اگر الیکشن کمیشن واقعی اپنی نئی ایڈوائزری کے حوالے سےسنجیدہ ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس کا جواب دیا جانا چاہیے کہ اس بار اس کی تعمیل کے لیے کون سا نیا نظام بنایا گیا ہے جن سے یقین ہو کہ پچھلی بار کی طرح اس بار کوئی جانبداری نہیں کی جائے گی؟
ایودھیا میں میڈیا کے ایک حصے کی طرف سے ‘منفی’ خبروں سے انکار کرنے کا سلسلہ رام مندر کی پران —پرتشٹھاکی تقریب کے اگلے دن ہی شروع ہو گیا تھا۔ اسی وقت، جب رام للا کے درشن کے لیے جمع ہونے والے ہجوم کی دھکا مکی میں کچھ لوگ زخمی ہوگئے تھے اور ان میں سے ایک کی موت ہو گئی تھی، تو میڈیا نے اسےنشر کرنے سے گریز کیا تھا۔
ہندوستان ایک ریاست جمہوری کے طور پر اس حقیقت کو کیسے فراموش کرے گا کہ اس کے لیے وزیر اعظم نے ‘دھرم آچاریہ’ کا چولا پہن لیا تھا اور ان کے ‘سپہ سالار’ انھیں وشنو کا اوتار کہہ رہے تھے اور پران—پرتشٹھا کی تاریخ کو 15 اگست 1947 جیسا اہم بتا رہے تھے۔
گزشتہ دنوں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے سولہ کروڑ روپے کے اخراجات سےفیض آباد میں اودھ کے نواب شجاع الدولہ کےتاریخی محل ‘دلکشا’ کی تزئین و آرائش کا اعلان کیا، تو لوگ حیران رہ گئے۔ تاہم اس کے بعد ’دلکشا‘ کو ’ساکیت سدن‘ کا نام دے کر اس کی شناخت کو مٹانے میں بھی کوئی تاخیر نہیں کی گئی۔
رام مندر ٹرسٹ کے سکریٹری چمپت رائے کی اپیل سن کر بے ساختہ ‘اگیہ’ یاد آ گئے، جن کا کہنا تھا کہ ‘جو نرماتا رہے/ اتہاس میں وہ / بندر کہلائیں گے’۔اگیہ کی اس شعری صداقت سےرام مندر کے لیے جدوجہد کرنے والے کار سیوکوں اور رام سیوکوں کو کیوں روبرو کرایا جا رہا ہے؟
آج ایودھیا کے ‘بڑےبڑے’ مسائل نے کئی ‘چھوٹے’ مسائل کو اتنا چھوٹا بنا دیا ہے کہ وہ نہ صحافی کو نظر آتے ہیں اور نہ ہی سرکاری عملے کو۔ ایسے میں ایودھیا کے ان عام باشندوں کے مسائل بے توجہی کا شکار ہیں جو ‘اونچی اڑانوں’ پر نہیں جانا چاہتے یا جن کو ان اڑانوں کے منتظمین اپنے ہمراہ نہیں لے جانا چاہتے۔
اس بار دیوالی کے موقع پر جب اتر پردیش حکومت ایودھیا میں دیپ اتسو منا رہی تھی، شہر کے لوگوں میں ڈینگو کا خوف نظر آ رہا تھا۔ ضلع میں 2021 میں ڈینگو کے کل 571 اور 2022 میں مجموعی طور پر 668 مریض پائے گئے تھے، جبکہ رواں سال میں اب تک یہ تعداد آٹھ سو سے تجاوز کر چکی ہے۔
تقریباً چالیس سال قبل ایودھیا میں رہنے والے ‘گمنامی بابا’ کو سبھاش چندر بوس بتائے جانے کی کہانی ایک مقامی اخبار کی سنسنی خیز سرخی کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد نیتا جی کےلیے جذبات کی رو نے لوگوں کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں دلیل اور منطق کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
زیر تعمیر رام مندر کمپلیکس کے قریب واقع ‘مسجد بدر’ کی اراضی کے مبینہ متولی کی جانب سے اسے 30 لاکھ روپے میں شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کو فروخت کرنے کے ‘خفیہ’ معاہدے اور آدھی رقم پیشگی کے طور پرلینے پر مسلم نمائندوں نے سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سودا کرنے والے نہ ہی متولی ہیں، اور نہ ہی وقف بورڈ کی ملکیت ہونے کے باعث ان کے پاس اس کو فروخت کرنے کا اختیار ہے۔
