جوش صاحب؛ کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
جو ش نے خود کو ”شاعر آخر الزماں کہلوانا پسند کیا تھا مگرحیف کہ وہ نہیں جانتے تھے اُن کے ساتھ ہی اُن کا زمانہ بھی ختم ہو جائے گا۔
جو ش نے خود کو ”شاعر آخر الزماں کہلوانا پسند کیا تھا مگرحیف کہ وہ نہیں جانتے تھے اُن کے ساتھ ہی اُن کا زمانہ بھی ختم ہو جائے گا۔
یوم پیدائش پر خاص: وقت پڑنے پر کانگریسیوں کا ساتھ بھی دیا ہے، سوشلسٹوں کا بھی، کمیونسٹوں کا بھی۔ وہ ہر ترقی پسند اور انقلابی پارٹی کے ساتھ ہے۔ مگر کسی پارٹی میں نہیں ہے۔ وہ دھرم، مذہب، ذات پات کے بندھنوں سے آزاد ہے۔ سامراج اور فرقہ پرستی کا دشمن ہے، عوام اور اشتراکیت کا ساتھی ہے۔ وہ یہ سب کچھ ہے۔ اسی لیے میرا دوست ہے۔ ایسا دوست جسے سچ مچ ہم دم کہا جا سکتا ہے۔ ورنہ ’دوست‘ تو بازار میں ٹکے سیر ملتے ہیں۔
کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ کے اختلاف رائے کے بعد ریاست کے پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے وزیر بی سی ناگیش نے کہا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا۔ ایسے میں ریاست کے تمام اسکولوں اور کالجوں میں کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ اور ضابطے میں کسی بھی مذہبی علامت کی گنجائش نہیں ہوگی۔
سپریم کورٹ کی بنچ میں شامل جسٹس ہیمنت گپتا نے حجاب پر پابندی کے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر عرضیوں کو خارج کر دیا، جبکہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے کہا کہ ہائی کورٹ نے غلط راستہ اختیار کیا اور حجاب پہننا بالآخر اپنی پسند کا معاملہ ہے، اس سےکم یا زیادہ کچھ اور نہیں۔
ہندی اور اُردو کا جھگڑا ایک زمانے سے جاری ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب، ڈاکٹر تارا چند جی اور مہاتما گاندھی اس جھگڑے کو سمجھتے ہیں لیکن میری سمجھ سے یہ ابھی تک بالاتر ہے۔ کوشش کے باوجود اس کا مطلب میرے ذہن میں نہیں آیا۔ ہندی کے حق میں ہندو کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مسلمان اُردو کے تحفظ کے لئے کیوں بے قرار ہیں؟— زبان بنائی نہیں جاتی، خود بنتی ہے اور نہ انسانی کوششیں کسی زبان کو فنا کر سکتی ہیں۔ میں نے اس تازہ اور گرما گرم موضوع پر کچھ لکھنا چاہا تو ذیل کا مکالمہ تیار ہو گیا۔
پیپلز یونین فار سول لبرٹیز نے کرناٹک میں مسلم طالبات کے درمیان حجاب بین کے فیصلے کے اثرات پر ایک اسٹڈی کی ہے ، جس میں متعدد طالبات نے بتایاکہ انہیں کالج بدل کر مسلم اداروں میں داخلہ لیناپڑا، دوسری کمیونٹی کی طالبات کے ساتھ گفت وشنید محدود ہوگئی ، اور انہیں علیحدگی اور افسردگی کے احساس سے گزرنا پڑا۔
بک ریویو: یہ کتاب،اس تہذیب میں سانس لیتی عورت کی زندگی،اس کے تجربات و محسوسات اور لسانی رنگ وآہنگ سب کو پیش کرتی ہے۔گویا حیدرآباد کی تاریخ، سیاست، تہذیب و ثقافت، سماجی صورتحال،لسانی اثرات، بالخصوص عورتوں کی زندگی یہاں متوجہ کرتی ہے۔
موضوع کے لحاظ سے یہ ناول جوائنٹ فیملی سے نیوکلیر فیملی تک کے اذیت ناک سفر کی داستان ہے۔پورا ناول پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں بظاہر بے ترتیب لیکن نہایت بامعنی اورموضوع سے متعلق مناظر رقص کرنے لگتے ہیں۔ قاری تسلیم کرلیتا ہے کہ ہر برائی میں ایک اچھائی پوشیدہ ہوتی ہے اور یہ کہ اذیتوں کے بطن سے ہی نعمتیں جنم لیتی ہیں۔
سپریم کورٹ کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی ہٹانے سے انکار کرنے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ ہر کسی کو مذہب پر عمل کرنے کا حق ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ حق طے شدہ یونیفارم والے اسکول میں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔
آج اُردوکے مایہ ناز شاعر فراق گورکھپوری کی سالگرہ ہے۔ دی وائر اُردو کے قارئین کے لیے ایکسپریس نیوز کے شکریے کے ساتھ فراق صاحب کا انٹرویو پیش کیا جارہا ہے ۔یہ انٹرویوان کے انتقال سے چند روز قبل ان کی رہائش گاہ پر کیا گیا تھا۔
کرناٹک کے منگلورو واقع کالج میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والی دو مسلم طالبات کو دوسرے کالج میں داخلہ لینے کے لیے این او سی دیا گیا ہے، جبکہ ایک کو ٹرانسفر سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا ہے۔ تین میں سے دو طالبات نے پریس کانفرنس کی تھی اور یونیورسٹی کیمپس میں یکساں اصول کو سختی سے لاگو کرنے کے فیصلے پر سوال اٹھایا تھا۔
کرناٹک کے باگل کوٹ ضلع کے ٹیراڈل واقع گورنمنٹ ڈگری کالج کا معاملہ۔ یہ واقعہ اسی سال 18 فروری کو پیش آیا تھا۔ 19 سالہ طالبعلم نوید حسن صاب تھرتھاری نے الزام عائد کیا ہے کہ وہ ٹوپی پہن کر کالج گئے تھے، لیکن پرنسپل نے انہیں کالج میں داخل ہونے سے روک دیا۔ پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور ان کے عقیدے کی توہین کی۔ مقامی عدالت کی ہدایت پر اس معاملے میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان آزاد صحافیوں میں سے 12 کو ٹیکسٹ اسٹوری جبکہ تین کو ملٹی میڈیا اسٹوری کے لیے مالی گرانٹ فراہم کی جائے گی۔
دونوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انہیں حجاب پہن کر امتحان دینے کی اجازت دی جانی چاہیے، لیکن کالج انتظامیہ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں امتحان ہال میں داخل ہونے سے منع کردیا۔ اس کے بعد دونوں لڑکیاں گھر واپس آگئیں۔
ایک شاندار ماضی ہوتے ہوئے بھی اب اردو کے صرف مٹھی بھر قارئین رہ گئے ہیں اور اب اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگنا شروع ہو گئے ہیں۔
گزشتہ 15 مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب تنازعہ سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری مذہبی روایت کا حصہ نہیں ہے اور ریاست میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔ اس کے بعد کرناٹک حکومت نے واضح کیا تھا کہ سب کو ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا ہو گا، ورنہ امتحان دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ملک کے 28 سینئر صحافیوں اور میڈیا پرسن نے صدر جمہوریہ، سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس کے ججوں، الیکشن کمیشن آف انڈیا اور دیگر قانونی اداروں سے ملک کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ہورہےحملوں کو روکنے کی اپیل کی ہے۔
اس معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ کےحتمی فیصلے کے انتظار میں متعدد طالبات نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ نہ تو کلاس جائیں گی اور نہ ہی پریکٹیکل امتحانات دیں گی۔ اب اس معاملے پر وزیر تعلیم بی سی ناگیش کا کہنا ہے کہ وہ غیر حاضر طالبات کے لیے دوبارہ امتحان نہیں لیں گے، طالبات اگر چاہیں تو سپلیمنٹری امتحانات میں شامل ہو سکتی ہیں۔
کوئی بھی جشن اور تہوار مذہب سے زیادہ انسان کےعشق و محبت کے جذبے کو بیدار کرتا ہے۔ہولی بھی ایک تہوار سے زیادہ کچھ ہے اس لئے ہندومسلمان میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔
بی جے پی او بی سی مورچہ کے قومی جنرل سکریٹری اور اُڈپی گورنمنٹ پی یو کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کے نائب صدر یشپال سورنا نے کہا کہ لڑکیوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ طالبعلم نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیم کی ممبر ہیں۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف بیان دے کر وہ ججوں کی توہین کر رہی ہیں۔
کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے اُڈپی کے ‘گورنمنٹ پری یونیورسٹی گرلز کالج’ کی مسلم طالبات کی ان عرضیوں کو خارج کر دیا ہے جن میں حجاب پہننے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عدالت نے کہا کہ یونیفارم کا اصول ایک معقول پابندی ہے اور آئینی طور پر قابل قبول ہے۔ جس پر لڑکیاں اعتراض نہیں کر سکتیں۔
ہمیں خیال آیا ‘اقبال’ عربی کا لفظ ہے۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے عربی نام رکھنا کہاں کی حب الوطنی ہے۔ ہم نے اپنا نام ‘کنگال چند’ رکھ لیا۔ یہ نام ویسے بھی ہماری مالی حالت کی غمازی کرتا تھا۔ نہ صرف ہماری بلکہ ملک کی حالت کی بھی!
مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے گزشتہ ماہ پولیس کارروائی میں مستعمل دوسری زبانوں کے الفاظ کو ہندی کےرائج لفظوں سے بدلنے کا اعلان کیا تھا۔ مختلف اضلاع کے سینئر پولیس افسروں سے کہا گیا ہے کہ وہ سات دنوں کے اندرطے شدہ پروفارما میں غیر ہندی الفاظ کو بدلنے سے متعلق تجاویز پیش کریں۔
دی وائر نے مرکزی ڈی ڈی اُردو چینل پر بلیٹن کے گھٹائے جانے کے بارے میں ویڈیو اسٹوری کی تھی، اس پر جواب دیتے ہوئے پرسار بھارتی نے اُردو بلیٹن سے متعلق ایک ایسی فہرست پیش کی ہے جو نیٹ ورک کے دوسرے چینلوں پر نشر ہو رہے ہیں۔
ویڈیو: کووڈ-19 سے پہلے ڈی ڈی نیوز اورآل انڈیا ریڈیو، دونوں سے اردو کے دس بلیٹن نشر ہو رہے تھے۔ 2020 میں مہاماری کی پہلی لہر کے دوران کووڈ پروٹوکول کی وجہ سے ہندی، انگریزی، اردو ڈیسک پر بلیٹن کی تعداد کم کردی گئی تھی۔ بعد میں تمام زبانوں میں پروگرام بحال کر دیے گئے، لیکن ڈی ڈی نیوز پر اردو کے صرف دو اور آل انڈیا ریڈیو پر تین بلیٹن شروع کیے گئے۔
لداخ کے محکمہ ریونیو میں نوکریوں کے لیے اردو زبان کی اہلیت کو ختم کرنے کے فیصلے پر مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ ضلع لیہہ اور مسلم اکثریتی کارگل کے بیچ نظریاتی اختلافات پیدا کرنے کے مقصد سےاٹھایاگیافرقہ وارانہ قدم ہے، لیکن اس سے سیاسی فائدہ نہیں ہوگا، بس ایڈمنسٹریشن کی سطح پرمسائل پیدا ہوں گے۔
معاملہ اُڈپی کےگورنمنٹ ویمنس پی یو کالج کا ہے۔ چھ مسلم طالبات نے الزام لگایا ہےکہ پرنسپل انہیں کلاس میں حجاب پہننے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اُردو، عربی اور بیری زبان میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ پرنسپل کا کہنا ہے کہ طالبات کیمپس میں حجاب پہن سکتی ہیں،لیکن کلاس روم میں اس کی اجازت نہیں ہے۔
’یہ کہنا شاید صحیح نہیں کہ ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کا علم نہیں ‘ لیکن کیا کیجیے کہ ہم اپنے کلچر ہیرو کو کہانیوں میں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔منشی نولکشورکو میں کلچر ہیرو کے طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے کتابوں کی صورت آب حیات کے چشمے جاری کیے۔‘
ہم جنس پرستوں کے تئیں سماج کا تعصب بیش از بیش اس کا جنسی پہلو ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ جنس یا شہوت انسانی زندگی کا ایک لمحاتی حصہ ہے، بہت ہی محدود وقت کا کھیل ہے اصل چیز دو پیار کرنے والوں، خواہ وہ جنس مخالف ہوں یا ہم جنس ، کی ایک دوسرے سے محبت ہے ، قربت کی چاہ ہے نہ کہ جنس کا کھیل۔
ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوکہ وہ لوگ جو کبھی اسکول نہیں گئے، بالکل ناخواندہ اور حد تو یہ کہ ٹھیک سے ہندی بھی نہیں بول سکتے تھے ایسے اداکاروں کو حبیب تنویر اسٹیج پر لائے۔
امرتا کے ادبی اظہار کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے عورتوں کے لیے ایک دنیا خلق کی ۔جس میں بغاوت بھی تھی اور عشق کی آوارگی بھی ۔
