فلسطین کو لےکراب تک ہندوستان کا نظریہ یہ رہا تھا کہ فلسطین کو مکمل آزادی اور ریاست کی منظوری حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسرائیل مشرقی یروشلم سمیت فلسطینی علاقے میں کئے گئے اپنے تمام غیر قانونی قبضے کو ختم کرے۔ لیکن نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان کے اس نظریے میں نرمی آ گئی ہے۔
نئی دہلی : نریندر مودی فلسطین کا سرکاری دورہ کرنے والے پہلے وزیر اعظم ہو سکتے ہیں، لیکن سنیچر کو راملّہ میں محض تین گھنٹے کے قیام میں انہوں نے ایک اور چیز پہلی بار کی۔ فلسطین کو لےکراب تک ہندوستان کا نظریہ یہ رہا تھا کہ فلسطین کو مکمل آزادی اور ریاست کی منظوری حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسرائیل مشرقی یروشلم سمیت فلسطینی علاقے میں کئے گئے اپنے تمام غیر قانونی قبضے کو ختم کرے۔ لیکن نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان کے اس نظریے میں نرمی آ گئی ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کی موجودگی میں دی گئی پہلے سے تیار شدہ تقریر میں مودی نے ایک ‘ خود مختار، آزاد ‘ فلسطین کی حمایت کی، لیکن انہوں نے ایسا کرتے ہوئے دو اہم صفات کو غائب کر دیا-‘ غیر منقسم ‘ اور ‘ زیست پذیر ‘(viable)۔ یہ فلسطین کو لےکر ہندوستانی سفارتی ایجنڈے سے غائب ہونے والے نئے لفظ ہیں۔ اس سے پہلے ہم اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جدو جہد کے خاتمہ کے لئےٹو اسٹیٹ سولیوشن اور ‘ مشرقی یروشلم کو مستقبل کے ‘ فلسطین کی راجدھانی ‘ بنانے کی بات کو ہندوستانی سفارتی ایجنڈے سے غائب ہوتے دیکھ چکے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین کے معاملوں پر نظر رکھنے والے جان کار ہندوستان کے نظریےمیں تبدیلی کی ممکنہ وجہ امریکہ کے ذریعے مجوزہ اور اسرائیل کے ذریعے حمایت یافتہ ایک نئی امن اسکیم کو مان رہے ہیں، جس پر شاید ہندوستان نے بھی داؤ لگانے کا ارادہ کر لیا ہے۔
10 فروری کو وزیر اعظم مودی نے (جو جارڈن کے راجا سے ملاقات کے بعد ایک ہیلی کاپٹر سے جارڈن کی راجدھانی عمان سے راملّہ پہنچے تھے) صدر عباس کے بغل میں کھڑے ہوکر ہندی میں کہا-” ہندوستان فلسطین کے امن کے ماحول میں جلد ایک خود مختار، آزاد ملک بننے کی امید کرتا ہے۔ “
لفظوں کےاستعمال میں یہ تبدیلی مودی کے ذریعے فلسطین کو لےکر ہندوستان کے روایتی نظریے کی وضاحت کے دو مہینے سے بھی کم وقت کے بعد آ ئی ہے۔ 25 نومبر کو انہوں نے ‘ فلسطینی عوام کے ساتھ عالمی یوم یکجہتی ‘ کے موقع پر ایک بیان جاری کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، ‘ ہم جلد سے جلد ایک خود مختار، آزاد، غیر منقسم اور زیست پذیر فلسطینی ریاست کے خواب کے پورے ہونے کی امید کرتے ہیں، جو اسرائیل کے ساتھ پر امن ہم آہنگی میں اپنے وجو د کے ساتھرہ سکے۔ ‘
ویڈیو : وزیر اعظم نریندر مودی کے فلسطین دورے پر سدھارتھ وردراجن سے بات چیت
مئی، 2017 میں نئی دہلی میں بھی عباس کے بغل میں کھڑے ہوکر مودی نے عوامی طور پر، ‘ خود مختار، آزاد، غیر منقسم اور زیست پذیر ‘ فلسطین کی امید ظاہر کی تھی۔ ہندوستان نے مودی کا اسرائیل کے سفر سے پہلے فلسطینی صدر کو ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی۔ ہندوستانی ڈپلومیٹک روایت کو توڑتے ہوئے سفر کا یہ پروگرام صرف اسرائیل تک محدود تھا اور فلسطین اس میں شامل نہیں تھا۔
نئی دہلی میں واقع انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفینس اسٹڈیز اینڈ اینالسس میں مغربی ایشیا کے ماہر پی آر کمارسوامی نے اس وقت کہا تھا کہ مودی کے ذریعے ‘ مشترکہ ‘ فلسطین کا ذکر ہندوستان کے موجودہ اسرائیلی حکومت سے الگ رائے کو دکھاتا ہے، جو ون اسٹیٹ سولیوشن یعنی ‘ فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل ‘ کی طرف جھک رہا ہے۔ انہوں نے اس جانب دھیان دلایا کہ فلسطینی عوام قریب ایک دہائی سے عملی طور پر دو الگ سیاسی علاقوں میں رہ رہا ہے-ایک، فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے تحت ویسٹ بینک (مغربی ساحل) اور دوسرا غازہ جس پر اسلامی فلسطینی پارٹی حماس کی حکومت ہے۔
