جہاں وزیرا عظم مودی نے علاقائی روابط کو سفارتی ترجیحات میں رکھا ہے، وہاں وہ اس بات کو سمجھنے سے آخر قاصر کیوں ہے کہ وسط ایشیا کے ساتھ روابط کشمیر سے ہوکر اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے ذریعے ہی ممکن ہیں۔
پاکستان کے برعکس ہندوستان میں سویلین حکومتیں اور سیاستدان لاکھ اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفادات کی حفاظت کرتی ہیں۔پاکستان کے لبرل مدبرین اس سوال پر بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ ان کے ملک میں ملٹری سویلین حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مگر جب سویلین حکمران بھی اقتدار میں آتے ہیں، تو کیا وہ توازن برقرار رکھ پاتے ہیں؟ جمہوی نظام کو چلانے کے لیے توازن برقرار رکھنا ایک لازمی امر ہے اورایک کامیاب جمہوریت کے لیے آئین کو چلانے کے لیے امبیڈ کر کی نصیحت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ دور میں اب ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو اس حد تک سیاسی یتیم اور بے وقعت بنایا گیا ہے کہ اب علامتی طور پر بھی ان کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اگر کبھی مستقبل میں امن و امان کی صورت حال بن جاتی ہے اور دونوں ممالک اپنے تنازعات پر امن طور پر سلجھانے کو تیار ہو جاتے ہیں تو اس کا کریڈٹ لازماً ستی لامبا کو ہی جائے گا۔ان کے لیے بہترین خراج یہی ہے کہ مزید ہزاروں بے گناہ و معصوم افراد کو موت کی بھیٹ چڑھانے کے بجائے دونوں ممالک دیرنہ تنازعات کو عوامی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے عمل کو شروع کرکے اس کو منتقی انجام تک پہنچا دیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے زیر حراست نابالغ افراد کی اصل تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے اور جس طرح بچوں کے ساتھ پولیس اور نظم و نسق کے دیگر ادارے پیش آتے ہیں، اس سے ان کی ایک بڑی آبادی شدید نفسیاتی دباؤکا شکار ہو گئی ہے۔
آر ایس ایس کے ایک مرکزی لیڈر او ر نظریہ سازشری رام مادھو نے مسلمانوں کو ایک تین نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے جس سے وہ ہندوستان میں سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ شرطیں کچھ اس طرح کی ہیں کہ مسلمان غیر مسلموں کو کافر نہ کہیں، مسلمان خود کو امت اسلام یا مسلم امت کا حصہ سمجھنا ترک کردیں اور مسلمان جہاد کے نظریے سے خودکو الگ کریں۔
ٹیکس نظام میں اصلاحات سے بھی زیادہ اہم چیز سیاسی نظام میں بد عنوانی کا خاتمہ کرنا ہے۔
عدالت میں کشمیر ی اور پاکستانی قیدیوں کی معاونت کرنے اور عالمی مسلم مسائل و فلسطین کو اجاگر کرنے کی حد تک تو بھیم سنگھ کا ایکٹوزم سمجھ میں آتا تھا، مگر کشمیر کے حوالے سے لگتا تھا کہ وہ خود بھی کنفیوژ تھے۔ کشمیر کی خصوصی پوزیشن […]
اب پارلیامنٹ کی طرف سے پاس کیے گئے مذہبی مقامات ایکٹ 1991 کو کالعدم کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیم وشو ہندو پریشدکے نشانے پر ملک بھر میں 25ہزار مساجد و قبرستان اور وقف کی جائیدادیں ہیں، جو ان کے مطابق عہد قدیم میں ہندو عبادت گاہیں تھیں۔
لگتا ہے وزارت خارجہ میں امریکہ نواز لابی کو مزید تقویت بخشنے کے لیے کواٹرا کی تقریری کی گئی ہے۔ کیونکہ نہ صرف وہ جے شنکر کے قریبی مانے جاتے ہیں، بلکہ جب مودی نے 2014میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا، تو وہ ان کے لیے کئی ماہ تک بطور مترجم و معاون کار کے کام کرتے تھے اور ان کے لیے تقریریں لکھنے کا بھی کام کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ براہ راست مودی کے رابطہ میں رہتے تھے۔
