خبریں

الہ آباد کے جاوید محمد کی آپ بیتی: گھر گرا دیا گیا، مگر امیدیں قائم ہیں

سال 2022 میں بی جے پی لیڈر نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کے بارے میں تبصرے کے خلاف الہ آباد میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں یوپی پولیس نے مقامی کارکن جاوید محمد کو حراست میں لیا تھا اور انہیں ‘ماسٹر مائنڈ’ قرار دینے کے بعد ان کا گھر گرا دیا تھا۔ ان کی کہانی، ان کی زبانی۔

جاوید محمد، پس منظر میں جون 2022 میں ان کے گھر پہنچی جے سی بی مشین ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ٹوئٹر)

جاوید محمد، پس منظر میں جون 2022 میں ان کے گھر پہنچی جے سی بی مشین ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ٹوئٹر)

سال 2022  پیغمبر اسلام کے بارے میں بی جے پی لیڈر نوپور شرما کے تبصرے کے خلاف الہ آباد میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں اتر پردیش پولیس نے ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے رہنما اور شہر میں سی اے اے مخالف مظاہروں کا نمایاں چہرہ  رہےجاوید محمد کو دیگر افراد کے ساتھ ‘کلیدی سازش کار’ بتایا تھا۔ ان کی گرفتاری کے چند ہی دنوں میں انتظامیہ نے ان کے گھر کو بلڈوزر سے مسمار کر دیا تھا۔ ان  کی کہانی، ان کی زبانی۔

آپ کو یاد ہوگا کہ محمد صاحب پر نوپور شرما کے تبصرے کے بعد ملک کے کئی حصوں میں تشدد ہوا تھا۔ الہ آباد میں بھی ہوا تھا۔ اسی  میں پولیس نے مجھے ملزم بنا کر جیل بھیج دیا تھا اور جیل سے نہ نکل پاؤں ، اس کی  ہر ممکن کوشش کی گئی تھی۔

نوپور شرما کے بیان کے بعد کچھ گروپ کے لوگوں نے بھارت بند کا اعلان کیا تھا۔ الہ آباد کو بند کرنے کی بات بھی کی گئی تھی۔ اس سے متعلق  پیغامات وہاٹس ایپ پر خوب  وائرل ہو رہے تھے۔ پیغام میں لوگوں کو الہ آباد کے اٹالہ چوراہے پر جمع ہونے کو کہا گیاتھا۔ یہ اتنا وائرل ہوا تھاکہ یہ پیغام تقریباً ہر کسی کے پاس پہنچ گیا تھا، میرے پاس بھی آیا تھا۔ ظاہر ہے کہ انتظامیہ  کو بھی اس کی خبر رہی ہوگی، اس کے ساتھ ہی  انٹلی جنس اور پولیس کو بھی اس کے بارے میں علم رہا ہوگا۔

اس کے پیش نظر مجھے 10 جون 2022 کی صبح انتظامیہ کی طرف سے فون آیا کہ جمعہ کی نماز کے وقت  ایک بڑا ہجوم جمع ہو سکتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر ایسے لوگوں کو بلایا جائے جو معاشرے پر اثر و رسوخ رکھتے ہوں۔ اگر ایسی کوئی ضرورت پیش آئے تو کیا آپ آسکتے ہیں؟ میں نے انہیں کہا کہ ضرور آئیں گےصاحب۔

اس کے ایک گھنٹے بعد اس وقت کے سٹی ایس پی دنیش سنگھ صاحب کا فون آیا کہ جاوید صاحب یہ وہاٹس ایپ پیغام  وائرل ہو رہا ہے۔ پتہ نہیں چل رہا  ہے کہ کہاں سے آیا۔ آپ اتنا کریں کہ  فیس بک پر ایک پیغام پوسٹ کردیں کہ باہمی ہم آہنگی کو بنائیں رکھیں۔ جمعہ کی نماز ادا کریں اور سیدھے گھر جائیں۔ کہیں بھیڑ نہ لگائیں۔ جو لوگ بھی میمورنڈم یا شکایت دینا چاہتے ہیں وہ بعد میں دے دیں، انتظامیہ لے گی۔ یہ پیغام پوسٹ کرنے کے بعد میں محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا۔

