الیکشن نامہ

ترکیہ کے انتخابی نتائج: مغرب کے لیے ایک سبق

مغرب کے لیے یہ انتخابات ایک اہم سبق ہیں۔ نہ صرف ان کی بے جا مداخلت نے ترکیہ میں قوم پرست جذبات کو ابھارابلکہ بیرون ملک ترکوں کے ووٹنگ کے انداز سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بیلجیم، فرانس، جرمنی، ڈنمارک اور ہالینڈ یعنی جو ممالک اسلامو فوبیا کا شکار ہیں، میں اردوان کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔  اس کے برعکس برطانیہ، امریکہ، نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں جہاں اسلاموفوبیا کے کم واقعات رونما ہوتے ہیں، کلیچ داراولو کو اکثریت ملی۔

فوٹو بہ شکریہ: Twitter/@RTErdogan

فوٹو بہ شکریہ: Twitter/@RTErdogan

رائے عامہ کے جائزوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے اور تمام تر مشکلات کے باوجود رجب طیب اردوان نے ترکیہ کے صدراتی انتخاب کے معرکہ میں کامیابی حاصل کرکے ایک بار پھر ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔  چونکہ 14مئی کو ہونے والے انتخابات میں چار امیدواوں میں سے کسی کو بھی50فیصد جمع ایک ووٹ نہیں ملے تھے۔

اس لیے 28مئی کو پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواراں  حکمران جمہور اتفاقی یعنی پیپلز الائنس کے امیدوار صدر اردوان اور متحدہ اپوزیشن ملی اتفاقی یعنی قومی اتحاد کے امیدوار کمال کلیچ داراولو کے درمیان دوبارہ معرکہ ہوا۔

جس میں اردوان کو 52.15 فیصد جبکہ کلیچ داراولو کو  47.85 فیصد ووٹ ملے۔رات گئے جیت درج کرنے کے بعد انقرہ میں پارٹی صدر دفتر کی بالکونی سے کارکنوں کو خطاب کرنے کے بعد 29مئی کو استنبول میں انہوں نے عثمانی ترک سلطا ن محمد دوم کے ذریعے اس شہر کو فتح کرنے کی570 ویں سالگرہ منائی۔ 1453 میں ا ستنبول یعنی قسطنطنیہ کی فتح نے مغرب کی چولیں ہلا کر رکھ دی اور یہ رومن سلطنت کے زوال کا بھی سبب بھی بنا۔

استنبول کی اس دوبارہ علامتی فتح اور اس کا جشن منانے میں مغرب کے لیے ایک واضح پیغام چھپا تھا۔

کمر توڑ مہنگائی، کمزور ہوتی ہوئی معیشت اور اشیائے ضروریہ کی تیزی سے بڑھتی قیمتوں کے باوجود ترک ووٹروں نے استحکام اور تسلسل کو چن کر رائے عامہ کے جائزوں کو غلط ثابت کر دیا۔ صرف ایک ماہ قبل، تقریباً تمام رائے عامہ کے جائزے اردوان کے 20سالہ دور اقتدار کے خاتمہ کی پیشن گوئی کر رہے تھے۔ ان کی مقبولیت کا گراف بھی بس 32فیصد پر اٹکا ہو ا تھا۔ مگر پہلے راؤنڈ کی ووٹنگ میں یہ گراف 49.5فیصد اور دوسرے راؤنڈ میں یہ  52.15 فیصد پہنچ گیا۔

آخر یہ معجزہ کیسے رونما ہوا، اس پر تو کئی برسوں تک بحث کی جائےگی، مگر حکمران آق پارٹی کے ذمہ دار بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ اردوان کے بغیرپارٹی اور حکومت میں کوئی بھی جیت کے سلسلے میں پر اعتماد نہیں تھا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ آج کی دنیا میں انتخابات انگریزی حرف کے تین ایم کے امتزاج سے جیتے جاتے ہیں۔ یہ ہیں مین مشین اور میسیج۔

اردوان کی صورت میں مین اور حکومت میں رہنے کی وجہ سے انسانی و مالی وسائل، مگر ہاں میسیج کے سلسلے میں وہ کمزور تھے، جو ان کو جلد ہی حاصل ہوگئی۔ جبکہ اپوزیشن کے پاس طاقتور میسیج تو تھا، مگر اس کو عوام تک پہچانے والی قوی آواز نہیں تھی۔ مشینری میں بھی وہ خاصے پیچھے رہ گئے۔

