ادبستان

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

قبروں پر اُگی گھاس اور انسانی زندگی

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ ایک بات سمجھنے کی ہے کہ معاشرے میں مسائل کی اصل جڑ ثقافتی رنگارنگی کو تسلیم نہ کرنا ہے ۔ دنیا کے یک رنگ ہونے سے یہ رہنے کے قابل کہاں رہے گی، اس کا حسن ہی اس تنوع میں ہے ۔

اشونی ایر تیواری، گنیت مونگا، کارتیکی گونسالویس، امی پٹیل، شانو شرما، پونم دھامانیہ اورنیہا ویاس، فوٹو: سوشل میڈیا

  بالی وڈ کی آف اسکرین خواتین

فلمی تاریخ دان نریش تنیجا کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ تربیت یافتہ خواتین بالی ووڈ کے ایسے شعبوں میں کارنامے دکھا رہی ہیں، جو ابھی تک صرف مردوں کے ہی کنٹرول میں ہوتے تھے۔ ان میں کیمروں کو سنبھالنا، ایڈیٹنگ جیسا مشکل اور صبر آزما کام اور حتیٰ کہ لائٹنگ میں بھی خواتین نے قدم جمائے ہیں۔

تصویر بہ شکریہ: بک کارنر جہلم/فیس بک

یوں مری قبر بنا

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ جن چیزوں سے منع کیا جاتا ہے وہی کرنے کو جی کیوں چاہتا ہے ؟ شایداس لیے کہ یہی اِنسانی فطرت ہے ۔ یہ مناعی اور روک ٹوک ہی انسانی تجسس اور ترغیب کی بنیاد ہے۔ یہی سبب رہا ہو گا کہ ہمارے ایمان کی بنیاد ی اینٹ’لا’ ہے۔ اقرار اور تصدیق کی منزل بعد میں کہیں آتی ہے؛نفی پہلے اثبات بعد میں۔ یہیں سے تجسس اور تشویق کو تحریک ملتی ہے۔

ضیا محی الدین، فوٹو فیس بک/ Zia Mohyeddin

ضیا محی الدین: جدید اردو نثر خوانی کے بانی و خاتم

نثری ادب کو باقاعدہ خطابت کی شکل دینا ضیا صاحب کا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے اپنے مغربی اسٹیج اور فلم کی اداکاری کےتجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو تحاریر کے جسم میں گویا روح پھونک دی۔ کردار کاغذ سے اٹھ کر حاضرین سےہم کلام ہوگئے اور سامعین چشمِ تصور سے ان کرداروں کی جزئیات میں کھو گئے۔

FotoJet (2)

نام محض وجود کا خول نہیں ہے

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ میں نہیں جانتا تھا کہ جس چھوٹے بھائی کا نام میں نے اپنے نام کا حصہ بنایا تھا ، ایسے وقت نے آنا تھا کہ وہ نہیں رہے گا۔مجھے اس کے بدن کے لوتھڑے اپنی آنکھوں سے دیکھنے تھے ۔ اس کا جنازہ پڑھنا تھا مگر اس کی تدفین میں شرکت سے معذور رہنا تھا ۔مجھے نہیں معلوم اس کی قبر کہاں ہے مگر یوں لگتا ہے وہ میرے وجود کے اندر ہی کہیں ہے۔ میں جب جب اسے یاد کرتا ہوں بے اختیار میرے آنسو بہہ نکلتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ مجھے اپنے نام کے اس حصے سے بھی محبت ہو گئی ہے۔

خوشبو کی دیوار کے پیچھے

سبت کا دِن

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے ایک باب؛ تویوں ہے کہ میں صاحبِ سبت ہوں مگر ایک آزمائش میں ہوں اور آزمائش یہ ہے کہ یوم سبت کو رنگ رنگ کی فربہ مچھلیاں اُچھلتے سامنے دیکھوں مگراُن کو کسی اور روز پکڑنے کے لیے نالیوں کے پھندے نہ لگاؤں۔

