خبریں

ٹیرر فنڈنگ ​​کیس میں یاسین ملک کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے این آئی اے  نے ہائی کورٹ کا رخ کیا

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک کو گزشتہ سال ٹرائل کورٹ نےٹیرر فنڈنگ کیس میں یو اے پی اے اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

یاسین ملک، فائل فوٹو۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

یاسین ملک، فائل فوٹو۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے جمعہ کو ٹیرر فنڈنگ کیس میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے رہنما یاسین ملک کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے دلی ہائی کورٹ کا رخ کیا ہے۔

گریٹر کشمیر کی رپورٹ کے مطابق، این آئی اے نے اپنی اپیل میں کہا کہ ایسےخونخوار دہشت گردوں کے ذریعے کیے گئے جرائم، جہاں ان کی’جنگ’ کی وجہ سے ملک نےاپنے بہادرفوجیوں کو کھو دیا،جو  نہ صرف ان کے گھروالوں کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیےناقابل تلافی نقصان اور غم کا باعث بنا۔ ‘

معلوم ہو کہ ایک ٹرائل کورٹ نے گزشتہ سال یاسین ملک کو یو اے پی اے اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مجرم قرار دیتے ہوئے ٹیرر فنڈنگ کیس میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ملک کے پاس اس کیس میں کوئی وکیل نہیں تھا۔ عدالت کی طرف سے مقرر کردہ ایمیکس کیوری نے تصدیق کی تھی کہ ملزم نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی مخالفت نہیں کی تھی۔

اب، ہائی کورٹ میں اپنی اپیل میں این آئی اے نے کہا ہے کہ مدعا علیہ/ملزم کئی دہائیوں سے وادی میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں اور خطرناک غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی مدد سے ہندوستان کے لیے معاندانہ رویہ رکھتے ہوئے وادی میں ہندوستان کےایک حصے کی خودمختاری اور سالمیت پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مسلح بغاوت کی سازش  کر رہے ہیں اور اسے انجام دے رہے ہیں۔

این آئی اے نے کہا کہ اگر ایسے خونخواردہشت گردوں کو محض اس بنیاد پر سزائے موت نہیں دی جاتی کہ انہوں نے اعتراف جرم کیا ہے، تو اس کے نتیجے میں ملک کی سزا دینے کی پالیسی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی اور اس کے نتیجے میں ایسے خونخوار دہشت گرد ‘ملک کے خلاف جنگ’ چھیڑنے اور اُکسانے کے بعد، پکڑے جانے کی صورت میں سزائے موت سے بچنے کا ایک راستہ بنالیں گے۔

یہ معاملہ ہائی کورٹ میں جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس تلونت سنگھ کی ڈویژن بنچ کے سامنے درج ہے، جہاں اگلی سماعت 29 مئی کو ہونی ہے۔

اس سے قبل نچلی عدالت نے ایجنسی کی سزائے موت کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ ٹیرر فنڈنگ کیس میں ملک کو عمر قید کی سزا سناتے ہوئے ٹرائل کورٹ کے جج نے کہا تھا، میری رائے میں، اس مجرم کی کوئی اصلاح نہیں ہوئی تھی۔ یہ درست ہو سکتا ہے کہ مجرم نے سال 1994 میں بندوق چھوڑ دی ہو، لیکن اس نے 1994 سے پہلےجو تشدد اس نے کیا اس پر کبھی پشیمانی کا اظہار نہیں کیا۔

این آئی اے کے جج پروین سنگھ نے کہا تھا، ‘یہ بات قابل غور ہے کہ جب انہوں نے 1994 کے بعد تشدد کا راستہ ترک کرنے کا دعویٰ کیا تو حکومت ہند نے اسے قبول کیا اور انہیں اصلاح کا موقع دیا اور نیک نیتی کے ساتھ بامعنی بات چیت کی، جیسا کہ ان کے ذریعے قبول بھی کیا گیا، اور انہیں  اپنی رائے کے اظہار کے لیے ہر پلیٹ فارم دیا۔

عدالت نے مزید کہا  تھاکہ ان کی طرف سے کیے گئے جرائم انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں لیکن ‘ریئریسٹ ‘ نہیں ہیں، جن کے لیے موت کی سزا دی جائے۔