ہندوستان اب زیادہ ہندو راشٹر ہوتا جا رہا ہے۔ 2014 کے برخلاف اس بار بی جےپی نے واضح طور پر ہندوؤں کی پارٹی کے طور پر کام کیا۔
ہر عام انتخاب اپنے آپ میں جداگانہ و مخصوص ہوتے ہیں، اس لیے کچھ مبصرین انتخاب کے موازنے کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے دیکھا حال ہی تمام ہوئے عام انتخاب اور 1971 کے عام انتخاب کچھ حد تک ملتے جلتے تھے۔ تب بھی اور اب بھی، ایک بڑی پارٹی بر سر اقتدار تھی؛ ایک ایسی پارٹی جس کا اثر ملک کے بڑے حصے پر تھا۔ تب بھی اور اب بھی، اس پارٹی کی مخالفت مختلف ایسی پارٹیاں کر رہی تھیں جن کا حلقہ اثر محدود، بلکہ مخصوص صوبوں تک ہی تھا۔ تب بھی اور اب بھی، حزب اختلاف کی ان رنگارنگ پارٹیوں کا یہ مرکب نظریاتی اعتبار سے مختلف الخیال تھا، کسی بھی طرح وزیر اعظم کی شخصی مخالفت، بس اس معاملے میں ہی ان کا اتحاد تھا۔
اندرا گاندھی کو 1971 کا انتخاب جیتنے میں جس نعرے نے مدد کی تھی وہ آج بھی ذہنوں میں محفوظ ہے، ا لبتہ یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ نعرہ انہوں نے یا پارٹی نے نہیں دیا تھا۔ بلکہ یہ اس نعرے کا جواب تھا، جو ان کی مخالف پارٹیوں نے دیا تھا۔ یہ نعرہ تھا ‘اندرا ہٹاو۔’ دراصل اندرا مخالف ان پارٹیوں کی نظر میں ساری غلطیوں کی جڑ اندرا گاندھی تھیں، پھر چاہے وہ بر سر اقتدار پارٹی کی غلطی ہو یا سرکاری سطح کی۔ اس نعرے کے جواب میں اندرا نے نعرہ دیا، ‘وہ کہتے ہیں اندرا ہٹاو، میں کہتی ہوں غریبی ہٹاو۔’ یہ شخصی نفرت انگیزی کے مقابلے ایک دم مثبت و تعمیری جواب تھا، جس نے اندرا گاندھی اور ان کی پارٹی یعنی کانگریس کو 1971 کا انتخاب جیتنے میں بھرپور مدد کی۔
اب 2014 کی طرف آتے ہیں جب پارٹی میں باغیانہ تیور دکھا کر نریندر مودی وزارت عظمیٰ کے لیے اپنی دعوےداری پیش کرتے ہوئے پرکشش جملوں کے ساتھ سامنے آئے؛ جیسے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اچھے دن۔ غریبی ہٹاو کی ہی طرح یہ نعرے بھی مثبت تھے۔ ان کے ذریعے مذہب یا ذات پات کے تفرقے سے الگ ایک عام ہندوستانی ووٹر کے لیے خوشحال، غریبی کو کم کرنے والے وقت کی بات کی جا رہی تھی۔
2019 کے انتخاب میں وزارت عظمیٰ کے لیے دوبارہ دعویٰ پیش کرتے ہوئے نریندر مودی نے کون سا نعرہ دیا؟ ہم کبھی نہیں جان پائیں گے۔ اصل میں 2018 کے نصف آخر سے حزب اختلاف کے کچھ لیڈران نے آپس میں صلاح کیے بغیر یہ طے کر لیا کہ انہیں وزیر اعظم کے خلاف مہم چلانی ہے۔ بس پھر ممتا بنرجی، چندرا بابو نائیڈو، اروند کیجریوال اور راہل گاندھی وزیر اعظم کی مخالفت کرنے میں جٹ گئے۔ کسی نے ان پرتاناشاہی کا الزام لگایا، کسی نے بدعنوانی کا، کچھ نے انہیں تاناشاہ اور بدعنوان دونوں بتا دیا۔ یہ سب پرزور انداز میں بار بار کہہ رہے تھے کہ نریندر مودی کو (بی جے پی یا این ڈی اے کو نہیں)جانا چاہیے۔
پھر 1971 کی انتخابی مہم کی طرح 2019 کے انتخاب میں حزب اختلاف کی مہم ‘مودی ہٹاؤ’ کے ارد گرد گھومتی رہی۔ اگر پلواما پر دہشت گردانہ حملہ نہ ہوا ہوتا تو یہ مہم کتنی کارگر ہوتی، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اس حملے کے بعد وزیر اعظم نے اس چیلنج کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا اور انتخاب کو اپنی ذات پر مبنی رائے شماری میں بدل لیا۔ لیکن 1971 کی اندرا گاندھی کے برخلاف انہوں نے غریبی ہٹانے کا وعدہ نہیں کیا۔ انہوں نے ملک کو دشمنوں سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے کہا، ‘وہ کہتے ہیں مودی ہٹاو، میں کہتا ہوں دیش کو مضبوط اور محفوظ بناؤ۔’
