ویڈیو: دہلی کی ایکسائز پالیسی میں مبینہ بے ضابطگیوں کی جانچ کر رہی سی بی آئی نے آٹھ گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد اتوار کو نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس کے خلاف سوموار کو عام آدمی پارٹی کے کارکنوں نے دارالحکومت دہلی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔
گزشتہ 4 فروری کو ساکیت ڈسٹرکورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے جامعہ تشدد کیس میں شرجیل امام، آصف اقبال تنہا ، صفورہ زرگر اور آٹھ دیگر کو بری کر دیا تھا۔ جج ورما نے پایا تھا کہ پولیس نے ‘حقیقی مجرموں’ کو نہیں پکڑااور ان ملزمین کو ‘قربانی کا بکرا’ بنانے میں کامیاب رہی۔
سال 2019 کے جامعہ تشدد کے سلسلے میں درج ایک معاملے میں شرجیل امام، صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا سمیت 11 لوگوں کو بری کرنے والے کورٹ کے فیصلےمیں کہا گیا ہے کہ معاملے میں پولیس کی طرف سے تین ضمنی چارج شیٹ دائرکرنا انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس نے ضمنی چارج شیٹ داخل کرکے ‘تفتیش’ کی آڑ میں پرانے حقائق کو ہی پیش کرنے کی کوشش کی۔
جامعہ نگر علاقے میں دسمبر 2019 میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں درج ایک معاملے میں شرجیل امام، صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا سمیت11 افراد کو الزام سے بری کرتے ہوئے دہلی کی عدالت نے کہا کہ چونکہ پولیس حقیقی مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہی، اس لیے اس نے ان ملزمین کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔
چھتیس گڑھ کے نارائن پور ضلع کے گورا گاؤں میں یکم جنوری کو مبینہ تبدیلی مذہب کو لے کر عیسائی خاندانوں پر ہوئے حملے میں ایک پولیس افسر سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے۔ اگلے دن 2 جنوری کو نارائن پور میں تبدیلی مذہب کے خلاف ایک میٹنگ ہوئی تھی، جس کے بعد ہجوم نے شہر کے ایک اسکول میں واقع چرچ میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس سے پہلے اس معاملے میں بی جے پی لیڈروں سمیت کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
بستر ڈویژن کے نارائن پور ضلع میں کلکٹریٹ کے باہرسینکڑوں لوگوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ کلکٹر کو دیے گئے میمورنڈم میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ آر ایس ایس اور دیگر ہندوتوا تنظیموں کے اکساوے پر عیسائیوں کے خلاف تشددکیا جا رہا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے کارروائی کی جائے۔
دسمبر 2019 کو شہریت قانون کے خلاف ہوئے مظاہرہ کے بعد دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں گھس کر لاٹھی چارج کیا تھا، جس میں تقریباً 100 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ وہیں، ایک اسٹوڈنٹ کے ایک آنکھ کی روشنی چلی گئی تھی۔
واقعہ اتر پردیش کے شاہجہاں پور کی ایک مسجد کا ہے۔ 2 نومبر کی شام جب امام مسجد پہنچے تو انہوں نے قرآن کو جلایا ہوا پایا۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی مسلم کمیونٹی کے سینکڑوں لوگ مسجد کے باہر جمع ہوگئے اور احتجاجی مظاہرہ شروع کردیا۔
دہلی کی ایک عدالت نے جے این یو کے سابق طالبعلم شرجیل امام کو سیڈیشن کے معاملے میں ضمانت دی ہے، جس میں ان پر 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اپنی تقریر کے ذریعےدنگا بھڑکانے کا الزام تھا۔ تاہم دہلی فسادات سے متعلق مقدمات کی وجہ سے انہیں فی الحال جیل میں ہی رہنا پڑے گا۔