ترکیہ میں تقریباً  اس بات پر اتفاق ہے کہ مغربی حکومتوں اور مغربی میڈیا کی کلیچ داراولو کی ڈھٹائی سے کئی گئی حمایت ان کو خاصی بھاری پڑ گئی۔ اردوان نے مغرب کی اس جانبداری کو خوب بھنا کر ترک قوم پرست جذبات کو ابھارا۔ جس کہ وجہ سے ترک ووٹروں نے افراط زر، کمزور ہوتی ہوئی معیشت، اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کو درکنار کرتے ہوئے مغرب کو سبق سکھانے کے لیے ترک فخر اور خودی کا انتخاب کیا۔

اپنے  جلسوں میں اردوان نیویارک ٹائمز میں2020 میں موجودہ ا مریکی صدر جوائے بائیڈن کے انٹرویوکا حوالہ دےکر ترک عوام کو مغربی ممالک کی ملکی سیاست میں مداخلت کرنے سے خبردار کرتے تھے۔ بائیڈن نے کہا تھاکہ وہ اردوان کو شکست دینے کے لیے ترک اپوزیشن کی حوصلہ افزائی کریں گے۔

”بائیڈن نے ہدایت دی ہے کہ ہمیں اردوان کا تختہ الٹنا ہے۔ میں یہ جانتا ہوں۔ میرے تمام لوگ یہ جانتے ہیں۔ترک  ووٹر بائیڈن کو اس کا جواب دیں گے۔“ تقریباً ہر جلسے میں وہ اس طرح کا خطاب کرتے تھے۔

ترک خاصی قوم پرست قوم ہے۔ وہ اپنے ملک کی سلامتی اور اس کی سرحدوں کے حوالے سے خاصے حساس ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پچھلے دوسو سالوں سے ا ن کو شمال سے روس اور جنوب سے مغربی ممالک کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس لیے وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں اور اپنے معاملات میں غیر ملکی مداخلت پسند نہیں کرتے ہیں۔

دارالحکومت انقرہ کے سٹی سینٹر میں اپنے صحافتی معمول کے مطابق جب ایک دن میں نے کئی عام افراد سے ووٹنگ اور سیاست کے موڈ کے بارے میں جاننا چاہا، تو انہوں نے دوٹوک جواب دیا کہ انتخابات ان کا اندرونی معاملہ ہے اور اس سلسلہ میں وہ کسی غیر ملکی صحافی سے بات نہیں کریں گے۔ میری ٹوٹی پھوٹی ترک زبا ن سے وہ سمجھ گئے تھے کہ میں غیر ترک ہوں۔

ملک کے جنوبی علاقے میں کرد گروپوں کی مسلح مزاحمت کا حوالہ دیتے ہوئے، اردوان نے دہشت گردی، بغاوت، مغربی مداخلت اور ملک کی تقسیم کے تصورات کی تصویر کشی کی، اور کلیچ داراولو پر دہشت گرد گروہوں سے تعلقات رکھنے کا الزام لگایا۔

کرد سیاسی جماعت ایچ ڈی پی  نے کلیچ داراولو کی حمایت کی تھی، جس سے یہ خدشہ تھاکہ شاید پورا 12فیصد کرد ووٹ ان کی جھولی میں گر جائےگا۔ مگر اردوان اسلام پسند کرد فری کاز پارٹی کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح کرد ووٹ تقسیم ہو گئے۔

اپوزیشن کا ایک اور غلط اندازہ یہ تاثر تھا کہ جنوب مشرقی ترکیہ میں زلزلے سے متاثرہ گیارہ صوبے غیر مؤثر ہونے اور بروقت امدادی کارروائیاں شروع نہ کرنے کی وجہ سے اردوان کے خلاف ووٹ دیں گے۔  1999 میں تقریباً اسی شدت کے ایک زلزلے نے جس نے استبول کے نواح میں ازمت صوبے کو متاثر کیا تھا، اس وقت کے وزیر اعظم بولنت ایجاوت کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔ یہی زلزلہ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اردوان کے اقتدار میں آنے کا ذریعہ بھی بن گیا تھا۔

