وزیر داخلہ امت شاہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں وزیر اعظم نریندر مودی پر‘تاناشاہ’ہونے کے الزامات پر صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں ان سے زیادہ جمہوریت پسند رہنماہوا ہی نہیں ہے، جس پر امریکہ کی لیجنڈ ٹینس کھلاڑی مارٹینا نورا ٹیلووا نے فقرہ کسا تھا۔
جو لوگ اپوزیشن پر سیاست کرنے کی تہمت لگارہے ہیں، وہ بھی ایک خاص طرح کی سیاست ہی کر رہے ہیں۔ جب وہ کسی بھی طرح ناپسندیدہ سوالوں کو ٹالنے کی حالت میں نہیں ہوتے تو چاہتے ہیں کہ وہ پوچھے ہی نہ جائیں!
مودی سرکار نے کسانوں سے بات چیت کے کئی دور چلائے،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ‘پارلیامنٹ سے منظور شدہ’زرعی قوانین کو قطعی واپس نہیں لیا جائےگا۔ کیونکہ اس سے پارلیامنٹ کی بالادستی مجروح ہوگی۔گویا اب تک عوامی غم وغصے کی وجہ سےیاناقابل استعمال ہو جانےپرجن قوانین کو واپس لیایا منسوخ کیا جاتا رہا ہے، وہ پارلیامنٹ کے بجائے وزیر اعظم کے دفتر میں پاس کیے گئے تھے!
پچھلی دہائیوں میں گجرات بی جے پی کامحفوظ ترین گڑھ رہا ہےاور آج کی تاریخ میں وہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی آبائی ریاست ہے۔اگر وہاں بھی بی جے پی کو ہار کا ڈر ستا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنی ناقابل تسخیر امیج کا جو متھ پچھلے سالوں میں بڑی کوشش سے گڑھا تھا، وہ ٹوٹ رہا ہے۔
کسانوں کی تحریک کےغیرسیاسی ہونے کواس کی اضافی قوت کی صورت میں دیکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ہندو مسلم بھائی چارے کی یہ مہم سیاسی نفع نقصان سے وابستہ نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ قابل اعتماد ہے اور زیادہ امیدیں جگاتی ہے۔
ایودھیا میں صدر رام ناتھ کووند کو اپنے خطاب میں نہ اودھ کی‘جو رب ہے وہی رام ہے’ کی گنگا جمنی تہذیب کی یاد آئی، نہ ہی اپنے آبائی شہر کانپور کےاس رکشےوالے کی، جسے گزشتہ دنوں بجرنگ دل کے کارکنوں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے پیٹا اور جبراً ‘جئے شری رام’ بلوا کر اپنی ‘انا’ کی تسکین کا سامان کیا تھا۔
ترنگے میں لپٹے ایک سابق وزیر اعلیٰ او رگورنر کےجسدخاکی کےنصف حصے پر اپنا جھنڈا ڈال کربی جے پی نے کلی طور پر واضح کر دیا کہ قومی علامتوں کےاحترام کےمعاملے میں وہ اب بھی‘اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت’ کی اپنی پالیسی سے پیچھا نہیں چھڑا پائی ہے۔
گزشتہ 20 جولائی کومرکز کی نریندر مودی سرکار کی جانب سے راجیہ سبھا میں کہا گیا کہ کورونا وائرس انفیکشن کی دوسری لہر کے دوران آکسیجن کی غیرمتوقع ڈیمانڈ کے باوجودکسی بھی صوبےیایونین ٹریٹری میں اس کے فقدان میں کسی کے مرنے کی اسے جانکاری نہیں ہے۔اس کے پاس اس بات کی جانکاری بھی نہیں ہے کہ دہلی کی سرحدوں پر مظاہرہ کر رہے کسانوں میں سے اب تک کتنے اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
