خبریں

مہاراشٹر میں تین ماہ سے بھی کم عرصے میں 800 سے زیادہ فرقہ وارانہ واقعات رونما ہوئے: پولیس

مہاراشٹر میں اس سال جنوری سے اب تک فرقہ وارانہ تشدد کے 823 واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ایک افسر نے بتایا کہ جنوری میں فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں ریاست بھر کے مختلف تھانوں میں کل 156 معاملے درج کیے گئے، فروری میں 99 اور مارچ کے وسط تک 78 معاملے درج کیے گئے۔

ناگپور میں سوموار، 17 مارچ، 2025، کووی ایچ پی-بجرنگ دل کے 'احتجاج' کے بعد جھڑپوں کے بعد کارروائی کرتی  پولیس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

ناگپور میں سوموار، 17 مارچ، 2025، کووی ایچ پی-بجرنگ دل کے ‘احتجاج’ کے بعد جھڑپوں کے بعد کارروائی کرتی  پولیس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مہاراشٹر میں اس سال جنوری سےاب تک فرقہ وارانہ تشدد کے 823 واقعات  رونما ہوچکے ہیں، جن میں ناگپور کا تشدد بھی شامل ہے، جہاں اورنگ زیب کے مقبرے کو ہٹانے اور سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلائے جانے سے نئی پریشانیاں پیدا ہوئی ہیں۔

معلوم ہو کہ حالیہ دنوں میں چھترپتی سنبھاجی نگر ضلع میں واقع مغل بادشاہ کے مقبرے کو منہدم کرنے کے دائیں بازو کی تنظیموں کے مطالبے کولےکر نندوربار، پونے (دیہی)، رتناگیری، سانگلی، بیڈ اور ستارا اضلاع سمیت دیگر علاقوں میں پر فرقہ وارانہ بدامنی کا مشاہدہ کیا گیا ۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق ، سوموار کو ایک اہلکار نے بتایا کہ جنوری میں فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں ریاست بھر کے مختلف پولیس اسٹیشنوں میں کل 156مجرمامہ معاملے درج کیے گئے، فروری میں 99 اور مارچ کے وسط تک 78 معاملے درج کیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ 102 مقدمات مذہبی وجوہات کی بنا پر قابل دست اندازی جرائم  کے زمرے میں درج کیے گئے۔

ایک افسر نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ 2024 میں مہاراشٹرا میں 4836 ہندو مسلم فرقہ وارانہ جرائم ہوئے، جن میں سے 170 واقعات قابل  دست اندازی جرائم تھے اور 3106 ناقابل دست اندازی جرائم تھے۔ ان میں سے 371 واقعات مذہبی توہین سے متعلق تھے۔

معلوم ہو کہ 17 مارچ کو وسطی ناگپور کے کئی علاقوں میں ہجوم نے ہنگامہ آرائی کی، جس کے بعد بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد نے اورنگ زیب کے مقبرے کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرہ کیا۔ ان کا دعویٰ تھاکہ اورنگ زیب کا مقبرہ ‘درد اور غلامی’ کی علامت ہے۔

قابل ذکر ہے کہ وزیر اعلیI دیویندر فڈنویس نے حال ہی میں ریاستی اسمبلی میں کہا تھا کہ چھترپتی سنبھاجی مہاراج کی زندگی پر مبنی وکی کوشل اسٹارر فلم ‘چھاوا’ نے اورنگزیب کے خلاف لوگوں کے جذبات کو ایک بار پھرسے بھڑکا دیا ہے۔

وہیں، پولیس نے سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلانے اور اشتعال انگیز پوسٹ کو لوگوں کو مشتعل کرنے والے اہم عوامل کے طور پرنشان زد کیا ہے۔

مہاراشٹر سائبر نے فیس بک، انسٹاگرام، ایکس اور یوٹیوب پر 144 لنکس کی نشاندہی کی ہے، جہاں ناگپور فسادات سے متعلق اشتعال انگیز مواد پوسٹ کیا گیا تھا۔

