ویڈیو:’میرے گیتوں میں سماج کی اپنی بغاوت ہے‘
ویڈیو: ایک درجن سے زائد ہندی فلموں میں گیت لکھ چکے نغمہ نگار اور شاعر ڈاکٹر ساگر سے ان کے فلمی سفر اور نغمہ نگاری کے موضوع پر فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
ویڈیو: ایک درجن سے زائد ہندی فلموں میں گیت لکھ چکے نغمہ نگار اور شاعر ڈاکٹر ساگر سے ان کے فلمی سفر اور نغمہ نگاری کے موضوع پر فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
یہ خیام کا فن تھا کہ انہوں نے قدامت کو یوں جدت دی کہ گویا لافانی کر دیا۔ اگر خیام نے صرف ایک دھن بنائی ہوتی تو وہ تب بھی اسی مرتبے پر فائز ہوتے جس پہ کہ ہوئے۔ اور وہ دھن تھی میر تقی میر کی غزل کی جوانہوں نے ساگر سرحدی کی فلم بازار کے لیے بنائی۔
تقسیم کے بعد پاکستانی فلم انڈسٹری کو بنانے میں نہ صرف محدود وسائل کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ ہندوستان سے آنے والی تکنیکی طور پر بہترین ہندی فلموں کو محدود کرنے کے لئے طاقتور ڈسٹری بیوٹر لابی سے بھی لڑائی لڑنی پڑی۔
اُردوفلم حامد کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ جموں و کشمیر میں مواصلاتی نظام کے بند ہونے کی وجہ سے فلم کے مرکزی کردار طلحہ ارشد ریشی سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے ۔ ریشی کو حامد فلم کے لیے بیسٹ چائلڈ ایکٹر کا نیشنل فلم ایوارڈ دیا گیا ہے۔
66ویں نیشنل فلم ایوارڈزمیں تیلگو فلم مہانتی میں گزرے زمانے کی سپراسٹار ساوتری کا کردار نبھانے والی کیرتی سریش نے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ جیتا۔
بوڑھی عورت کو جب یہ بتایا گیا کہ اس کے پوتے سلیم کی’لنچنگ‘ ہو گئی ہے تو اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اسے اندازہ تھا کہ انگریزی کے لفظ اچھے ہوتے ہیں اور اس کے پوتے کے بارے میں بھی یہ کوئی اچھی خبر ہے۔
ویڈیو: اردو میں عورتوں نے الگ الگ وقتوں میں پدری ثقافت اور سماجی روایتوں کے بیچ اپنی خود نوشت میں کیا لکھا، کن چیزوں پر سوال کیا اور وہ اپنی نظر سے کیسے دیکھتی ہے،بتا رہی ہیں یاسمین رشیدی۔
کائنات میں عورت کا وجود ان رشتوں اور تعریفوں سے متشکل اور مرتب نہیں ہوتا ہے جو ایک مرد اساس معاشرہ نے متعین کی ہیں بلکہ عورت بھی انسانی وجود کے ممکنہ تخلیقی امکانات سے بہرہ ور ہیں۔
اس مجموعے میں شامل تراجم شاعر کی تخلیقی دبازت اور فنی ہنر مندی کا اس طرح نقش پیش کرتے ہیں کہ ہر نظم ایک جیتے جاگتے تجربے کی طرح حواس پر وارد ہوتی ہے جس کے لیے سکریتا پال اور ریکھا سیٹھی داد و تحسین کی مستحق ہیں۔ […]
رہنماؤں کی شان میں قصیدے پڑھنے کے اس دور میں آمنے سامنے بیٹھکر آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر سخت اور مشکل سوالوں کے لئے معروف کرن تھاپر کی کتاب ‘میری ان سنی کہانی’ کو پڑھنا باعث تسکین ہے، کیونکہ عدم اتفاق اور سوال پوچھنا ہی جمہوریت کی طاقت ہے۔
گریش کرناڈ ہمارے بیچ سے اتنے ہی سکون اور ایمانداری کے ساتھ وداع ہو گئے، جس طرح سے انہوں نے اپنی زندگی بسرکی۔
مراؤ جان کے دلچسپ اور خیال انگیز نثری متن کو شعری اظہار کا محور بنانا اور اس کی تخلیقی دبازت کو ایک نئے حسی تناطر میں منقلب کرنا بہت دشوار گزار عمل ہے مگر مقام مسرت ہے کہ ایک ایسے عہد میں جب نئی نسل میں اپنے کلاسیکی سرمایہ، قدیم اصناف اور زبان و بیان کے مختلف پیرایوں بشمول بحور سے شناسائی مفقود ہوتی جا رہی ہے، نوجوان ناقد رشید اشرف نے مرزا رسوا کی بے مثال نثری کاوش کو عہد ماضی کی مقبول صنف ‘مثنوی’ کا پیرایہ عطا کیا ہے۔
