مذہبی سیاحت بڑھانے کے نام پر روشنی کے تیوہاردیوالی سمیت کئی سرکاری پروگراموں میں جذبات کا استعمال کرنے کے لئے بھاری بھرکم منصوبوں کے بڑے-بڑے اعلانات کے ذریعے مسلسل ایسی تشہیر کی جا رہی ہیں جیسے ایودھیا میں جنت اتارکر ہر کسی کے لئے لال غالیچہ بچھا دئے گئے ہیں، لیکن زمینی سچائی اس کے بالکل برعکس ہے۔
ادھر ایودھیا ایک بار پھر بری وجہوں سے سرخیوں میں ہے۔ صرف اس لئے نہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی اترپردیش حکومت نے اس کا ‘ وقار ‘ بڑھانے کے لئے فیض آباد ضلع اور منڈل کی جگہ اس کا نام چسپاں کر دیا ہے یا کہ بی جے پی کی خیر خواہ تنظیموں نے لوک سبھا انتخابات کو قریب دیکھ کر ایک بار پھر ‘ مندر-مندر ‘ کا جاپ شروع کر دیا ہے۔
اس لئے بھی کہ مذہبی سیاحت بڑھانے کے نام پر ‘ دیویہ دیپاولی ‘ سمیت کئی سرکاری پروگراموں میں، یقیناً جذبات کے استعمال کے لئے، بھاری بھرکم منصوبوں کے بڑے-بڑے اعلانات کے ذریعے مسلسل ایسی تشہیر کی جا رہی ہے کہ جیسے ایودھیا میں جنت اتارکر ہر کسی کے لئے لال غالیچہ بچھا دئے گئے ہیں۔ اس سے ملک کی دوسری دھرم نگریوں میں فطری طور پرہی ایودھیا کی ‘ خوش قسمتی ‘ کو لےکر ایک عجب طرح کا حسد پنپ رہا ہے، جس کو ختم کرنے کے لئے اس سچائی کو بتایا جانا ضروری ہو گیا ہے کہ زمینی سچائی اس کے بالکل برعکس ہے اور ایودھیا اور اس کے باشندوں کی زندگی کی دشواریاں اور فریبوں کا شکار بناتی رہنے والی تقدیر جیوں کی تیوں بنی ہوئی ہیں۔
المیہ یہ کہ نہ ریاست کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت اس تقدیر کو بدلنے کی فکر کرتی دکھائی دیتی ہے اور نہ مرکز کی نریندر مودی حکومت۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 14 نومبر کو راجدھانی دہلی کے صفدرجنگ ریلوے اسٹیشن پر وزیر ریل پیوش گوئل کے ذریعے ہری جھنڈی دکھانے کے بعد چلی ‘ شری رامائن ایکسپریس ‘ نام کی اسپیشل ٹورسٹ ٹرین کے کوئی آٹھ سو مسافر اگلے دن اس کے پہلے ٹھہراؤ پر ایودھیا پہنچنے سے پہلے ہی بےحد برے تجربے کے شکار ہو گئے۔
ایودھیا کی زمینی حقیقت سے سامنا ہوا تو اس میں ان کے خوابوں کی ایودھیا کو کوئی ٹھور ہی نہیں ملا۔ ایودھیا ریلوے اسٹیشن پر ٹھہراؤ کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے پہلے تو ان کی ٹرین کو فیض آباد جنکشن پر ہی روک دیا گیا، پھر انڈین ریلویزکیٹرنگ اینڈ ٹورزم کارپوریشن کے 16 دنوں کے سفر کے پیکج کی شرطوں کے برعکس ان کو رہنے اور کھانے کو کون کہے، ٹوائلٹ کی بھی مناسب سہولت مہیا نہیں کرائی گئی۔
بعد میں بی جے پی کے مقامی رکن پارلیامان للو سنگھ ٹرین کو ہری جھنڈی دکھانے ریلوے اسٹیشن پہنچے تو مسافروں نے ان سے اس کی شکایت بھی کی۔ لیکن رکن پارلیامان کے پاس بھی ان کے مسائل کا کوئی حل نہیں تھا۔ سو انہوں نے یہ کہہکر بات کو ٹال دینے میں ہی بھلائی سمجھی کہ آگے وہ ایسی بدانتظامی کو لےکر محتاط رہیںگے۔
