خاص خبر

دہلی دھماکہ: جو کبھی گھر نہ لوٹ سکے …

سوموار کو دہلی کے لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے قریب کار بم دھماکے میں اپنی جان گنوانے والوں میں یومیہ اجرت کرنے والے مزدور سے لے کر خواب دیکھنے والے نوجوان اور اکیلے اپنی کمائی سےگھر سنبھالنے والے ایسے کئی لوگ شامل ہیں، جن کے اہل خانہ کی زندگی اب ہمیشہ کے لیے بدل گئی ہے۔

لال قلعہ کے قریب ہوئے دھماکے میں جان گنوانے والے زیادہ تر لوگ اپنے خاندان کے واحد سہارا تھے۔ (تمام تصویریں: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی کے لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے قریب سوموار (10 نومبر) کو کار بم دھماکے میں کم از کم 8 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں ۔

دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ آس پاس کھڑی کئی کاریں اور آٹورکشہ آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ دھماکے کی آواز دور تک سنی گئی جس سے وہاں موجود افراد اور آس پاس کے علاقوں میں ڈر کا ماحول بن گیا۔

نیو انڈین ایکسپریس کی  رپورٹ کے مطابق ، دھماکے کے متاثرین میں یومیہ اجرت کرنے والے مزدور سے لے کر خواب دیکھنے والے نوجوان اور اکیلے اپنی کمائی سےگھر سنبھالنے والے ایسے کئی لوگ شامل ہیں، جن کے اہل خانہ کی زندگی اب ہمیشہ کے لیے بدل  گئی ہے۔ وہ اب بے سہارا ہو گئے ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں محمد جمن، محسن ملک، دنیش مشرا، لوکیش اگروال، اشوک کمار، نعمان، پنکج ساہنی اور امر کٹاریہ کے نام شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ای-رکشہ اور کیب ڈرائیور تھے۔ کچھ کے لال قلعہ کے علاقے میں کاروبار تھے، جبکہ کچھ  کسی سے ملنے کے انتظار میں یہاں آئے تھے، جو پھر واپس نہیں لوٹ سکے۔

نعمان انصاری

اتر پردیش کے شاملی کے رہنے والے 23 سالہ نعمان انصاری اپنے خاندان کے سب سے بڑے سہارا تھے۔ اپنے بڑے بھائی فرمان کی کڈنی خراب ہونے کے بعد خودکاسمیٹکس کی دکان چلا کر بھائی کے علاج اور گھر کی ضروریات پوری کر رہے تھے ۔

ان کے والد عمران ٹائل مستری کا کام کرتے ہیں۔ ان کے خاندان میں ان کی ماں، ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ نعمان سوموارکو دہلی آئے تھے اور اپنےچچازاد بھائی امان کے ساتھ صدر بازار اور کناری بازار میں سامان خریدنے گئے تھے،تبھی دھماکہ ہوا۔

نعمان کے اہل خانہ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

اس حادثے میں امان شدید زخمی ہو گئے جبکہ نعمان کی موت ہو گئی۔

گھر والوں نے امان کو فون کرنے کی کوشش کی، لیکن ایک اجنبی نے فون اٹھایا اورانہیں خبر دی۔ نعمان کی لاش اتنی مسخ تھی کہ گھر والوں نے ان کی سرخ قمیض سے ان کی  شناخت کی۔

پنکج سہنی

بہار کے سمستی پور کے رہنے والے 22 سالہ کیب ڈرائیور پنکج سہنی لال قلعہ کے دھماکے میں مارے گئے۔ وہ اپنے بیمار والد رام بالک کے ساتھ گھیورا، کنجھا والا، دہلی میں رہتے تھے، جو دمہ اور دل کی بیماری میں مبتلاہیں۔

پنکج ایک مسافر کو چھوڑنےپرانی دہلی ریلوے اسٹیشن گئے تھے اور واپسی کے دوران دھماکے کی زد میں آگئے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

بارہویں جماعت کے بعدپڑھائی چھوڑ کر پنکج نے گھر کی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔وہ اپنے خاندان کی کفالت اور اپنے بھائی کی تعلیم کا خرچ اٹھانے کے لیے کیب چلاتے تھے۔

سوموار کو وہ ایک مسافر کو چھوڑنے پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن گئے تھے اور واپسی پر ان کی گاڑی  دھماکے کی زد میں آ گئی۔ بعد میں ان کی لاش کی شناخت گاڑی کے رجسٹریشن نمبر سے ہوئی۔ ان  کا خاندان اس سانحے کے بعد ٹوٹ چکا ہے۔

دنیش کمار مشرا

اتر پردیش کے رہنے والے 36سالہ دنیش کمار مشرا چاوڑی بازار میں شادی کے کارڈ کی دکان پر کام کرتے تھے اور چاندنی چوک میں اپنے بھائیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ دنیش اپنی بیوی اور تین بچوں کے بہتر مستقبل کی تلاش میں دہلی آ گئے تھے۔ دھماکے کی خبر پھیلی تو ان کے اہل خانہ نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی،لیکن ان کا فون بند آ رہاتھا۔

اہل خانہ کو دیر رات ایل این جے پی اسپتال بلایا گیا، جہاں انہوں نے انہیں مردہ حالت میں پایا۔ دنیش اپنے خاندان کے واحد کمانے والے تھے، جو اپنے بچوں کی تعلیم، اپنے والدین، بہن بھائیوں اور بیوی کی کفالت کر رہے تھے۔ وہ گزشتہ چار سال سے دہلی میں کام کر رہے تھے۔