طویل عرصے سے بیمار چل رہے 81 سالہ گریش کرناڈ کے بینگلورو میں سوموار کی صبح انتقال ہو گیا۔
فسادات نہ ہوئے ہوتے تو مودی اس ملک کے وزیر اعظم نہیں بن سکتے تھے۔ آخر فسادات کے دوران کچھ لوگوں نے ایک فرقے کے تئیں شدید بلکہ شدید ترین ’نفرت‘ کا اظہار کیوں کیا؟ اور کیا ’نفرت‘ میں اچانک ہی شدت آئی تھی یا بتدریج اور کیا اس میں کبھی کوئی کمی بھی آسکتی ہے؟ ریواتی لعل نے تین بنیادی کرداروں پر ساری توجہ مرکوز کرکے مذکورہ سوالوں کے جواب دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
صدی تقریبات کے موقع پر کیفی اعظمی کی نظموں کا یہ خیال انگیز انتخاب اور معنیاتی پر کاری سے مملو تراجم کی اشاعت ایک اہم ادبی وقوعہ ہے۔
مودی ایک ایسے قائد کے طو رپر سامنے لائے گئے جو پاکستان کو سبق دے سکتا تھا اور اعلیٰ ذات کی خواہشات کی تکمیل بھی کرسکتا تھا۔ قوم پرستی کے جذبے کو اس حد تک پروان چڑھایاگیاکہ’نوٹ بندی’ اور’جی ایس ٹی’ کے بداثرات نظر انداز کرکے لوگوں کے ووٹ بی جے پی کو گئے۔
اخبارات کے کالم نگاروں کا موازنہ آپ نیوز چینلوں کے اینکرز سے کر سکتے ہیں کہ چینلوں کی تعداد جس رفتار سے بڑھی ہے، اچھے اینکرز کی اہمیت و مقبولیت بڑھتی گئی ہے لیکن جس طرح چینلوں پربہت سے بھانڈ اورمسخرے میڈیا کی رسوائی کا سامان کرتے ہیں، ہمارے درمیان بھی قلم کی روشنائی سے اپنی روسیاہی کاسامان کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔
یہ فلم ہمارے لیے باعث تشویش کیوں ہے؟ دراصل فلم کیسری اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتی ہے، ایک تاریخی واقعے کے گرد جھوٹی کہانی بنتی ہے جس میں مسلمان دشمن اور ولن ہے اور اسلام کٹہرے میں کھڑا ہے ۔
افتخار عالم خاں کی کتاب –سرسید کی لبرل ،سیکولراور سائنسی طرز فکر’سرسید شناسی کے بالکل نئے امکانات کو سامنے لاتی ہے اور عہد حاضر میں سرسید کی معنویت کے نئے ابواب رقم کرتی ہے۔
اس کتاب میں ان شعرا، ادبا اور صحافیوں کے کارناموں کو موضوع ِبحث بنایا گیا ہے جن کی تحریریں قارئین کو براہ راست متاثر کرتی تھیں اور ان کے فن پر ابہام کے پردے حائل نہیں تھے۔
حکیم ظل الرحمن کی کتاب راس مسعود فہمی کا ایک نیا علمی محاورہ قائم کر تی ہے جس لیے وہ پذیرائی کے مستحق ہیں۔
اردو تھیٹر کی زبوں حالی کے پیشِ نظر انجمن ترقی اردو (ہند)نئی دہلی، نے اپنے مرکزی دفتر اردو گھر میں ایک روزہ ورک شاپ کے سا تھ اپنی ریپیٹری کا آغاز کیا ہے۔جہاں باقاعدہ مشقِ سخن کا آغاز یکم مئی سے شام 5 بجے سے 7 بجے تک ہوا کرے گا۔
۔ یہ تراجم محض عبارت کی روانی یا ترجمہ پر اصل کے گمان جیسی مقبول خوش گمانیوں کی بھی تکذیب کرتے ہیں اور ایک نیا علمی محاورہ قائم کرتے ہیں جس کے لیے پروفیسر عبد الرحیم قدوائی داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
ویڈیو: معروف ایکٹر، قلمکار اور ڈراما نگار مانو کول اور –البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتاہے فلم کے ڈائریکٹر سومتر راناڈے سے پرشانت ورما کی بات چیت۔
کتاب کے آخر میں پروفیسر اخلاق احمد نے عمرخیام کی رباعیات کا انتخاب مع اردو تراجم کے شامل کیا ہے۔ تراجم منظوم نہیں ہیں تاہم سلاست زبان اور محاورے کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے۔
ویڈیو: معروف گلوکارہ اندرا نائیک سے ان کی غزل گائیکی ، اردو اور ہندوستانی فلموں میں شاعری کے زوال کے موضوع پر فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت ۔