خوشبو کی دیوار کے پیچھے

محمد حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘ کا ابتدائیہ

خود نوشت: میں شاید ژاں پال سارتر کی طرح موت کو عظمت کا کفن نہ دے سکوں مگر میں اُس کی طرح یہ جان گیا ہوں کہ میرے پاس کچھ زیادہ برس باقی نہیں ہیں۔ بڑھاپا میرے وجود کے اندر نقب لگا کر داخل ہو چکا اور الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود میں موت سے خوف زدہ نہیں ہوں۔ جب وہ مجھے لینے آئے گی تو یہ ایک فطری عمل ہو گا جس کے سامنے مجھے سرِتسلیم خم کرنا ہو گا۔

GhalibTomb_DawnNews

غالب اور غم روزگار: غم عشق اگر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا

’غالب کی شاعری میں زندگی کے بہت سارے رنگ ہیں جن میں ایک رنگ وہ بھی ہے جنہیں عام طور پر ناقدین نظر انداز کرتے رہے ہیں اور وہ ہے عوامی دردوکرب کا رنگ جسے غالب نے اپنی شخصی زندگی کے تجربوں کے حوالے سے شاعری میں ڈھالا ہے۔‘

FotoJet (5)

غالب پر منٹو کی ایک خاص تحریر : قرض کی پیتے تھے…

’’حضرت، روپے کی ادائیگی، شاعری نہیں آپ تکلّف کو برطرف رکھیے۔ میں آپ کا مداح ہوں مجھے آج موقع دیجیے کہ آپ کی کوئی خدمت کرسکوں۔‘‘ غالبؔ بہت خفیف ہوئے؛’’لاحول ولا…آپ میرے بزرگ ہیں…مجھے کوئی سزا دے دیجیے کہ آپ صدرالصدور ہیں۔‘‘

خواجہ احمد عباس اور کرشن چندر

کرشن چندر کی کہانی خواجہ احمد عباس کی زبانی

یوم پیدائش پر خاص: وقت پڑنے پر کانگریسیوں کا ساتھ بھی دیا ہے، سوشلسٹوں کا بھی، کمیونسٹوں کا بھی۔ وہ ہر ترقی پسند اور انقلابی پارٹی کے ساتھ ہے۔ مگر کسی پارٹی میں نہیں ہے۔ وہ دھرم، مذہب، ذات پات کے بندھنوں سے آزاد ہے۔ سامراج اور فرقہ پرستی کا دشمن ہے، عوام اور اشتراکیت کا ساتھی ہے۔ وہ یہ سب کچھ ہے۔ اسی لیے میرا دوست ہے۔ ایسا دوست جسے سچ مچ ہم دم کہا جا سکتا ہے۔ ورنہ ’دوست‘ تو بازار میں ٹکے سیر ملتے ہیں۔

Allahabadi-1200x600

اکبر الہ آبادی کے ذہنی فکری تضادات اور لسانی اجتہادات

کلام اکبر سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اکبرمغربی تعلیم وتہذیب سے زیادہ مغربی مادیت اور صارفیت کے خلاف تھے۔ وہ ایک مہذب مشرقی معاشرہ کو مشینی اور میکانیکی معاشرہ میں بدلتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ مادی اشیاء سے زیادہ انہیں روحانی اقدار عزیز تھی۔ وہ قوم کو مغلوبیت اور مرعوبیت کے احساس سے باہر نکالنا چاہتے تھے ۔

سپر اسٹار کرشنا۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

تیلگو سنیما کے سرکردہ ایکٹر اور سپر اسٹار کرشنا نہیں رہے

سپر اسٹار کرشنا نے پانچ دہائیوں پر محیط اپنے کیریئر میں 350 سے زیادہ فلموں میں کام کیاتھا۔ 1974 میں انہوں نے تیلگو زبان کی پہلی سنیما اسکوپ فلم ‘الوری سیتارام راجو’ میں مرکزی رول ادا کیا تھا۔ انہوں نے تیلگو میں پہلی 70 ایم ایم فلم ‘سمہاسنم’ بھی پروڈیوس اور ڈائریکٹ کی تھی۔ انہیں 2009 میں پدم بھوشن سے سرفراز کیا گیا تھا۔

