Secularism

چھندواڑہ میں ہنومنت کتھا کے اسٹیج پرکمل ناتھ، ان کے بیٹے لوک سبھا ایم پی نکل ناتھ اور پنڈت دھیریندر کرشن شاستری۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

کیوں مدھیہ پردیش میں کانگریس کو ہندوتوا کا بخار چڑھ گیا ہے؟

قومی سطح پر ایک طرف کانگریس موجودہ ہندوتوا سیاست کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں لڑنے کادعویٰ کرتی ہے، وہیں دوسری طرف مدھیہ پردیش میں اس کےسینئر لیڈرکمل ناتھ ہندوتوا کے کٹر اور فرقہ پرست چہروں کی آرتی اتارتےاوربھرےاسٹیج پر ان کی عزت افزائی کرتےنظر آ تے ہیں۔

فیض احمد فیض(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

سی بی ایس ای نے دسویں جماعت کے نئے نصاب سے فیض احمد فیض کی نظمیں ہٹائیں

نئےنصاب کے مطابق، دسویں جماعت کی سوشل سائنس کی کتاب میں مذہب، فرقہ واریت اور سیاست نصاب کا حصہ بنے رہیں گے تاہم صفحہ 46، 48، 49 پر بنی تصویروں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان تصویروں میں دو پوسٹر اور ایک سیاسی کارٹون ہے۔ انہی پوسٹروں میں فیض کی نظمیں لکھی ہوئی تھیں۔

Garam Hawa

سیکولرازم اور مقبول ہندوستانی سنیما

’گرم ہوا‘پہلی فلم تھی جس میں تقسیم ملک کے فوراً بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تجربے کو سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔گرم ہواکے بننے سے پہلے تک مقبول ہندی فلموں میں خاص کر مسلم کرداروں کو ٹوکن کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔

فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر

سی بی ایس ای نے 11ویں جماعت کے نصاب سے شہریت، قوم پرستی اور سیکولرازم کے اسباق ہٹائے

ایم ایچ آرڈی کی ہدایات پر یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔ وزارت نے کہا ہے کہ کووڈ19 بحران کے بیچ طلبا کی پڑھائی کا بوجھ کم کرنے کے لیے 9ویں جماعت سے 12ویں جماعت تک کے نصاب کو 30 فیصد تک کم کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔

 بی جے پی رکن پارلیامان اننت کمار ہیگڑے۔ (فوٹو بہ شکریہ/فیس بک)

آزادی کی لڑائی میں گاندھی کی جدوجہد کو ’ڈراما‘ قرار دیتے ہو ئے بی جے پی رہنما نے کہا-ایسے لوگ ہمارے ملک میں مہاتما بن گئے

قابل اعتراض بیانات کولےکر ہمیشہ تنازعات میں رہنے والے سابق مرکزی وزیر اور بی جے پی رکن پارلیامان اننت کمار ہیگڑے نے بنگلور میں ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ پڑھنےپر میرا خون کھولتا ہے۔

سیف علی خان، فوٹو: پی ٹی آئی

جمہوریت کو لے کر انڈسٹری میں کسی کو لڑتے ہو ئے نہیں دیکھ رہا ہوں، لیکن طلبا لڑ رہے ہیں: سیف علی خان

اپنی حالیہ فلم تاناجی کو لےکر سیف علی خان نے کہا کہ ایک اداکار کے طورپر فلم میں میرا کردار بہت اچھا ہے، لیکن فلم میں جو دکھایا گیا ہے، وہ تاریخ نہیں ہے۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے ‘انڈیا’ کا کوئی تصور نہیں تھا۔

ششی تھرور (فوٹو : پی ٹی آئی)

کانگریس کا فرض سیکولرزم کی حفاظت کرنا ہے، سافٹ ہندوتوا سے نہیں ٹلے‌ گا بحران: تھرور

کانگریس کے سینئر رہنما ششی تھرور نے کہا کہ بی جے پی کی کامیابی سے خوف زدہ ہونے کے بجائے کانگریس کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ ان اصولوں کے لئے کھڑی ہو، جن پر اس نے ہمیشہ ہی یقین  کیا ہے۔ نئی دہلی: کانگریس کے سینئر رہنما […]

عارف محمد خان، فوٹو: پی ٹی آئی

بی جے پی کی وضع کردہ تعریف کے مطابق ’اچھا مسلمان‘ کیسے بنا جائے-عارف محمد خان کے مرتب کردہ رہنما خطوط

