وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کا افسر بن کر جموں و کشمیر کا دورہ کر رہے گجرات کے ٹھگ کرن پٹیل کی ٹھگی اور جعلسازی کا تو پردہ فاش ہو گیا ہے، لیکن اس سے کہیں بڑا فراڈ جموں و کشمیر کے حالات کو نارمل بناکر پیش کرنا ہے، جبکہ حقیقی صورتحال مختلف ہے۔
دی کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین کی طرف سےکشمیر میں صحافیوں کی صورتحال پرنیویارک ٹائمز میں لکھے گئے مضمون کو مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے ‘شاطرانہ اور فرضی پروپیگنڈہ’ قرار دیا تھا۔ بھسین نے کہا کہ وزیر کا ردعمل ان کے معروضات کو درست ثابت کرتا ہے۔
کشمیر میں میڈیا بلیک آؤٹ اور ریاستی جبر پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے 15 مارچ کو گاندھی پیس فاؤنڈیشن میں ایک سیمینارہونے والاتھا۔ چند روز قبل ہی بھارت میں فاشزم کے موضوع پر ایک اور سیمینار کوپولیس نے منظوری نہیں دی، منتظمین نے اسے دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، پھر پولیس کے فیصلے کو رد کیاگیا۔
ویڈیو: کشمیریوں کے لیے بیرون ملک جانا اب اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر پاسپورٹ نہ دینے کے معاملے بڑھتے جارہے ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق پولیس ویریفیکیشن نہ ہونے یا پولیس کی منفی رپورٹ کے باعث پاسپورٹ سے محروم ہونے والوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔آخر مسئلہ کیا ہے اور عام لوگوں پر اس کا کیا اثر پڑےگا، بتا رہے ہیں ذیشان کاسکر۔
ویڈیو: آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں صحافیوں کی کیا حالت ہے، وہ کن حالات میں کام کر رہے ہیں، کیا وہ خود کو محفوظ محسوس کر رہے ہیں؟ ان موضوعات پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی کی کشمیر کے کچھ صحافیوں سے بات چیت۔
پاکستانی ان کو ملک میں دہشت گردی کی لہر اور اپنے ہی لوگوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے سپرد کرنے کا بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ہندوستان کے ساتھ امن مساعی کے نام پر انہوں نے ایک ماحول تیار کرنے میں مدددی تھی، جس کی وجہ سے کشمیر میں سیاسی جماعتوں بشمول حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند گروپوں کو سانس لینے کا موقع تو ملا۔
جب اس وقت کشمیری ثقافت، انفرادیت اور تہذیب انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے اور ایک طرح سے بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، ایسے وقت میں راہی کا منظر سے غائب ہونا کشمیری ادب کے لیے ایک بڑا نقصان ہے
اکتوبر 2021 میں سری نگر کے فوٹو جرنلسٹ محمد منان ڈار کو این آئی اے نے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ دہلی کی ایک عدالت نے ان کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ محض کچھ پوسٹرز، بینرز یا دیگر قابل اعتراض مواد کی موجودگی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقدمہ بنانے کے لیے کافی نہیں ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پولیس سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے کشمیر میں نسبتاً امن و امان قائم کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے کچھ غلط نہیں ہے۔ مگر یہ قبرستان کی پر اسرار خاموشی جیسی ہے۔خود ہندوستان کے سیکورٹی اور دیگر اداروں میں بھی اس پر حیرت ہے کہ کشمیریوں کی اس خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھداری یا ناامیدی ہے یا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
کشمیر کے اخبار گریٹر کشمیر کے ساتھ طویل عرصے تک وابستہ رہے خالد گل ان صحافیوں میں سے ایک تھے جن کے گھروں پر گزشتہ ماہ پولیس نے دوسرے صحافیوں کو ملنے والی آن لائن دھمکیوں کے سلسلے میں چھاپے مارے تھے۔
