فکر و نظر

مودی کے قریبی نکھل مرچنٹ کے بارے میں کوئی بات کیوں نہیں کرتا؟

جہاں باقی کارپوریٹ کھلاڑی صرف سرخیوں میں رہتے ہیں ،وہیں صحیح معنوں میں اچھے دن ایک انام سی فرم سوان انرجی کے پروموٹر کے آئے ہیں ۔جن کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے پبلک سیکٹر کی کمپنیاں کھڑی ہیں۔

nikhil-merchant-lng-modi

نئی دہلی : نریندرمودی کے ہندوستان کے سب سے اثرو رسوخ والےکاروباریوں میں سے ایک کا نام آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا۔  انٹرنیٹ کو کھنگالئیے، تو آپ کو تقریباً 50 سالہ عمر کے صنعت کار نکھل وی مرچنٹ کی ایک بھی تصویر یا پروفائل، ان کا کوئی انٹرویو یا ان کے کسی ایک بیان کو تلاش کرپانے کے لئے کافی مشقت کرنی پڑے‌گی؛جبکہ نریندر مودی کے ساتھ ان کی قربت اورمرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ   بھارتیہ جنتا پارٹی کے بڑے لوگوں  تک ان کی پہنچ ایک کھلا راز ہے۔

مرچنٹ اور جن کے ساتھ وہ کام کرتے ہیں، ان کے بارے میں انجان بنے رہنا یا خود کو انجان دکھانا اتنا ضروری ہے کہ جب دی وائر نے پبلک سیکٹر انرجی کمپنیوں کے ساتھ ان کے لین دین کے بارے میں لکھنا چاہا، تو ہمارے پاس پہلی صف کے سیاستدانوں اورصنعتی دنیا کے بڑے لوگوں کی طرف سے دوستانہ فون آنے لگے، جس میں ہمیں یہ صلاح دی گئی کہ وہ اتنی توجہ دئے جانے کے لائق نہیں ہیں۔  ان کی یہ صلاح موجودہ نظام میں ان کی اہمیت اور اثر و رسوخ کو  بتانے کے لئے کافی تھی۔

2014 کی شروعات میں، یعنی کانگریس کی قیادت والی منموہن سنگھ حکومت کے آخری دنوں میں محکمہ انکم ٹیکس نے دو اہم تفتیش کی شروعات کی تھی، جس نے اس وقت سیاسی گلیاروں میں بہتوں کا دھیان کھینچا تھا۔  ان میں سے ایک جانچ‌کے نشانے پر تھے گجرات کے ارب پتی گوتم اڈانی، جن کو نریندر مودی کے قریبی حامی کے طور پر دیکھ جاتا ہے۔  اس وقت نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے اور ان کو بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کا امیدوار بھی اعلان کیا جا چکا تھا۔

اس کے علاوہ دو دیگر چھاپے سوان انرجی (Swan Energy)پر مارے گئے تھے، جس کے بارے میں کم ہی لوگوں کو پتا تھا اور اپنے نام کے برعکس یہ خاص طور پر ٹیکسٹائل اور پراپرٹی کے کاروبار میں لگی ہوئی کمپنی تھی۔  سوان انرجی کے سربراہ ہیں نکھل مرچنٹ اور ان کے سسر نوین بھائی دوے، جنہوں نے 1991 میں اس کو گوئینکا(Goenka) گروپ سے خریدا تھا۔

میڈیا کی ساری سرخیاں اڈانی کے حصے میں گئیں۔  اس کی وجہ کانگریس کی اس انتخابی مہم کو مانا جا سکتا ہے، جس کا دعویٰ تھا کہ اگر مودی چن لئے جاتے ہیں، تو وہ ‘ اڈانی اور امبانی ‘ کے لئے حکومت چلائیں‌گے، کیونکہ ان دونوں کو وزیر اعظم کے لئے مودی کی دعوےداری کے حامی کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔  بےحد دلچسپ یہ ہے کہ سوان انرجی پر پڑے چھاپے کی طرف میڈیا کا بالکل بھی دھیان نہیں گیا، جبکہ مودی حکومت کے ساتھ ا س کے رشتے پر کچھ سال پہلے گجرات ہائی کورٹ  میں ایک پی آئی ایل بھی دائر کی گئی تھی۔