اسمبلی انتخاب سےمحض چندہ ماہ قبل وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مجوزہ آبادی قانون کو ضروری بتاتے ہوئے کہا کہ بڑھتی آبادی صوبے کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ لیکن کیایہ رکاوٹ اچانک رونما ہوئی ہے ؟ اگر نہیں، تو اس کو لےکراس وقت مناسب ا قدامات کیوں نہیں کیے گئے، جب ان کی حکومت کے پاس اس کو آگے بڑھانے کا وقت تھا؟
ضلع پنچایت انتخاب میں ملی جیت پر پھولی نہ سما رہی بی جے پی بھول رہی ہے کہ ضلع پنچایت صدور کے بالواسطہ انتخاب میں جیت کسی بھی دوسرےبالواسطہ انتخابات کی طرح کسی پارٹی کی زمینی پکڑ یا لومقبولیت کا پیمانہ نہیں ہوتی۔ کئی بار تو متعلقہ پارٹی کو اس سے نفسیاتی برتری تک نہیں مل پاتی۔
اتر پردیش کےتین دن کےدورے کے دوران گزشتہ25 جون کو کانپور میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی اسپیشل ٹرین کے گزر نےکےلیے روکے گئے ٹریفک سے لگے جام میں پھنس کر انڈین انڈسٹریز ایسوسی ایشن کے کانپور چیپٹر کی صدروندنا مشرا کی جان چلی گئی تھی۔اسی دن صدر جمہوریہ کی سلامتی کے لیے جا رہے سی آر پی ایف کی تیز رفتار گاڑی نے ایک بائیک کو ٹکر مار دی ، جس سے ایک تین سالہ معصوم کی موت ہو گئی۔
کووڈمینجمنٹ کی تنقیدکومودی حکومت ملک کی امیج کوخراب کرنا بتا رہی ہے۔ حالانکہ ملک کی امیج تب بھی بگڑتی ہے، جب وزیر اعظم انتخابی تشہیر میں حریف خاتون وزیر اعلیٰ کو ‘دیدی او دیدی’ کہہ کر چھیڑتے ہیں۔ وہ تب بھی بگڑتی ہے، جب ان کے حامی قاتل ہجوم میں بدل جاتے ہیں یا ریپ کرنے والوں کے حق میں ترنگے لہراکر جلوس نکالتے ہیں۔
اتر پردیش کی سیاست کو لےکربی جے پی کے باربار ‘سب کچھ ٹھیک ہے’کہنے کے باوجود کچھ بھی ٹھیک نہ ہونے کے اندیشےختم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
اس مشکل وقت میں سرکاروں کی کاہلی تو اپنی جگہ پر ہے ہی، لوگوں کا آدمیت سے بالاترہوتے جانا بھی متاثرین کی پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ کر رہا ہے۔اس کی وجہ سے ایک اور بڑا سوال سنگین ہوکر سامنے آ گیا ہے کہ کیا اس مہاماری کے جاتے جاتے ہم انسان بھی رہ جا ئیں گے؟
نریندر مودی کواقتدارسنبھالے ساڑھے چھ سال ہو چکے ہیں اور اس دوران وہ لگ بھگ اتنی ہی بار رو چکے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی سیاست ہی طے کرتی ہے کہ ان کے آنسوؤں کو کب بہنا ہے اور کب سوکھ جانا ہے۔
کئی سال پہلےپاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض نے لکھا تھا کہ ‘تم بالکل ہم جیسے نکلے،اب تک کہاں چھپے تھے بھائی۔ وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن ، جس میں ہم نے صدی گنوائی، آخر پہنچی دوار تمہارے…ملک کے آج کے حالات میں یہ مصرعے سچ کے کافی قریب نظر آتے ہیں۔
گزشتہ پانچ اگست کوایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ہوئے بھومی پوجن اورشہر کی ترقی کے دعووں کے بیچ ایودھیاکے لوگ صرف ویسا نہیں سوچ رہے ہیں جیسا اکثرذرائع ابلاغ کی جانب سے بتایا جا رہا ہے۔
کاس گنج میں جن اقلیتوں نے ترنگا پھہرانے کے لئے سڑک پر کرسیاں بچھا رکھی تھیں، وہ اچانک وندے ماترم کی مخالفت اور پاکستان کی حمایت کیوں کرنے لگیںگے؟