حال ہی میں لشکر طیبہ کے مبینہ بلاگ پر شائع ہونے والے ایک دھمکی آمیز خط میں وادی کے 21 میڈیا تنظیموں کے مالکان، مدیران اور صحافیوں کے نام لیے گئے تھے۔ بتایا گیا کہ چھاپے کے دوران مقامی صحافی سجاد احمد کرالیاری کو حراست میں لیا گیا اور ان کا لیپ ٹاپ، کیمرہ اور موبائل فون ضبط کر لیا گیا۔
لشکر طیبہ کے مبینہ بلاگ پر شائع ہونے والا ایک دھمکی آمیز خط، جس کے اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے ہیں،اورجس میں 21 مالکان، مدیران اور صحافیوں کا نام لیا گیا ہے، ان میں سے زیادہ تر سری نگر کے تین میڈیا ہاؤس سے وابستہ ہیں۔
‘دی انڈین جرنل آف اوپتھلمولوجی’ میں شائع ہوئے ایک ریسرچ پیپر میں تین ڈاکٹروں کےذریعے جولائی اور نومبر 2016 کے درمیان سری نگر میں پیلٹ گن سے متاثرہ افراد کے 777 آنکھوں کے آپریشن کی بنیاد پرکہا گیا ہے کہ ان میں سےتقریباً 80 فیصد لوگوں کی بینائی صرف انگلیوں کی گنتی تک محدود رہ گئی تھی۔
ہر دو تین ماہ بعد سیکورٹی ایجنسیاں کشمیر میں کسی نہ کسی صحافی کےدروازے پر دستک دینے پہنچ جاتی ہیں،اور یہ منظر خود بخود دوسروں کےذہنوں میں خوف پیدا کر دیتا ہےکہ اگلی باری ان کی ہو سکتی ہے۔
عمر خالد دہلی فسادات سے متعلق معاملے میں ستمبر 2020 سے جیل میں ہیں۔ اس کی مذمت کرتے ہوئے فلسفی، ممتاز دانشور اور ماہر لسانیات نوم چومسکی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہےکہ خالد کے خلاف جو ایک واحد ثبوت پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بولنے اور احتجاج کرنے کے اپنے آئینی حق کا استعمال کر رہے تھے، جو ایک آزاد معاشرے میں شہریوں کا بنیادی حق ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے زیر حراست نابالغ افراد کی اصل تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے اور جس طرح بچوں کے ساتھ پولیس اور نظم و نسق کے دیگر ادارے پیش آتے ہیں، اس سے ان کی ایک بڑی آبادی شدید نفسیاتی دباؤکا شکار ہو گئی ہے۔
آج جب ہمیں ایسے خطرات کا سامنا ہے جہاں ہم یقینی طور پر اپنی جمہوریت سے محروم ہو سکتے ہیں،تو یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اس بات پر یقین کریں کہ ہم اس تباہی سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے لیے پانی ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر گیا ہے، مگر جھیل ولر کی صحت کے حوالے سے کبھی بھی دونوں ممالک نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ہے۔ ہندوستان کے لیے شاید اس کی اتنی اقتصادی اہمیت نہیں ہے، مگر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے لیے اس کی حیثیت شہ رگ سے بھی زیادہ ہے۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے پندرہ سال بعد کے ‘نیو انڈیا’ میں اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلمانوں کے مسائل یا حقوق کے بارے میں بات کرنے کو اکثریت کے مفادات پر ‘حملہ’ سمجھا جاتا ہے۔ خود مسلمانوں کے لیے اب سب سے بڑا مسئلہ ان کی جان و مال کی حفاظت کا بن چکا ہے۔
الزام ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کرکٹ میچ میں پاکستان کے ہاتھوں ہندوستان کی شکست کے بعد آگرہ میں زیر تعلیم تین کشمیری طالبعلموں نے پاکستان کی حمایت میں نعرے بازی کی تھی۔ ان کے خلاف سیڈیشن، سائبر دہشت گردی اور سماجی منافرت […]
ہندوستان میں واجپائی تیسرے اور آخری وزیراعظم تھے، جن کو پارلیامنٹ میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کرکٹ میچ میں ہندوستان کو پاکستان کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ الزام ہے کہ آگرہ کے ایک انجینئرنگ کالج میں زیر تعلیم تین کشمیری طالبعلموں نے پاکستان کی حمایت میں نعرے لگائے تھے۔ ان کے خلاف سیڈیشن، سائبر دہشت گردی اور سماجی منافرت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