مسافروں کی مانیں تو ان کی مصیبتوں کی شروعات ٹرین میں ہی ہو گئی تھی۔ ٹرین کے ٹوائلٹ کے دروازے نہ تو ٹھیک سے کھلتے تھے نہ ہی بند ہوتے تھے۔ اس پر رامائن سے متعلق قدیم مقامات اور مندروں کے دیدار کے لئے ان کا ایودھیا کے سفر کا تجربہ بھی اچھا نہیں رہا۔ بزرگ مسافروں کو چوتھی منزل پر ٹھہرایا گیا اور کھانے کے لئے لمبی-لمبی لائنوں سے گزرنا پڑا۔ دوسرے مسافروں کو جس بڑے ہال میں ٹھہرایا گیا، اس میں پچاس مسافروں پر ایک ٹوائلٹ کا اوسط تھا۔
مندروں میں در شن اور پوجا کا سلسلہ ختم ہوا تو آگے کے سفر کے لئے ان کو ایودھیا ریلوے اسٹیشن پہنچانے کا بھی کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ سو، ان کو پیدل ہی جانا پڑا۔ یہ تب تھا، جب ان کے ٹور پیکج میں سبھی وقت کے کھانے، رہائش گاہ اور کپڑے دھونے وغیرہ کے علاوہ سائٹ-سی انگ کا انتظام بھی شامل ہے اور اس کے لئے ان سے فی مسافر 15،120 روپے لئے گئے۔ ٹور کی دوسری کڑی میں وہ بذریعہ ہوائی جہاز سری لنکا جانا چاہیں، تو 36970 روپےاور ادا کرنے ہوںگے۔
جس ایودھیا ریلوے اسٹیشن کو 107 کروڑ روپے کی لاگت سے اعلیٰ سطحی بنانے کی تشہیر کی جا رہی ہے اور جس کے لئے گزشتہ 14 نومبر کو بھومی پوجن بھی کیا گیا، اس کی موجودہ حالت فی الحال یہ ہے کہ وہاں ایک بھی ایسا ٹوائلٹ نہیں ہے، جس میں ریل مسافر ادائیگی کرکے بھی سہولت سے ٹوائلٹ سے فارغ ہو سکیں۔
اس سے کئی بار خاتون تیرتھ یاتریوں اور سیاحوں کو بےحد پریشان کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن نہ ریلوے کو اس کی فکر کرنے کی فرصت ہے اور نہ حکمرانوں کو۔ ان کو فکر ہے تو بس اس کی کہ ایودھیا ریلوے اسٹیشن مندر کے ماڈل پر بن جائے۔
دوسری طرف ریلوے نے اس بار ایودھیا کی چودہ کوسی اور پنچ کوسی پریکرما میں آنے والے عقیدت مندوں کو وہ سہولیات بھی نہیں دی، جو روایتی طور پر چلی آ رہی تھیں۔ پہلے ان پریکرماؤں کے مواقع پر فیض آباد سے چلنے والی الٰہ آباد روٹ کی پیسنجر ٹرینوں کو ایودھیا تک بڑھا دیا جاتا تھا اور وارانسی اور لکھنؤ روٹ کی پیسنجر اور ایکسپریس ٹرینوں میں اضافی کوچ جوڑ دئے جاتے تھے۔
عقیدت مندوں کے اترنے اور چڑھنے میں سہولت کے لئے ایودھیا ریلوے اسٹیشن پر ٹرینوں کے رکنے کی مدت بھی بڑھا دی جاتی تھی، لیکن اس بار ان کو یہ وارننگ دےکر ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا کہ انہوں نے ٹرینوں کی چھتوں پر چڑھکر، کوچکے پائدان پر کھڑے ہوکر یا بیٹھکر سفر کیا تو ان کی خیر نہیں ہوگی۔ اس حوالہ سے، وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ گزشتہ سال یعنی 2017 میں گرینڈ دیو یہ دیوالی منانے آئے تو ایودھیا (فیض آباد کو شامل کرکے بنا شہر کارپوریشن نہیں، سریو کنارے پر بسے اصل مذہبی شہر) میں اسپتالوں کی تعداد پانچ تھی، جو ابھی بھی پانچ ہی ہے اور شہر میں جنت اتار دینے کے بڑبولے دعووں کا مذاق اڑاتی رہتی ہے۔
