غازی پور ضلع کے وشال غازی پوری اور ان کی اہلیہ سپنا دلت اورپسماندہ مفکرین کی تعلیمات کو گیتوں کے ذریعہ پیش کرتے ہیں۔گزشتہ اکتوبر میں ان گیتوں سے ناراض علاقے کے کچھ دبنگوں نے ان کے اسٹوڈیو میں آگ زنی کی اور جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ پولیس میں شکایت درج ہونے کے باوجود وشال اپنی فیملی کے ساتھ چھپ کر رہنے کو مجبور ہیں۔
کئی ریاستوں میں جیل کے دستورالعمل جیل کے اندر کے کاموں کا تعین ذات پات کی بنیاد پر کرنے کی دلالت کرتے ہیں۔
یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا تھا کہ مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں۔
مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کےتبدیلی مذہب کے انسداد سے متعلق قوانین میں کہیں بھی بین مذہبی شادی کا ذکر نہیں تھا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے اس پر کوئی تبصرہ کیا تھا۔ ایسے میں اتر پردیش سرکار کا ایسا کوئی اختیار نہیں بنتا کہ وہ بنا کسی ثبوت یادلیل کے بین مذہبی شادیوں کو نظم و نسق کے سوال سے جوڑ دے۔
اگرہندوستان میں رہنے والے تمام 172ملین مسلمان بھی صرف ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو بھی 966ملین ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے ہیں۔
کرناٹک میں‘مورل پولیس’کا کام کرنے سے لےکر اتر پردیش کے مظفرنگر میں فسادات بھڑ کانے تک‘لو جہاد’کا راگ چھیڑ کر ہندو رائٹ ونگ تنظیموں نے اپنے کئی مقاصد کی تکمیل کی ہے۔
ایک طرف ہندوستانی آئین بالغ شہریوں کو اپنا شریک حیات منتخب کرنے کااختیار دیتا ہے، مذہب چننے کی آزادی دیتا ہے، دوسری طرف بی جے پی مقتدرہ حکومتیں آئین کی بنیادی قدروں کے برعکس قانون بنا رہی ہیں۔
ویڈیو: مبینہ لو جہاد کو لےکر اتر پردیش سرکار نے آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے۔ اس کے تحت شادی کے لیے فریب، لالچ یا جبراًمذہب تبدیل کرائے جانے پر زیادہ سے زیادہ10 سال کی قیداور جرما نے کی سزا کا اہتمام ہے۔
بی جے پی لو جہاد کے راگ کو کیوں نہیں چھوڑ رہی؟وہ ہندوؤں میں خوف بٹھا رہی ہے کہ ‘ہماری’عورتوں کا استعمال کرکے ‘ودھرمی’اپنی تعداد بڑھانے کی سازش کر رہے ہیں۔ ‘ودھرمیوں’ کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا سبب ہے۔ تعداد ہی طاقت ہے اور وہی برتری کی بنیاد ہے۔ اس لیے ایسی ہر شادی یا رشتے کی مخالفت کی جانی ہے، کیونکہ اس سے ‘ودھرمی’ کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
اتر پردیش کے کانپور شہر میں کچھ رائٹ ونگ ہندو تنظیموں نے الزام لگایا تھا کہ مسلم نوجوان مذہب تبدیل کرانے کے لیے ہندو لڑکیوں سے شادی سے کر رہے ہیں۔ اس کے لیے انہیں دوسرے ملکوں سے فنڈ مل رہا ہے اور لڑکیوں سے انہوں نے اپنی پہچان چھپا رکھی ہے۔ اس کی جانچ کے لیے کانپور رینج کے آئی جی نے ایس آئی ٹی بنائی تھی۔
گراؤنڈ رپورٹ: ارریہ ضلع کے ہلہلیا پنچایت میں مسہر کمیونٹی سمیت پسماندہ طبقات کے کئی مزدور، جو روزگار کے لیے پنجاب گئے تھے، انہوں نے سکھ مذہب اپنا لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے بہت متاثر ہوئے کہ اس مذہب میں اونچ نیچ نہیں ہے۔
کنگنارناوت کا ایک ساتھی اداکارہ کے کام کو مسترد کرتے ہوئے انہیں کمتر دکھانے کی کوشش اور گھر گرائے جانے کاموازنہ ریپ سے کرنا دکھاتا ہے کہ فیمنزم کو لے کر ان کی سمجھ بہت کھوکھلی ہے۔
گزشتہ14 ستمبر کو شروع ہوئےپارلیامنٹ کی کارر وائی کے دوران لوک سبھا میں کل 10رکن پارلیامان نے مزدوروں کی موت سے متعلق سوال پوچھے تھے، لیکن سرکار نے یہ جانکاری عوامی کرنے سے انکار کر دیا۔مرکزی وزیرسنتوش گنگوار نے کہا تھا کہ ایسا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا ہے۔