انصاف کا اصول ہے کہ ،سو مجرم بھلے ہی چھوٹ جائیں، لیکن ایک بھی بے قصور نہ پکڑا جائے، لیکن الہ آباد کے اٹالہ میں پتھر بازی کے بعد بڑے پیمانے پر کی گئی گرفتاریوں میں انصاف کے اس اصول کو الٹ دیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام کے بارے میں تبصرے کے خلاف 10 جون کو الہ آباد میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے رہنما اور سی اے اے مخالف مظاہروں میں شامل رہے جاوید محمد کو اتر پردیش پولیس نےگرفتار کیا تھا۔ ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ جب پولیس ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت اکٹھا کرنے میں ناکام رہی تو اس نے این ایس اے لگا دیا۔
بی جے پی لیڈروں کی جانب سے پیغمبر اسلام پر تبصرہ کرنے کے بعد منعقد مظاہرے کے دوران سہارنپور میں پیش آنے والے تشدد کے واقعات میں ملزم بنائے گئے افراد کے اہل خانہ کو گھر توڑے جانے سے متعلق نوٹس مل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نوٹس کا 10 جون یعنی تشدد کے دن ہی جاری ہونا ان پر سوال کھڑے کرتا ہے۔
ویڈیو: اگنی پتھ سے لے کر سی اے اے، زرعی قانون اور نوٹ بندی کی وجہ سے ملک میں احتجاجی مظاہروں کے سلسلے میں مودی کی حکومت کے بارے میں دی وائر کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کی بات چیت۔
سابق نوکر شاہوں کے کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ نے ملک کے چیف جسٹس کے نام ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ مسئلہ اب صرف مقامی سطح پر پولیس اور انتظامیہ کی ‘زیادتیوں’ کا نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی ہے، قانونی کارروائی اور’قصوروار ثابت نہ ہونے تک بے قصور ماننے’کے نظریہ کو بدلا جا رہا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند ارشد مدنی گروپ نے کہا کہ مظاہرہ کرنا ہر ہندوستانی شہری کا جمہوری حق ہے،لیکن موجودہ حکمرانوں کے پاس اس کے لیےدو پیرامیٹرز ہیں۔ مسلم اقلیت احتجاج کرے تو ناقابل معافی جرم، لیکن اگر اکثریتی طبقہ سڑکوں پر آکر پرتشدد کارروائیاں کرے تو انہیں منتشر کرنے کے لیے ایک ہلکا لاٹھی چارج بھی نہیں کیا جاتا۔
پہلے مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے قتل عام کیا جاتا تھا، بھیڑ ان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالتی تھی، ان کو نشانہ بناکر قتل کیا جاتا تھا، وہ حراستوں اورفرضی انکاؤنٹر میں مارے جاتے تھے یا جھوٹے الزامات میں قید کیے جاتے تھے۔ اب ان کی جائیدادوں کو بلڈوز سے منہدم کردینا اس فہرست میں شامل ایک نیا ہتھیار ہے۔
نوکریوں کے سلسلے میں نوجوانوں کا کوئی بھی مظاہرہ صرف ان کی اپنی نوکریوں کے لیے ہے۔ اس لیے نوکری اور نوجوانوں کا مبینہ غصہ سیاسی ایشو ہوتے ہوئے بھی ووٹ کا ایشو نہیں۔ جس لڑائی کو آپ لڑنے چلے ہیں، اس کو آپ بہت پہلے روند چکے ہیں۔ آپ نےدوسروں کی ایسی بہت سی لڑائیاں ختم کی، میدان تک ختم کر دیے۔ اب جب کہ میدان دلدل میں بدل گیا ہے، تب اس میں لڑائی کے لیے اتر ے ہیں۔ آپ پھنستے چلے جائیں گے۔
دی وائر سے بات چیت میں الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے جسٹس گووند ماتھر نے کہا کہ جیسا اتر پردیش میں چل رہا ہے، ایسا ہی چلتا رہا تو قانون یا پولیس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ من مانا ہے۔
اتر پردیش انتظامیہ نے جے این یو کی اسٹوڈنٹ آفرین فاطمہ کے والد اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے رہنما جاوید محمد کے الہ آباد واقع گھر کو بلڈوز چلا کرزمین دوزکر دیا تھا۔ پولیس نے یہ قدم جاوید کو 10 جون کو شہر میں ہوئے احتجاجی مظاہروں کا ‘ماسٹر مائنڈ’ قرار دینے کے بعد اٹھایا تھا۔ مذکورہ مظاہرہ بی جے پی لیڈروں کے پیغمبر اسلام کے بارے میں تبصرے کے بعد ہوا تھا۔
رواں سال جنوری میں دہلی کی ایک عدالت نے 2019 کے سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر کے الزام میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالبعلم شرجیل امام کے خلاف سیڈیشن کا الزام طےکیا تھا۔ اسی ماہ سپریم کورٹ نے سیڈیشن کے قانون پر غوروخوض ہونے تک اس سے متعلق تمام کارروائیوں پر روک لگانے کی ہدایت دی ہے۔
