بنگلہ دیش تشدد: جس ملک میں اقلیت محفوظ نہیں، اس کومہذب کیسے کہا جا سکتا ہے؟
بنگلہ دیش میں تشدد کےنئےچکر سےشایدہم ایک جنوب ایشیائی پہل کے بارے میں سوچ سکیں جو اقلیتوں کےحقوق کےتحفظ اور ان کی برابری کےحق کےلیےایک بین الاقوامی معاہدہ کی تشکیل کرے ۔
بنگلہ دیش میں تشدد کےنئےچکر سےشایدہم ایک جنوب ایشیائی پہل کے بارے میں سوچ سکیں جو اقلیتوں کےحقوق کےتحفظ اور ان کی برابری کےحق کےلیےایک بین الاقوامی معاہدہ کی تشکیل کرے ۔
ایک ملک میں اقلیتوں پر حملے کی مخالفت کے دوران جب اسی ملک کے اقلیتوں پر حملہ ہونے لگے تو شبہ ہوتا ہے کہ یہ حقیقت میں کسی ناانصافی کے خلاف یا برابری جیسے کسی اصول کی بحالی کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے بھی ایک اکثریتی تعصب ہی ہے۔
مودی اپنے اس دورے سے جہاں یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ہندوستان ، بنگلہ دیش کو بہت اہمیت دیتا ہے وہیں مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے مدنظر متوآ بنگالیوں کا دل جیتنے کے لئے ان کے متبرک مقام اورکانڈی ٹھاکر باڑی جائیں گے۔
شہریت ترمیم قانون کے تحت افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آئے غیر مسلموں کو ہندوستان کی شہریت دینے کے فیصلے کے خلاف بولتے ہوئے سابق افغانی صدر حامد کرزئی نے کہا کہ ہندوستان کو تمام افغانیوں کے ساتھ برابر کا سلوک کرنا چاہیے۔
ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ یہ فیصلہ اس تشویش کی وجہ سے لیا گیا ہے کہ ہندوستان میں شہریت ترمیم قانون نافذ ہونے کے بعد ہندوستانی مسلمان بنگلہ دیش میں داخل ہو سکتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے ماہر اقتصادیات اور نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو ان کی کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین کو برخاست کرنے سے متعلق معاملے کی سماعت کے دوران عدالت میں پیش ہونے میں ناکام رہنے کے بعد پچھلے مہینے گرفتاری وارنٹ جاری کیا گیا تھا۔
بنگلہ دیش کی کمپنی گرامین کمیونی کیشن سے برخاست کئے گئے تین ملازمین نے انتظامیہ کے خلاف مجرمانہ مقدمہ دائر کیا ہے۔ ان کی شکایت ہے کہ کمپنی میں ٹریڈ یونین کی تشکیل کی وجہ سے ان کو نکال دیا گیا۔
گراؤنڈ رپورٹ : 1965 میں اس وقت کی پاکستانی حکومت نے Enemy Property Act بنایا تھا، جس کو اب ویسٹیڈ پراپرٹی ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ جنگ میں ہوئی شکست کے بعد عمل میں لائے گئے اس قانون کے تحت 1947 میں مغربی اور مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) سے ہندوستان گئے لوگوں کی غیر منقولہ جائیدادوں کو Enemy Property قرار دیا تھا۔
حسینہ نے الیکشن جیتنے کے لئے جو حرکتیں کی ہیں اس پر ہمارے کان کھڑے ہوجانےچاہییں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آگے چل کر وہ ہندوستان کے لئے گھاٹے کا سودہ بن جائے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
مکتی واہنی کے کارکن ’ بہاری مسلمان‘سے موسوم بہار اور اتر پردیش سے ہجرت کر کے گئی اردو بولنے والی آبادی پر بھوکے شیر کی طرح ٹوٹ پڑے۔پورا ملک ان کی نسل کشی کی پالیسی پر گامزن ہو گیا۔ انہیں سرکاری، نیم سرکاری، پرائیویٹ اداروں اور فکٹریوں کی […]