دی وائر کےذریعےانڈین ریل کے 18زون میں دائر آر ٹی آئی درخواست کے تحت پتہ چلا ہے کہ شرمک ٹرینوں سے سفرکرنے والے کم سے کم 80 مزدوروں کی موت ہوئی ہے۔مرکزی حکومت کے ریکارڈ میں یہ جانکاری دستیاب ہونے کے باوجود اس نے پارلیامنٹ میں اس کو عوامی کرنے سے منع کر دیا۔
کنگنارناوت کے اشتعال انگیز بیانات پرشیوسینا کاردعمل ان کی غلط ترجیحات کو ظاہرکرتا ہے۔
گزشتہ اتوار کو کنگنا رناوت نے ٹوئٹر پر ہندوستان میں ذات پات، ریزرویشن اورامتیازی سلوک کو لےکرتبصرہ کیا تھا۔
سوسائٹی کے وہاٹس ایپ گروپ میں وہ خواتین عموماً گھرگرہستی سے جڑے مسئلے شیئرکیا کرتی تھیں۔ پتہ نہیں یہ کب اورکیسے ہوا کہ اپنی زندگی کےتمام مسائل کو چھوڑ کربالی ووڈ کی اقربا پروری کو ختم کرنا، سشانت سنگھ راجپوت کے لیے انصاف مانگنا اور عالیہ بھٹ کو نیست و نابود کر دینا ان عورتوں کا مقصد بن گیا۔
امُول مکھن کے مقبول اشتہارات کشمیر کےخصوصی درجے میں تبدیلی سے لےکر چینی مصنوعات کے بائیکاٹ تک کے مدعے پرحکومت کے رویے کے ساتھ حامی بھرتے نظر آتے ہیں۔
کسی بھی منظم مذہب میں شامل ہونے والا آدی واسی اپنی بنیادی پہچان بچائے رکھنے کے نام پر قدرت/فطرت سے وابستہ تہواروں میں حصہ لےکر اس وہم میں رہتا ہے کہ وہ زمین سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن کیا وہ کبھی یہ محسوس کرتا ہے کہ اپنی تہذیب، زبان وغیرہ کو لےکر اس کا نظریہ کیسےمبینہ مین اسٹریم کےنظریے کے مماثل ہوجاتا ہے؟
کورونا وائرس کی وجہ سے لگے لاک ڈاؤن کا اثر سماج کے ہرطبقے اور ہر عمر کے لوگوں پر پڑ رہا ہے۔ ایسے ہی ایک متوسط طبقے کے نوجوان کی کہانی…
خواجہ احمد عباس کی سنیمائی زندگی اور ان کےتخلیقی استعداد کے بارے میں بہت سی باتیں کہی اورلکھی جا چکی ہیں، لیکن آج ہندستان اور چین کے بیچ جاری کشیدگی میں ان کےناول ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی کی اہمیت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
معاملہ12 جون کو جھالاواڑ کے بال گڑھ میں ہوا،جہاں تین نوجوان نے بکری چوری کرنے کا الزام لگاتے ہوئے لڑکے سے ایک لاکھ روپے مانگے۔ اس کے انکار کرنے پر اس کوبرہنہ کرکے بری طرح سے پیٹا گیا اور بال کاٹ کرکے منھ کالا کر دیا گیا۔
ویڈیو: ہندوستانی فضائیہ میں ونگ کمانڈر رہیں انوما آچاریہ کو بی جے پی نے اتنامتاثر کیا کہ انہوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور پارٹی کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کر لیا، لیکن کچھ عرصے میں ہی وہ پارٹی سے مایوس ہو گئیں۔ انوما آچاریہ کی مودی پرستار سے مودی نقاد بننے کی کہانی۔
گزشتہ دنوں گو ایئر کے ذریعے ان کے ایک پائلٹ کو یہ کہتے ہوئے نوکری سے نکال دیا گیا کہ انہوں نے ٹوئٹر پر ہندو بھگوانوں کو لےکرقابل اعتراض تبصرہ کیا تھا۔ نوکری سے نکالے گئے اسٹاف کا کہنا ہے کہ وہ ٹوئٹر اکاؤنٹ ان کا نہیں ہے اور کمپنی نے بنا ان کی بات سنے یہ فیصلہ لیا ہے۔
میں نریندر مودی سے متاثر تھی، گجرات میں رہتے ہوئے میں نے اچھی سڑکیں، چھوٹی صنعتیں دیکھی تھیں، ان کی تعریف بھی سنی تھی۔ سیاست میں جانے کا سوچنے کے بعد میں نے بی جے پی سے رابطہ بھی کیا اور پارٹی کے لیے کام بھی کیا۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں رونما ہوئے واقعات نے وزیر اعظم مودی کے بارے میں میری رائے بدل کر رکھ دی۔
ویڈیو: امیزان پرائم پر آئی ویب سیریز ‘پاتال لوک’ لگاتار تنازعہ کے مرکز میں ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کو ہندوفوبک بتایا جا رہا ہے۔ اس کو لےکر آخر تنازعہ کیا ہے؟ سرشٹی شریواستو کا ریویو۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس سنجے کشن کول نے اتوار کو مدراس بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقد ایک آن لائن لیکچر میں یہ باتیں کہیں۔
اپنے الوداعیہ میں جسٹس دیپک گپتا نے عدلیہ نظام میں انسانی قدروں کو قائم کرنے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ وکیل اپنے موکل سے بےتحاشہ فیس نہیں لے سکتے ہیں۔
گزشتہ20 اپریل کومتحدہ عرب امارات میں ہندوستان کے سفیر پون ورما نے ہندوستانیوں کو سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پیغامات ڈالنے والے رویے کے خلاف وارننگ دی تھی۔
مؤرخ اوررائٹر آروی اسمتھ نے تقریباً ایک درجن کتابیں لکھی ہیں، جن میں سے اکثر دہلی کے بارے میں ہیں۔ وہ ایک صحافی بھی تھے اور زندگی کے آخری دنوں تک مختلف اخباروں کے لیے لکھتے رہے تھے۔
یہ ملک گیر لاک ڈاؤن کا آخری ہفتہ ہے۔ اس دوران سوشل میڈیا پر جاری نفرت اوربحثوں کے بیچ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بنا کسی مفاد کے راحت رسانی کے کام میں مصروف ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کی انوشکا ان میں سے ایک ہیں۔
تبلیغی جماعت کے امیر مولاناسعد نے کو روناانفیکشن سے ٹھیک ہو چکے مسلمان اور جماعت کے لوگوں سے اپنا بلڈ پلازما ڈونیٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے صدر ظفرالاسلام خان نے ایل جی انل بیجل اوروزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کوخط لکھ کر کہا کہ کورنٹائن سینٹر میں وقت پرکھانے کی عدم فراہمی کی وجہ سے دو لوگوں کی موت ہوئی ہے۔
ویڈیو: کو رونا وائرس کی وجہ سےنافذ لاک ڈاؤن کے بیچ دہلی کے بھلسوا ڈیری علاقے میں پھنسے مہاجر مزدوروں کو کھانے کے لیے بنی لمبی قطاروں میں گھنٹوں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔
ویڈیو: دہلی کے نظام الدین علاقے میں رہنے والی ایک حاملہ خاتون کوصفدرجنگ ہاسپٹل نے مبینہ طور یہ کہتے ہوئے بھرتی کرنے سے منع کر دیا کہ وہ ریڈ زون علاقے سے آ رہی ہیں۔ خاتون کاالزام ہے کہ اسی طرح پانچ دوسرے ہاسپٹل نے بھی انہیں بھرتی کرنے سے منع کر دیا تھا۔
ویڈیو: دہلی کے سلطان پوری کورنٹائن سینٹر میں پچھلے ہفتے 59 سالہ محمد مصطفیٰ کی موت ہو گئی۔ وہ پچھلے مہینے تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شامل ہوئے تھے۔الزام ہے کہ وہ ذیابطیس کے مریض تھے اور وقت پر علاج اور کھانا نہ ملنے سے ان کی موت ہوئی ہے۔
ویڈیو: ہندوستان میں کوروناوائرس انفیکشن کو فرقہ وارانہ رنگ دیے جانے کے بعد خلیجی ممالک میں کام کرنے والے ہندوستانیوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر اسی طرح کے پوسٹ لکھنے پر ان ممالک کے صحافیوں ، وکیلوں اور شاہی خاندان کے لوگوں نے مخالفت درج کی ہے۔ اس بارے میں عارفہ خانم شیروانی سے گلف نیوز کےمدیر بابی نقوی کی بات چیت۔
اس لاک ڈاؤن کو اتنے بھر کے لیے درج نہیں کیا جا سکتا کہ لوگوں نے کچن میں کیا نیا بنانا سیکھا، کون سی نئی فلم ویب سیریز دیکھی یا کتنی کتابیں پڑھ گئے۔ یہ دور ہندوستانی سماج کے کئی چھلکے اتار کر دکھا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کی نظر کہاں ہے؟
ملک میں کو رونا وائرس متاثرین کے آخری رسومات کی ادائیگی کو لےکر سرکار نے صاف صاف ایڈوائزری جاری کی ہے، اس کے باوجود کئی ایسے معاملے سامنے آ رہے ہیں جہاں انفیکشن کے ڈر سے لاش کو دفن کرنے یا جلانے کی مخالفت کی گئی یا پھر مرنے والوں کے اہل خانہ کے انکار کے بعد انتظامیہ نے یہ ذمہ داری اٹھائی۔
واقعہ بھوج پور ضلع کے تراری تھانہ حلقہ کے سارا گاؤں کاہے۔ پولیس کے مطابق گاؤں کے بااثر کمیونٹی کے کچھ لوگ خواتین سے چھیڑ چھاڑ کے ارادے سے مسہر ٹولی میں گھسے تھے۔ مخالفت ہونے پر انہوں نے فائرنگ کی، جس میں ایک سال کی بچی سمیت چھ لوگ زخمی ہو گئے ہیں۔