دہلی ہائی کورٹ دہلی فسادات سے پہلے ہیٹ اسپیچ کے الزام میں بی جے پی لیڈر انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورماکے خلاف ایف آئی آر کے مطالبے کو خارج کرنے کے سلسلے میں چیلنج دینے والی ایک عرضی پر سماعت کر رہی ہے۔سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ انتخابی بیان بازی میں رہنما کئی طرح کی باتیں کرتے ہیں، لیکن ہمیں کسی بھی پیش رفت کی مجرمانہ نوعیت کو دیکھنا ہوگا۔
دہلی ہائی کورٹ فروری 2020 میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات سے متعلق مختلف عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے، جن میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ سی اے اے مخالف مظاہروں کے بعد ہوئے فسادات میں مبینہ طور پر ہیٹ اسپیچ کے معاملے میں ان لیڈروں کی جانچ کی جائے۔
امریکی وکیلوں کے ایک بین الاقوامی گروپ گورینیکا 37 نے یو ایس ٹریژری ڈپارٹمنٹ کے پاس جمع کرائی گئی ایک درخواست میں مطالبہ کیا ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ سابق ڈی جی پی اوم پرکاش سنگھ اور کانپور کےایس پی سنجیو تیاگی کےخلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے عالمی پابندیاں عائد کی جائیں۔
گزشتہ پانچ سالوں میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے خواتین، اقلیتوں اور اختلاف رائے کا اظہار کرنے والوں پر ہوئے جبر واستبدادکو نظر انداز کیا ہے یا اس عمل میں خود اس کا رول رہا ہے۔ اس صورتحال میں بھی ستم ظریفی یہ ہے کہ بی جے پی ریاست میں امن و امان کے خودساختہ ریکارڈ کو کامیابی کےطور پر پیش کر رہی ہے۔
دہلی کی ایک عدالت نے دسمبر 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئےتشدد سے متعلق معاملےمیں شرجیل امام کوضمانت دیتے ہوئے کہا کہ جرم کی نوعیت اور اس حقیقت کو دھیان میں رکھتے ہوئے ان کی عرضی کو منظور کیا جاتا ہے کہ انہیں جانچ کے دوران گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔
معاملے کا ایک ویڈیو سامنے آیا ہے،جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شدت پسند ہندوتوا لیڈریتی نرسنہانند کی پیروکار مدھو شرما مسلمان شخص کا بال پکڑ کر کھینچ رہی ہیں اور انہیں تھپڑ مار رہی ہیں۔دھکا دینے کاالزام لگاتے ہوئے انہوں نے اس کو پاؤں چھونے کے لیے بھی مجبور کیا۔
ڈاسنہ مندر کے پجاری اوررائٹ ونگ کےشدت پسند رہنمایتی نرسنہانند سرسوتی نےالزام لگایا کہ بچے کو ان پر نظر رکھنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ بچہ اس علاقے سے واقف نہیں تھا اور انجانے میں مندر میں چلا گیا تھا۔ اس کے بیان کی سچائی جاننے کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔
ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو دہلی کےکڑکڑڈوما ضلع عدالت میں دنگوں سے متعلق کئی معاملوں کی شنوائی کر رہے تھے۔ ان کاتبادلہ نئی دہلی ضلع کےراؤز ایونیو عدالت میں خصوصی جج (پی سی قانون) (سی بی آئی)کے طور پر کیا گیا ہے۔جسٹس یادو نے دہلی دنگوں کو لےکر پولیس کی جانچ کو لےکر سوال اٹھاتے ہوئے کئی بار اس کی سرزنش کر چکے ہیں۔ انہوں نے اکثر معاملوں میں جانچ کے معیار کو گھٹیا بتایا تھا۔
دہلی کی ایک عدالت نے 2020 کے فسادات سےمتعلق ایک معاملے کو سنتے ہوئے کہا کہ پولیس گواہوں میں سے ایک حلف لےکر غلط بیان دے رہا ہے۔کورٹ نے ایسا تب کہا جب ایک پولیس اہلکار نے تین مبینہ دنگائیوں کی پہچان کی لیکن ایک اور افسر نے کہا کہ جانچ کے دوران ملزمین کی پہچان نہیں ہو سکی۔ یہ پہلی بار نہیں ہیں جب عدالت نے دہلی دنگوں کے معاملے میں پولیس پر سوال اٹھائے ہیں۔
دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ فروری2020 میں ملک کی قومی راجدھانی کو ہلا دینے والے فسادات واضح طور پرپل بھر میں نہیں ہوئے اور ویڈیوفوٹیج میں موجود مظاہرین کے طرزعمل سے یہ صاف پتہ چلتا ہے۔یہ حکومت کے کام کاج میں خلل ڈالنے کے ساتھ ساتھ شہر میں لوگوں کی عام زندگی کو متاثرکرنے کے لیے سوچی سمجھی کوشش تھی۔
