عرب نامہ :امریکی سفارت خانہ کے القدس منتقلی اور فلسطینی مظاہرین پر اسرائیلی جارحیت مشرق وسطی کے پریس کی سب سے نمایاں خبر رہی ، اسی بحران کی پیش نظر تنظیم تعاون اسلامی (OIC) اورعرب لیگ نے ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ دوسری بڑی خبروں میں عراقی انتخابات میں غیرمتوقع طور پر مقتدی الصدر کی کامیابی نے میڈیا میں کافی جگہ پائی۔
عراقی الیکشن کے نتائج کو مختلف روزناموں نے مختلف زاویوں سے دیکھا اور اس پر خبریں اورتبصرے شائع کیے، روزنامہ “الحیاۃ” نے بھی اس خبر کو نمایاں طورپر شائع کیا ہے، اخبار لکھتا ہے کہ 12 مئی کو ہونے والے الیکشن کے حتمی نتائج کے اعلان کے بعد مقتدی الصدر کا اتحاد “سائرون” سب سے بڑا اتحاد بن کر سامنے آیا ہے ،اس اتحاد نے 329 نشستوں میں سے 54 نشستوں پر جیت درج کی ہے ، ہادی العامری کی قیادت والے “الفتح ” نامی اتحاد نے 47 سیٹیں حاصل کرکے دوسرے بڑے الائنس (Alliance)کے طورپر ابھرا ہے جب کہ وزیر اعظم حید العبادی کا الائنس “النصر” 42 سیٹوں کے ساتھ تیسرے مقام پر رہا ، یاد رہے کہ پارلیامانی سربراہ سلیم الجبوری اور دوسرے مشہور پارلیمنٹرین اس بار پارلیامنٹ پہنچنے میں ناکام ہوگئے جب کہ پہلی بارقسمت آزمائی کرنے والے بہت سے افراد ایوان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، ایوان تک پہنچنے میں کامیاب ہونے والی خواتین کی تعداد 84 ہے۔چونکہ کسی پارٹی یا الائنس کو واضح اکثریت نہیں ملی ہے اس لیے حکومت کی تشکیل میں رکاوٹیں آئیں گی۔
امریکی سفارت خانہ کے القدس منتقلی اور احتجاج کررہے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی کارروائی سے پیدا ہونے والے بحران پر تبادلہ خیال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کےلیے اوآئی سی نے سربراہ ہنگامی اجلاس استنبول میں منعقد کیا ، اجلاس نے متفقہ طور پر القدس کی موجودہ حیثیت میں کسی طرح کی تبدیلی کو قبول نہ کرنے کا عزم کیا ہے اور غزہ میں اسرائیل جارحیت کا بین الاقوامی ایجنسی کے ذریعہ تحقیق کا مطالبہ کیا ہے، ترک صدر نے کانفرنس کا آغازکرتے ہوئے امریکی اور اسرائیلی اقدام کی مذمت کی اوراسرائیلی جارحیت کا نوٹس نہ لینے پر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کے کردار پر بھی سوال اٹھایا اور یہ کہا ہم ہر بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اس طرح کی حرکتوں کو روکنے کےلیے متحرک رہیں گے۔یہ خبر “الشرق الاوسط” اور مشرق وسطی کے دیگر نیوزپیپرمیں کئی کئی کالم میں شائع ہوئی۔
اخبار الخلیج میں السید زہرہ کا کالم شائع ہوا جس میں وہ عرب لیگ اور اس کے قرارداد وں کے مؤثر ہونے پر سوال اٹھارہے ہیں، وہ لکھتے ہیں “غزہ پر تازہ اسرائیلی جارحیت اور امریکی سفارت خانہ کے القدس منتقلی کے پیش نظر عرب وزرائے خارجہ نے ہنگامی اجلاس طلب کیا ،اسرائیلی گولہ باری میں 65 سے زائد افراد شہید ہوگئے اور زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تواس واقعہ پر اظہار رائے کےلیےعرب وزراء اس طرح کے ہنگامی اجلاس بلاتے ہیں ، لیکن ہمارا یہ سوال ہے کہ اس طرح کے اجلاس کا کیا مقصد ہے اور ان سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے، جب کسی مسئلہ یا قضیہ کو لیکر کوئی ہنگامی میٹنگ بلائی جاتی ہے ا س کا یہ مطلب ہوتا ہے اس مسئلہ کے تئیں عرب ممالک کی یہ رائے ہے اور ان میٹنگوں میں جو فیصلہ لیا جائے گا اس کا ایک فیصلہ کن کردار ہوگا ، لیکن ان ہنگامی اجلاس میں جو ہوتا ہے اور جس طرح کے بیانات صادر ہوتے ہیں وہ ہمارے لیے اور پوری دنیا کےلیے ایک محفوظ یا مکرر سیناریو کی طرح ہوگیا ہے۔