ایودھیا شہر کارپوریشن کے ذریعے دی گئی جانکاری کے مطابق تب ایودھیا کے ڈھائی لاکھ سے زیادہ باشندوں کے لئے صرف 59 ٹوائلٹ ، 780 اسٹینڈ پوسٹ اور 1156 انڈیا مارک سیکنڈ ہینڈپمپ تھے، جن میں ابھی بھی کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا ہے۔ پھر بھی ضلع کو کاغذوں میں او ڈی ایف سے آزاد اعلان کر دیا گیا ہے۔ ایودھیا میں تیرتھ یاتریوں اور سیاحوں کے ٹھہرنے کے لئے مستقل انتظام کا تو پوری طرح قحط ہے۔ پورے سال ان کا آنا جانا لگا رہنے کے باوجود ان کے لئے عارضی انتظام ہی کیا جاتا ہے کیونکہ انتظام کرنے والوں کو اسی میں ‘ فائدہ ‘ نظر آتا ہے۔
6 مہینے پہلے 11 مئی کو ہندوستان اور نیپال کے وزیر اعظم بالترتیب نریندر مودی اور کے پی اولی نے بڑے میڈیا ہائپ کے درمیان جنک پور اور ایودھیا کے بیچ کے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے جس میتری بس سیواکو ہری جھنڈی دکھائی تھی، اس کے پھیرے ابھی بھی شروع نہیں ہو سکے ہیں۔
جس بس کو ان وزیر اعظم نے جنک پور میں ہری جھنڈی دکھائی، وہ ایودھیا پہنچی تو اس کے مسافروں کے استقبال کے لئے ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ تو موجود تھے لیکن بسکے کھڑے ہونے کی مناسب جگہ نہیں تھی۔ دراصل ایودھیا کا پرانا بس اسٹیشن توڑ دیا گیا ہے اور نیا ابھی بنا نہیں ہے۔ تب سے کئی زمینی پریشانیوں کی وجہ سے، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہندوستان اور نیپال میں ہوئے معاہدے کی راہ میں پرمٹ وغیرہ کی کئی رکاوٹیں آ گئی ہیں، اس بس کا دوسرا پھیرا نہیں لگ پایا ہے۔
اب عزت بچانے کے نام پر پہلے سے لکھنؤ سے جنک پور کے درمیان چل رہی ایک بس کا روٹ بدلکر اس کو ایودھیا کے راستے چلایا جا رہا ہے، جس کا ایودھیا باشندوں کے لحاظ سے کوئی خاص مطلب نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس کو لےکر لوگوں کی ناراضگی دور کرنے کے لئے گزشتہ دیویہ دیوالی کے جشن میں اعلان کر دیا کہ رام جانکی کی شادی کی آئندہ تقریب میں حصہ لینے کے لئے وہ سنتوں کے ساتھ خود جنک پور جائیںگے۔
لیکن لوگ ان کے اس سفر کو لےکر بہت پرجوش نہیں ہو پا رہے کیونکہ دیکھ چکے ہیں کہ دیویہ دیپاولی کی سرکار جگر مگر کے بیچ بھی ایودھیا کے کئی حصے روشنی سے محروم رہ گئے۔ بہر حال، اتنی تفصیلات کے بعد آپ یہ تو سمجھ ہی گئے ہوںگے کہ آپ کو ایودھیا سے حسد کرنے کی نہیں ہمدردی رکھنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر