پران -پرتشٹھا کی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی کی آمد کی تیاریاں رام للا کے استقبال کی تیاریوں سے کسی لحاظ سے کمتر نہیں ہے۔ اسٹریٹ لائٹس پر مودی کے ساتھ بھگوان رام کے کٹ آؤٹ لگے ہوئے ہیں، جن کی اونچائی پی ایم کے کٹ آؤٹ سے بھی کم ہے۔ ایسے میں یہ گمان ہونا فطری ہے کہ 22 جنوری کو ایودھیا میں بھگوان رام آئیں گے یا وزیر اعظم مودی کو آنا ہے؟
جیسے جیسے ایودھیا میں وی ایچ پی اور سنگھ پریوار کے مندر پروجیکٹ کی رہنمائی میں مندر ٹرسٹ کے ذریعے بنوائے جارہے رام مندر میں پران-پرتشٹھا کی تاریخ قریب آرہی ہے، ہندو اکثریت کا فرقہ وارانہ جنون اپنے عروج کو پہنچ رہا ہے۔
ایودھیا کی چہل پہل دیکھ کر مندر آندولن کے دور کی بھیڑ بھاڑ کا یاد آنا فطری بھی ہے۔ ان دونوں ادوار میں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے دور کے تشدد، انارکی اور اندیشوں کی جگہ اس بار جیت کی خوشی اور اپنی سناتن جیت کے تئیں گہرے اطمینان نے لے لی ہے!
ایسا لگتا ہے کہ نہ صرف سنگھ پریوار بلکہ اس کے مخالفین نے بھی یہ تسلیم کر لیا ہے کہ صحیح یا غلط ہر مسئلے پر لوگوں کو اکٹھا کرنے کی اس کی صلاحیت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے! شاید اسی لیے سنگھ اور اس سے منسلک تنظیموں کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے پوری ریاست کی سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے کوئی شرم نہیں آ رہی۔
دوسری طرف یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں اتر پردیش کی حکومت بھی آئین اور اس کے عہد کو طاق پر رکھتے ہوئےآر ایس ایس کی منشا کے مطابق اس کی خدمت میں حاضرہے۔
ہندوستان کے ہندو راشٹر ہونے میں بھلے ہی ابھی کچھ وقت باقی ہو؛ اتر پردیش تو پہلے ہی ہندو اسٹیٹ بن چکا ہے! سرکاری مشینری ہندوتوا کو آسانی سے قبول کرنے کے ساتھ رام للا کے استقبال میں بچھی جا رہی ہے۔
پران-پرتشٹھا کی تقریب میں وزیر اعظم مودی کی آمد کی تیاریاں رام للا کے استقبال کی تیاریوں سے کسی لحاظ سے کمتر نہیں ہے۔ دور دراز کے دیہاتوں کے ہزاروں مزدور شدید سردی میں دن رات کام کر رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر لگتا نہیں کہ اس پوری صدی میں بھی ان کا مقدر کبھی چمکنے والا ہے! اگر آپ انہیں ان کی فرصت میں تھوڑا سا بھی کریدنے کی کوشش کرو توسب کچھ دل توڑنے والا ہی ملتا ہے۔ وہی بھوک، وہی سناتن غریبی، وہی-وہی مجبوریاں!
سڑکیں چمکا دی گئی ہیں، ریلوے لیول کراسنگ کو عجلت میں ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ تقریباً ہر تیسرے دن ایودھیا آ رہے ہیں! اسٹریٹ لائٹس کے ستونوں پر مودی جی کے ساتھ بھگوان رام کے کٹ آؤٹ لگے ہوئے ہیں، جن کی اونچائی وزیر اعظم کے کٹ آؤٹ کی اونچائی سے بھی کم ہے!
پورے شہر کو وزیر اعظم کی تصویر والی ہورڈنگس سے ڈھانپ دیا گیا ہے، جن میں پرجاوتسل راجا (اپنی رعایا پر مہربان راجا) کے بھگوان رام کی پناہ میں آنے سے متعلق اشلوک اور تلسی داس کی چوپائیاں لکھی ہوئی ہیں۔
اگر کوئی پردیسی اچانک ایودھیا آپہنچے تو اس کو یہ گمان ہونا فطری ہے کہ 22 جنوری کو ایودھیا میں بھگوان رام آئیں گے یا وزیر اعظم مودی جی کو آنا ہے؟
مودی جی وکاس پُرش ہیں۔ وہ ملک کو ہزاروں سال کی احساس کمتری سے نکال کر دنیا کے سامنے عالمی لیڈر اور وشو گروکے طور پر پیش کرنے والے ہیں۔ ایودھیا کے راجا رام کی کایاکلپ انہی کی عظیم کوششوں سے ممکن ہوئی ہے۔ اس لیے ایودھیا میں تو بھگوان بھی مودی کے رنگ میں رنگے ہیں۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں!