یہ اب تقریباً طے ہوگیا ہے کہ کمیشن نے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی ایما پر ہی حد بندی ترتیب دی ہے، تاکہ مسلم آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے اور مسلم خطے پر ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کراکے اس کو 2024 کے عام انتخابات میں بھنایا جائے۔
پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے لیے پانی ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر گیا ہے، مگر جھیل ولر کی صحت کے حوالے سے کبھی بھی دونوں ممالک نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ہے۔ ہندوستان کے لیے شاید اس کی اتنی اقتصادی اہمیت نہیں ہے، مگر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے لیے اس کی حیثیت شہ رگ سے بھی زیادہ ہے۔
بی جے پی نے اب اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ملک سال بھر انتخابی بخار میں مبتلارہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر دوسرے دن ہیجانی مسائل پیدا کیے جاتے ہیں، اور ایک بحث لوگوں پر زبردستی مسلط کی جاتی ہے۔ یہ حجاب پہننے کا مسئلہ ہو سکتا ہے، مسلمان تاجروں کا ہندو عبادت گاہوں کے قریب دکانیں کھولنا یا پھر 1990 میں کشمیری ہندوؤں کے اخراج پر بننے والی فلم کے اوپر گفتگو۔
پاکستان میں اب پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی اقتدار میں ہے۔ مسلم لیگ کا ہندوستان میں اور پیپلز پارٹی کا مغربی دنیا میں اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں اگر اس خیر سگالی کا کشمیری عوام کی مشکلات کو آسان کرنے کے لیے استعمال کریں تو سودا برا نہیں ہے۔
پتہ نہیں کہ پاکستان کی مٹی میں ایسا کیا کچھ ہے کہ جب بھی کسی ادارے، چاہے سویلین حکومت، صدر، عدلیہ، ملٹری و میڈیا کو طاقت ملتی ہے، تو وہ بے لگام ہو جاتا ہے۔
ہندوستان میں واجپائی تیسرے اور آخری وزیراعظم تھے، جن کو پارلیامنٹ میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
ہندوستان کی وزارت دفاع نے پہلے تکنیکی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے پلہ جھاڑنے کی کوشش کی، مگر بعد میں پارلیامنٹ میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بتایا کہ میزائلوں کی دیکھ ریکھ کے عمل کو سدھارا جائے گا اور اس کا ازسر نو جائزہ لیا جائےگا۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب تھا کہ یہ میزائل کسی انسانی غلطی کی وجہ سے فائر ہوا ہے اورجلد ہی کسی کو قربانی کا بکرا بنایا جا ئےگا۔
جس طرح سے وزیراعظم مودی کے کٹر حامی انوپم کھیر اور متھن چکرورتی کو لے کر وویک اگنی ہوتری نے 1990 میں وادی کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کے ہجرت کی کہانی بیان کی ہے، وہ نہ صرف یکطرفہ ہے بلکہ اس سے کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ان کا جینا دوبھر کرایا جا رہا ہے۔
بی جے پی نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنے تین ترپ کے پتوں یعنی گائے، مسلمان اور پاکستان میں سے مسلمان کا جم کر استعمال کیا۔
شایدہندوستان ہی واحد ملک ہوگا،جو ابھی بھی اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے ایشو کو لےکر سیاسی روٹیاں سینکنے کا کام کررہا ہے۔ دنیا اب آگے نکل چکی ہے، ان ایشوز پر اب شاید ہی کوئی پارٹنر دینا میں اس کو نصیب ہوگا۔ ہاں، چین اور روس کو کسنے […]
ان گنت ایسے واقعات بتاتے ہیں کہ پولیس اصل ملزمین کو گرفتار کرنے کے بجائے معصوم مسلم نوجوانوں کو قربانی کا بکرا بناتی ہے، اس لیے عدالت کے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ ہو رہی ہے۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ گجرات میں 2002 میں ہونے والے فسادات کا انتقام لینے کے لیے یہ دھماکے کیے گئے تھے۔