تصویر: اسکرین گریب، جاوید محمد فیس بک

تصویر: اسکرین گریب، جاوید محمد فیس بک

نماز کے بعد ٹی وی سے پتہ چلا کہ وہاں اینٹ اور پتھر چل  رہے ہیں۔ پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوگئی ہے۔ یہ دیکھ کر ہم کہیں اور نہیں گئے۔ گھر میں رہے۔ اس مظاہرے سے میراکوئی  لینا دینا نہیں  تھا۔ بے وجہ نکلنے  کا کوئی مطلب  نہیں تھا۔

اس کے بعد 2.30-3 بجے کے درمیان ایس ایس پی الہ آباد کا فون آیا۔ ان کا پہلا سوال یہی تھا کہ آپ  کہاں ہیں؟ میں نے کہا، گھر پر ہی ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں تو بہت  اینٹ پتھر چل رہا ہے۔ لوگوں کو روکنے کے لیےآپ کویہاں آنا چاہیے۔ میں نے ان سے کہا کہ اب جب  اینٹ پتھر چل  چکا ہےتو پھر لاء اینڈ آرڈر  کا معاملہ ہو گیا۔ اس وقت کوئی کسی کی نہیں سنے گا۔

اچھا ہوا کہ میں وہاں نہیں گیا۔ ورنہ فوٹو ووٹو کھینچ کر وہ اس کو ہی ثبوت بنا لیتےاور کہتے کہ مظاہرین میں میں بھی  شامل  تھا۔

یہ معاملہ ختم ہو گیا۔ ملحقہ مسجد میں مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد ایک  ضروری کام سے قریب میں ہی اپنے ایک  جاننے والے سے ملنےچلا گیا۔ جب میں واپس آیا تو دیکھا کہ دو تھانوں کی پولیس ہمارے دروازے پر کھڑی ہے۔ جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا تھا، وہ  جگہ ان دونوں تھانہ  حلقہ کے درمیان تھی۔

پڑوسی نے کہا کہ جاوید بھائی یہیں ٹھہریں۔ جب یہ لوگ چلے جائیں توتب جائیے گا۔ میں نے کہا کیوں؟ میرےدل  میں کوئی چور تھا  ہی نہیں  تو ان سے پوچھنے چلے  گئے۔ کیوں آئے ہیں جناب؟

دونوں تھانوں کے انسپکٹر مجھے سماجی کاموں کی وجہ سے جانتے تھے۔ تو انہوں  نے کہا کہ صاحب  نےبات چیت  کے لیے بلایا ہے۔ پھر ہم کپڑے بدل کر ان کے ساتھ چلے گئے۔ انہوں  نے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا۔ میں نے کہا کہ اپنی  اسکوٹی  سے آتے ہیں۔ تھانے میں کوئی اہلکار موجود نہیں تھا۔ تو انہوں  نے کہا کہ ہمیں پولیس لائن سے چلنا پڑے گا۔صاحب لوگ وہاں  ہیں۔

پولیس لائن پہنچا تو دیکھا کہ چوراہے  سے پکڑ کر30-35 لوگ  پہلے ہی بٹھا ئے گئے تھے۔ یہ رات آٹھ بجے کے قریب کی بات ہوگی۔ وہاں ان لوگوں کے ساتھ مجھے بھی حراست میں لے لیا گیا۔ میرے پوچھنے پر بھی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیوں روک رکھا ہے۔ موبائل مجھ سے لے لیا۔

میں سوچ رہا تھا کہ گھر والے ابھی  تک پریشان ہوں گے۔ انہیں  میرے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل پا رہا ہوگا۔ اسی دوران رات ساڑھے گیارہ بجے خواتین پولیس ہمارے گھر جاپہنچی اور میری بیوی اور بیٹی کو یہ کہہ کر تھانے لے گئی کہ صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ مجھ سے کوئی بات نہیں ہو پائی تھی ، اس لیے وہ بھی پریشان تھے ۔ تھانے لانے کے بعد پولیس نے انہیں بھی حراست میں  لے لیا۔ 36 گھنٹے تک روکے رکھا۔

