سپریم کورٹ نے گزشتہ17دسمبر کونیشنل سکیورٹی ایکٹ(این ایس اے)کے تحت ڈاکٹر کفیل خان کی حراست کو رد کرنے اور انہیں فوراً رہا کیےجانے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں دخل اندازی سے انکار کر دیا تھا۔ اس فیصلے پر ڈاکٹر کفیل نے دی وائر سے بات چیت کی۔
اتر پردیش پولیس کے ذریعےاین ایس اے کے تحت گرفتار کیے گئے ڈاکٹرکفیل خان کی حراست رد کر انہیں فوراً رہا کیےجانے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے آرڈر کو ریاستی سرکار نے سپریم کورٹ میں چیلنج دیا تھا، جسے سی جے آئی ایس اے بوبڈے کی قیادت والی بنچ نے خارج کر دیا۔
این سی آربی کی ایک رپورٹ کے مطابق جیلوں میں بند دلت، آدی واسی اور مسلمانوں کی تعدادملک میں ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے، ساتھ ہی مجرم قیدیوں سے زیادہ تعدادان طبقات کے زیر غور قیدیوں کی ہے۔ سرکار کا ڈاکٹر کفیل اور پرشانت کنوجیا کو باربار جیل بھیجنا ایسے اعدادوشمار کی تصدیق کرتا ہے۔
گزشتہ سال آکسیجن حادثے کی محکمہ جاتی جانچ میں دوالزامات میں ملی کلین چٹ کے بعد ڈاکٹر کفیل خان کی بحالی کے امکانات پیدا ہوئے تھے، لیکن سرکار نے نئےالزام جوڑتے ہوئے دوبارہ جانچ شروع کر دی۔ متھرا جیل میں رہائی کے وقت ہوئی حجت یہ اشارہ ہے کہ اس بار بھی حکومت کا روریہ ان کے لیےنرم ہونے والا نہیں ہے۔
اے ایم یو میں سی اے اے کے خلاف مبینہ‘ہیٹ اسپیچ’دینے کے الزام میں جنوری سے متھرا جیل میں بند ڈاکٹر کفیل خان کو ہائی کورٹ کے آرڈر کے بعد منگل دیر رات کو رہا کر دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اتنے دن جیل میں اس لیے رکھا گیا کیونکہ وہ ریاست کی طبی خدمات کی کمیوں کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پرمتنازعہ بیان دینے کے معاملے میں29 جنوری کو ڈاکٹرکفیل خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کرنے کے بجائے ان پراین ایس اے لگا دیا گیا تھا۔
دہلی کے چاندباغ علاقے کی رہنے والی فساد متاثرہ خاتون کا الزام ہے کہ انہوں نے دہلی پولیس کے خلاف شکایت درج کروائی تھی، اس لیےپولیس اب انتقام کے جذبے سے کارروائی کر رہی ہے۔
گزشتہ 29 جنوری کو اتر پردیش ایس ٹی ایف نے شہریت ترمیم قانون کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پر متنازعہ بیانات کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل خان کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ تب سے وہ جیل میں ہیں۔
اتر پردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں متنازعہ بیانات دینے کےالزام میں29 جنوری کو ڈاکٹر کفیل خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کرنے کے بجائے ان پر این ایس اے لگا دیا گیا تھا۔
گزشتہ دنوں دہلی پولیس نے دعویٰ کیا کہ عآپ کےسابق کونسلر طاہرحسین نے شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں شامل ہونے کی بات قبول کرلی ہے۔حسین کے وکیل جاوید علی کا کہنا ہے کہ ان کے موکل نے کبھی اس طرح کا کوئی بیان نہیں دیا۔ پولیس کے پاس اپنے دعووں کی تصدیق کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
دہلی پولیس نے عام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر طاہرحسین کو دہلی فسادات کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر پیش کیاہے۔ حالانکہ اس پورے معاملے میں حسین کے رول سے وابستہ حقائق کسی اورجانب اشارہ کرتے ہیں۔
دہلی سرکار نے اس سے پہلے دہلی پولیس کی جانب سے بتائے گئے وکیلوں کے ناموں کوقبول کرنے سے منع کر دیا تھا۔ایل جی انل بیجل نے سرکار کے آرڈر کو خارج کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے بھیجے گئے وکیلوں کے نام کو قبول کرنے کو کہا۔
خصوصی مضمون: فروری کےآخری ہفتے میں شمال مشرقی دہلی میں جو کچھ بھی ہوا اس کی اہم وجہوں میں سے ایک سینٹرل فورسز کو تعینات کرنے میں ہوئی تاخیرہے۔ ساتھ ہی وزیر داخلہ کا یہ دعویٰ کہ تشدد25 فروری کو رات 11 بجے تک ختم ہو گیا تھا،سچ کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا۔