اپوزیشن کا خیا ل تھاکہ باز آبادکار ی اور دیگر ایشوز کا اٹھا کر وہ عوام کے ایک بڑے طبقہ کو اپنے حق میں ہموار کریں گے۔ مگر حتائی صوبہ کے بغیر زلزلہ سے متاثر دیگر سبھی صوبوں میں اردوان کو کامیابی ملی۔ اس کی ایک وجہ شایدیہ تھی کہ انہوں نے چھ لاکھ کے قریب گھر مفت بنانے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ زلزلہ سے متاثرین کا بھی کہنا تھاکہ وہ اب اس وقت اقتدار کی تبدیلی نہیں چاہتے ہیں۔ کیا معلوم کہ نئی حکومت اس وعدے کا ایفا کرے گی۔

کلیچ داراولو نے ایک مثبت ایجنڈا پیش کرنے کی کوشش کی جس میں امید، آزادی اور جمہوریت کا وعدہ کیا گیا تھا۔لگتا تھاکہ اگر وہ برسراقتدار آتے ہیں، تو ترکیہ کی یورپی یونین میں شامل ہونے کا راستہ صاف ہوسکتا ہے۔ لیکن پہلے راؤنڈ میں صرف 44.9 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد، انہوں نے یو ٹرن لےکر خود کو ایک سخت گیر قوم پرست کے طور پر پیش کیا، جس سے انہوں نے کرد ووٹروں کو تذبذب میں ڈالا۔ پھر انہوں نے نسل پرست جماعت  وکٹری پارٹی کے سربراہ امت اوزدگ کے ساتھ ہاتھ ملایا، جس سے ان کے اعتدال پسند حامی بپھر گئے۔

مغربی میڈیا کی طرف سے بڑے پیمانے پر امکانی انتخابی دھاندلی کے خدشات بھی بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں، حالانکہ کئی چھوٹی موٹی  شکایات الیکشن کونسل کے پاس زیر التوا ہیں۔ پہلے راؤنڈ میں ریکارڈ 89فیصد اور دوسرے میں  84.22 فیصد ووٹر ٹرن آؤٹ ہونے کے باوجود ووٹنگ کا عمل نہایت ہی پر امن تھا، جس سے لگتا ہے کہ قوم پرست ہونے کے ساتھ ساتھ ترک باشعور قوم بھی ہے۔

اب بڑا سوال یہ ہے کہ یہ انتخابات ترکیہ اور دنیا کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں؟ ترکی کی جیواسٹریٹجک پوزیشن اسے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک اہم کھلاڑی بناتی ہے۔اسی لیے ان انتخابات کو 2023 کا سب سے اہم واقعہ قرار دیا جا رہا تھا۔  اردوان کی جارحانہ خارجہ پالیسی نے بیرون ملک ترکی کے پروفائل کو بڑھا تو دیا لیکن ناٹو اور مغربی اتحادیوں کے ساتھ یہ  شدید اختلافات کا بھی باعث بنا۔دوسری طرف اسلامی ممالک کی لیڈرشپ کی چاہت نے اس کو سعودی عرب، متحدہ امارات اور مصر کے روبرو کھڑا کردیا۔

پچھلے ایک سال کے دوران جو مثبت تبدیلی آئی ہے، وہ یہ ہے کہ ترکیہ کے تعلقات سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کے ساتھ معمول پر آرہے ہیں۔ ان ملکوں نے حالیہ دنوں میں ترک معشیت کو سہارا دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔  روس اور سعودی عرب کی ثالثی سے شام کے ساتھ تعلقات میں اسی طرح کی بہتری کی امید نظر آتی ہے۔

دونوں ممالک کے وزرائے دفاع اور انٹلی جنس حکام نے حال ہی میں ماسکو میں کئی دور کی بات چیت کی ہے۔ شاید جلد ہی روس کی ثالثی کی وجہ سے  اردوان اپنے شامی ہم منصب بشار الاسد کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ اب تک کی بیان بازی کے باوجود مغرب کے پاس اردوان کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

اردوان کے لیے ایک بڑا چیلنج امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنا ہوگا۔ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کے نسبتاً دوستانہ تعلقات تھے لیکن موجودہ صدر جو بائیڈن کے ساتھ تعلقات ٹھنڈے ہیں۔