اگلی صبح اخبار میں دیکھا کہ ‘ اٹالہ بوال (ہنگامہ آرائی )آرائی کے  ماسٹر مائنڈ جاوید محمد ۔’ دوسرے دن سنیچرکی شام مجھے نینی جیل بھیج دیا گیا۔ اسی اخبار میں پڑھا کہ ڈی جی پی اتر پردیش نے کہا ہے کہ پتھر بازی میں ملوث لوگوں کے مکانات گرائے جائیں گے۔ تب بھی میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ میرا گھر گرا دیا جائے گا، کیونکہ میں نہ تو اس واقعے میں ملوث تھا اور نہ ہی اس سے پہلے کبھی ایسا کوئی کیس ہوا تھا۔

…پھر اگلے دن اتوار کومیں نے دل پر پتھر رکھ کر جیل میں  ٹی وی پر اپنے پورے گھر کے مسمار ہونے کا ہولناک منظر دیکھا۔

جاوید محمد کا گھر (بائیں) منہدم ہونے سے پہلے اور بعد میں۔ (تصویر بہ شکریہ: ہرکارہ)

جاوید محمد کا گھر (بائیں) منہدم ہونے سے پہلے اور بعد میں۔ (تصویر بہ شکریہ: ہرکارہ)

اس دوران مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میری بیوی اور بیٹی کہاں ہیں۔ کس حال میں ہیں؟ میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ انہیں بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ میرے کچھ دوستوں نے ان  کی رہائی کے لیے کوشش کی، چنانچہ انہیں  اتوار کی صبح 9 بجے رہا کر دیا گیا۔ انہیں  کہا گیا کہ گھر مت جانا۔ تمہارے  گھر پر بلڈوزرآج ہی  چلنے والا ہے۔

سوچیے ذرا، میں جیل میں۔ میری بیوی اور بچوں  حراست میں۔ اور ہم میں سے کسی کو کوئی نوٹس تک نہیں ملا۔ ہمیں پتہ بھی نہیں چلا اور سنیچر کی رات انہوں نے میرے نام سے گھر پر نوٹس چسپاں کر دیا۔ اتوار کو بلڈوزر بھی چلا دیا۔انہوں نے یہ بھی پتہ نہیں کیا کہ گھر کس کے نام پر ہے۔ میرا ہے یا نہیں؟ وہ گھر میری اہلیہ فاطمہ پروین کے نام  سےہے۔

اس کے بعد اور پریشان کرنے کے لیے مجھے دیوریا جیل منتقل کر دیا گیا۔ ایک ایسی جیل جہاں خونخوار مجرموں کو رکھا جاتا ہے۔ میرے خلاف پانچ مقدمات بنائے گئے اور مجھے جیل بھیج دیا گیا۔ جب میں نے دیکھا کہ ایک ایک کر کے سب میں  ضمانت مل  رہی ہے 3 مقدمات اوردائر کر دیے۔ جب دیکھا کہ ان کی بھی ضمانت ہو جائے گی تو انہوں نے دفعات بدلنا شروع کر دیں۔ این ایس اے لگا دیا کہ ایک سال تک  ضمانت ہی نہ مل سکے۔ ایک سال کے بعد جب این ایس اے اور تمام ضمانتیں ختم ہوگئیں، تو گینگسٹر ایکٹ میں پھنسا دیا۔

الہ آباد انتظامیہ یا حکومت، چاہے جو بھی اس میں رہا ہو، اس کی کوشش  تھی کہ میں  جیل سے باہر نہ نکل پاؤں۔ حکومت اس لیے کہہ رہاہوں کہ یہ دیکھنا اس کا ہی  کام ہے کہ اس کے تحت انتظامیہ کیسا کام کر رہی ہے۔

جب گینگسٹر ایکٹ میں بھی لگاکہ ضمانت مل جائے گی تو آرمس ایکٹ لگا دیا گیا۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ میرے گھر سے دو کٹے(بندوق) ملے ہیں۔ اگرانہیں  گھر گراتےوقت ہی کٹے  ملے تھےتو انہوں نے اسی وقت یہ کیوں نہیں کہا کہ میرے گھر سے اسلحہ بھی ملا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب مجھے ہراساں کرنے کے لیے کیا جا رہا تھا۔