یوم وفات پر خاص: تحریک عدم تعاون کے پس منظر میں لکھی گئی نظم میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی پکار کے بعد نذرالاسلام ‘باغی شاعر’ کہلائے۔ استعماریت، مذہبی انتہا پسندی اور فسطائیت کے خلاف ان کی شاعری سے ہی انڈو-اسلامک نشاۃ ثانیہ کا آغاز تصور کیا جاتا ہے۔
مساوات کے بغیر آزادی اور آزادی کے بغیر مساوات مکمل نہیں ہو سکتی۔ بابا صاحب امبیڈکر کا بھی یہی ماننا تھا کہ اگر ریاست سماج میں مساوات قائم نہیں کرتی ہے تو ملک کے باشندوں کی شہری، اقتصادی اور سیاسی آزادی محض دھوکہ ثابت ہوگی۔
غلامی کے دور میں غیر ملکی حکمرانوں تک نے اپنی پولیس سے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی امید کی تھی، لیکن اب آزادی کے امرت کال میں لوگوں کی چنی ہوئی حکومت اپنی پولیس کے بوتے سب کو تحفظ دینے سے قاصر ہے۔
ایودھیا کے گدڑی بازار میں واقع کھجور والی مسجد کا ایک مینار شہر میں زیر تعمیر ‘رام پتھ’ کی مجوزہ چوڑائی کے دائرے میں آ رہا ہے۔ محکمہ تعمیرات عامہ کی جانب سے مسجد کمیٹی کو مینار ہٹانے کا نوٹس دیے جانے کے بعد معاملہ ہائی کورٹ پہنچ چکا ہے۔
اندرا گاندھی اگر نریندر مودی کی طرح ایمرجنسی کے بغیرہی ویسے حالات پیدا کر کے جمہوری اور آئینی اداروں کو تنزلی کی راہ پر گامزن کر سکتیں، توبھلا وہ ایمرجنسی کا اعلان کیوں کراتیں؟
اس کثیر لسانی اورکثیر المذاہب ملک میں صلح، مفاہمت،ہم آہنگی اور امن کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے،اس اہم نکتے کو اکبر کے زمانے میں یعنی سولہویں صدی میں ہی سمجھ لیا گیا تھا، پھر اس کو آج کیوں نہیں سمجھا جا سکتا؟
پہلوانوں کی طرف سے جنسی ہراسانی کے الزام کا سامنا کر رہے بی جے پی ایم پی برج بھوشن شرن سنگھ کی حمایت میں ایودھیا کے ‘سنتوں’ کا ایک گروپ آواز بلند کر رہا ہے، اور الزام لگانے والی خواتین کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس کےساتھ ہی وہ پاکسو قانون کو ‘ناقص’ قرار دیتے ہوئے اس میں تبدیلی کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔
وفاتیہ: بزرگ صحافی شیتلا سنگھ نہیں رہے۔صحافت میں سات دہائیوں تک سرگرم رہتے ہوئے انہوں نے ملک اور بیرون ملک راست گفتارکی سی امیج اور شہرت حاصل کی اور اپنی صحافت کو اس قدرمعروضی بنائے رکھا کہ مخالفین بھی ان کے پیش کردہ حقائق پر شک و شبہ کی جرأت نہیں کرتے تھے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح کرناٹک اسمبلی انتخابات کو اپنی شخصیت سے جوڑ کر پوری مہم میں اپنے عہدے کے وقارتک سےسمجھوتہ کیا اوررائے دہندگان نے جس طرح ان کی باتوں کو نظر انداز کیا، اس سے یہ پیغام واضح ہے کہ بی جے پی کے ‘مودی نام کیولم’ والے سنہرے دن بیت گئے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘جب کورٹ کوئی فیصلہ سناتا ہے تو کورٹ پر سوال اٹھایا جاتا ہے…(کیونکہ) کچھ پارٹیوں نے مل کر بھرشٹاچاری بچاؤ ابھیان (بدعنوانی کرنے والے کو بچانے کی مہم)چھیڑا ہوا ہے۔’ تاہم یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ جمہوریت کا کوئی بھی تصور ‘عدالت پر سوالوں’ سے منع نہیں کرتا۔
آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ بھگوان کی نظر میں سب برابر ہیں اور اس کے سامنے کوئی ذات یا فرقہ نہیں ہے۔ یہ سب پنڈتوں نے بنایا ہے، جو غلط ہے۔
دھومل اتنے’سادہ مزاج‘تھے کہ اہل خانہ تک کو ان کے بڑے شاعر ہونے کا ’علم ‘تب ہوا، جب ریڈیو پر موت کی خبر آئی!