جو لوگ حجاب کی مخالفت کر رہے ہیں، یہی افراد لڑکیوں کے مغربی لباس پہننے اور ویلنٹائن ڈے پر نوجوان جوڑوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ ہندو خواتین جو گھونگھٹ میں رہتی ہیں، تو اس کو بھی اتار پھینک دو۔
اپنی اسیری کے دوسرے سال کے آخر میں جب ٹموتھی ویکس نے اسلام قبول کرکے نما ز وغیرہ ادا کرنا شروع کیا تو طالبان گارڈ پھر بھی ان کو تشد کا نشانہ بناتے تھے۔ ان کو شاید یقین نہیں آریا تھاکہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔
یوکرین کے اس قضیہ کو ہندوستان میں خاصی تشویش کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے ۔ کیونکہ 1962 میں جب بڑی طاقتیں کیوبا کے میزائل قضیہ کو سلجھانے میں مصروف تھیں ، تو اس کا فائدہ اٹھاکر چین نے ہندوستان پر فوج کشی کرکے اس سے 43000مربع کلومیٹر کا علاقہ ہتھیا لیاتھا ۔
کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر 2018کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ شاید واحد صدا تھی، جو صحافیوں کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔
سماجی و معاشی ترقی کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے بجائے یوگی آدتیہ ناتھ نے کھلے طور پر اپنی پوری طاقت مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے اور مندر بنوانے میں صرف کی ہے۔
سال 2018میں اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن نے پایا کہ 1990سے کشمیر میں 506مجسٹریل انکوائریا ں تشکیل دی گئی تھیں، ان میں 108انکوائیریوں میں خاطیوں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔ مگر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکی۔ایک جائزے کے مطابق 2011میں گیارہ، 2012میں آٹھ، 2013میں سات، 2014میں سات، 2015میں دس، 2016میں آٹھ، 2017میں سات اور 2018میں انکوائریوں کا حکم دیا گیا تھا۔ مگر ان سبھی انکوائریوں کا حال ابھی تک پس پردہ ہے۔
کمیشن نے اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی میں آبادی کے بجائے رقبہ کو معیار بنایا ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ چونکہ جموں کا رقبہ26293مربع کلومیٹر، کشمیر کے رقبہ 15940مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے، اس لیے اس کی سیٹیں بڑھائی گئیں ہیں۔ اگر یہ معیار واقعی افادیت اور معتبریت رکھتا ہے، تو اس کو پورے ہندوستان میں بھی نافذ کردینا چاہیے۔
ایک سروے کے مطابق افغانستان کے غزنی، ہرات اور نمروز میں تین ٹریلین مالیت کے لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں۔ ایسا مانا جارہا ہے کہ اگر افغانستان کو چند سال ہی امن و امان کے ملتے ہیں تو یہ جلد ہی دنیا کے امیر ترین ممالک کی صف میں شامل ہو جائےگا۔ ایک امریکی جریدہ نے تو اس کو لیتھیم کا سعودی عرب بھی قرار دیا ہے۔
سیالکوٹ کا واقعہ چیخ چیخ کر یہ پیغام دے رہا ہے۔یہ سچ ہے کہ اس میں کوئی دینی تنظیم ملوث نہیں تھی مگر جن افراد نے یہ قدم اٹھایاوہ کسی کے زیر اثر تو ضرور رہے ہوں گے۔ صرف اس واقعہ کی مذمت کر نا ہی کافی نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات کے تدارک کے لیے عملی اقدامات بھی انتہائی ضروری ہیں۔
ہندوستان میں تو ویسے موجودہ کانگریس کے اندر1885کی کانگریس کی شبیہ ابھی بھی کسی حد تک نظر تو آتی ہے، مگر پاکستان میں مسلم لیگ کسی بھی حالت میں 1906کی پارٹی کی جان نشیں نہیں لگتی ہے۔
