خبریں

سپریم کورٹ شفافیت کے ساتھ کھڑا رہتا ہے لیکن اپنی باری آنے پر پیچھے ہٹ جاتا ہے: پرشانت بھوشن

سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ اور ہندوستان کے چیف جسٹس کا عہدہ آر ٹی آئی کے تحت پبلک  اتھارٹی ہے یا نہیں، اس سوال پر جمعرات کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔

پرشانت بھوشن، فوٹو: پی ٹی آئی

پرشانت بھوشن، فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ اور ہندوستان کے چیف جسٹس کا عہدہ آر ٹی آئی کے تحت پبلک اتھارٹی ہے یا نہیں، اس سوال پر جمعرات کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔عدالت نے دہلی ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج دینے والی سپریم کورٹ رجسٹری کے ذریعے دائر تین اپیلوں پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا جس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ اور ہندوستان کے چیف جسٹس کا عہدہ آر ٹی آئی قانون کے تحت پبلک اتھارٹی ہے اور آر ٹی آئی کے تحت درخواست گزاروں کو اطلاع دینے کے لئے جوابدہ ہے۔

چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ تین اپیلوں کی سماعت کر رہی تھی۔یہ اپیلیں سپریم کورٹ کے سکریٹری جنرل اور عدالت کے سینٹرل پبلک انفارمیشن افسر کے ذریعے دہلی ہائی کورٹ کے سال 2009 کے اس حکم کے خلاف دائر کی گئی تھیں، جس میں کہا گیا ہے کہ سی جے آئی کا عہدہ آر ٹی آئی قانون کے دائرے میں آتا ہے۔

بنچ میں جسٹس این وی رمنا، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس سنجیو کھنہ بھی شامل ہیں۔عدالت نے کہا، ‘ کوئی بھی شخص غیرشفاف سسٹم کے حق میں نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص اندھیرے میں نہیں رہنا چاہتا، نہ ہی کسی کو اندھیرے میں رکھنا چاہتا ہے۔ سوال ایک لکیر کھینچنے کا ہے۔ شفافیت کے نام پر آپ ادارہ کو تباہ نہیں کر سکتے ہیں۔ ‘

اس پر سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے آر ٹی آئی قانون کے تحت عدلیہ کے اطلاع دینے کو لےکر غیر آمادہ ہونے کو بدقسمتی اور پریشان کرنے والا بتاتے ہوئے کہا، ‘ کیا جج الگ کائنات کے باشندے ہیں؟ ‘انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ ریاست (حکومت) کے دیگر حصوں کے کام کاج میں ہمیشہ ہی شفافیت کے لئے کھڑی ہوتی ہے لیکن جب اس کے خود کے مدعے پر توجہ  دینے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے قدم ٹھٹک جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘ لوگوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ پبلک  اتھارٹی کیا کر رہے ہیں۔ ‘ بنچ نے کہا کہ لوگ جج بننا نہیں چاہتے کیونکہ ان کو منفی تشہیر کا ڈر ہے۔اس سے پہلے سپریم کورٹ کی رجسٹری نے بدھ کو عدالت کے سامنے کہا تھا کہ آر ٹی آئی قانون کے تحت ججوں کی تقرری یاعہدہ میں ترقی سے متعلق کالیجئم کی بحث جیسی انتہائی خفیہ معلومات کو عام کرنا عدلیہ کے ‘ کام کاج کے لئے نقصان دہ ‘ ہوگا۔

سپریم کورٹ رجسٹری کی طرف سے پیش ہوئے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے سپریم کورٹ کے سامنے کہا تھا کہ آر ٹی آئی کے تحت ججوں کی تقرری کی معلومات کا انکشاف کرنے سے کالیجئم کا طریقہ کار متاثر ہوگا۔وینو گوپال نے کہا، ‘ کسی خاص امیدوار کی بطور جج تقرری کرنے / سفارش نہ کرنے کے لئے فائل نوٹنگ اور وجوہات کا انکشاف مفاد عامہ کے خلاف ہوگا۔ ایسی معلومات پوری طرح سے خفیہ ہونی چاہیے، نہیں تو کالیجئم کے جج آزادانہ طورپر کام نہیں کر سکتے ہیں۔ ‘

وہیں، پرشانت بھوشن نے ان دلیلوں کی مخالفت کی اور کہا کہ ہندوستان کی عوام کو ججوں کی تقرری اور سپریم کورٹ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا حق ہے۔بھوشن نے کہا، ‘ عدلیہ کی آزادی کا معنی ہے مجلس عاملہ اور مقننہ سے آزادی، نہ کہ ملک کے لوگوں سے۔ ‘

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)