مثال کے طورپر عرب وزراء نے یہ مطالبہ کیا کہ امریکی انتظامیہ اپنے سفارت خانہ کے القدس منتقلی سے باز رہے ، جب کہ تمام وزراء کو پوری طرح سے معلوم ہے کہ اس مطالبہ کی کوئی قیمت اور اہمیت نہیں ہے ، ان وزیروں نے کبھی یہ سوچا نہیں یا سوچنا نہیں چاہتے ہیں کہ امریکہ کوکونسی چیز اپنے فیصلے بدلنے پر مجبور کرسکتی ہے، وزراء کے بیان سے امریکہ اپنا فیصلہ بدلنے نہیں جارہا ہے، صرف امریکہ کو وہی چیز فیصلہ بدلنے پر مجبورکرسکتی ہے جب اسے احساس ہوجائے کہ فلاں فیصلہ کی وجہ سے اسے یہ قیمت چکانی پڑسکتی ہے ، اور ایسی کوئی چیز نہ ہے ان کے پاس ، وجہ یہ ہے عالم عربی نے اب تک ایسا کوئی عملی اقدام کیا ہی نہیں اور کرنا ہی نہیں چاہتا جو امریکہ کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کردے۔
روزنامہ الشرق الاوسط نے غزہ کے موجودہ حالات پر ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے اس رپورٹ کے مطابق ہر چار ماہ میں غریب خاندانوں کو 300-500 امریکی ڈالر مالی امداد کے طورپر ملتے ہیں ، اس مالی امداد کے بند ہوجانے کے بعد غزہ میں ہزاروں افراد بلا افطار وسحررمضان گزاررہے ہیں، ام حمدان ثابت جو کہ غزہ پٹی کے جنوب میں واقع رفح شہر میں رہتی ہے بتاتی ہے کہ سحرکے وقت وہ بالکل پریشان ہوگئی کہ وہ اپنے صاحب فراش شوہر اور بچوں کو کھانے کےلیے کیا پیش کرے۔ محاصرہ ریزیسٹنس فرنٹ کے صدر جمال الخضری نے غزہ کے حالات کے بارے میں جو بتایا وہ دل دہلا دینے کے لیے کافی ہے، انہوں نے پریس نوٹ میں کہا کہ 80 فیصدی سے زیادہ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گذارہے ہیں، ہرروز صرف چار گھنٹے بجلی ملتی ہے ، 95 فیصدی غزہ کا پانی پینے کے لائق نہیں ہے ، ڈھائی لاکھ سے زیادہ کام کرنے والے بے روزگار ہیں اور ہزاروں گریجویٹس ہیں جنہیں مناسب کام نہیں مل رہا ہے، نوجوانوں میں بے روزگاری 60 فیصدی تک پہنچ چکی ہے یومیہ فی کس آمدنی صرف دوڈالر ہے، تقریبا 15 لاکھ افراد کا گذربسر امداد پر منحصر ہے۔ غزہ چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری میں تعلقات عامہ (Public relations) کے ڈائریکٹر ماہر الطبا ع نے اپنے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ غزہ جن معاشی اور اقتصادی حالات سے گذرہاہے ایسے حالات پچھلی کئی دہائیوں میں نہیں پیش آئے، غزہ کھائی کے کنارے نہیں ہے بلکہ کلینکل موت کے بعد والے مرحلہ میں داخل ہوگیا ہے اور اس وقت یہ دنیا کے سب سے بڑے قید خانہ میں تبدیل ہوچکا ہے ۔
دبئی سے شائع ہونے والے روزنامہ “البیان” اور دوسرے روزناموں نے وارانسی میں زیر تعمیر پل کا ایک حصہ گرنے کی وجہ سے 18 جانوں کے اتلاف کی خبر شائع کی ہے ، اخبار لکھتا ہے : شمالی ہندوستان کے شہر وارانسی میں زیر تعمیر پل کے گرنے کی وجہ سے 18 افراددب کر مرگئے، بہت تیزی سے راحت کاکام کرنے والی ٹیم جائے حادثہ پر پہنچ گئی ، راحت میں مصروف ٹیم نے یہ جانکاری دی ہے اب تک وہ 18 لاشوں کو نکال چکی ہے لیکن ابھی بھی بہت سے افراد کا ملبہ کے اندر دبے ہونے کا خدشہ ہے اخبار کے مطابق اس راحت آپریشن میں نیشنل ڈیزاسٹرریسپونس فورس کی سات ٹیموں نے حصہ لیا۔
Categories: خبریں