وہ ایک سیکولر دانشور تھے جو تاعمر نفرت اور تشدد کی سیاست کے سخت مخالف رہے اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قیمت بھی ادا کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہے۔ نظریات سے انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
ایک سچا دوست، ایک سچا استاد، ایک سچا خبر نویس، ایک سچا جنگجو، ایک سچا مفکر، ایک سچا ہندوستانی، حقیقی معنوں میں انسانیت کا علمبردار اور اخلاص کا پیکر… بے شمار شبیہیں ایک دوسرے کو پار کرتی جا رہی ہیں اور نیلابھ جی کے الگ الگ عکس ذہن میں ابھر رہے ہیں۔ انھیں جاننے والوں، ان سے جڑے لوگوں کے لیے ان کا اس دنیا سے جانا ایک ایسا اندوہناک حادثہ ہے جو زندگی بھر ایک غیر مرئی جھولے کی طرح کندھے پر لٹکا رہے گا۔ کسی مقام پر ان کی موجودگی ایک ایسی جمہوری آزادی کی گارنٹی تھی جہاں جا کر آپ بلاجھجک اپنے مسائل رکھ دیتے تھے، سب کچھ بتا دینے کا جوکھم اٹھانے میں ہچکچاتے نہیں تھے، خوب باتیں کرتے تھے، بحث کرتے تھے۔ ہر مرتبہ نیلابھ جی کے علم اور تجربے کی گنگا میں غوطہ لگا کر ہم سب ان سے جو عمر میں چھوٹے تھے، اور وہ بھی جو اُن کے ہم عمر تھے یا بڑے تھے، وہ سب اپنی مٹھی میں کچھ نہ کچھ لے کر ہی لوٹتے تھے۔
وہ ہمارے لیے ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ کہیں کوئی چیز اٹکتی تو لگتا جیسے بس نیلابھ جی کے پاس اس کا حل ہوگا، نہیں تو وہ ہمارے لیے کوئی راستہ نکال دیں گے، اور وہ بھی پورے خلوص کے ساتھ۔ نیلابھ جی علم اور انسانی وقار کا بیش بہا خزانہ تھے۔ہمارے دور کے وہ بہترین اور دوراندیش مدیر تھے۔ خبر کی نبض سے وہ واقف تھے اور اس سے جڑے جوکھم سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ علم حاصل کرنے اور اسے تمام لوگوں میں بلاتفریق پھیلانے کی ایک عجیب سی للک ان کی آنکھوں میں ہمیشہ نظر آتی تھی۔ جمع کرنا، اپنے پاس کچھ چھپانا ان کے مزاج میں تھا ہی نہیں۔
انسانیت سے لبریز ایسے شخص جو برابری اور تعصب و تفریق سے پاک زندگی میں نہ صرف یقین کرتے تھے بلکہ اسے جیتے بھی تھے۔ وہ لوگوں کے حق کی بات کرنے والے اور سیکولر دانشور تھے جو تاعمر تعصب اور تشدد کی سیاست کے سخت مخالف رہے اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قیمت بھی ادا کرنے کے لیے تیار رہے۔ نظریات سے انھوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ بدعنوان اور دلال قسم کے صحافی شاید اسی لیے ہمیشہ ان سے دور دور بھاگتے رہے۔ ان کے رہن سہن، ان کے کپڑوں، ان کے کھانے پینے میں جو سادگی تھی وہ انھیں اپنے والد سے ملی تھی جو مہاتما گاندھی کے نظریات پر عمل پیرا تھے۔ اگر وہ کبھی اپنے والد اور دادا کے چمپارن تحریک (بہار) میں کردار کا تذکرہ کرتے تو ساتھ ہی یہ بتانا کبھی نہیں بھولتے کہ ان کی ماں مغربی اتر پردیش سے تعلق رکھتی تھیں اور بہت اثردار شخصیت کی ملکہ تھیں۔وہ ایسے نایاب مدیر تھے جن کی ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں پر خوب دسترس تھی۔