رالف نے انگریزی دانوں کے درمیان اردو اور اپنے پسندیدہ شاعر غالب کو مقبول و معروف کرانے کاکام بھی اسی سنجیدگی سے عبادت کی طرح کیا۔ اردو کے ترویج کی ان کی کوششیں عملی ہیں— بحیثیت استاد بھی اور بہ حیثیت تنظیم کار بھی۔ غالب سے عشق ان متعدد کتابوں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جو انھوں نے وقتاً فوقتاً آکسفرڈ یونیورسٹی پریس اور دوسرے اشاعت گھروں سے شائع کرائی ہیں۔
حقانی القاسمی لکھتے ہیں؛اس لائبریری میں اتنا قیمتی ذخیرہ ہے کہ برٹش میوزیم نے اس کے عوض غیرمعمولی رقم کی پیش کش کی مگر خدا بخش کے جذبے نے اس پیشکش کو یکسر مسترد کردیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ ؛مجھ غریب آدمی کو یہ شاہی پیش کش منظور نہیں۔
ڈاکٹر رشید امجد حقیقی معنوں میں ’سیلف میڈ‘ انسان تھے۔ اپنی تعلیمی استعداد کو بڑھانے اور ایک عطا کرنے والے استاد کی حیثیت سے احترام پانے کا معاملہ ہو یا ایک تخلیق کار کی حیثیت سے اپنی راہ خود تراش کر نمایاں ترین ہوجانا، اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد اور ’فنافی الادب‘ کاسا جنون صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
منو بھائی کی تیسری برسی پرخصوصی تحریر:یہ ماں سے محبت ہی تھی کہ وہ لکنت کا شکار ہو گئے۔ اِس لکنت کا سبب ماں کے گال پر پڑنے والا وہ تھپڑ تھاجو طیش میں آکر منو بھائی کے والد نے جڑ دیا تھا۔ یہ منو بھائی کے بچپن کا واقعہ ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ چیزوں کو بہت سمجھنے لگے تھے۔ ماں کو یوں پٹتا دیکھ کر وہ چارپائی کے نیچے چھپ گئے اور جب وہ وہاں سے نکلے تو لکنت کا شکار ہو چکے تھے۔
تقسیم کے بعد بہت سے لوگ پاکستان چلے گئے۔ جو ہندوستان میں رہے وہ فکر مند ہونے لگے کہ کتب خانے کا مستقبل کیا ہو۔ 1960 میں 16 بیل گاڑیوں میں کتب خانے کی 7914 جلدیں لادی جانے کے بعد وہ پٹنہ کے خدا بخش لائبریری لائی گئیں جہاں وہ آج بھی محفوظ ہیں۔
پرانی دلی کے گلی کشمیریان میں1926 میں پیدا ہوئے گلزار دہلوی حکومت ہند کی جانب سے 1975 میں شائع ہونے والاپہلا اردو مجلہ ‘سائنس کی دنیا’ کے بانی مدیرتھے۔
بحیثیت ایک ڈاکٹر کے میری رائے نہایت مستند ہے اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جتنی اموات شہر میں کوارنٹین سے ہوئیں، اتنی پلیگ سے نہ ہوئیں، حالاں کہ کوارنٹین کوئی بیماری نہیں، بلکہ وہ اس وسیع رقبہ کا نام ہے جس میں متعدی وبا کے ایام میں بیمار لوگوں کو تندرست انسانوں سے ازروئے قانون علیحدہ کر کے لا ڈالتے ہیں تاکہ بیماری بڑھنے نہ پائے۔
ویڈیو: نوجوان فکشن نویس اور شاعرہ انوشکتی سنگھ کا پہلا ناول‘شرمشٹھا’گزشتہ دنوں منظر عام پرآیا ہے۔ اس ناول کے تناظرمیں ان سے اسطوری اور دیومالائی کرداروں میں عورت کی موجودگی، سنگل مدر کی جدوجہد، عورت مرد کی مبینہ جائز اور ناجائزمحبت اور اس کے بعض دوسرے مندرجات پر فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
ویڈیو: اردو شاعری میں ہولی کی روایت پر یاسمین رشیدی کا نظریہ۔