دہلی کابینہ کی میٹنگ میں وکیلوں کی تقرری کے سلسلےمیں دہلی پولیس کی تجویز کو نامنظور کرتے ہوئے کہا گیا کہ دنگا معاملے میں پولیس کی جانچ کو عدالت نے غیرجانبدارنہیں پایا ہے، اس لیے پولیس کے پینل کو منظوری دی گئی، تو معاملوں کی غیرجانبدارشنوائی نہیں ہو پائےگی۔
خصوصی مضمون: شمال مشرقی دہلی میں فروری میں ہوئےفرقہ وارانہ تشدد کو ‘لیفٹ جہادی نیٹ ورک’کے ذریعےکروایا‘ہندو مخالف’فساد بتاکر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن سچائی کیا ہے؟
ویڈیو: شمال مشرقی دہلی میں فروری میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں 53 لوگ مارے گئے تھے۔ دہلی پولیس نے جون میں عدالت میں دائر کئی چارج شیٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ تشدد نریندرمودی سرکار کو بدنام کرنے کی سازش کا نتیجہ تھا۔ اس مدعے پر سپریم کورٹ کے وکیل ایم آر شمشاد سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
ویڈیو: فروری میں ہوئے دہلی فسادات سے متعلق تقریباً50 کیس وکیل عبدالغفار اکیلے لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ آدھے کے لیے وہ فیس بھی نہیں لے رہے۔ دہلی فسادات میں ہو رہی جانچ اور گرفتاریوں پر لگاتار سوال اٹھ رہے ہیں۔ عبدالغفار کا بھی ماننا ہے کہ جانچ میں شواہد سے پہلے ایک نیریٹو سیٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ویڈیو: ڈاکٹر کفیل خان کو گزشتہ دسمبر میں اے ایم یو میں ہوئے اینٹی سی اےاےمظاہرہ میں مبینہ اشتعال انگیزتبصرہ کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ فروری میں انہیں ضمانت ملی لیکن جیل سے باہر آنے کے کچھ گھنٹے بعد ان پر این ایس اے لگا دیا گیا۔ اس بارے میں دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
فروری2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات پر دہلی اقلیتی کمیشن کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی رہنما کپل مشراکی تقریر کے بعد فسادات شروع ہوئے تھے لیکن اب تک ان کے خلاف کوئی کیس درج نہیں کیا گیا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پچھلے سال دسمبر میں مبینہ طور پر متنازعہ بیانات دینے کے معاملے میں 29 جنوری کو ڈاکٹر کفیل خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کرنے کے بجائے ان پر این ایس اے لگا دیا گیا تھا۔
کل12 پیج کےاس حکم میں پورے معاملے کا تفصیلی تذکرہ ہے اور ایف آئی آر میں شامل باتوں کو دوہرایا گیا ہے۔ حالانکہ ضمانت عرضی کو خارج کرنے کی بنیادکو فیصلے کے آخری دو جملوں میں سمیٹ دیا گیا ہے۔
فیک نیوز راؤنڈ اپ : دہلی فسادات کے بعد سدرشن نیوز کی ایک رپورٹر نے دعویٰ کیا کہ وہ عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کے مکان سے رپورٹ کر رہی ہیں۔ جہاں ان کوکسی خاتون کے جلے ہوئے کپڑے، انڈر گارمنٹس، جلا ہوا پرس وغیرہ ملے ہیں۔ رپورٹر نے دعویٰ کیا کہ یہاں ایک خاتون کو گھسیٹ کر لایا گیا تھا اور اس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی پھر اس کو قریب کے نالے میں ڈال دیا گیا۔
پولیس کی یہ تعیناتی تب کی گئی ہے جب رائٹ ونگ گروپ ہندو سینا نے ایک مارچ کو شاہین باغ روڈ خالی کرانے کی اپیل کی۔ حالانکہ سنیچر کو پولیس کی دخل اندازی کے بعد انہوں نے شاہین باغ میں سی اےاے مخالف مظاہرے کے خلاف اپنامجوزہ احتجاج واپس لے لیا۔
غیر-بی جے پی مقتدرہ ریاستیں کو شہریت ترمیم قانون کابائیکاٹ کرتے ہوئے اس کو رد کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا راستہ اختیار کرناچاہیے۔ ساتھ ہی اس مسئلہ کی جڑ 2003 والی شہریت ترمیم کو بھی رد کرنے کی مانگ کرنی چاہیے۔
فیک نیوز راؤنڈ اپ: ٹائمز ناؤ سمٹ کے ایک سیشن میں مدیر نویکا کمار نے وزیر داخلہ امت شاہ سے بات چیت کی ۔ نویکا نے اپنے سوال میں بی جے پی کے ایک امیدوار کے اس جملے کا بھی ذکر کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ شاہین باغ والے ہندوؤں کے گھروں میں گھس کر ان کی خواتین کا ریپ کریں گے۔ امت شاہ نے جواب دیا، ’ایسا بیان نہیں دیا کسی نے… کہ بہو بیٹیوں کا ریپ کریں گے…مگر باقی سب جو اپنے کہا… وہ بھی بیان نہیں دینے چاہیے تھے‘۔
