دی وائر : ”اردو“ میں بھی جلد

کیا کارپوریٹ گھرانوں کے ذریعے چلائے جا رہے یا خاندانی وراثت بن چکے میڈیا اداروں کے درمیان کسی ایسے ادارے کا تصور کیا جا سکتا ہے جہاں صرف صحافی اور قاری کو اہمیت دی جائے؟ کوئی ایسا اخبار،ٹیلی ویژن چینل یا میڈیا ویب سائٹ جہاں مدیر صحافیوں کی تقرری،خبروں کی کوریج جیسے فیصلے ادارہ اور صحافت کے حق کو دھیان میں رکھ ‌کر لے،نہ کہ ادارہ مالک یا کسی رہنما یا مشتہرین کو دھیان میں رکھ‌ کر۔ کسی بھی جمہوریت میں عوام میڈیا سے اتنی امید تو کرتی ہی ہے لیکن ہندوستان جیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں میڈیا کے موجودہ ماحول میں مدیر کو یہ آزادی بمشکل ملتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ صحافت کی سطح نیچے جا رہی ہے،حالات اور خراب ہوتے جا رہے ہیں۔

صحافت میں دن بہ دن کئی غلط رواج سامنے آ رہے ہیں،جیسے خبروں کو غیر ضروری طریقے سے ایڈٹ کرنا، پیڈ نیوز، ذاتی تعلقات کے نفع کے لئے کچھ خبروں کو چلانا وغیرہ۔ میڈیا ادارے اب خبر تک پہنچنا نہیں چاہتے، اس کے برخلاف انہوں نے صحافت کی آڑ میں تجارتی معاہدے کرنے شروع کر دئے ہیں،کچھ اہم اطلاعات اور خبریں عوام تک پہنچتی ہی نہیں ہیں کیونکہ میڈیا ادارے ان کو کسی شخص یا خاص ادارہ کو نفع پہنچانے کے مقصد سے سامنے لانا ہی نہیں چاہتے۔ آہستہ آہستہ ہی صحیح مگرعوام بھی اس بات کو سمجھنے لگے ہیں کہ صحافت  خطرے میں پڑ رہی ہے۔ عام لوگوں کا میڈیا پر اعتماد کم ہو رہا ہے۔ وہی میڈیا جو جمہوریت کا ‘چوتھا ستون’ ہونے کا دم بھرتا تھا،اپنی معتبریت کھوتا جا رہا ہے۔

FB BAnner_TheWireUrdu-02

مئی،2015 میں‘ د ی وایر’ کے وجود میں آنے کی خاص وجہ یہی تھی۔ اب اسی مقصد کے ساتھ ہم اس کا اُردو ایڈیشن لا رہے ہیں۔ اگر صحافت کو بچائے رکھنا ہے تو اس کو مدیرانہ اور اقتصادی آزادی دینی ہی ہوگی۔ اور اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ عام لوگوں کو اس میں شراکت دار بننا ہوگا۔ جو قاری اس طرح کی صحافت بچائے رکھنا چاہتے ہیں، سچ تک پہنچنا چاہتے ہیں،چاہتے ہیں کہ خبر کو صاف گوئی سے پیش کیا جائے نہ کہ کسی کے فائدے کو دیکھ‌ کر تو وہ اس کے لئے سامنے آئیں اور ایسے اداروں کو چلانے میں مدد کریں۔

ایک ادارے کی شکل میں ‘ دی وایر’ کا اُردو ایڈیشن مفاد عامہ اور جمہوری اقدار کے مطابق چلنے کے لئے پابند ہے۔ خبروں کے تجزیہ اور ان پر تبصرہ  کرنے کے علاوہ ہمارا مقصد رپورٹنگ کی روایتی تصویر کو بچائے رکھنے کی بھی ہے۔ جیسےجیسے ہمارے وسائل بڑھیں ‌گے،ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کریں‌ گے۔

اس مقصد کی طرف یہ ہمارا چھوٹا ہی سہی لیکن اہم قدم ہے۔ صحافت  کی اِس شکل کو لے کر ہماری سوچ ‌کے راستے میں صرف ضروری وسائل کی عدم دستیابی ہی رکاوٹ ہے۔ ہمارے قارئین سے بس اتنی گزارش ہے کہ ہمیں پڑھیں،شیئر کریں،اس کے علاوہ اس کو اور بہتر کرنے کے مشورے دیں۔

  urdu@thewire.in

 ٹویٹر  |  فیس بک