کشمیر اور ہندوستانی مسلمانوں پر بیانات دینے کہ وجہ سے اردوان نے ہندوستانی حکومت کو خاصا زچ کیا تھا۔ مگر ان تعلقات میں جمی  برف اب پگھل چکی ہے۔ وہ ستمبر میں جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی جانے   کی تیاری کر رہے ہیں۔اس وجہ سے حالیہ عرصے میں ان کی حکومت نے کشمیر اور ہندوستان کے دیگر اندرونی مسائل پر بیان بازی کو کم کرنے کے لیے ایک عمل شروع کیا ہے۔

حالیہ مہینوں میں کئی سالوں کے بعد دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ کے درمیان مشاورتی میکانز م کی میٹنگیں ہوئی۔ کہتے ہیں کہ ترکیہ نے جب ہندوستان میں کووڈ کی دوسری لہر کے دوران امداد بھیجی، تو ان پیکٹوں پر جلال الدین رومی کی ایک نظم پرنٹ کی گئی تھی۔ جس کا ترجمہ اور مفہوم یہ تھا؛’مایوسی کے بعد امید ہے، اندھیرے کے بعد بہت سے سورج ہیں۔’

دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت میں بس دو سال میں 100 فیصد اضافہ دیکھا گیا جو 2021-22 میں 10.70 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ 2020-21 میں یہ صرف 5 بلین ڈالر تھی۔ہندوستانی کمپنیوں نے ترکیہ میں تقریباً 126 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

ترک صحافی فہیم تسٹیکن کے مطابق، اروان اپنی تیسری صدارتی مدت کے دورا ن زنگیزور کاریڈور کے منصوبے پر تیزی سے کام کریں گے۔ ترکیہ کا یہ منصوبہ ایک طرح سے چین کے بی آرٹی کاریڈور کی طرح نیٹ ورک پروجیکٹ ہے۔ نقل و حمل کا راستہ  ترکیہ کو آذربائیجان سے براہ راست منسلک کرے گا۔ یہ راہداری ترکیہ کو بحیرہ کیسپین تک رسائی فراہم کرے گی اور وسطی ایشیا میں ترک ریاستوں کے ساتھ ایک راہداری دے گی۔

ترک ریاستوں تک پہنچنے کے لیے ترکیہ کے پاس براہ راست راہداری کی سہولیت میسر نہیں ہے۔ جہاں فلسطین کو چھوڑ کر دیگر عرب ممالک ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں، ترک ممالک میں سے بیشتر داغستان، تاتارستان، بشخورستان تو روس کے قبضہ میں وہیں سنکیانگ چینی قبضہ میں ہے۔

وسط ایشیاء کی ترک ریاستوں قزاخستان، ترکمانستان، ازبکستان اور کرغیزستان تک بھی اس کی رسائی نہیں ہے۔ اگر یہ راہداری بن جاتی ہے تو ترک دنیا  ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو جائےگی۔ مگر  اس راہداری کے لیے لازم ہے کہ ترکیہ کے تعلقات روس اور ایران کے ساتھ خوشگوار رہیں۔ اس  راہداری کے ذریعے ردوان ترک دنیا کو متحد کرنے اور دوبارہ رابط استوار کرنے کی وجہ سے تاریخ میں اپنا نام درج کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

مغرب کے لیے یہ انتخابات ایک اہم سبق ہیں۔ نہ صرف ان کی بے جا مداخلت نے ترکیہ میں قوم پرست جذبات کو ابھارابلکہ بیرون ملک ترکوں کے ووٹنگ کے انداز سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بیلجیم، فرانس، جرمنی، ڈنمارک اور ہالینڈ یعنی جو ممالک اسلامو فوبیا کا شکار ہیں، میں اردوان کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔

اس کے برعکس برطانیہ، امریکہ، نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں جہاں اسلاموفوبیا کے کم واقعات رونما ہوتے ہیں، کلیچ داراولو کو اکثریت ملی۔ کہتے ہیں570سال قبل ترکو ں کے ذریعے استنبول یا قسطنطنیہ کی فتح رومن سلطنت کے زوال کا سبب تو بن گئی، مگر اس نے  یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک کو مہمیز دی۔

کیا اردوان کی 2023فتح ایک بار پھر یورپ اور دیگر مغربی طاقتوں کو ایک نئی نشاۃثانیہ کی تحریک برپا کرنے پر مجبور کردےگی، جس میں برابری اور برادری کے اصولوں کو اپناکر، سیکولر ازم کی ازسر نو تشریح کے ساتھ ساتھ اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کے خاتمہ پر زور دیا جائے۔