں لوگوں کو وہاں کی انتظامیہ کے ساتھ جو تجربہ ہے اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میں نے [ہندوستانی-آسٹریلیائی] ڈائسپورا میں اتنے سارے( لوگوں) سے بات کی ہے اور بہت سےلوگ کہتے ہیں کہ آواز اٹھانا بہت مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ میرے خاندان کو خطرہ ہو گا، اگر میں واپس گیا تو مجھے خطرہ ہو گا۔ اس لیے وہ اس کام کے لیے [آسٹریلیائی ] وزیر اعظم اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی طرف دیکھتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، بیس سال پہلےآسٹریلیا بغیر کسی سوال کے چین کے ساتھ قربت اور انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہونے سے انکار کرنے کےعمل سے گزرا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم نے وہاں سے کچھ سبق سیکھا ہوگا۔

آکاشی بھٹ نے کہا، آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ بہ مشکل اوپری بات تھی۔ گجرات مہینوں سے  جل رہا تھا اور مسلمانوں کو بے رحمی سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

میسی یونیورسٹی کے موہن دتا نے کہا، ہندوتوا خطے میں ہماری جمہوریت کے لیے خطرہ ہے، اور اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

ہندوستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر آسٹریلیائی وزیر اعظم کی مودی کے ساتھ بات کرنے میں ناکامی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جارڈن اسٹیل جان نے کہا، ‘پچھلے کچھ دنوں میں میں [آسٹریلیائی] وزیر اعظم کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ بات چیت کو دیکھ کر مایوس ہوا ہوں۔  یہ بات پھر غصے میں بدل گئی کہ ہمارے وزیر اعظم کس طرح انسانی حقوق کے ان خدشات کو اٹھانے میں ناکام رہے ہیں، جن کا اظہار ان کے اور وزیر خارجہ کے سامنے  واضح طور پر کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا،بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اور [وزیر خارجہ] وونگ تنقید کرنے والے دوستوں کے طور پر بات کریں، ایک ایسے سربراہ مملکت کے طور پر جو ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور جو تنقید کرنے کے لیےآزاد ہے اورہندوستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں بارے میں کھل کر بات کرنے کو تیار ہے۔ساتھ ہی بدلے میں اسی طرز عمل کا خیرمقدم کرنے کے لیے بھی۔

انہوں نے مزید کہا،یہ واضح ہے کہ مودی نے اپنے سیاسی عروج میں اس حکمت عملی کا استعمال  سفید فام مغربی ممالک کے دوہرے معیار پر تنقید کرنے کے لیے کیا ہے۔ اس کا ذکر ضروری ہے۔ ہمیں واضح طور پر بات کرنے کی ضرورت ہے اور بدلے میں ہم سے بھی اس بارے میں بات کی جاسکتی ہے،خاص طور پر اس بارے میں کہ  ہم صحافیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، اور مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

شوبریج نے کہا، ‘آکاشی نے نے جوایک جملہ کہا تھا، وہ قانون کی حکمرانی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیے تھا: اپنے آبائی گھر کے انہدام کے بارے میں۔ صرف اس پر ہمارے وزیر اعظم کو مودی کے ردعمل پر سوال اٹھانا چاہیے۔ ہمارے وزیر اعظم حکومت ہند سے کیسے مل سکتے ہیں اور ان مسائل کو نہیں اٹھا سکتے؟ یہ قیادت کی بنیادی کمی ہے۔ اور اسی تنقید کو سننے کے لیے تیار رہنے کی بھی۔

ڈاکٹر کلپنا ولسن نے کہا، ‘ہمیں اس حقیقت سے آگے جانا ہوگا کہ بین الاقوامی برادری میں بے حسی ہے اور یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے اتحادی کون ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں دائیں بازو کی شدت پسندحکومتوں کے درمیان ایک اتحاد ہے، اور وہ مودی جو کچھ بھی کرتے ہیں اسے ایک رول ماڈل  کے طور پردیکھتے ہیں۔ ٹرمپ اور بولسونارو جیسے کچھ کھلے اتحادیوں کو اقتدار سے باہر کر دیا گیا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہندوستانی بھی ہندو بالادستی کی نفرت کو مسترد کرتے ہیں۔