سہیل کاکوروی کی تخلیقی تازہ کاری کا احساس ان اشعار کے انگریزی تراجم سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اردو محاوروں کو انگریزی میں منتقل کرنا بہت مشکل ہے کہ محاوروں کی جڑیں مقامی اور مذہبی اقدار میں پیوست ہوتی ہیں۔اسی طرح ہندی میں محض رسم الخط نہیں بدلا گیا ہے بلکہ مشکل اردو الفاظ کی فرہنگ بھی درج کی گئی ہے۔
اردو چینل معاصر ادبی رسائل سے اس بنا پر ممیز اور ممتاز کیا جاسکتا ہے کہ اس کے ہر شمارے میں ان ملکوں کے ادبی منظر نامے کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے جن سے واقفیت عام نہیں ہے۔
معروف صوفی کتھک ڈانسر منجری چترویدی سے آرٹ ادب اور موسیقی کے میدان میں طوائفوں کی خدمات اور ان کے The Courtesan Projectکے بارے میں فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت ۔
ہمانشو باجپئی کی یہ کتاب لکھنوی تہذیب کے عوامی کردار اور اس تہذیب کی آبیاری کرنے والے متعدد بے نام فنکاروں اور عوام کی روداد فنکارانہ شعور کے ساتھ بیان کرتی ہے۔
ہندی کے معروف ادیب اور فکشن نویس عبدل بسم اللہ سے ان کے تازہ ترین ناول – کٹھاؤں کے تناظر میں ہندوستانی مسلمانوں میں ذات پات کے موضوع پر فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
یہ کتاب محض بیگم اخترکے سوانحی کوائف اور فنِ موسیقی پر ان کی ماہرانہ دسترس کے سپاٹ یا عالمانہ بیان تک خود کومحدود نہیں رکھتی بلکہ مرتب کے مطابق یہ ان کی گلوکاری، ان کے کردار اور ان کی زندگی سے متعلق بعض گم شدہ کڑیوں کو ایک مربوط اور کثیر حسی بیانیہ کے طور پر پیش کرتی ہے۔
مراٹھی زبان میں مسلمانوں کی تاریخ کو پیش کرنے کی ضرورت و اہمیت پر مصنف اور مترجم سرفراز احمد کے ساتھ مہتاب عالم کی بات چیت ۔
ریسرچ اسکالر اور مصنف امریندر ناتھ ترپاٹھی سے اودھی اور دوسری علاقائی زبانوں کے سروکار، مسائل اورمستقبل کے بارے میں فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت ۔
آصف اعظمی کی مرتبہ کتاب پر، نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ مجروح کی ادبی اورفلمی شاعری نے کس طرح اردو شاعری کو ثروت مند بنانے میں اساسی رول ادا کیا۔
یہ کتاب محض پسند کی شادی کے رومان کی سنسنی خیز اور دلچسپ حکایت رقم نہیں کرتی بلکہ پارسیوں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات، ہندو مسلم روابط، کانگریس اور مسلم لیگ کے اشتراک اور پھر اختلافات بلکہ مخاصمت کے اور انگریزوں کے تئیں جناح کے رویہ کی تفصیلات پوری معروضیت کے ساتھ پیش کرتی ہے۔
سفلہ پروری اور علم دشمنی کے دور میں جب سیاسی لیڈروں کا قرطاس و قلم سے رشتہ بڑی حد تک منقطع ہو چکا ہے، ہاشم قدوائی صاحب کو یاد کرنا دراصل اپنے گم شدہ متاع کی بازیافت کرنا ہے اور یہی اس کتاب کی اشاعت کا جواز بھی ہے
صحافی اور مصنفہ نمیتا دیوی دیال سے مشہور ستار نواز استاد ولایت خاں پر ان کی تاز ہ ترین کتاب ، The Sixth String Of Vilayat Khan کے تناظر میں ولایت خاں اور ہندوستانی موسیقی کی روایت کے بارے میں فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
ناصر حسین صاحب کی فلموں کے اردو سرٹیفیکٹ کے بعد ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغل اعظم جیسی فلم کا سرٹیفیکیٹ ہندی میں کیوں ہے؟
ضیاء السلام نے محض وقتی اور ہنگامی مسئلے کو موضوع بحث نہیں بنایا ہے بلکہ انہوں نے اپنی اس کتاب کے توسط سے انسانی سرشت میں مضمر تشدد سے گہری دلچسپی کی روش کو بھی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے اور اس نوع کے واقعات کے تاریخی پس منظر کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