اس وقت ہماری سیاست میں اس قدر تنزلی نہیں آئی تھی کہ سیاست دان اپنے حریفوں کو دشمن کی طرح دیکھتے، دشمنوں کی طرح ان کی لعنت ملامت کی جاتی یا ان کو نیچا دکھانے کی کوشش میں اپنے آپ کو ان سےبھی نیچے گرا لیا جاتا۔
ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اروند کیجریوال کے نوٹ–راگ نے ضروری مسائل اور جواب دہی سے ہم وطنوں کی توجہ ہٹا کر فائدہ اٹھانے میں بی جے پی کی بڑی مدد کی ہے۔ اگر ماہرین صحیح ثابت ہوئے تو کیجریوال کی پارٹی کی حالت بھی ‘مایا ملی نہ رام’ والی ہو سکتی ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے آر ایس ایس لیڈروں کی زبان بدلی بدلی سی نظر آ رہی ہے، لیکن تبدیلی سنگھ کے ایجنڈے کا حصہ کبھی نہیں رہی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سنگھ نے ‘غیر سیاسی ہونے کی سیاست’ کرتے ہوئے اپنے سویم سیوکوں کو اقتدار کی چوٹی تک پہنچایا ہے اور کیسے وہ جمہوری اور آئینی اقدار کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ہیٹ اسپیچ کی بات کر کے ملک کی دکھتی نبض پر ہاتھ رکھا ہے، لیکن جہاں تک اس سلسلے میں’مرکز کے خاموش تماشائی بن کر بیٹھنے’ والے سوال کی بات ہے تویہ سوال پوچھنے والے کو بھی پتہ ہے اور ملک کی عوام کو بھی کہ اس سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے۔
یوم پیدائش پر خاص : وی پی سنگھ کہا کرتے تھے کہ سماجی تبدیلی کی جو مشعل انہوں نے جلائی ہے اور اس کے اجالے میں جو آندھی اٹھی ہے، اس کا منطقی عروج تک پہنچنا ابھی باقی ہے۔ ابھی تو سیمی فائنل ہوا ہے اور ہو سکتا ہے کہ فائنل میرے بعد ہو۔ لیکن اب کوئی بھی طاقت اس کا راستہ نہیں روک پائےگی۔
اگر سنگھ پریوار سے وابستہ حکمراں اور ان کے پیروکارسمجھتے ہیں کہ ملک کی شبیہ مدھیہ پردیش میں محمد ہونے کے شبہ میں بھنور لال کو بھاجپائیوں کے ذریعےپیٹ پیٹ کر مار دیے جانے سے نہیں، بلکہ راہل گاندھی کے لندن میں یہ کہنے سے خراب ہوتی ہے کہ بی جے پی نے ملک میں مٹی کا تیل اس طرح چھڑک دیا ہے کہ ایک چنگاری بھی ہمیں بڑی مصیبت میں مبتلا کرسکتی ہے، تو انہیں بھلا کون سمجھا سکتا ہے!
ملک میں جہاں ایک طرف نفرت کے علمبردار فرقہ واریت کی خلیج کو مزید گہرا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ان کی بھڑکانے اور اکسانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود عام لوگ فرقہ وارانہ خطوط پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں ہو رہے بلکہ ان کے منصوبوں کو سمجھ کرزندگی کی نئی سطحوں کوتلاش کرنے کی سمت میں بڑھن رہے ہیں۔
ایگزٹ پول کی شکل میں جو قیاس آرائیاں مشتہر کی جارہی ہیں ان کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی اپنے طریقہ کار کی سائنس اور معروضیت پر اتنا یقین نہیں ہے کہ اسے قیاس آرائیوں سے زیادہ کچھ سمجھا جائے۔
جب اقتدار حاصل کرنے کی بات آتی ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی بی جے پی کے اسٹار پرچارک نریندر مودی بن جاتے ہیں۔
الیکشن کےقصے: الیکشن کا موسم قریب آتے ہی بزرگ کئی ایسے پرانے قصے سناتے ہیں، جو جمہوریت کے اس تہوار پرتیر ونشتر کی طرح لگتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ایک باربھارتیندو ہریش چندر جب بستی پہنچے، توبولے–بستی کو بستی کہوں تو کاکو کہوں اجاڑ! ہرریا قصبے میں بالو شاہی کھائی تو یہ پوچھنے سےباز نہیں آئے کہ اس میں کتنا بالو ہے،وہ کتنی شاہی ہے۔
یہ ملک کے لیےانتہائی افسوسناک ہے کہ اس کےسابق نائب صدر کو بھی مذہبی آئینے میں دیکھا جانے لگاہے۔ان کے بیانات سےسبق حاصل کرنے اور آئینے میں حقیقت کا چہرہ دیکھنے کے بجائے ان سے چاپلوسی کی امید کی جارہی ہے!
