فکر و نظر

دو ہزار روپے کے نوٹوں کو واپس لینے کے پیچیدہ عمل کے پس پردہ اصلی نشانہ کون ہے؟

دو ہزار روپے کے نوٹ رکھنے والوں کے لیے اب ایک واضح ترغیب ہے کہ وہ بینک میں رقم جمع کرنے کے بجائے صرف ایکسچینج کے لیے جائیں اور انکم ٹیکس کے مقاصد کے لیے جانچ پڑتال کی جائے۔ تاہم، نوٹوں کی تبدیلی کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے کیونکہ ایک وقت میں صرف  20000  روپے ہی بدلے جا سکتے ہیں۔

(فوٹو بہ شکریہ : ریزرو بینک آف انڈیا/اگستیہ چندرکانت/CC BY-SA 4.0)

(فوٹو بہ شکریہ : ریزرو بینک آف انڈیا/اگستیہ چندرکانت/CC BY-SA 4.0)

توقع کےعین مطابق ، 2000 روپے کے نوٹوں کو واپس لینے کے حوالے سےپہلے دور کی وضاحت حکومت کے پسندیدہ قربانی کے بکرے – اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی ) کی طرف سےپیش کی گئی  ہے۔ یہاں یہ یاد کرنا دلچسپ ہوگا کہ نومبر 2016 کی نوٹ بندی کے دوران بھی حکومت کی جانب سے زیادہ  بیٹنگ ایس بی آئی نےہی کی تھی۔

ایس بی آئی نے وضاحت پیش کی ہے کہ 2000 روپے کے نوٹ بدلنے والوں کو اپنی شناخت (کسی بھی قسم کی آئی ڈی ) فراہم کرنے یا کوئی فارم بھرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ وضاحت عام لوگوں میں اس خوف کے پھیلنے کے بعد پیش کی گئی ہے کہ حکومت 2000 روپے کے نوٹ بدلنے والوں کے پیچھے پڑ سکتی ہے۔ اس لیے حکومت اب کہہ رہی ہے کہ نوٹ بدلنے (ایک بار  میں زیادہ سے زیادہ 20000 روپے)آنے والوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور محکمہ انکم ٹیکس ان کے پیچھے نہیں پڑے گا۔ ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا اور نہ ہی ان سے کوئی شناختی کارڈ دینے کے لیے کہا جائے گا۔

یہ وضاحت بلیک منی، جو بنیادی طور پر چلن سے باہر کیے گئے 2000 روپے کے نوٹوں کی صورت میں جمع کی جاتی ہے، کے سسٹم کی کمر کو توڑنے کے حکومت کے اعلانیہ مقصد کی کس حد تک تکمیل  کرتی ہے؟یہ بھی درست ہے کہ ایسے تضادات اس حکومت کی پہچان ہیں۔ لیکن اس سے پہلے ایس بی آئی نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ نوٹ بدلنے والوں کی تو نہیں، مگر ان نوٹوں کو جمع کرنے والوں کی پہچان ضرور کی جائے گی اور انہیں بینکوں کے ذریعہ فراہم کردہ فارم کو پُر کرنا ہوگا۔ ٹیکس حکام یقینی طور پر ان کی تحقیقات کریں گے۔

نوٹ بندی کے بعد وزارت خزانہ نے سرکاری طور پر ایک پریس بیان میں کہا تھا کہ، ‘جب بینک میں نقد رقم جمع کی جاتی ہے، تو اس کے مالک کی شناخت ظاہر ہوتی ہے۔ جمع کی گئی نقد رقم  کی شناخت اس کے مالک کے ساتھ کی جاتی ہے، جس سے پوچھ گچھ کا دروازہ کھل جاتا ہے کہ کیا جمع کی گئی رقم جمع کنندہ کی آمدنی کے مطابق ہے؟ اسی حساب سےنوٹ بندی کے بعد 18 لاکھ جمع کنندگان کی نشاندہی اس طرح کی پوچھ گچھ کے لیے کی گئی ہے۔ ایسے بہت سے لوگوں پرٹیکس اور جرمانہ عائد کیا جا رہا ہے۔ بینک میں نقد رقم جمع کرنے سے یہ نہیں مانا  جاسکتا کہ یہ ٹیکس ادا شدہ رقم ہے۔

اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس بار بھی وزارت خزانہ اس اصول کو جمع کرنے والوں پر لاگو کرے گی۔ لیکن ایس بی آئی کے بیان کے حساب سے دیکھیں تو بچنے کا راستہ دیا گیا ہے- نوٹ بدلنے والوں کی شناخت نہیں کی جائے گی اور ان سےسوال نہیں پوچھے جائیں گے۔