اس کے علاوہ بھوجپوری و میتھلی سے بھی ان کی اچھی شناسائی تھی۔ ہر زبان اور بولی کو برتنے کا سلیقہ انھیں خوب آتا تھا۔ اگر انگریزی بولتے اور لکھتے تو 100 فیصد اسی زبان کے ضابطوں پر عمل کرتے اور اگر ہندی میں بولتے ہیں تو پھر ہندی الفاظ کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ ایک واقعہ یاد آتا ہے جو ’آؤٹ لک‘ ہندی کے وقت کا ہے۔ نربھیا معاملے کے بعد جسٹس ورما کی سفارشات پر میں اسٹوری کر رہی تھی۔ اس میں ایک لفظ آیا ’ریپ سروائیور‘۔ نیلابھ جی کا پورا زور تھا کہ اس کا ہندی ترجمہ کیا جائے۔ اس کے پیچھے جو انھوں نے دلیل دی وہ مجھے تاعمر یاد رہے گی۔ انھوں نے کہا کہ ہندی زبان اس لیے کمزور ہو گئی ہے کیونکہ لوگوں نے ہندی میں سوچنا اور نئے الفاظ تشکیل دینا بند کر دیا ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے بتایا کہ کس طرح اقتصادی لبرلائزیشن کے شروعاتی دور میں گلوبلائزیشن کا ہندی ’ویشوی کرن‘ کرنے میں انھوں نے تمام ساتھیوں کے ساتھ محنت کی تھی۔
مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع 2004 سے ملا اور تب سے لے کر آج تک میں نے ان میں کبھی بے چینی نہیں دیکھی۔ وہ ایک ایسے صحافی، ایسے مدیر تھے جنھوں نے بے شمار صحافی بنائے، انھیں تربیت دی، انھیں وہ سبھی ضروری باتیں بتائیں جو صحافت کے کسی بھی اسکول میں نہیں بتائی جاتیں۔ عام طور پر یہ باتیں کوئی مدیر بھی نہیں بتاتا ہے۔ وہ ایک ایک لفظ، ایک ایک سطر کے صحیح ہونے پر زور دیتے تھے۔ عنوان پر تو وہ گھنٹوں لگا دیتے تھے اور ہم سب سے خوب محنت کراتے تھے۔ میں خود دیکھ کر حیران ہو جاتی تھی کہ کس طرح، کتنی مشقت سے وہ ایک ایک صفحہ خود دیکھتے تھے، اسے رنگ دیتے تھے اور پھر صحیح کاپی کو بھی دیکھنے پر زور دیتے تھے۔ ایک ایک اسٹوری پر، نظم و افسانے پر اتنی محنت کرنے والے مدیر شاید ہی ہوں گے۔
نیلابھ جی کا ماننا تھا کہ جو بھی چیز شائع ہوتی ہے وہ قارئین کے ساتھ ایک اعتماد کا رشتہ قائم کرتی ہے۔ اس اعتماد پر کبھی ٹھیس نہیں لگنا چاہیے۔ اس اعتماد کی ڈور آخر تک مضبوط رہنی چاہیے۔ایک خاص بات جو نیلابھ جی کو بے مثال مدیر بناتی ہے، اور وہ یہ کہ ان میں عہدہ، اعزاز، اقتدار کا لالچ بالکل بھی نہیں تھا۔ اس معاملے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ ’صوفی‘ تھے تو غلط نہ ہوگا۔ نہ کبھی انھوں نے اسٹیج پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی کبھی راجیہ سبھا جانے کی اندھی اور گھناؤنی دوڑ میں شامل ہوئے۔ اتنی جانکاریاں، اتنے روابط اور اعلیٰ درجہ کے دانشوروں میں براہ راست پہنچ ہونے کے باوجود نیلابھ مشرا عام آدمی کے مدیر رہے۔ ان کے دربار میں کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں تھا، سب برابر تھے اور سب کے نظریات کو وہ برابر کی ترجیح دیتے تھے۔
بشکریہ : قومی آواز
Categories: فکر و نظر