جس طرح سے وزیر اعظم خود اور ان کی پارٹی سکیورٹی میں کوتاہی کو اسی لمحے سےسنسنی خیز بنا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے صاف ہے کہ وہ اس واقعہ کی سنگینی کے بارے میں کم اور ممکنہ انتخابی فائدے کے بارے میں زیادہ سنجیدہ ہیں۔
یوم شہادت پر خاص: راجندر ناتھ لاہڑی اُن انقلابیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اگست 1925 میں انگریزوں کا خزانہ لوٹا تھا۔ 1927 میں انصاف کے تمام تقاضوں کی نفی کرتے ہوئے انگریزی حکومت نے انہیں مقررہ دن سے دو روز پہلے اس لیے پھانسی دے دی تھی کہ انہیں خدشہ تھا کہ گونڈہ جیل میں بند لاہڑی کو ان کے انقلابی ساتھی چھڑا لے جائیں گے۔
ایودھیاتنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدجن کو لگتا تھا کہ اس کے نام پرفرقہ وارانہ تعصب کی بلا اب ان کےسر سے ہمیشہ کے لیے ٹل جائےگی،اور سیاسی طور پراس کا غلط استعمال بند ہو جائےگا، ملک کی سیاسی قیادت ان کی معصوم امیدوں پر پانی پھیرنے کو تیار ہے۔
کوئی نہیں کہہ سکتا کہ لیڈر کےطور پرمنیش تیواری یا سلمان خورشید کےعزائم نہیں ہیں یا اس کو پورا کرنے کے لیے وہ کتاب لکھنے اور اس کے سوا جو کرتے ہیں، اس کی نکتہ چینی نہیں کی جانی چاہیے ۔ لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس کےرہنماؤں کےطور پر انہیں اپنےخیالات کوپیش کرنے کی اتنی بھی آزادی نہیں ہے کہ وہ رائٹر کےطورپر پارٹی لائن سے ذرا سا بھی الگ جا سکیں؟
کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کےہزار ہزاربازو اور ہزار ہزار منہ ہیں۔ان ‘ہزار ہزار منہ’میں بی جے پی ایم پی ورون گاندھی کو چھوڑ دیں تو کنگنا کے معاملے پر خاموشی اختیار کرنےکو لےکرزبردست اتفاق رائے ہے۔ پھر اس نتیجہ تک کیوں نہیں پہنچا جا سکتا کہ کنگنا کا منہ بھی ان ہزاروں منہ میں ہی شامل ہے؟
اگرجناح، جو کم از کم 1937 تک ملک کی مشترکہ جدوجہد آزادی کا حصہ تھے، کی تعریف کرنا جرم ہے تو ہمارے ماضی قریب میں بی جے پی کے کئی بڑے لیڈر یہ جرم کر چکے ہیں۔
جس نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو شہریوں کےانسانی حقوق کےتحفظ کے ساتھ خلاف ورزیوں پرنظر رکھنے کے لیےبنایا گیا تھا، وہ اپنے یوم تاسیس پر بھی ان کی خلاف ورزیوں کےخلاف آواز اٹھانے والوں پر برسنے سے گریز نہ کر پائےتو اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ اب مویشیوں کے بجائے انہیں روکنے کے لیے لگائی گئی باڑ ہی کھیت کھانے لگی ہے؟
وزیر داخلہ امت شاہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں وزیر اعظم نریندر مودی پر‘تاناشاہ’ہونے کے الزامات پر صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں ان سے زیادہ جمہوریت پسند رہنماہوا ہی نہیں ہے، جس پر امریکہ کی لیجنڈ ٹینس کھلاڑی مارٹینا نورا ٹیلووا نے فقرہ کسا تھا۔