محسن

چاندنی چوک میں ای-رکشہ ڈرائیور محسن جائے وقوعہ کے قریب کام کرتے ہوئے دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔ ان کے دوست افتخار، جو  اسی علاقے میں کام کرتے تھے، نے جائے وقوعہ سے محسن کا رکشہ ملنے کے بعد اس خبر کی تصدیق کی۔

بتایا جا رہا ہے کہ محسن اپنے گھر میں  واحد کمانے والے تھے۔ پسماندگان میں بیوی اور دو بچےہیں۔

محسن نے دن رات محنت کر کےبھیڑ بھاڑ والی گلیوں میں سواریوں کولانے لے جانے کا کام کام کرتے تھےاور اپنی معمولی کمائی سے اپنے خاندان کی کفالت کرتے تھے۔ ان کی ناگہانی موت نے ان کے خاندان کو بے حال کر دیا ہے۔

جمن

لال قلعہ کے قریب ہلاک ہونے والوں میں ایک ای- رکشہ ڈرائیور جمن بھی شامل ہیں۔ ان کے چچا محمد ادریس نے اخبار کو بتایا کہ جب دھماکے کی جگہ پر ان کے رکشے کا جی پی ایس بند ہو گیا تو خاندان تشویش میں مبتلا ہو گیا۔

انہوں نے رات بھر ہسپتالوں میں چھان بین کی اور پولیس کی طرف سے ان کی موت کی تصدیق کرنے سے پہلے گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔ اہل خانہ کو ان کی لاش اتنی بری طرح مسخ شدہ ملی کہ پہچان کرنا مشکل تھا۔

فون میں جمن کی تصویر دکھاتے اہل خانہ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

جمن کی بیوی جسمانی طور پر معذور ہے، وہ اپنی یومیہ اجرت سے اپنے خاندان اور تین بچوں کی کفالت کررہے تھے۔ وہ خاندان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھے۔

اشوک کمار اور لوکیش اگروال

لال قلعہ کے دھماکے میں امروہہ، اتر پردیش کے دو دوست اشوک کمار اور لوکیش اگروال بھی مارے گئے۔ اشوک دہلی میں رہتے تھے اور دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن (ڈی ٹی سی) کے کنٹریکٹ کنڈکٹر کے طور پر کام کرتے تھے، جبکہ لوکیش اگروال امروہہ میں کھاد کی دکان چلاتے تھے۔

حادثے کے وقت وہ جس موٹر سائیکل پر سوار تھے وہ اس کار کے بالکل پیچھے تھی جس میں دھماکہ ہوا۔

واقعہ کے دن لوکیش اپنی زخمی ساس کی عیادت کے لیے دہلی کے سر گنگا رام اسپتال آئے تھے اور بعد میں اشوک سے ملاقات کی تھی۔ تاہم کچھ ہی دیر بعد ہوئے دھماکے نے دونوں دوستوں کی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔

پولیس نے موٹرسائیکل کے رجسٹریشن کے ذریعے اشوک کے خاندان کا پتہ لگایا۔ انہیں اچھا دوست بتایا جا رہا ہے جو ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں کام آتے تھے۔

اشوک کے خاندان  میں ان کی بیوی سونم، ایک 3 سالہ بیٹا اور دو بیٹاں ہیں۔ اشوک کے والد کی پہلے ہی موت ہو چکی ہے ، ماں بیمار  رہتی ہیں، ان کے چھوٹے بھائی ذہنی طور پر غیر مستحکم ہیں۔ اشوک خاندان کے واحد کمانے والے تھے۔ وہ رات کو کنڈکٹر کے طور پر کام کرتے تھے اور دن میں اسکول وین چلاتے تھے۔

اس حادثے کے بعد ان کا خاندان صدمے میں ہے۔

امر کٹاریہ

جنوبی دہلی کے سری نواسپوری کے رہنے والے 34 سالہ امرکٹاریہ بھی دھماکے کی زد میں آگئے۔ وہ بھاگیرتھ پیلس میں ایک پارٹنر کے ساتھ ہول سیل دوائیوں کی دکان چلاتے تھے۔ سوموار کو، معمول کے مطابق، اپنی دکان بند کرکے شام 6:45 کے قریب اپنے والد کو فون پر اطلاع دی کہ وہ گھر کے لیے نکل رہے ہیں۔ یہ ان کی اپنے گھر والوں سے آخری بات چیت تھی۔

امر کے خاندان میں والدین، بیوی اور ایک تین سالہ بیٹا ہے۔ اہل خانہ رات بھرہسپتالوں کے چکر لگاتے رہے، لیکن کوئی اطلاع نہیں ملی۔ صبح مردہ خانے میں باپ نے بیٹے کی شناخت  کپڑوں اور بازو پر بنے ٹیٹو سے کی۔

والد نے میڈیا کو بتایا کہ امر ان کا واحد سہارا تھے۔ اب ان کی بڑھاپے کی لاٹھی ٹوٹ گئی ہے۔ساتھ ہی تین سال کے اس معصوم سے والد کا سایہ بھی چھن گیا، جسے ابھی دنیا کی سمجھ بھی نہیں ہے۔

غورطلب ہے کہ اس دھماکے سے قبل جموں و کشمیر پولیس نے ہریانہ اور اتر پردیش میں کئی لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔ مزید کئی افراد کو حراست میں  لیا گیا ہے۔ تاہم، ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان گرفتاریوں کادہلی کار بم دھماکے سے کوئی لنک ہے یا نہیں۔