خبریں

رہائی کے آرڈر کے دو سال بعد بھی حراست میں رکھنا ’انتہائی پریشان کن‘: جموں کشمیر ہائی کورٹ

جموں کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے گزشتہ سال فروری میں مزمل منظور وار کی حراست  کے فیصلے کو ردکر دیا تھا، لیکن وہ 467 دن گزرنے کے بعد بھی جیل میں ہیں۔ انہیں جموں و کشمیر کے متنازعہ  پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، جس کے تحت لوگوں کو بغیر کسی مقدمے کے 2 سال تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔

(السٹریشن دی وائر)

(السٹریشن دی وائر)

نئی دہلی: جموں کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے گزشتہ سال فروری میں مزمل منظور وار کی حراست کے فیصلے کو رد کر دیا تھا، لیکن467 دن گزرنے کے بعد بھی وہ ابھی تک جیل میں ہیں۔

ہائی کورٹ کے جسٹس راہل بھارتی نے مزمل کی طرف سے اپنے والد کے ذریعے دائر کی گئی رٹ پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت کے سامنے ایک انتہائی پریشان کن معاملہ پیش کیا گیا ہے جسے معمول کے مطابق نمٹانے کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا۔

نیوز ویب سائٹ لائیو لاء کی ایک رپورٹ کے مطابق، انہوں نے حکم دیا کہ ضلع مجسٹریٹ، جنہوں  نے مزمل کی حراست کا حکم دیا تھا، 29 مئی کو عدالت میں پیش ہوں اور مزمل کو بھی پیش کریں۔

مزمل کو متنازعہ جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، جو کہ ایک احتیاطی حراستی قانون ہے جو لوگوں کو بغیر کسی مقدمے کے 2 سال تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔

سال 1989 سے جموں و کشمیر میں پی ایس اے کے من مانی استعمال کی تاریخ ہے، جب اس خطے میں مسلح تصادم شروع ہوا تھا۔

اگرچہ حکومت نے بنیادی طور پر دہشت گردوں، پتھراؤ کرنے والوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف پی ایس اے  کا استعمال کیا تھا، لیکن اس نے حال ہی میں مرکزی دھارے کے سیاست دانوں – تین وزرائے اعلیٰ – کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو  2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے حراست میں لینے  کے لیے  اس قانون کو لاگو کیا گیا ہے۔

اس سال اپریل میں ہائی کورٹ نے صحافی فہد شاہ کی پی ایس اے کے تحت نظر بندی کے حکم کو ردکر دیا تھا ، جو کشمیر کی نیوز ویب سائٹ ‘دی کشمیر والا’ کے چیف ایڈیٹر ہیں، عدالت نے کہا کہ ان کی حراست ‘محض شبہ’ تھی اور ‘معمولی دعوے’ پر مبنی تھی۔

ہائی کورٹ نے پی ایس اے کے تحت جیل میں بند تین دیگر لوگوں کی حراست  کے فیصلے کو بھی رد کر دیا تھا، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ ایک معاملے میں ضلعی انتظامیہ نے 2020 میں ایک شخص پر پتھراؤ کا الزام لگایا تھا، حالانکہ وہ 2017 سے جیل میں تھا۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