اس لیے اب 2000 روپے کے نوٹ رکھنے والوں کو ایک صاف موقع دیا گیا ہےکہ وہ بینک جا ئیں اور 2000 روپے کے نوٹوں کو  جمع کرکے انکم ٹیکس کی پوچھ گچھ کا سامنا کرنے کے بجائے آسانی سے بدل لیں۔

تاہم،2000 روپے کے نوٹ کو تبدیل کرنا بہت مشکل بنا دیا گیا ہے، کیونکہ ایک بار میں صرف 20000 روپے تک ہی تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر، اگر کسی کے پاس 2000 روپے کے نوٹوں میں 2 کروڑ روپے  رکھے ہوں، تو اسے اگلے 129 دنوں میں (30 ستمبر تک) 20000 روپے کے نوٹ بدلنے کے لیے1000 بار بینک جانا پڑے گا۔ چھوٹے تاجر، خاص طور پر ان آرگنائزڈ سیکٹر  کام کرنے والے نقد کا استعمال  ورکنگ کیپیٹل کے طور پر کرتے ہیں اوروہ لمبے وقت میں  اپنے نوٹوں کو بدلنے کی جگہ اس کو جلد از جلدبدلنا چاہیں گے، بھلے  انہیں اس کے لیے جانچ پڑتال کا  ہی سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔

لیکن ہندوستانی سسٹم  کو چکمہ دینے میں ماہر ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ، جن کے پاس 2000 روپے کے نوٹوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے، وہ شاید سینکڑوں–ہزاروں  لوگوں کو اپنے نوٹ بدلنے کے لیے کام پر لگا دیں گے۔اس وجہ سے آنے والے ہفتوں اور اگلے چند مہینوں تک بینکوں کے سامنے لمبی قطاریں لگنے کا امکان ہے۔

اس وقت چلن میں 2000 روپے کے نوٹوں کی کل قیمت 3.62 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ 2000 روپے کے کل 18100 نوٹ 30 ستمبر سے پہلے بینکوں میں لوٹنے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک پیچیدہ مشق ثابت ہونے والی ہے۔

اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے ایس بی آئی کے ذریعے ایک اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس مشق میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی، کیونکہ ہندوستان میں بینکوں کی 1.55 لاکھ شاخیں ہیں اور اس طرح بینک کی ہر شاخ  کو اوسطاً صرف 11677 نوٹ تبدیل کرنے ہوں گے۔ اوسط نمبر کی یہ جادوگری اس حقیقت کو چھپا دیتی ہے کہ زیادہ تر لمبی قطاریں شہری یا نیم شہری شاخوں پر نظر آئیں گی، جن پر شدید دباؤ ہو گا۔ اس لیے یہ اتنی پریشان کن مشق نہیں ہوگی، جس کا تصورایس بی آئی  کر رہا ہے۔

ایک طرح سے کچھ مخصوص گروہوں کو نشانہ بنانے کے لیے پیچیدہ عمل بنائے گئے ہیں، جن پر 2000 روپے کے نوٹوں کی بڑی مقدار جمع کرکے رکھنے  کا شبہ ہے۔ جن لوگوں کے پاس 2000 روپے کے نوٹوں کی تھوڑی مقدار ہے وہ اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر اسے تبدیل کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ سیاسی جماعتیں کیا کریں گی، جن کے پاس اس طرح سے 100یا200 کروڑ روپے جمع ہوں۔ اتنی بڑی رقم کو دوسرے لوگوں کی مدد سے اتنے کم وقت میں تبدیل کرنا بہت مشکل ہوگا۔ یہ جماعتیں یہ رقم جمع بھی نہیں کر سکتیں۔ 2023 کی آخری سہ ماہی میں ہونے والے کئی اہم ریاستی انتخابات کے لیےانہیں پیسوں کی ضرورت ہوگی۔

بی جے پی کو اس معاملے میں فطری  طور پر برتری حاصل ہوگی، کیونکہ اس نے غیر شفاف طریقے سے الیکٹورل بانڈز کے ذریعے اپنے لیے بہت زیادہ فنڈ جمع کیا ہے۔ اور اس سے تاجروں میں اتنا خوف پیدا ہو گیا ہے کہ وہ  بھلے الیکٹورل بانڈز کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کو چندہ دینا چاہیں،لیکن خوف کی وجہ سے وہ اپوزیشن کو نقددینے میں ہی اپنا بھلا سمجھتے ہیں۔

حکمران جماعت کی انتخابی فنڈنگ پالیسی ‘چت بھی میری پٹ بھی میری’ والی ہے۔ 2000 روپے کے نوٹوں کو چلن سے باہر کرنا اس شاطرانہ حکمت عملی کا صرف ایک حصہ ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)