19 دسمبر1927 کو مجاہدآزادی اشفاق اللہ خاں کو فیض آباد جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ایودھیا میں ان کی شہادت کے موقع پر ہرسال منعقد ہونے والی تمام تقاریب پر شہریت ترمیم قانون کو لےکر مظاہرہ کے خدشہ کی وجہ سے روک لگا دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے بھی متنازعہ زمین رام للا کو دیتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ اس کافیصلہ نہ صرف 6 دسمبر، 1992 کی توڑپھوڑبلکہ 22-23 دسمبر، 1949 کی رات مسجدمیں مورتیاں رکھنے والوں کی بھی جیت ہوگی۔ ایسے میں عدالت کا ان دونوں کارناموں کوغیر-قانونی ماننے کا کیا حاصل ہے؟
ایودھیا میں بی جے پی کے منتخب رکن پارلیامان، ایم ایل اے اور اہلکاروں نےسنیچر کو فیصلے کے دن دیپ جلائے اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔ سوموار کو پارٹی ضلع صدردفتر پر رامائن کاپاٹھ کیا گیا ، جہاں رہنما اور کارکنان نے ایک دوسرے کو مبارکبادی۔وہیں منگل کو 1992 کی کارسیوا کے دوران پولیس فائرنگ میں مارے گئے رضاکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
بک ریویو: اپنی نئی کتاب-مودی نامہ ،میں مصنف سبھاش گاتاڈے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے طور پر نریندر مودی کے پچھلے پانچ سالوں کا سفر آنے والے پانچ سالوں کے لئے وارننگ ہے۔
جب تک گلوبلائزیشن کی اقتصادی پالیسیوں میں کوئی فیصلہ کن تبدیلی نہیں ہوتی، ہندوستان وشوشکتی بن جائے توبھی، حکومت کا سارا بوجھ ڈھونے والے نچلے طبقے کی یہ تقدیر بنی ہی رہنے والی ہے کہ وہ تلچھٹ میں رہکر عالمی سرمایہ داری کے رساؤ سے گزر بسر کرے۔
غنیمت ہے کہ اپنی خود ستائی اور خودنمائی میں مہارت کو رائےدہندگان کو پھانسنے کے جال کی طرح استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایئراسٹرائک پر جا رہے پائلٹوں کو رام کا نام لینے، کوئی منتر بدبدانے یا ہنومان چالیسہ پڑھنے کا مشورہ نہیں دیا۔
الیکشن کے قصے: چودھری چرن سنگھ نے ایک انتخابی جلسہ میں رائےدہندگان سے کہا تھا کہ اگر ان کی پارٹی کے امیدوار کا کردار خراب ہو یا وہ شراب پیتا ہو، تو وہ اس کو ہرانے میں نہ جھجکیں۔
الیکشن کے قصے: ایس پی –بی ایس پی کے پہلے اتحاد کے وقت اتر پردیش اسمبلی کی وسط مدتی انتخاب میں جنتا دل نے اپنی تشہیر کی ذمہ داری لالو پرساد یادو کے کندھوں پر ڈالی تھی۔
الیکشن کے قصے: ملک کی سیاست میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب سادگی ہمارے رہنماؤں کے درمیان ایک روایت کی طرح ہوا کرتی تھی۔
میں بھی چوکیدار-اورچوکیدار ہی چور ہے-کے شور میں کئی دوسرے مدعے حاشیے پر چلے گئے ہیں۔
کانگریس کا انتخابی منشور کم از کم یوں بامعنی ہے کہ فوری طور پر ہی سہی، ملک کے سیاسی ڈسکورس میں تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں۔
ایودھیا کے تاریخی ہنمان گڑھی نے آزادی سے پہلے سے ہی اپنے سسٹم میں جمہوریت اور انتخاب کا ایسا انوکھا اور ملک کا غالباً پہلا تجربہ کر رکھا ہے، جس کا ذکر تک کرنا فرقہ وارانہ نفرت کی سیاست کرنے والوں کو راس نہیں آتا۔