بی جے پی کا ایجنڈہ انتخاب کی جیت سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ، ان شرپسندوں کے ساتھ کسی طرح کی ہمدردی کا مطلب پی ایف آئی اور سیمی جیسی تنظیموں کی حمایت ہے۔ آپ یوگیندر ناتھ منڈل جیسے مت بنیے۔ ملک سے غداری کرنے والوں کو گمنام موت کے سوا کچھ نہیں ملےگا۔
گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے بیتول میں شہریت قانون اور این آر سی کی مخالفت میں جمع ہوئے آدیواسیوں نے کہا کہ جس جنگل میں ان کے آباواجداد فن ہیں، وہ اس جگہ پر اپنے حق کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت دے سکتے ہیں۔
بک ریویو: ساورکر کا یہ عقیدہ تھا کہ نظریاتی طور پر ، قومیت اور شہریت کو صرف شہری ہونے کی نہیں، بلکہ اس کی مذہبی شناخت کی بنیادپر طے کیا جاسکتا ہے ۔یہی سی اے اے کا بنیادی نکتہ ہے کہ شہریت مذہب کی بنیاد پر دی جائے ۔ اور اسی بنیاد پر سی اے اے سے مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے ۔
سی اے اے-این آر سی کے خلاف ہو رہے مظاہرے میں طویل عرصے کے بعدہندو-مسلم یکجہتی پھر سے نظر آ رہی ہے، جس سے حکمراں بی جے پی میں بےچینی دیکھی جاسکتی ہے۔ ایسی ہی بےچینی 1857 کی انقلاب کے بعد انگریزوں میں دکھی تھی، جس سےنپٹنے کے لئے انہوں نے پھوٹ ڈالو-راج کرو کی پالیسی اپنائی تھی۔
اتر پردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شہریت قانون (سی اےاے) کےخلاف بیان دینے کے الزام میں متھرا جیل میں بند ڈاکٹر کفیل خان پر این ایس اے لگایا گیا ہے۔
بورڈ نے فلمساز کو ‘ہندو’لفظ کی جگہ ‘تین پڑوسی ملکوں سے ہندوؤں’ کا استعمال کرنے کو کہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ فلمساز سنگھ مترا چودھری بی جے پی رہنما بھی ہیں ۔
ڈاکٹر کفیل خان کو 29 جنوری کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ متھرا جیل میں بند خان کو ضمانت مل گئی تھی۔ علی گڑھ کے ایس ایس پی آکاش کلہری نے بتایا کہ ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف این ایس اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے اور وہ جیل میں ہی رہیں گے۔
ایک پروگرام میں دہلی اسمبلی الیکشن سے جڑے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ بی جے پی صرف جیت یا ہار کے لیے الیکشن نہیں لڑتی ہے بلکہ انتخابات کے ذریعے سے اپنے نظریہ کی تشہیر میں بھروسہ کرتی ہے۔
دہلی کی عوام نے ان رہنماؤں اور امیدواروں کو خارج کر دیا جنہوں نے اس انتخاب کے دوران یا اس سے پہلے متنازعہ بیان دیے تھے۔
ویڈیو: دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج پر دی وائر کا تجزیہ۔
آخری رائے دہندگی کے اعلان میں تاخیر پر دہلی چیف الیکشن کمشنر رنبیر سنگھ نے کہا کہ رٹرننگ افسر کام میں مصروف تھے اور اسی لئے آخری اعلان میں تاخیر ہوئی۔
دہلی اسمبلی الیکشن کے مدنظر بی جے پی، عام آدمی پارٹی اور کانگریس پر حملہ کرنے کے لئے شاہین باغ میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف قریب دو مہینے سے چل رہے مظاہرے کا استعمال کر رہی ہے۔ یہ مدعا نہ صرف بی جے پی کے مقامی رہنما اٹھا رہے ہیں بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سمیت ہر بی جے پی رہنما شاہین باغ کے مظاہرے کے نام پر دہلی کے رائےدہندگان کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے دکھے ہیں۔
ویڈیو : شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف گزشتہ تقریباً دو مہینے سے دہلی کے شاہین باغ میں مظاہرہ کررہے لوگوں کو اپنی حمایت دینے پنجاب کی ایک کسان تنظیم کے 350 کسان شاہین باغ پہنچے ہیں ، جن میں 15 خواتین بھی ہیں ۔ ان سے ریتو تومر کی بات چیت۔
امت ساہنی نامی ایک وکیل نے یہ عرضی دائر کی ہے۔ ساہنی دہلی ہائی کورٹ بھی گئے تھے لیکن کورٹ نے ان کی عرضی خارج کر دی تھی اور کہا تھا کہ متعلق محکمہ اس معاملے کو دیکھیں۔ حالانکہ کورٹ نے اس بارے میں کوئی رسمی ہدایت جاری نہیں کی تھی۔