بی جے پی کے اچھے مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ مسلمانیت بنیادی طور پر ہندوستان کی قومی شناخت کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ کیونکہ اسلام بیرون ہند سے آیاہے اور مسلمانوں نے ابھی تک ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو پوری طرح نہیں اپنا یا ہے لہٰذا اسلام میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کا بھارتی کرن ٹھیک طرح سے ہونا چاہئے۔

(فائل فوٹو : رائٹرس)

کیا بی جے پی ’اصلی سیکولرزم‘ کے بہانے اقلیتوں کے حقوق پر چوٹ کررہی ہے؟

یہ دیکھنا اور سمجھنا دلچسپ ہے کہ سیکولرزم کے حوالے سے رائٹ ونگ کی دلیل کیا ہے۔ یقین کیجئے، سیکولرزم کے بارے میں ان کی جو دلیل ہے، وہ نہ صرف بہت کنونسنگ ہے بلکہ بہت مضبوط بھی ہے۔ ایک لمحے کے لئے آپ بھی سر نگوں ہو جائیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی یہ دلیل سراب کی سی ہے۔

فوٹو : یو ٹیوب

عارف محمدخان صاحب، شاہ بانو معاملے کے بعد بہت کچھ بدل چکا ہے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عارف محمد خان سیکولرزم کے اپنے دقیانوسی تصور کو گلے لگائے اب بھی 1986 میں جی رہے ہیں۔ ان کا سیکولرزم انہیں شاہ بانو کے مقدمے سے آگے سوچنے ہی نہیں دیتا۔ موجودہ حالات میں مسلمان جن مسائل سے دوچار ہیں ان پر غور کرنے کیلئے بھی عارف محمد خان صاحب شاہ بانو مقد مے کوبنیادی حوالہ بنائے ہوئے ہیں۔

علامتی تصویر / فوٹو : پی ٹی آئی

مودی حکومت کی واپسی: مسلمان فکرمند ہیں، خوفزدہ نہیں…

ہمارے لبرل صحافی اور روشن خیال دانشوران فاشزم اورکمیونلزم کے خلاف اپنی لڑائی کو مسلمانوں کے کندھوں پر رکھ کر کیوں لڑنا چا ہتے ہیں؟ ڈر کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں چپکا دینا چاہتے ہے؟ جہاں تک مسلمانوں کے ڈر جانے کا سوال ہے تو یہ محض ایک فیک نیوز ہے۔ متھ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ مسلمان فکر مند ضرور ہیں، خوف زدہ با لکل نہیں۔تقسیم کے بعد جن مسلمانوں نے پاکستان کو ٹھکرا دیا کم از کم ان کے بارے میں تو ایسا ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔

میگھالیہ ہائی کورٹ (فوٹو: وکی پیڈیا)

میگھالیہ ہائی کورٹ نے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنائے جانے والےاپنے متنازعہ فیصلے کو خارج کیا

10 دسمبر، 2018 کو دئے ایک فیصلے میں میگھالیہ ہائی کورٹ کے جسٹس سدیپ رنجن سین نے وزیر اعظم سے گزارش کی تھی کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی، عیسائی، کھاسی، جینتیا اور گارو لوگوں کو بنا کسی سوال یا دستاویزوں کے شہریت دی جائے۔

علامتی تصویر / فوٹو : پی ٹی آئی

کیا اب مسلمان سیاسی پارٹیوں کی مجبوری نہیں ہیں؟

کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں بھولے سے بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا۔کانگریس نے تو انتخابی منشور کی رسم اجراء کی تقریب میں غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے قدآور لیڈروں کو بھی دوررکھا۔ بہار کی راشٹریہ جنتا دل ،جس کی پوری سیاست مسلمانوں اوریادو پر منحصر ہے اس نے بھی اپنے منشور میں ایک جگہ بھی مسلم لفظ نہیں لکھا۔

علامتی تصویر،فوٹو: رائٹرس

رام چندر گہا کا کالم : کیا ہندوستان ایک ہندو پاکستان بننے کی راہ پر گامزن ہے؟

2019 میں بی جے پی کی مہم خصوصی طور پر ہندو اکثریت کے لیے ہے۔ پارٹی ان کے خوف اور عدم تحفظ کے احساسات کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہی ہے۔ اسی لیے امت شاہ مسلمانوں کو ‘دیمک’ بتا چکے ہیں، آدتیہ ناتھ بجرنگ بلی کو علی کے بالمقابل کھڑا کر چکے ہیں اور مودی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مغربی بنگال میں ہندو ‘جئے شری رام‘ کا نعرہ بھی بلند نہیں کر سکتے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

ملک کو ہندو راشٹر بنائے جانے سے متعلق تبصرہ پر میگھالیہ ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ کا نوٹس