نریندر مودی خود یہی چاہتے تھے کہ 2019 کی پوری تشہیری مہم انہی پر مرکوز رہے۔ کیونکہ وہ سرکار کے ہر عمل کو اپنی دین بتانے پر پورے انہماک سے کام کر ہے تھے۔ سرکار کے اشتہارات میں ہر کام کا سہرا انہیں کے سر باندھا جاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ تحفہ جات مودی بی جےپی کارکنان کے ہاتھوں ووٹرس کے گھر بھیج رہے ہوں۔ اگر دیہات کی ایک خاتون کو سبسڈی پر گیس سلنڈر مل رہا تھا تو وہ مودی دے رہے تھے اور ایک کسان کو قرض مل رہا تھا تو وہ بھی مودی دے رہے تھے۔ اسکول میں ایک بلیک بورڈ آ رہا تھا تو اسے دینے کا خیال بھی نریندر مودی کا تھا۔ یہاں تک کہ برہم پتر پر ایک بڑا پل بنے، جس کا کام کئی وزرائے اعظم کے دور میں چلا، جس میں درجنوں انجینئرس کی نگرانی میں ہزاروں محنت کشوں نے کام کیا ہو، اس کے لیے ایسا پروپیگنڈا کیا گیا، جیسے یہ کام صرف نریندر مودی ہی نے کرایا ہو۔
چاہے کانگریس کی ہو یا بی جےپی کی، پچھلی سرکاروں نے درجنوں فلاحی اسکیمیں چلائیں، لیکن ان کا شمار ریاست یا پھر ایک پارٹی کے ذریعے مرحمت کی جانے والی سہولیات میں کیا جاتا تھا۔ عوام الناس کے لیے کیے جانے والے سارے فلاحی کام، کسی ایک شخص یعنی نریندر مودی کی دین بتانے کا دعویٰ نیا تھا اور حد درجہ مؤثر بھی۔
پلواما حملہ اور بالاکوٹ اسٹرائیک کے بعد تو وزیر اعظم نے تشہیری مہم اور زیادہ شخصی کر لی۔ انہوں نے راہل گاندھی کے نعرے ‘چوکیدار چور ہے’ میں سے چوکیدار اچک لیا کہ وہ ملکی مفادات کے چوکیدار ہیں۔ وہ بتانے لگے کہ کیسے پاکستان ان سے اور صرف ان سے ڈرتا ہے۔ انہوں نے حزب اختلاف کے لیڈران کی کھلی اڑاتے ہوئے انہیں ناتواں اور دشمنوں کا ایجنٹ تک قرار دے دیا۔ ووٹرس سے وہ کہتے تھے کہ کمل کا بٹن دبائیے تو ووٹ سیدھا مجھے ملے گا۔ اس سب کے بیچ پارلیامنٹ کے لیے انتخاب لڑ رہے بی جےپی امیدواروں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
1971 کے انتخاب میں غریبی ہٹانے کے لیے ووٹرس نے ان کے مخالفین کے بجائے اندرا گاندھی پر بھروسہ کیا۔ اندرا گاندھی نے تب راجے مہاراجوں کا دبدبہ ختم کر کے بینکوں کا نیشنلائزیشن کر دیا تھا، جبکہ ان کے مخالفین کی راجے مہاراجوں سے قربت تھی اور وہ سرمایہ دارانہ نظام کے حامی تھے۔ 2019 میں ملک کے تحفظ کی بات آئی تو ووٹرس نے مخالفین کے بجائے نریندر مودی پر زیادہ بھروسہ کیا؛ کیونکہ انہوں نے طاقت اور خصوصی اختیارات کا اس طرح مظاہرہ کیا، جیسا مخالفین نہ کر سکے۔ ان دونوں معاملات میں انتخاب کو شخصی سطح تک لے جانے کے لیے حزب اختلاف، حکمراں جماعت کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہی بنا۔
بی جےپی نے اپنی پوری تشہیری مہم صرف مودی، مودی اور مودی پر چلائی۔ وزیر اعظم ہی ملک کو باہری دشمنوں کے ہاتھوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں، اس تشہیر کا مرکزی موضوع تھا۔ اس کے ساتھ ہی بہت گہرائی اور خفیہ طور پر یہ مہم چلائی گئی کہ مودی ہی ہندو گورو کی رکشا کر سکتے ہیں اور دشمنوں سے ہندووں کے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں، چاہے وہ پاکستان ہو یا مسلمان۔
2019 میں آئے نتائج سے موٹے طور پر تین باتیں سمجھی جا سکتی ہیں۔ پہلی اس بات کی توثیق ہے، جو راقم نے اپنی کتاب انڈیا آفٹر گاندھی کے 2017 میں آئے دوسرے ایڈیشن میں لکھی: ‘بی جےپی آج ایک قومی سطح کی پارٹی ہے۔ ملک کے کئی صوبوں میں اسے مؤثر اکثریت حاصل ہے۔ وہ قومی سیاست کے رخ کا تعین کرتی ہے، جیسا کانگریس (1950 اور 1960 میں) کیا کرتی تھی۔’