مینیجر پانڈے، فوٹو: بھرت تیواری/فیس بک

مینیجر پانڈے: شعلہ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

پانڈے جی کو اس دیش کے ایک وچارک کے روپ میں دیکھاجاتاتھا۔انہیں سننے کے لیے جتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے تھے وہ بھی ایک واقعہ ہے۔ان کی تنقید میں جو شفافیت ہے وہی ا ن کی شخصیت کابھی حصہ ہے۔ وہ ہزاری پرساد دویدی اور نامور سنگھ کے بعد تیسرے ایسے نقاد ہیں جنہوں نے ہندی تنقید کو نظریاتی طورپر مستحکم کرنے میں اہم کردار اداکیا۔اور ہمیشہ تنقید کی بھاشا کاخیال رکھا۔

امتیابھ بچن، فوٹو : رائٹرس

خواجہ احمد عباس کی ایک یادگار تحریر: الف سے امیتابھ

امتیابھ بچن کی 80 ویں سالگرہ پر خواجہ احمد عباس کی ایک یادگار تحریر: امتیابھ کو بہاری مسلمان شاعر کی حیثیت سے اُردو اشعارترنم کے انداز میں ادا کرنے پڑے(بالکل میرے مرحوم دوست مجازؔ لکھنوی کے انداز میں) دو دن کے بعد میں نے دیکھا کہ امیتابھ کو ایک بات ایک بار بتادی وہ امیت کے لیے پتھر کی لکیر بن گئی ۔ وہ ہمارے ‘اسکول’ کا بہترین طالب علم تھا۔

رضوان اللہ، فوٹو:دی وائر

کلکتہ کا کولاژ بنانے والے رضوان اللہ ہمارے درمیان نہیں رہے…

رضوان اللہ کے اوراق مصور میں کلکتہ بھی ہے اور دلی بھی— اس سے ہمیں کلکتہ کے کل، آج اور کل کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں اور دلی کے دل کا حال معلوم ہوتا ہے۔’اوراق مصور‘ کلکتہ کا کولاژ ہے اور اس میں شبدوں سے جو چترکاری کی گئی ہے، وہ تصویریں انتہائی حسین ہیں … اس میں فکر، معانی اور لفظیات کا حسن سمٹ آیا ہے۔

اُردو ہندی اور منٹو

سعادت حسن منٹو: ہندی اور اُردو

ہندی اور اُردو کا جھگڑا ایک زمانے سے جاری ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب، ڈاکٹر تارا چند جی اور مہاتما گاندھی اس جھگڑے کو سمجھتے ہیں لیکن میری سمجھ سے یہ ابھی تک بالاتر ہے۔ کوشش کے باوجود اس کا مطلب میرے ذہن میں نہیں آیا۔ ہندی کے حق میں ہندو کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مسلمان اُردو کے تحفظ کے لئے کیوں بے قرار ہیں؟— زبان بنائی نہیں جاتی، خود بنتی ہے اور نہ انسانی کوششیں کسی زبان کو فنا کر سکتی ہیں۔ میں نے اس تازہ اور گرما گرم موضوع پر کچھ لکھنا چاہا تو ذیل کا مکالمہ تیار ہو گیا۔

بی بی کا کمرہ

بی بی کا کمرہ: مین اسٹریم بیانیہ میں حاشیے پر پڑی عورت اور اُردو کا تہذیبی قصہ

بک ریویو: یہ کتاب،اس تہذیب میں سانس لیتی عورت کی زندگی،اس کے تجربات و محسوسات اور لسانی رنگ وآہنگ سب کو پیش کرتی ہے۔گویا حیدرآباد کی تاریخ، سیاست، تہذیب و ثقافت، سماجی صورتحال،لسانی اثرات، بالخصوص عورتوں کی زندگی یہاں متوجہ کرتی ہے۔