دیوریا جیل میں میں نے دیکھا کہ بہت سے غریب قیدی صحیح  قانونی مدد نہ ملنے کی وجہ سے جیل میں ہیں۔ لہٰذا حسب عادت میں نے ہر کسی کو بلا لحاظ مذہب و ملت قانونی مدد فراہم کی جس کی وجہ سے 50 لوگوں کی ضمانت ہو گئی۔ الہ آباد سے کپڑے وغیرہ منگواکر جیل کے غریب قیدیوں میں تقسیم کر دیے۔ طویل عرصہ  تک جیل میں امامت بھی کی۔

میری اہلیہ نے اپنا گھر گرائے جانے کے 10 دن بعد اپنے گھر کی غیر قانونی مسماری کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی۔ لیکن کوئی بحث نہیں ہوئی۔ کیس لسٹنگ کے لیے 10 بار عدالت گیا، لیکن حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے کوئی پیچ پھنسا دیا۔ اس معاملے پر اب تک کوئی بحث نہیں ہوئی ہے۔

سپریم کورٹ میں جمعیۃ علما نے جو کیس ڈال رکھاتھا، اس میں میرے کیس کا حوالہ تھا، جس میں ابھی چند روز قبل فیصلہ آیا ہے۔ میں بھی آخری تاریخ کو اس میں پیش  ہوا تھا۔

ہمارے خاندان کے ساتھ سب سے بری بات یہ ہوئی کہ مکان گرانے کے بعد کوئی رشتہ دار، پرسان حال  مدد کے لیے آگے نہیں آیا۔ یہ سب یا تو حکومت سے خوفزدہ تھے یا سوچ رہے تھے کہ وہ ایک ایسے شخص کی مدد کیوں کریں جس کے خلاف اتنے مقدمات ہیں۔ میری بیوی اور بیٹی رو رو کر مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ تم نے ایسا کیا کر دیا ہے جس کی وجہ سے ہم در در بھٹک رہے ہیں۔ کیا لوگوں کی مدد کرنا اتنا بڑا جرم ہے؟ محتاج ہو گئے ہیں۔ کوئی رشتہ دار یا پڑوسی مدد کے لیے آگے نہیں آرہا ہے۔ کرایہ  پر گھر نہیں مل رہا۔ سب منع  کر دے رہے ہیں۔ ہماری  سمجھ  میں نہیں آرہا – کہاں جائیں؟ کیا کریں؟

ادھر گھر پر بلڈوزر چل جانے کے بعد پولیس والوں  بہت سارا  سامان سڑک پر پھینک دیا تھا۔ ان میں سے اکثر غائب ہو گئے۔ پتہ نہیں پولیس والے لے گئے یا کوئی راہگیر یا کوئی پڑوسی۔ یا یپھر ہ بندر بانٹ ہو گیا۔ بہت سارا سامان ان لوگوں نے مکان سے باہر نکالا ہی نہیں تھا۔ وہ زمین دوز ہوئے مکان کے ساتھ اسی میں دفن ہو گیا۔ میرے پاس ان تمام مظالم سے لڑنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ وہ ہے قانونی راستہ ہے اور وہ  میں لڑ رہا ہوں۔

سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ بہت اچھا ہے۔ اس سے کسی کاآشیانہ اجاڑنے پر روک لگے گی۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ ملزم یا قصوروار ہونے پر کسی کا گھر نہیں اجاڑا جا سکتا، کیونکہ اس کی سزا تو آپ  دے  ہی رہے  ہوتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اب پولیس انتظامیہ کے لیے یہ کہنا آسان نہیں ہوگا کہ بلڈوزر کی کارروائی سے پہلے نوٹس  دے دیا تھا، کیونکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں سیلف جنریٹیڈ کوڈ کے ساتھ کئی اور کام کرنے کو بھی کہا ہے۔ جیسے- بلڈوزر ایکشن کیوں ضروری ہے؟ کیا ڈھانچہ گرانے کا عمل بھی بتانا پڑے گا؟ اس کے علاوہ اگر ہدایات کی خلاف ورزی کی گئی تو افسر کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور نقصان کی بھرپائی  افسر سے وصول کی جائے گی۔

(یہ آپ بیتی’ہرکارہ‘پر شائع ہوئی ہے۔)