وشو ہندو پریشد کو اپنی رام مندر تحریک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ اس کی مہم سے بی جے پی کو سیاسی فائدے کے بجائے نقصان ہو سکتا ہے۔ اس کو لےکر کسی بھی طرح کی شدت پسندی مودی حکومت کے خلاف جائےگی، اس لئے اس نے مدافعتی رویہ اختیار کرتے ہوئے کچھوے کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں سمیٹ لئے ہیں۔
ملک میں سماج کی نچلی سطح تک ڈر اور عدم اعتماد کا ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ مزاحمت کی ساری آوازیں گھٹکر رہ گئیں اور اب اوپری سطح پر کوئی عامر خان اپنا ڈر یا نصیرالدین شاہ غصہ جتانے لگتے ہیں ، تو ان کا منھ نوچنے کی سرپھری کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں۔
ہندوؤں کے 6 دعویداروں میں سے دو ایودھیا واقع متنازعہ مقام پر وراجمان رام للا کے خلاف ہی عدالت گئے ہیں۔ ایودھیا کی رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ کو آپ اب تک ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کا تنازعہ ہی مانتے رہے ہیں تو اب اس نظریے کی […]
مذہبی سیاحت بڑھانے کے نام پر روشنی کے تیوہاردیوالی سمیت کئی سرکاری پروگراموں میں جذبات کا استعمال کرنے کے لئے بھاری بھرکم منصوبوں کے بڑے-بڑے اعلانات کے ذریعے مسلسل ایسی تشہیر کی جا رہی ہیں جیسے ایودھیا میں جنت اتارکر ہر کسی کے لئے لال غالیچہ بچھا دئے گئے ہیں، لیکن زمینی سچائی اس کے بالکل برعکس ہے۔
دین الہٰی کے بانی اکبر نے ملک میں کسی نالے تک کا نام بدلنے کی کوشش نہیں کی، تو اس کو پریاگ سے کیونکر چڑھ ہو سکتی تھی؟
ماہر ماحولیات پروفیسر جی ڈی اگروال نے 100 سے زیادہ دنوں تک اپنی بھوک ہڑتال جاری رکھی تو صرف اس لئے کیونکہ حکومتوں کی غیر سنجیدگی کے باوجود ان کے دل و دماغ میں جمہوریت کو لےکر کوئی نہ کوئی امید ضرور باقی رہی ہوگی۔ ان کے جانے کا غم اس معنی میں کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے کہ یہ بھوک ہڑتال کے رہنما مہاتما گاندھی کی پیدائش کے ایک 150 سال میں ہوا ہے۔
اب کئی لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خیر منائیے کہ مذکورہ بچی کے ساتھ ریپ کرنے والا مسلمان نہیں نکلا ورنہ کون جانے، 2002 کا اعادہ ہو جاتا۔
پانچ ریاستوں میں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم کےاسمبلی انتخابات کے اعلان کے لئے بلائے گئے پریس کانفرنس کو لےکراپوزیشن پارٹی کانگریس کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات سنگین ہیں۔
اب تک ہماری جمہوریت کی تاریخ یہی رہی ہے کہ جس نے بھی اقتدار کے تکبر میں خود کو رائےووٹر سے بڑا سمجھنے کی حماقت کی،ووٹراس کو اقتدار سے بے دخل کرکے ہی مانے۔صاف ہے کہ ووٹ کی ایسی سیاست سے ووٹر کو نہیں، ان کو ہی ڈر لگتا ہے جو ڈرانے کی سیاست کرتے ہیں
ملک میں ارب پتیوں کی تیزی سے بڑھتی تعداد کے درمیان آپ روتے رہیے کہ سیاست کا زوال ہو گیا ہے اور اب وہ سماجی خدمت یا ملک کی خدمت کا ذریعہ نہیں رہی،ان اکثریت والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہوں نے اس حالت کو سماجی و ثقافتی پہچان بھی دلا دی ہے۔