حکومت میں آنے کے ایک مہینے کے اندر، مئی، 2014 میں ہی، نئی حکومت نے تب کے ریونیو سکریٹری راجیو ٹکرو کا حساب کرتے ہوئے ان کا تبادلہ م ڈونر (Development of the North East Region) میں کر دیا۔  وہاں سے ان کو جلدہی اور بھی زیادہ حاشیے پر پڑےوزارت اقلیتی فلاح و بہبود میں بھیج دیا گیا۔  گجرات کیڈر کے افسر ٹکرو کی کبھی مودی کے ساتھ بن نہیں پائی۔  وہ محض تین مہینے ریونیو سکریٹری رہے تھے۔  حالانکہ، ان کے تبادلے کو روٹین قرار دیا گیا تھا، مگر سیاسی گلیارے میں یہ گفتگو عام تھی کہ ان کو ٹیکس چھاپوں کا ذمہ دار مانا گیا تھا، جس کے بارے میں نئی حکومت کا یہ ماننا تھا کہ انہوں نے کانگریس رہنماؤں کے کہنے پر ایسا کیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ آخر نکھل مرچنٹ ہیں کون اور آخر وہ اہم کیوں ہے کہ سینئر وزیر اور نوکرشاہ ان کا نام ایک ایسے آدمی کے طور پر لیتے ہیں، جو کام کروا سکتا ہے؟رجسٹرار آف کمپنیز کے پاس دستیاب اطلاع کے مطابق مرچنٹ 18 کمپنیوں کے ڈائریکٹر ہیں۔  ان میں سے زیادہ تر کمپنیاں چھوٹا موٹا کاروبار کرتی ہیں یا کوئی کاروبار نہیں کرتیں۔  نہ ان کے پاس کوئی ملازم ہیں اور نہ دکھانے کے لائق کوئی اثاثہ (اسیٹس) ہے۔  وہ سب مہاراشٹر، مغربی بنگال اور گجرات میںرجسٹرڈ ہیں۔  جب مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے، تب مرچنٹ کم سے کم ان کے ایک غیرملکی دورےکے دوران تجارتی وفدکے ممبر کے طور پر گئے تھے۔  ان کے ساتھ جانے والوں میں ٹارینٹ گروپ کے چیئر مین سدھیر مہتہ، اڈانی ولمر گروپ کے ایم ڈی پرنو اڈانی، شیل، ہجیرا کے سی ای او نتن شکلا، جبلینٹ کے ہری بھارتی اور ایسّار گروپ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جئیش بچ شامل تھے۔

سوان انرجی بی جے پی کو چندہ دینے والوں میں بھی رہی ہے۔  2012-13 کے دوران اس نے 2 لاکھ اور 50،000 ہزار روپےکا عطیہ کیا تھا ۔  حالانکہ، اب مرچنٹ اس سے انکار کرتے ہیں۔  انہوں نے دی وائرکو ایک انٹرویو میں کہا، ‘ میں نے بی جے پی کو کبھی کوئی سیاسی چندہ نہیں دیا ہے۔  ‘

سی وی سی بھی جن کا حال چال پوچھنے جاتے ہیں

بطور وزیر اعظم نریندر مودی کے غیرملکی دورہ میں کاروباریوں کا ان کے ساتھ جانا بدستور جاری ہے۔  یہ فہرست خفیہ ہے، اس لئے ان کے ساتھ جانے والوں کے نام کی جانکاری نہیں ہے۔  لیکن، نکھل مرچنٹ کے رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ حکومت کے اندر یا باہر شاید واحد آدمی ہیں، اور یقینی طور پر واحد کاروباری ہیں، جن سے سی وی سی(central vigilance commissioner ) خود ملنے کے لئے آتے ہیں۔

central vigilance commissioner ، ایک آئینی بورڈ ہے، جس کا کام سرکاری افسروں پر لگنے والی بد عنوانی کی تفتیش کرنا ہے۔  روایت رہی ہے کہ آئینی اور آئینی اکائیوں کے سربراہ کسی کاروباری یا کسی دوسرے کے دفتروں میں ان سے ملنے نہیں جاتے۔