پران-پرتشٹھا کی شاندار تقریب اور چمک دمک میں وکاس یا حصول کے نام پر بے دخل کر دیے گئے کسانوں اور شہری دکانداروں یا گرہستوں کے دکھوں کا ہلکا سا سایہ بھی موجودنہیں ہے۔ ہر چیز کو لیپ پوت کر کے دلکش بنا دیا گیا ہے۔
پرائیویٹ مکانات یا اداروں پر بنے فساڈاور رنگ وروغن سرکاری خرچے پر ہیں۔ بیچ بیچ میں کہیں کہیں کھنڈرات کے بدرنگ دھبے بھی موجود ہیں، جنہیں مقامی زمینداروں اور لینڈ مافیا کی نظر لگ گئی ہے۔ سینکڑوں سالوں سے کرایہ دار رہے معمولی لوگوں کو بے دخل کرکے اپنی زمین واپس حاصل کرنے کا یہ مبارک موقع وہ قطعی ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
ان میں سے ایک آدھ تو رام مندر ٹرسٹ میں بھی ہے، جنہیں اپنی ذات کے قبیلے کے ساتھ سنگھ پریوار اور حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ ایسی بے حس اور بیہودہ جمالیات کے ساتھ ایودھیا کی مستقبل کی ثقافت بنائی جا رہی ہے۔
اس نئی ایودھیا میں عظیم پکھواج نواز بابا پاگل داس یا بیگم اختر کی یادوں کا نام ونشان تک نہیں ہے۔ لوگوں کی بھولنے کی بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایودھیا میں لتا منگیشکر چوک بنایا گیا ہے۔ شاید یہ بھی سناتن کی فتح کے اعلان کی طرح ہے!
ایودھیا میں سب کچھ رام کے رنگ میں رنگا ہواہے۔ ہر خالی دیوار پر رام چرت مانس کے واقعات پینٹ کر دیے گئے ہیں یا لکھ دیے گئے ہیں۔ ایودھیا کی سجاوٹ میں اس بات کو ذہن میں رکھا گیا تھا کہ رام سوریہ ونشی اکشواکو خاندان کے ایک کھشتریہ تھے۔ خود کو رام کی اولاد ماننے والے ایودھیا کے مقامی سوریہ ونشی کھشتریوں میں اس بات پر شدید غصہ ہے کہ وی ایچ پی لیڈر اور مندر ٹرسٹ کے وزیر چمپت رائے نے مندر آندولن میں شامل ان کے سینئر لیڈروں تک کے نام سنگھ پریوار کی ملی بھگت سے ٹرسٹ سے چمپت کر دیے۔
پران-پرتشٹھا تقریب کے دعوت نامہ کی زبان کو لے کر بھی لوگوں میں ناراضگی دیکھی جا رہی ہے۔ ایک طرف چمپت رائے میڈیا میں تقریباً ہر روز اڈانی، امبانی کو ان کے بیٹوں، بہوؤں کے ساتھ اورممبئی کے فلمی ستاروں کو دعوت نامے بھیجنے کی تصدیق کرتے رہتے ہیں اور دوسری طرف مقامی لوگوں کے گھروں میں چاول کے اکشت بانٹتے آر ایس ایس کے کارکنان انہیں پران-پرتشٹھا کی تقریب کے دن اپنے گھروں میں رہنے کی ہدایات دیتے ہوئے گھوم رہے ہیں۔
ان کی دلیل ہے کہ اس دن تقریباً 100 جیٹ طیارے اور ہیلی کاپٹر شہر میں پہنچیں گے۔ بھاری وی وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے مقامی لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا اس لیے وہ گھر بیٹھے ٹی وی پر پران-پرتشٹھا کی تقریب دیکھیں۔ ایسے میں مقامی لوگوں کی حالت بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ جیسی ہو گئی ہے۔
ایودھیا جانے والے ہر راستے پر پولیس ہر روز ان کو ذلیل کرتی ہے۔روزی روزگار تک رسائی مشکل ہے۔ شہر کے جن چند لوگوں کو دعوت نامےملے ہیں وہ اپنی خوش نصیبی پر فخر کرتے پھر رہے ہیں۔
کانگریس کے سابق رکن پارلیامنٹ اور ریاستی صدر نرمل کھتری اس دعوت کو خوش قسمتی قرار دے رہے ہیں اور کانگریس کی قومی قیادت کو ایونٹس کی سیاست سے پرہیز کرنے کا مشورہ بھی دیتے گھوم رہے ہیں۔ صحیح بات بھی ہے۔ ان کے جیسے زمینی لیڈروں نے ہی کانگریس کو زمین دوز ہونے سے بچائے رکھا ہے آخر!
مستقبل ہی بتائے گا کہ 22 جنوری کے بعد ایودھیا میں کتنی تبدیلی آئے گی، لیکن اس بہانے ترقی کے قدیم دور میں رہنے والے ایودھیا کے لوگوں کو جو شہری سہولیات فراہم کی گئی ہیں، وہ یقیناً مثبت ہیں۔
سب خوش ہیں کہ وی ایچ پی لیڈروں کی جانب سے ایودھیا کے لوگوں کو مسلسل شری رام کی فوج کے بندر اور بھالو کہنے کے باوجود آخر کار انہیں بھی انسان ہی سمجھا گیا اور اب وہ بھی آخر کار وندے بھارت اور ہوائی جہاز میں اڑ سکیں گے! پشپک ومان کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مودی جی نے ایودھیا میں ومان اتروایا ہے۔
(انل کمار سنگھ شاعر اور ادیب ہیں)
Categories: خبریں