ایک غیر منقسم اور زیست پذیر فلسطین کے لئے حمایت کا مطلب ہے قبضہ کئے گئے مغربی ساحل میں زمین (اور زمین دوز آبی ماخذ) کے بڑے علاقے میں بستیاں بسانے کی اسرائیلی کوششوں کی مخالفت کرنا۔ لیکن، مودی اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نتن یاہو کے درمیان آپسی گرم جوشی کے بڑھنے کے بعد ہندوستان کی طرف سے اسرائیلی قبضے کو لےکر اپنی مخالفت کو کم کرتے دکھ رہا ہے۔
مغربی ایشیا معاملوں پر کام کر چکے ایک سابق ہندوستانی سفیرکا کہنا ہے کہ ‘ غیر منقسم ‘ اور ‘ زیست پذیر ‘ لفظ کو ہٹانے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ نئی دہلی نے یہ مان لیا ہے کہ 1967 سے پہلے کی، یعنی اسرائیل کے ذریعے مغربی بینک اور غازہ پر غیر قانونی قبضہ کرنے سے پہلے کی، سرحد پر لوٹنا اب ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ فلسطینی علاقہ اب آپس میں جڑے ہوئے نہیں رہ گئے ہیں۔ وہ چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں اور ان کے بیچ میں اسرائیلی زمین ہے۔ ‘
مودی کی نئی پالیسی اسرائیل کے حکمراں جماعت لکود پارٹی کے مطابق ہی ہے، جس کا یہ ماننا ہے کہ اسرائیل کی حفاظت کے لحاظ سے فلسطینیوں کی پہنچ بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں تک نہیں ہونی چاہیے۔جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ویسٹ ایشین اسٹڈیز کے پروفیسر اے کے پاشا کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ذریعے ‘ غیر منقسم ‘ اور ‘ زیست پذیر ‘ لفظ کو ہٹائے جانے کو ” زمینی حقیقتوں کے آئینے میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے، جس کو موجودہ امن اسکیم میں اسرائیلیوں کے ذریعے غیر متنازعہ حقیقت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ “
2006 سے 2008 کے درمیان فلسطین میں ہندوستانی سیاسی نمائندہ رہے ذکر الرحمن نے کہا، جیسا کہ مودی کے بیان سے پتا چلتا ہے، فلسطین کو لےکر ہندوستان کی جانب میں یقیناً بڑی تبدیلی آئی ہے۔انہوں نے دی وائر کو بتایا، ‘ اسرائیل کی پر امن ہم آہنگی میں اپنے وجود کے ساتھ رہنے والے خود مختار، آزاد اور آپس میں جڑے فلسطین، جس کی راجدھانی مشرقی یروشلم ہوگی، کو لےکر رہے ہندوستان کے تاریخی جانبداری اور مضبوط حمایت کو دوہرایا نہیں جا رہا ہے… ہندوستان اس سے کترا رہا ہے۔ ‘
رحمان نے یہ بھی کہا کہ یہ ضرور ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم نے فلسطین کا سفر کیا، لیکن ہندوستان کے عوامی بیانات کو دیکھیں، تو یہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نتن یاہو کے اعلانیہ پارٹی کی حمایت میں ایک سوچی سمجھی تبدیلی کو دکھاتا ہے۔ انہوں نے کہا، اسرائیلی زمین پر حقائق بنا رہے ہیں اور جن کو زمینی حقیقت کا نام دیا جا رہا ہے۔ ‘
پاشا نے اس جانب دھیان دلایا کہ اسرائیل، ایران کے خلاف عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کے تحت فلسطین کے مدعے پر مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یواے ای) جیسے علاقائی طاقتوں کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے۔ لیکن، رحمان نے کہا، کسی عرب ملک کے لئے مشرقی یروشلم جیسے مرکزی مسئلے کو چھوڑ دینا بہت مشکل ہوگا۔
امریکی سفارت خانہ کو یروشلم لےکر جانے کے ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلے کے بعد ہندوستان نے ایک کمزور سا رد عمل دیا تھا جس کے بعد فلسطینی سفیر کو نئی دہلی سے زیادہ مضبوط بیان دینے کے لئے کہنا پڑا۔ہندوستان نے حالانکہ، اقوام متحدہ اجلاس میں عرب لیگ کے ذریعے اسپانسراس تجویز کے حق میں رائے دہندگی کی جس میں امریکہ کو یروشلم کی حالت میں تبدیلی لانے والا کوئی قدم نہیں اٹھانے کے لئے کہا گیا تھا۔مودی کے راملّہ تقریر میں ٹو نیشن کا ذکر نہ ہونا سمجھ میں آنے والا تھا، کیونکہ پچھلے ایک سال سے یہ خیال ہندوستانی ڈپلومیٹک بیانات سے غیر حاضر رہا ہے۔
مئی، 2017 میں فلسطینی صدر کے سفر کے دوران بھی مودی نے اس کا حوالہ نہیں دیا تھا۔مودی کا راملّہ سفر کے دوران ہندوستان اور فلسطین کے درمیان پانچ قرار ہوئے، جس میں ایک 3 کروڑ امریکی ڈالر کی لاگت کے سپراسپیشلٹی ہسپتال کی تعمیر، عورتوں کے حقوق کے لیے ایک مرکز، ایک قومی پرنٹنگ پریس، دو اسکول اور ایک نئے اسکول کی ایک منزل کی تعمیر شامل ہے۔ ہندوستان فلسطین میں ایک ڈپلومیٹک انسٹی ٹیوٹ کھولنے کے لئے بھی راضی ہو گیا ہے۔
Categories: عالمی خبریں