میگھالیہ ہائی کورٹ کے جسٹس ایس آر سین نے دسمبر 2018 کے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ بٹوارے کے بعد ہندوستان کو ہندوراشٹر بنایا جانا چاہیے تھا۔ اس تبصرے کو ہٹانے کو عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے سی جے آئی رنجن گگوئی کی بنچ نے ہائی کورٹ سے جواب مانگا ہے۔

Media Bol

میڈیا بول: امروہہ کے ’دہشت گرد‘، نوئیڈا کے نمازی اور میگھالیہ کے کان مزدور

میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے نوئیڈا سیکٹر-58میں نماز پر روک، امروہہ کے ’دہشت گرد‘ اور میگھالیہ کان میں مزدور پر انڈین ایکسپریس کے سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر دیپتی مان تیواری اور حقوق انسانی کارکن محمد عامر سے ارملیش کی بات چیت

میگھالیہ ہائی کورٹ۔  (فوٹو بشکریہ: وکیپیڈیا)

میگھالیہ ہائی کورٹ کے جج نے اپنے ایک فیصلے میں کہا؛ ہندوستان کو ہندو راشٹر ہونا چاہیے تھا

میگھالیہ ہائی کورٹ نے وزیر اعظم سے گزارش کی ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، جین، بدھ ، پارسی، عیسائی، کھاسی، جینتیا اور گارو لوگوں کو بنا کسی سوال یا دستاویز کےشہریت دی جائے۔

indian_muslim_jama-masjid

ورق در ورق : مسلمانوں کی سیاسی اور معاشرتی تجزیہ نگاری کے نئے افق کو وا کرتی کتاب

محمد سجاد کی کتاب ہندوستانی مسلمان: مسائل و امکانات؛نہ صرف موضوعاتی تنوع کا احساس کراتی ہے بلکہ یہ باور کراتی ہے کہ معاصر سیاسی اور معاشرتی مسائل پر بھی تنقیدی دقت نظری اور تجزیاتی ژرف نگاہی کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے۔

گزشتہ اکتوبر میں مدھیہ پردیش کی دتیا کے پیتامبرا پیٹھ میں پوجا کرتے کانگریس صدر راہل گاندھی، مدھیہ پردیش کانگریس صدر کمل ناتھ اور کانگریس رکن پارلیامان جیوترادتیہ سندھیا (فوٹو : پی ٹی آئی)

کیا اس ملک میں اب بحث صرف اچھے ہندو اور برے ہندو کے بیچ رہ گئی ہے؟

کانگریس نے سیکولرازم کا نام لینا چھوڑ دیا ہے۔ ایک ایسا خیال جس میں اس پارٹی کی خاص خدمات تھیں، ہندوستان کو ہی نہیں، پوری دنیا کو، اب اس میں اتنا اعتماد نہیں رہ گیا ہے کہ انتخاب کے وقت اس کی بات بھی کی جا سکے۔

Muslim-India-Reuters

ہندوستان میں رہنے والا ہر ساتواں شہری مسلمان ہے، کیا اتنی بڑی تعداد کو ’غیر‘ بنایا جاسکتا ہے؟

ایک لبر ل ، روشن خیال مسلمان، جو ہندوستان کے سیکولر کلچر میں رچ بس گیا ہو، جن کے گھر پر عید اور محرم کے ساتھ ساتھ دیوالی اور ہولی بھی اتنی ہی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہو، جن کی بیٹی، برادر ، بھانجی اور دیگر قریبی رشتہ داروں نے ہندو خاندانوں میں شادیاں کی ہوں، اگر وہ اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتے ہوں، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔

فوٹو : مہتاب عالم

کیا مسلمانوں کی سیاسی بے وقعتی کے لیے’سرکاری مسلمان‘ذمہ دار ہیں؟

غلام نبی آزاد کے پی اے نے کہا؛ ہمیں وزیر سے ملنے والوں میں توازن رکھنا پڑتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم ایک سیکولر ملک میں ہیں او راس کا تقاضا ہے کہ وزیر سے ملنے والوں کی لسٹ بھی سیکولر ہو۔ آج کی لسٹ میں ہندو ملاقاتیوں کی تعداد کچھ کم ہے۔

ModiErdogan_PTI

کیا ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اورترکی صدر طیب اردگان کا موازنہ درست ہے؟

بعض لوگوں کو یہ موازنہ کچھ عجیب لگ سکتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ دونوں ہی اپنے اپنے ملک میں مذہب کی بنیاد پر بنی پارٹیوں کے پروردہ ہیں۔ دونوں کا عروج لبرل اور سیکولر طاقتوں کے زوال کے ساتھ ہوا ہے۔