دوسری بات یہ کہ ہندوستان اب زیادہ ہندو راشٹر ہوتا جا رہا ہے۔ 2014 کے برخلاف اس بار بی جےپی نے واضح طور پر ہندوؤں کی پارٹی کے طور پر کام کیا۔ اپنے چناوی اعلامیے کے ساتھ دوسری باتوں میں بھی؛ جیسے اس کے صدر کے مسلم مخالف بیانات، پرگیہ ٹھاکر جیسی سخت گیر ہندووادی کو ٹکٹ دینا اور وزیر اعظم کا عقیدت مند ہندو کے طور پر کیدارناتھ کے نزدیک غار میں دھیان کرنا اور اس کی تشہیر کرنا۔ زمینی حقائق سے روبرو ہونے والے صحافیوں کا کہنا تھا کہ کئی ووٹرس مودی کو اس لیے پسند کرتے ہیں کہ ان کی نظر میں وہ ہندوؤں کے تفاخر کی حفاظت کرنے والے ہیں، نیز مسلمانوں کو سبق سکھادیں گے۔
تیسری بات یہ کہ رائے دہندگان کی بڑی تعداد ایک شخصیت کی گرویدہ ہو گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پورا ملک اس شخصیت کے سحر میں گرفتار ہونے والا ہے؟ مجلس دستورساز سے اپنے آخری خطاب میں بی آر آمبیڈکر نے جان اسٹوئرٹ مل کی بات کہتے ہوئے ہندوستانی باشندوں کو متنبہ کیا تھا کہ ایسا نہ کریں کہ ‘کسی عظیم شخص کے قدموں میں اپنی آزادی رکھ دیں، نہ ہی اسے اتنے اختیارات دیں کہ وہ ان کے اداروں کو تباہ و برباد کرنے لگ جائے’۔ انہوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ: ‘مذہب میں بھکتی، آتما کی شانتی کا راستہ بن سکتی ہے، لیکن سیاست میں بھکتی یا شخصیت پرستی، تنزل اور تاناشاہی کی یقینی راہ ہے۔’
آمبیڈکر جب متنبہ کر رہے تھے، تب ان کے ذہن میں کون تھا؟ کیا وہ اپنے ملک کی عوام سے کہہ رہے تھے کہ اس طرح اب کبھی کسی کی پرستش نہ کریں، جس طرح حال ہی قتل کیے گئے مہاتما گاندھی کی پرستش کی تھی؟ کیا وہ کہہ رہے تھے کہ اپنے کرشمائی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو غلطیوں سے مبرا نہ سمجھیں، بلکہ ان کے کام کاج اور ان کی باتوں پر نظر رکھیں نیز ان کی سرکار کو جوابدہ بنائے رکھیں؟ شاید یہ سب باتیں ان کے ذہن میں تھیں۔ بعد کے وقت میں آمبیڈکر کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہو گئی؛ تب جبکہ 1971 کےانتخاب میں ملی فتح اور اس کے بعد پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی دیکھ کر بہت سے ہندوستانیوں نے اپنی آزادی اندرا گاندھی کے قدموں میں رکھ دی۔ اسی بھکتی کو اندرا گاندھی نے ملک کے اداروں کو پامال کرنے کی دعوت مان لی۔
ان تینوں باتوں میں سے پہلی بات ہمیں کم فکرمند کرتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں بڑھتی، پھلتی، پھولتی ہیں پھر ان کا تنزل ہونے لگتا ہے۔ بی جےپی کے اس عروج پر بھی زوال آئےگا، جیسا کہ کانگریس کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس سے زیادہ ہمیں شخصیت پرستی کو لے کر متفکر ہونا چاہیے۔ اس میں ایک اور ایمرجنسی کا خدشہ موجود ہے۔ جیسا 1971 میں اندرا گاندھی نے کیا تھا، نریندر مودی بھی ان انتخابی نتائج کو خود کی توثیق مان کر چاہنے لگیں کہ پارٹی، سرکار اور ملک ان کی ہی خواہشات و مرضی کے مطابق چلیں۔ کہا جاتا ہے کہ سیاستدانوں و پارٹیوں کی کامیابی دائمی نہیں ہوتی۔ نریندر مودی کے دور کا بھی خاتمہ ہوگا، جیسا اندرا گاندھی کا ہوا۔
ہمیں سب سے زیادہ پریشان کرنے والی بات ہے ملک کا بتدریج ایک ہندو ریاست میں بدلتے جانا۔ مودی سرکار کے بیتے پانچ سالوں میں منافرت بھری پرتشدد طاقتیں بے لگام رہیں۔انتخابی مہم کے دوران وہ زیادہ فعال تھیں اور روزمرہ زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ملک کے بنیادگزاروں نے تکثیریت کی جس روایت کی داغ بیل ڈالی تھی، اس کے پھلنے پھولنے کی امید کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسے کتنی جلدی اور مؤثر انداز میں دوبارہ قائم کیا جاتا ہے، ہمارے جمہوری ملک کا مستقبل اسی پر منحصر ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)
Categories: فکر و نظر