خالد جاوید اور ان کے ناول کا سرورق

نعمت خانہ: سماجی مسائل کے بطن میں انسانی زندگی کے فلسفے کی تلاش …

موضوع کے لحاظ سے یہ ناول جوائنٹ فیملی سے نیوکلیر فیملی تک کے اذیت ناک سفر کی داستان ہے۔پورا ناول پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں بظاہر بے ترتیب لیکن نہایت بامعنی اورموضوع سے متعلق مناظر رقص کرنے لگتے ہیں۔ قاری تسلیم کرلیتا ہے کہ ہر برائی میں ایک اچھائی پوشیدہ ہوتی ہے اور یہ کہ اذیتوں کے بطن سے ہی نعمتیں جنم لیتی ہیں۔

Firaq-Gorakhpuri-The-Wire-Hindi-21

آدمی بنا ہی اِس لیے ہے کہ پیار کرے: فراق گورکھپوری

آج اُردوکے مایہ ناز شاعر فراق گورکھپوری کی سالگرہ ہے۔ دی وائر اُردو کے قارئین کے لیے ایکسپریس نیوز کے شکریے کے ساتھ فراق صاحب کا انٹرویو پیش کیا جارہا ہے ۔یہ انٹرویوان کے انتقال سے چند روز قبل ان کی رہائش گاہ پر کیا گیا تھا۔

عصمت چغتائی، فوٹو بہ شکریہ: وکیپیڈیا

عصمت چغتائی عورتوں کی اندھیری دنیا سے زیادہ مردوں کی چالاک دنیا کو اجاگر کرتی ہیں…

عصمت نے نہ صرف زبان پر پدری اجارہ داری کو توڑا بلکہ اپنی مخصوص زبان اور لفظیات سے ایک ایسی دنیا تشکیل دی جہاں عورت،انسان بھی ہے اور آزادی سے سانس بھی لیتی ہے، زنجیروں کو توڑتی بھی ہے؛ دکھ تکلیف میں آنسو بھی بہاتی ہے، کہیں معصوم،نرم و نازک سی تو کہیں فولادی۔عورت کی یہ دنیا کالی سفید جیسی بھی ہے کم از کم عورت کی دنیا تو ہے۔

بھوپندر سنگھ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

ممبئی: معروف گلوکار بھوپندر سنگھ نہیں رہے

غزل گلوکار بھوپندر سنگھ کا ممبئی کے ایک اسپتال میں مشتبہ طور پرپیٹ کے کینسر اورکووڈ سے متعلق پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ پانچ دہائیوں پر محیط اپنے کیریئر میں انہوں نے ‘دل ڈھونڈتا ہے’، ‘نام گم جائے گا’، ‘تھوڑی سی زمین تھوڑا آسمان’، دو دیوانے شہر میں، کسی نظر کو تیرا انتظار، کسی کو مکمل جہاں، جیسے کئی مشہور نغموں اور کلام کو اپنی آواز دی۔

اکشے کمار فلم سمراٹ پرتھوی راج میں۔ (بہ شکریہ: یوٹیوب/یش راج فلم)

’سمراٹ پرتھوی راج‘ ہندوتوا کے ایجنڈہ میں وہاں تک پہنچی ہے، جہاں اب تک کوئی فلم نہیں گئی تھی

ہندی فلمیں اپنی کامیابی کے لیے آبادی کے ہر حصے اور ہر مذہب کے ناظرین پر منحصر کرتی ہیں۔ لیکن اس بار یہاں ہمارے سامنےایک ایسی فلم آئی ہے، جس کو صرف (کٹر/شدت پسند) ہندو ناظرین ہی درکار ہیں۔

گیتانجلی شری ڈیزی راک ویل کے ہمراہ (فوٹو بہ شکریہ: Twitter/@TheBookerPrizes)

گیتانجلی شری کے ناول ’ریت سمادھی‘ کے انگریزی ترجمے کو انٹرنیشنل بکر پرائز سے نوازا گیا

گیتانجلی شری کے ہندی ناول ‘ریت سمادھی’ کے انگریزی ترجمہ ‘ٹومب آف سینڈ’ کو یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ ڈیزی راک ویل نے کیا ہے۔کسی بھی ہندوستانی زبان میں بکر حاصل کرنے والا یہ پہلا ناول ہے۔