دی وائر کو یہ جانکاری ملی ہے کہ 2017 میں موجودہ سی وی سی کے  وی چودھری، مرچنٹ کے ممبئی واقع بلارڈ اسٹیٹ دفتر گئے تھے۔  اس ملاقات کے بارے میں پوچھے جانے پر چودھری نے مرچنٹ کو بس ایک  جان پہچان والا بتایا، جن سے وہ بس اخلاقی طور پرملنے گئے تھے۔  یہ کہتے ہوئے کہ وہ angioplasty کے لئے جا رہے ہیں، انہوں نے اس مسئلے پر آگے کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا۔  دوسری طرف مرچنٹ نے چودھری کو اپنا ‘جان پہچان والا ‘ بتایا۔  ‘ کچھ سماجی تقریبات میں میری ان سے ملاقات ہوئی ہے۔  اگر مجھے صحیح سے یاد آ رہا ہے، تو وہ میرے ایک آپریشن کے بعد میرا حال چال پوچھنے کے لئے آئے تھے۔  ‘

جس وقت سوان کے دفتروں پر چھاپا مارا گیا تھا، اس وقت چودھری سینٹرل بور ڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسیس میں تھے۔  لیکن مرچنٹ کا کہنا ہے کہ وہ تب ان سے آشنا نہیں تھے۔  ‘ نہیں، جب مجھ پر چھاپا مارا گیا، تب مجھے نہیں پتا تھا کہ کے وی چودھری کون ہیں۔  ‘

سودا جو پورا نہیں ہو سکا

مرچنٹ کی فلیگ شپ کمپنی سوان انرجی ایک لسٹیڈ کمپنی ہے، جس کا خاص کاروبار ٹیکسٹائل کا ہے۔  2016-17 کی اس کی سالانہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ اس کو 300 کروڑ روپے سے زیادہ کی فروخت پر 1.68 کروڑ روپے کا منافع ہوا تھا۔  سوان انرجی کی مالیاتی کارکردگی کا جائزہ لیں، تو پتا چلتا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں سوان انرجی نے کافی کم یا تقریباً نہ کے برابر تک منافع کمایا ہے۔2014-15 میں اس کو 4.7 کروڑ کا منافع ہوا تھا، جو 2015-16میں گر‌کر 58 لاکھ رہا گیا۔  اس کی زیادہ تر کمائی ٹیکسٹائل کے کاروبار سے ہے۔  یہ کمپنی ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں بھی ہے۔

پچھلے مالی سال میں، سوان انرجی کو کئی پبلک سیکٹر بینکوں سے الگ الگ کیپٹل لونس  حاصل ہوئے ان میں یونین بینک آف انڈیا اور اورینٹل بینک آف کامرس سے 48 کروڑ روپے اور دینا بینک سے 5.8 کروڑ روپے۔  اس کو گجرات کے ایک کوآپریٹیو بینک، میہسانا اربن کوآپریٹو بینک سے بھی 4.1 کروڑ روپے ملے۔  ساتھ ہی مہاراشٹر حکومت کے سیکام سے بھی 2.2 کروڑ روپے حاصل ہوئے۔

سوان انرجی صرف ایک بار اس وقت تنازع میں آئی، جب مارچ، 2009 میں نریندر مودی کی قیادت میں گجرات حکومت نے Gujarat State Petroleum Corporation’s Pipavav Power Company Ltd (GPPL)کی 49 فیصدی حصےداری کو 381 کروڑ روپے میں سوان انرجی کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ریاستی حکومت نے فروخت کے لئے competitive bidsکے لئے کسی کو مدعو نہیں کیا تھا۔  اس نے تب ریاست میں ایک بڑے سیاسی طوفان کو جنم دیا تھا۔  اس وقت ریاست میں حزب مخالف پارٹی کانگریس نے یہ الزام لگایا تھا کہ محض 381 کروڑ کی سرمایہ کاری سے سوان انرجی 14296 کروڑ روپےہتھیا لے‌گی۔  ” اس اعداد و شمار میں کاربن کریڈٹ بھی شامل تھا، جو سوان کو ملتا۔

ایک پریس نوٹ میں اس وقت کے گجرات کانگریس رہنما شکتی سنگھ گوہل نے سوان انرجی کی مالی ساکھ کو لےکر بھی سوال اٹھایا تھا، کیونکہ جی پی پی ایل سودےکے لئے چنے جانے سے پہلے کے سالوں میں یہ کوئی قابل ذکر کاروبار کرتی ہوئی نظر نہیں آ رہی تھی :