دی وائر کے لیے کرن تھاپرکو دیےاپنے انٹرویومیں ارندھتی رائے نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال انتہائی مایوس کن ہے، لیکن مجھے ہندوستان کے لوگوں پر بھروسہ ہے اور امید ہے کہ ملک ایک دن اس اندھیرے غار سے باہر نکلےگا۔
امریکی تارکین وطن کی تنظیموں کی جانب سے ‘ہندوستان میں فرقہ واریت’ کے موضوع پر منعقدہ ایک تقریب میں بھیجے گئے مختصر سے پیغام میں ممتاز دانشور اور ماہر لسانیات نوم چومسکی نے کہا کہ مغرب میں بڑھ رہےاسلامو فوبیانے ہندوستان میں مہلک شکل اختیار کرلی ہے، جہاں مودی حکومت منظم طریقے سے سیکولر جمہوریت کو ختم کر رہی ہے اور ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کر رہی ہے۔
پچھلے کئی برسوں سے نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کے دیگر خطوں میں پریس اور شہری حقوق کے ادارےمسلسل نگرانی میں ہیں۔ کشمیر کے صحافیوں پر تو کچھ زیادہ ہی مہربانی ہے۔ ان کے گھروں پر چھاپے، پولیس کی طرف سے طلبی اور پوچھ گچھ، صحافیوں کے فون اور لیپ ٹاپ کو ضبط کرنا ان دنوں معمول بن گیا ہے۔
کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر 2018کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ شاید واحد صدا تھی، جو صحافیوں کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔
صحافی سجاد گل کو انکاؤنٹر میں مارے گئے لشکر طیبہ کے ایک دہشت گرد کےاہل خانہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت لگائے گئے الزامات میں کہا گیا ہے کہ سجاد ہمیشہ ملک مخالف ٹوئٹس کی تلاش میں رہتے ہیں اور وہ یونین ٹریٹری جموں و کشمیر کی پالیسیوں کے تئیں منفی ر ہے ہیں ۔ وہ لوگوں کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کے لیے حقائق کی جانچ کیے بغیر ٹوئٹ کرتے ہیں۔
‘ہندوستان مخالف پروپیگنڈہ’ اورفرضی خبریں پھیلانے کے الزام میں 20 یوٹیوب چینل اور دو ویب سائٹ کو بلاک کیے جانے کے کچھ دن بعد وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ حکومت ملک کے خلاف ‘سازش کرنے والوں’ پر اس طرح کی کارروائی جاری رکھے گی۔
پانچ جنوری کی رات ویب پورٹل ‘دی کشمیر والا’سے وابستہ ٹرینی صحافی اورطالبعلم سجاد گل کو مجرمانہ طور پر سازش کرنے کے الزام میں ضلع باندی پورہ میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں ضمانت ملنے کے بعد پولیس نےانہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج کرکے جیل بھیج دیا ہے۔
سال 2018میں اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن نے پایا کہ 1990سے کشمیر میں 506مجسٹریل انکوائریا ں تشکیل دی گئی تھیں، ان میں 108انکوائیریوں میں خاطیوں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔ مگر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکی۔ایک جائزے کے مطابق 2011میں گیارہ، 2012میں آٹھ، 2013میں سات، 2014میں سات، 2015میں دس، 2016میں آٹھ، 2017میں سات اور 2018میں انکوائریوں کا حکم دیا گیا تھا۔ مگر ان سبھی انکوائریوں کا حال ابھی تک پس پردہ ہے۔
ویڈیو: اتر پردیش کی آگرہ یونیورسٹی سے منسلک ایک پرائیویٹ کالج کے تین کشمیری طالبعلموں کو 24 اکتوبر کو ٹی-20 کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کے ہاتھوں ہندوستان کی شکست کے بعد جیت کا جشن منانے کےالزام میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ ان کے اہل خانہ اب تک انصاف کی اپیل کر رہے ہیں اور انتظار کر رہے ہیں کہ انہیں آخر کب رہا کیا جائے گا۔
اتر پردیش کی آگرہ یونیورسٹی سے منسلک ایک پرائیویٹ کالج کےتین طالبعلموں کو 24 اکتوبر کو پاکستان کےٹی -20کرکٹ ورلڈ کپ میں ہندوستان کو شکست دینے کے چار دن بعد جیل بھیج دیا گیا تھا ان کی ضمانت کی درخواستوں کی سماعت نہ ہونے سے ان کے گھر والے مایوس ہیں۔