امریکہ کو خدشہ ہے کہ ہندوستان کے خلاف نرم رویہ اختیار کرنے سے اس کے دیگر حلیف سعودی عر ب اور متحدہ عرب امارات بھی روس سے جدید ترین اسلحہ حاصل کرنے کی لائن میں لگ جائیں گے۔
پچھلے تین سالوں میں کشمیر میں حکومتی اور میڈیا سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 837 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب میں 172 سیکورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ ان میں سے اکثر افراد کو لائن آف کنٹرول کے پاس ورثاکی موجودگی اور آخری رسومات کے بغیر ہی پولیس نے خود ہی نامعلوم قبروں میں دفن کر دیا ہے۔
سرحدوں میں تبدیلی اور لوگوں کے درمیان رابطے کے کمزور ہونے کے ساتھ، ترک زبانوں نے مختلف لہجے اور بولیاں جمع کیں اور آہستہ آہستہ وہ اصل زبان سے الگ ہوگئے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ یہ تنظیم اس زبان کا ایک معیار تیار کرکے اس کو سبھی ممالک میں نافذ بھی کروائے۔
افغانستان میں امریکی انخلا کےبعد یہ امید بندھ گئی ہے کہ امریکی صدر بائیڈن گوانٹنامو بے کا تلخ باب بند کردیں گے اور 9/11کی ٹرائل بھی مکمل کرنے کے احکامات صادر کریں گے۔
دہشت گردی یا فوجی کشیدگی یا سرحدی تنازعات، قومی سلامتی کے لیےخطرات تو ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں، خاص طور پر جب وہ جان بوجھ کر عمل میں لائی جاتی ہوں سے، اس سے بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔اس سے جنگوں سے بھی زیادہ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ویسے دونوں ممالک کو چاہیے کہ کم از کم اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرکے خطے کو ماحولیاتی تبدیلی کے طوفان سے بچائیں۔دوسرا طریقہ ہے کہ سارک تنظیم کے ذریعے کوئی میکانزم ترتیب دیا جائے۔
کشمیری پنڈتوں اور بہاری مزدوروں کی ہلاکتوں پر پورے ہندوستان میں ایک طوفان سا آگیا ہے۔ کئی مقتدر مسلم رہنمابھی کشمیری مسلمانوں کو باور کرا رہے ہیں کہ اقلیتوں کی حفاظت کے لیے ان کو میدان میں آنا چاہیے۔یہ سچ ہے کہ اقلیت کی سلامتی اور ان کا تحفظ اکثریتی فرقہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر کشمیر میں اکثریتی طبقہ تو اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اْدھار زندگی گزارنے والا کیسے کسی اور کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے؟
ہندوستان اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں نے کئی بار اشتراک کرکے پاکستان کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان کے لیے تویہ خطرہ تھا ہی، اسرائیل اس کو اسلامی بم سے تشبیہ دیتا تھا۔
بڑا سوال اب ہندوستان میں یہ ہے کہ بی جے پی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟ نئی دہلی میں مغربی ممالک کےسفارت خانےآج کل سیاسی تجزیہ کاروں، لیڈروں اور ہند و قوم پرستوں کی مربی آر ایس ایس کے لیڈران و کارکنان کی تواضع و خاطر مدارت میں لگے رہتے ہیں، تاکہ سن گن لی جاسکے کہ کیا آرایس ایس نریندر مودی کو تیسری بار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے دے سکتی ہے؟
سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019کے انتخابات میں ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600بلین روپے خرچ کیے۔ جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270بلین روپے خرچ کیے۔ یعنی فی ووٹر 700روپے خرچ کیے گئے ہیں اور ایک پارلیامانی حلقہ میں 100کروڑ یعنی ایک بلین روپے خرچ کیے گئے۔ تقریباً200بلین روپے ووٹروں میں بانٹے گئے، 250بلین روپے پبلسٹی پر خرچ کیے گئے اور 50بلین روپے لاجسکٹکس وغیرہ پر خرچ کیے گئے۔