“سوان انرجی کے دستیاب سالانہ نتیجہ یہ دکھاتے ہیں کہ2005-2008 کے درمیان اس کو (آپریٹنگ) نقصان ہوا تھا۔  2008 اور 2007 میں اس نے چیزوں کا کوئی استعمال نہیں کیا اور 2005، 2006 اور 2007 میں اس کے ذریعے کئے گئے چیزوں کا استعمال اوسطاً ایک کروڑ سے بھی کم رہا۔  اس نے 2005، 2006 اور 2007 میں تنخواہ یا مزدوری کے کسی ادائگی کی جانکاری نہیں دی ہے۔  2009 میں اس کا خرچ صرف 12 لاکھ روپے تھا، اور اس نے 2005 سے کوئی ایکسائزڈیوٹی نہیں چکائیہے، لیکن جس کے دیگر خرچ بہت بڑے ہیں۔  “

حزب مخالف کے گجرات ہائی کورٹ جانے کے بعد یہ سودا مشکلوں میں پڑ گیا اور اس وقت کے وزیراعلی نریندر مودی بچاؤ کی حالت میں آنے پر مجبور ہو گئے۔  فروری، 2012 میں منٹنے یہ خبر دی تھی کہ سوان اس اسکیم سے باہر نکلنے والی تھی۔

دی وائر کے سوالوں کا ای میل سے دئے گئے جواب میں مرچنٹ نے کہا کہ شیئر کے بٹوارےمیں دیری کی وجہ سے یہ سرمایہ کاری ‘ 2010 میں ‘ ہی ردکر دی گئی تھی۔  انہوں نے گجرات حکومت کو کوئلہ پر چلنے والے بجلی کارخانوں کو گیس کارخانوں میں بدلنے کی سوان کی تجویز کو انوکھا بتایا۔  مرچنٹ کا کہنا ہے، ‘ اس انوکھی تجویز کی وجہ سے سوان کو پیپاواو میں اپنی طرح کی پہلی گرین فیلڈ گیس پرمبنی بجلی کارخانے میں حصےداری کی تجویز دی گئی تھی۔  لیکن وہ کہتے ہیں، سوان کے پاس ‘ 2010 میں اس منصوبہ سے باہر نکلنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔  اندرونی وسائل کے سہارے کئے گئے اس سرمایہ کاری نے سوان کی مالی صحت پر منفی اثر ڈالا۔  ‘

مودی اور بی جے پی قیادت کے ساتھ قربت کی وجہ سے ہندوستان کے سب سے متاثر کن شخصیتوں میں سے ایک ہونے کی بات کو مرچنٹ خارج کر دیتے ہیں۔  انہوں نے کہا، ‘ پچھلے 40 سالوں سے ایک کاروباری ہونے کے ناطے میں کئی کاروباری لوگوں اور سیاسی رہنماؤں سے ملتا ہوں۔  لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میری ایک سیاسی پارٹی اور کسی سیاسی پارٹی کے رہنما کے ساتھ قربت ہے۔  انہوں نے یہ بھی کہا کہ بڑے لوگوں کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کا ان کو کوئی فائدہ نہیں ملا ہے۔

سوان کا ٹیکسٹائل سے لےکر ایل این جی تک کا سفر

اگست، 2016 میں ہندوستان کی سب سے بڑی سرکاری تیل کمپنیوں او این جی سی، آئی او سی اور ایچ پی سی ایل نے گجرات کے جعفرآباد بندرگاہ میں مجوزہ ایک ایل این جی ٹرمینل کو قائم کرنے کے مرچیٹ کے اہم  پروجیکٹ کو اپنی حمایت دینے کا فیصلہ کیا۔

ان تین کمپنیوں نے اس ٹرمینل جس کا تصور ایک تیرتے ہوئے فلوٹنگ floating storage regasification unit کے طور پر کیا گیا ہے، اس کی 60 فیصد صلاحیت کی بکنگ کرا لی۔ گجرات حکومت کی ایک اور کمپنی جی ایس پی سی نے سوان کے مجوزہ ٹرمینل میں مبینہ طور پر ٹرمینل کی 1.5 مملین ٹن صلاحیت کی بکنگ کرا لی ہے۔

ان معاہدے کی وجہ سے یہ ایل این جی منصوبہ اب نکھل مرچنٹ کے لئے ایک طرح سے خطرہ سےآزاد ہو گیا ہے۔  پی ٹی آئی کے مطابق :