ایک اہلکار نے کہا، ’37 لنکس کو ہٹا دیے گئے اور 107 لنک کے خلاف نوٹیفکیشن بھیج کر کارروائی کی گئی۔’

فرقہ وارانہ کشیدگی سے پرامن کونکن خطہ کے لوگ حیران

اہلکار نے رتناگیری ضلع کے راجا پور قصبے میں ایک واقعہ کا حوالہ دیا، جہاں ہولی کا جلوس نکالنے والے لوگوں نے مبینہ طور پر جامع مسجد کے سامنے ڈانس کیا اور رام، مہادیو، شیواجی مہاراج اور سنبھاجی مہاراج کے نام کے نعرے لگاتے ہوئے مسجد کےگیٹ کو نقصان پہنچایا۔

اس واقعے کا ویڈیو مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر وائرل ہوگیا تھا۔ اہلکار نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر مختلف پوسٹ میں جھوٹا دعویٰ کیا گیا کہ مسجد پر حملہ کیا گیا، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ نہ صرف رتناگیری بلکہ کونکن خطہ بھی کئی دہائیوں سے ہندو مسلم ہم آہنگی اور تہوار کی روایات کو برقرار رکھنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ رتناگیری، سندھو درگ اور رائے گڑھ کے ساحلی اضلاع میں ہندو مسلم ہم آہنگی کی مضبوط جڑیں ہونے کے باوجود مسجد کا واقعہ ایک استثنیٰ تھا۔

اہلکار نے کہا، ‘کونکن کے لوگ پرامن بقائے باہمی میں یقین رکھتے ہیں اور تہواروں کو مل کر منانا پسند کرتے ہیں۔ ساحلی علاقے میں ہندو مسلم تنازعہ غیرمعمولی واقعہ ہے۔’

راجا پور میں ہندو مسلم اتحاد کی گہری روایات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہولی کی آگ میں استعمال ہونے والے تاڑ کے درخت کو پہلے مسجد میں لے جانا پڑتا ہے۔

راجا پور کے رہائشیوں نے فرقہ وارانہ فسادات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ راجا پور کے رہائشی منا سروے نے کہا کہ ہندو عید منانے کے لیے اپنے مسلمان دوستوں کے گھرجاتے ہیں، جس کے بدلے میں مسلمان بھی گنیش اتسو، ہولی اور گرام  دیوتا کی پالکی کی یاترامیں شرکت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘کونکن میں بہت سے مسلمانوں کو ہندو دیوتاؤں کی پہلی عبادت کرنے کا حق ہے۔ راجا پور میں وہ پالکی پر ناریل چڑھاتے ہیں۔’

ہندو مسلم ہم آہنگی کی اسی طرح کی روایات مہاراشٹر کے دیگر اضلاع میں بھی موجود ہیں، جہاں ہندو عرس اور پیروں کے دوران اپنی عقیدت پیش کرتے ہیں اور اجتماعی دعوتیں کھاتے ہیں۔

ساحلی ضلع رتناگیری کے رہنے والے علی میاں قاضی نے کہا، ‘ہم سب امن پسند لوگ ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اپنے آباؤ اجداد کی شروع کردہ روایات کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ساتھ آتےہیں۔’

قاضی نے دعویٰ کیا کہ کچھ سیاستدان فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے نفرت کرتے ہیں اور اشتعال انگیز تقاریر اور فرقہ وارانہ بیانات کے ذریعے کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

انہوں نے سندھو درگ ضلع کے ایک گاؤں میں باہر کے لوگوں کی طرف سے تجارت پر پابندی  لگانے پر دکھ کا اظہار کیا، جہاں ایک اسکریپ ڈیلر کے 15 سالہ بیٹے کی جانب سے چیمپئنز ٹرافی کرکٹ فائنل کے دوران مبینہ طور پر پاکستان کے حق میں نعرے لگانے کے بعد کشیدگی پھیل گئی تھی ۔

انہوں نے کہا، ‘اس طرح کے بائیکاٹ سے کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ ان سے بچنا چاہیے۔’