گزشتہ سال فروری میں ممبئی کے آزاد میدان میں ہوئے ایک ایل جی بی ٹی کیو پروگرام میں جے این یواسٹوڈنٹ شرجیل امام کے حق میں مبینہ نعرے بازی کے لیے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے دو طالبعلموں کے خلاف سیڈیشن کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔
شرجیل امام کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 13 دسمبر 2019 اور اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں16جنوری 2020 کو شہریت قانون کے خلاف مبینہ طور پرمتنازعہ بیانات دینے کا الزم ہے ۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر دھمکی دی تھی کہ آسام اور بقیہ شمال مشرقی صوبوں کو ‘ہندوستان سے الگ’کر دیا جائے۔
گزشتہ سال دنگوں کے دوران ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا،جس میں زخمی حالت میں پانچ نوجوان زمین پر پڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کم از کم سات پولیس اہلکارنوجوانوں کو گھیرکرقومی ترانہ گانے کے لیےمجبورکرنے کے علاوہ انہیں لاٹھیوں سے پیٹتے ہوئےنظر آتے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان کی موت ہو گئی تھی، جس کی پہچان 23 سال کے فیضان کے طورپر ہوتی ہے۔ ان کی ماں کا کہنا تھا کہ پولیس کسٹڈی میں بےرحمی سے پیٹے جانے اور وقت پر علاج نہ ملنے سے ان کی جان گئی۔
گزشتہ سال 25 فروری کو 18سالہ مونس اپنےوالد سے مل کر اور مٹھائیاں لےکر گھر واپس لوٹ رہا تھا کہ تبھی دنگے بھڑک گئے۔ جب وہ دہلی کے یمنا بس اسٹینڈ پر اترا تو اس نے دنگوں کو بھڑکتے دیکھا۔ مشتعل بھیڑ نے اس کے مسلم ہونے کا پتہ چلنے کے بعد لاٹھی ڈنڈوں اور پتھروں سے پیٹ پیٹ کر اس کی جان لے لی۔
خصوصی مضمون : ملک کی’سیکولر‘سیاست کی شان میں خوب قصیدے پڑھے جاتے ہیں لیکن ایک سال سے قید شرجیل امام اس سیاست کی معتبریت کے لیے ایک لٹمس ٹیسٹ بنے ہوئے ہیں۔
دہلی ہائی کورٹ نے اس بات کا نوٹس لیا کہ دہلی فسادات کےمعاملے میں گرفتار کی گئیں نتاشا نروال کی فیملی میں آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے کوئی نہیں ہے۔ پچھلے سال 22 فروری 2020 کو دہلی کے جعفرآبادمیٹرو اسٹیشن کے باہرشہریت قانون کے خلاف ہوئے ایک احتجاج میں حصہ لینے پر 23 مئی2020 کو نروال کو ان کی ایک ساتھی دیوانگنا کلیتا کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔
ویڈیو: بہار اسمبلی میں رہنماؤں کے ساتھ بدسلوکی اور مارپیٹ کے واقعہ کی پورے ملک میں مذمت کی جا رہی ہے۔ اس پورے معاملے پر راشٹریہ جنتا دل کے ترجمان شکتی سنگھ، سینئر صحافی فیضان احمد اور دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت
گزشتہ سال دہلی فسادات کے دوران سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں کچھ پولیس والے پانچ مسلم نوجوانوں کو پیٹتے ہوئے انہیں قومی ترانہ گانے کو مجبور کررہے تھے۔ بعد میں ان میں سے ایک 23 سالہ فیضان کی موت ہو گئی تھی۔ فیضان کی ماں نے پولیس اہلکاروں پر حراست میں قتل کرنے کا الزام لگاتے ہوئے انصاف کی فریاد کی ہے۔
خصوصی سیریز: سال 2020 کے دہلی فسادات کو لےکر دی وائر کےخصوصی سلسلہ کے دوسرے حصہ میں جانیےشدت پسند ہندوتوادی رہنمایتی نرسنہانند کو، جن کی نفرت اور اشتعال انگیزی نے ان شرپسندوں کے اندرشدت پسندی کا بیج بویا، جنہوں نے فروری 2020 کے آخری ہفتے میں شمال-مشرقی دہلی میں قہر برپاکیا۔
گراؤنڈ رپورٹ: شمال – مشرقی دہلی کے موج پور علاقے میں پچھلے سال ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران تمام دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ دکانداروں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے جتنے نقصان کا دعویٰ کیا تھا، اس سے کافی کم معاوضہ انہیں دیا گیا۔