” ٹرمینل کی 5 ملین ٹن صلاحیت کے 90 فیصدکی بکنگ سرکاری کمپنیوں نے استعمال کے لئے کروا لی ہے۔  صلاحیت کی بکنگ کرانے کا مطلب ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے ایل این جی کی در آمد کے لئے سوان کو پہلے سے طے ایک فیس ادا کریں‌گی۔  سوان کو ایل این جی کی در آمد کے کاروبار سے جڑے خطرےکی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور وہ ٹرمینل کا ایڈمنسٹریشن ٹول وصول کرنے کی جگہ کے طور پر کرے‌گا۔  “

سوان نے اس منصوبہ کی تجویز 2013 میں دی تھی، جس کے بعد گجرات میری ٹائم بورڈ نے comparative bidsمدعو کی تھیں۔

گزشتہ سال گجرات حکومت کی دو پبلک سیکٹر کمپنیوں-گجرات میری ٹائم بورڈ اور گجرات اسٹیٹ پیٹرونیٹ لمیٹڈ نے 208 کروڑ میں اس منصوبہ کی 26 فیصدی حصےداری خرید لی۔ جنوری، 2017 میں ٹاٹا ریئل اینڈ انفراسٹرکچر نے اس منصوبہ میں 10 فیصد حصےداری خریدنے کا اعلان کیا، لیکن بعد میں وہ اس سے پیچھے ہٹ گئی۔  گزشتہ سال اکتوبر میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ متسوئی شپنگ نے اس پروجیکٹ میں تقریبا 83 کروڑ روپے میں 11 فیصد حصےداری خریدی ہے۔

گجرات حکومت نے اس بابت کوئی وضاحت نہیں دی ہے کہ آخر ریاست کے ذریعے کنٹرول کی جانے والی  کمپنیاں پبلک سیکٹر کے منصوبہ میں سرمایہ کاری کیوں کر رہی ہیں، جبکہ جی ایس پی سی گجرات میں خود اپنا ایل این جی ٹرمینل تیار کر رہی ہے۔

ان الزامات کو خارج کرتے ہوئے، جن کو وہ ‘ جانبداری کی بے بنیاد افواہ ‘ قرار دیتے ہیں، مرچنٹ کہتے ہیں کہ سوان نے 2009 میں ہی گجرات میں ایک ایل این جی ٹرمینل قائم کرنے کا خیال  پیش کیاتھا۔

مرچنٹ کہتے ہیں، ” ایک ایل این جی ٹرمینل، ایک خاص ایل این جی در آمد سہولت ہوتی ہے۔  ایل این جی درآمد کا بنیادی ڈھانچہ کسی دوسرے مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتاہے۔ اس لئے، ایسے منصوبہ کی سرمایہ کاری کی کامیابی کا سارا دارومدار مستقبل میں ا س کے استعمال پر ہوتا ہے، جو کہ صارف کے ذریعے صلاحیت کے ریزرویشن کی شکل میں ہوتی ہے۔  اس لئے صلاحیت کا ریزرویشن عام کاروبار کا حصہ ہے۔  “

‘ 2016 میں خرید معاہدہ پر دستخط کرنے میں ہمیں 3 سال کا وقت لگا۔  اصل میں چھے سال سے زیادہ وقت لگا، کیونکہ 2010 میں ماحولیاتی اجازت کے لئے ہماری درخواست کے وقت سے ہی بات چیت شروع ہو گئی تھی۔  یہ حقیقت جانبداری کی بے بنیاد افواہوں کو خود خارج کر دیتی ہے۔

اکتوبر 2017 میں یعنی ریاست میں انتخابات ہونے سے کچھ ہی مہینے پہلے، گجرات کے نائب وزیراعلی نتن پٹیل نے سوان انرجی کے ساتھ رعایتی معاہدہ کو اجازت دے دی۔ اس معاہدہ کی میعاد اسکے شروع ہونے کی تاریخ سے 30 سالوں کی ہے، جس کو اور 20 سالوں تک بڑھائی جا سکتی ہے۔  مرچنٹ کے مطابق ‘ سوان ‘ نے رعایتی معاہدہ کی تجویز منظوری کے لئے اپریل، 2015 میں ہی جمع کرائی تھی، جس کو حکومت نے 2017 میں منظور دے دی۔  ریاستی حکومت کے کئی محکمہ جات نے اسی تجویز کو منظوریدینے میں 2.5 سال سے زیادہ کا وقت لگایا۔