اگست 2019 میں جموں و کشمیر سے الگ کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ بنائے جانے کے بعد سے اس کو مکمل ریاست کا درجہ دینے اوریہاں کے باشندوں کو زمین اور ملازمت کے تحفظ کی ضمانت دینے کا مطالبہ آئے دن ہوتا رہتا ہے۔عام طور پر لداخ کےمسلم اکثریتی کارگل اور بودھ اکثریتی لیہہ کے علاقے ایک دوسرے سے بنٹے رہتے ہیں، لیکن اس بار لوگوں نے متحد ہو کر خطے کی آئینی سلامتی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
سری نگر میں 24 نومبر کی شام پولیس انکاؤنٹرمیں تین مشبہ دہشت گردوں کو مار گرایا گیا تھا، لیکن مقامی لوگوں اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جن لڑکوں کو پولیس نے انکاؤنٹر میں مارا، وہ نہتے تھے اور سڑک کنارے کھڑے تھے۔
پچھلے تین سالوں میں کشمیر میں حکومتی اور میڈیا سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 837 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب میں 172 سیکورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ ان میں سے اکثر افراد کو لائن آف کنٹرول کے پاس ورثاکی موجودگی اور آخری رسومات کے بغیر ہی پولیس نے خود ہی نامعلوم قبروں میں دفن کر دیا ہے۔
گزشتہ15نومبر کو سری نگر کے حیدر پورہ علاقے میں ایک شاپنگ کمپلیکس میں دہشت گردوں سے انکاؤنٹر کے دوران دو مشتبہ دہشت گردوں کی موت کے ساتھ ہی دو شہریوں کی بھی موت ہوئی تھی ۔ ان میں سے ایک شاپنگ کمپلیکس کے مالک محمد الطاف بھٹ اور دوسرے ڈینٹسٹ ڈاکٹر مدثر گل شامل ہیں۔ پولیس نے دونوں کےدہشت گردوں کا ساتھی ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ ان کے اہل خانہ کاالزام ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ان کا استعمال ‘ہیومن شیلڈ’کے طور پر کیا۔
دہشت گردی یا فوجی کشیدگی یا سرحدی تنازعات، قومی سلامتی کے لیےخطرات تو ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں، خاص طور پر جب وہ جان بوجھ کر عمل میں لائی جاتی ہوں سے، اس سے بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔اس سے جنگوں سے بھی زیادہ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ویسے دونوں ممالک کو چاہیے کہ کم از کم اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرکے خطے کو ماحولیاتی تبدیلی کے طوفان سے بچائیں۔دوسرا طریقہ ہے کہ سارک تنظیم کے ذریعے کوئی میکانزم ترتیب دیا جائے۔
اتر پردیش کےآگرہ میں انجینئرنگ کی پڑھائی کر رہےکشمیر کےتین طالبعلموں کو گزشتہ24 اکتوبر کو ہندوستان پاکستان کے بیچ ٹی20ورلڈ کپ کرکٹ میچ میں پاک کی جیت پر جشن منانے کے الزام میں سیڈیشن سے متعلقہ دفعات میں گرفتار کیا گیا ہے۔تینوں طالبعلم غریب گھروں سے ہیں اور پرائم منسٹر اسپیشل اسکالر شپ اسکیم کے تحت پڑھ رہے ہیں۔ ان کے اہل خانہ نے انہیں معاف کرنے کی اپیل سرکار سے کی ہے۔
کشمیری پنڈتوں اور بہاری مزدوروں کی ہلاکتوں پر پورے ہندوستان میں ایک طوفان سا آگیا ہے۔ کئی مقتدر مسلم رہنمابھی کشمیری مسلمانوں کو باور کرا رہے ہیں کہ اقلیتوں کی حفاظت کے لیے ان کو میدان میں آنا چاہیے۔یہ سچ ہے کہ اقلیت کی سلامتی اور ان کا تحفظ اکثریتی فرقہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر کشمیر میں اکثریتی طبقہ تو اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اْدھار زندگی گزارنے والا کیسے کسی اور کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے؟
ویڈیو: ملک میں ہندوستان-پاکستان کا کرکٹ میچ محض ایک کھیل کی طرح نہیں، ایک جنگ کی طرح دیکھا جاتا ہے اور کھیل کےجذبہ کو نکال کر اس کو انا کی لڑائی بنا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے کرکٹ شائقین میچ میں ہوئی ہار کو کھیل میں ہوئی ہار کے طور پر نہیں لے پاتے۔اس بار جب ہندوستان کی ہار ہوئی تو سوشل میڈیا پر اس کا ٹھیکراہندوستانی ٹیم کےگنیدباز محمدسمیع پر پھوڑا جانے لگا اور پاکستان کی جیت پر مبینہ طور پر ‘خوش’ہونے کے لیے کشمیری طلباکو پیٹے جانے کی خبر آئی۔