ٹاٹا کے ذریعے حصےداری خریدنے کی بات کو لےکر سوال پوچھے جانے پر مرچنٹ نے دی وائر کو بتایا، ” اعلان کے بعد ٹاٹا ریئل نے ایل این جی ٹرمینل منصوبہ کا ضروری مطالعہ کیا۔  سوان ایل این جی ٹرمینل پروجیکٹ بنیادی طور سے ایک پورٹ بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹ ہے، جو ٹاٹا ریئل گروپ کا بنیادی مقصد نہیں ہے۔  اس لئے کوئی قرار نہیں ہو سکا اور دونوں کمپنیوں کے درمیان کسی قسم کی مالی لین دین نہیں ہوئی۔  “

منصوبہ میں پبلک سیکٹر کمپنیوں کا ہے اہم کردار

مرچنٹ کا کہنا ہے کہ عوامی کمپنیوں کے ذریعے ان کے منصوبہ میں سرمایہ کاری کی بدولت وہ ایل این جی منصوبہ کے لئے 750 کروڑ کے قرض کا انتظام نہیں کر رہے ہیں۔  لیکن، دی وائر نے جن دستاویزوں کا مطالعہ کیا ہے، ان سے یہ پتا چلتا ہے کہ سرکاری پبلک سیکٹر کمپنیاں سوان ایل این جی کے ذریعے قرض نہ چکائے جانے (ڈیفالٹ) کی حالت میں لئے جانے والے قرض کے ایک حصے کی ذمہ داری لیں‌گے۔  حکومت کے ایک اندرونی نوٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ سوان ٹیلی کام کے ذریعے قرض کی ادائیگی نہ کئے جانے کی حالت میں اس پر پڑنے والے قرض کی ناگہانی ذمہ داری 477.15 کروڑ روپے ہوگی۔

NikhilMerchantStory

حال ہی میں ریٹائر ہوئے ایک سینئر ایس بی آئی افسر نے دی وائر کو کہا کہ مرچنٹ کا یہ کہنا بھلے تکنیکی طور پر صحیح ہو کہ ‘ چیفپرموٹر کی حیثیت سے اسکیم  کے لئے قرض کا انتظام کرنے کی ذمہ داری صرف سوان پر ہے، لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ انہوں نے جس طرح سے اس شعبے میں بنا کسی تجربے کے پبلک سیکٹر کی بڑی تیل کمپنیوں کو اپنے طےشدہ گاہکوں کے طور پر جوڑ‌کر دکھایا ہے، اس سے ان کے لئے بینکوں سے قرض حاصل کرنا آسان ہو جائے‌گا۔  ” اگر نقد کی ڈھیر پر بیٹھی تیل کمپنیوں کو آپ کے وفادار گاہک کے طور پر دکھایا جائے، جو آپ کی فروخت کا بڑا حصہ خریدنے کا وعدہ کر چکی ہیں، تو ایسے منصوبوں کو قرض دینے میں بینکوں کو آسانی ہوتی ہے۔  بینکوں کے ذریعے قرض دئے جاتے وقت آگے کے کئی سالوں تک ممکنہ ریونیو ایک اہم پیمانہ ہوتا ہے۔  اور اگر ممکنہ ریونیو کے ایک بڑے حصے کی گارنٹی پبلک سیکٹر کی کمپنیاں لے رہی ہوں، تو اسکیم کافی بھروسہ مند ہو جاتا ہے۔

مرچنٹ کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا

دی وائر نے جن سے بھی رابطہ کیا، ان میں سے تقریباً سبھی نے مرچنٹ یا سوان انرجی کے بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔  مرکزی پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے وزیر دھرمیندر پردھان پہلے تو سرکاری تیل کمپنیوں کے  تیل شعبہ کے ناتجربہ کار سوان انرجی کے ساتھ لین دین کو لےکر دی وائر کے ذریعے بھیجا گئے سوال نامہ کا جواب دینے کے لئے راضی ہو گئے، لیکن آخر میں انہوں نے کوئی جواب نہ دینا ہی مناسب سمجھا۔

سوان ایل این جی کے ساتھ گجرات حکومت کے رعایتی معاہدہ کو منظوریدینے والے نتن پٹیل نے بھی ان کو بھیجے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔  گجرات حکومت کے وزیراعلی وجئے روپانی نے بھی سوان انرجی کے ساتھ ان کی حکومت کے لین دین کو لےکر پوچھے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔

مرچنٹ کے ساتھ کالج میں اور ایک ہی ہاسٹل میں رہنے والے گجرات کے وزیر توانائی سوربھ پٹیل نے سوان انرجی کے ساتھ کسی خاص برتاؤ کی بات سے انکار کیا۔

مرچنٹ اور ان کے مختلف کاروباروں کے بارے میں تفصیل سے جاننے کے لئے دی وائر نے ان کے کچھ مددگاروں کا دروازہ کھٹکھٹایا، لیکن، وہاں سے بھی ہمیں بیرنگ واپس لوٹنا پڑا۔  مثال کے لئے مرچنٹ اسکل انفراسٹرکچر کی ملکیت والے نوی ممبئی اسمارٹ سٹی انفراسٹرکچر کے ڈائریکٹر ہیں۔ مگر، اسکل کے نکھل گاندھی نے میسیج کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ ‘ ‘ ہارٹ رہیبلیشن سیشن ‘ میں ہیں اور بعد میں جواب دیں‌گے۔

اور نامی گرامی لوگوں کے ساتھ رابطہ کے بارے میں پوچھنے پر مرچنٹ نے 35 سال سے بھی زیادہ وقت سے کاروبار کی دنیا میں ہونے کا حوالہ دیا۔  ” کاروباری زندگی میں آپ کو قدرتی طریقے سے تجارتی منچوں یا سماجی تقریبات میں مختلف شعبوں کے مشہور لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے۔  یہ بھی دھیان میں رکھا جانا چاہیے کہ اتنے لمبے وقت سے کاروبارکی دنیا میں ہونے اور لوگوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے باوجود ہمیں ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کے لئے ضروری منظوریاور لائسنس حاصل کرنے میں 10 سال لگ گئے۔  اور یہ اب بھی پورا ہونے سے دور ہے۔  اتنا لمبا وقت لگنے کی وجہ سے ہم اور بھی زیادہ قرض میں چلے گئے ہیں اور ہمیں اس سے باہر آنے میں غالباً ابھی اور سال لگیں‌گے۔  اس لئے یہ کہنا کہ ان میں سے کسی آدمی کی وجہ سے مجھے کوئی فائدہ پہنچا ہے یا میرے موجودہ کاروباری منصوبہ میں ان کا کوئی کردار ہے، اپنے آپ میں بے بنیاد خیالی نظریہ کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔  “

آخر میں انہوں نے یہ جوڑا :

میں آپ کو ان بے بنیاد افواہوں کو میری جانکاری میں لانے کے لئے شکریہ اداکرتا ہوں اور میں پوری ایمانداری کے ساتھ یہ امید کرتا ہوں کہ اوپر دئے گئے میرے جوابات سے ساری غلط فہمی کی وضاحت ہو جائے‌گی۔  یہ سوان انرجی کا فلیگشپ منصوبہ ہے اور ہندوستان میں یہ اپنی طرح کےکچھ منصوبوں میں سے ایک ہے۔  ہمیں یہ لگتا ہے کہ یہ روزگار، تکنیک، اور توانائی شعبےکے حساب سے ملک کے لئے فائدےمند ہوگا۔

اس لئے یہ ہمارے آپسی مفاد میں ہوگا کہ اس معاملے پر جلد سے جلد مکمّل وقفہ  لگایا جائے اور بے بنیاد افواہوں پر دھیان نہ دیا جائے۔

اقتدار کے ساتھ مرچنٹ کی قربتوں اور ان کے اثر کی افواہیں، بے بنیاد ہو سکتی ہیں۔  لیکن، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ سوان انرجی کے دو فلیگشپ منصوبہ-پیپاواو میں بجلی کارخانے کا ناکام معاہدہ ہو یا اب گجرات کے جعفرآباد میں ایل این جی ٹرمینل منصوبہ ہو، دونوں میں پبلک سیکٹرکی کمپنیوں کا ان کی حمایت حاصل تھی۔  دنیا بھر میں، جہاں بھی سرکاری کمپنیاں یا  شعبے پبلک سیکٹر کےمنصوبوں کے لئے ریونیو کا خاص ماخذ بن جاتے ہیں، وہاں تھوڑی بہت ریگولیٹری تفتیش کا ہونا فطری ہی نہیں، ضروری بھی ہے۔  اس سے شفافیت کو متعین کیا جاتا ہے اور اس سمت میں ہندوستان کو ابھی لمبی دوری طے کرنے کی ضرورت ہے۔

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم صحافی ہیں)