فرقہ پرست عناصر اب کشمیریو ں کی عزت نیلام کرنے اور ان کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے کے لئے ایک گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔حکومت کے موجودہ قدم سے سب سے بری حالت کشمیر کی ہند نواز نیشنل کانفرنس اور پیلز کانفرنس کی ہوئی ہے۔ ان کی پوری سیاست ہی دفعہ 370اور کشمیریوں کے تشخص کو نئی دہلی کی گزند سے بچانے پر مشتمل تھی۔
چلیےنریندر مودی حکومت نے تو قضیہ کشمیر ہی ختم کر دیا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پر کشمیر اور پاکستان میں ابھی شادیانے بج ہی رہے تھے،کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیامنٹ میں ایک طرح سے آئینی سرجیکل اسٹرئیک کر کے آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ دفعہ 35 اے کو بھی ختم کردیا گیا، جس کی رو سے غیر ریاستی باشندے جموں و کشمیر میں غیر منقولہ جائیدادنہیں خرید سکتے۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر کوتقسیم کرکے لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا اور بقیہ ریاست یعنی جموں اور کشمیر کے خطوں پر مشتمل علاقہ بھی مرکز کے زیر انتظام ہوگا، مگر دہلی کی طرح برائے نام اسمبلی بھی ہوگی۔اس اسمبلی اور اگلے وزیر اعلیٰ کے پاور کسی شہر کے میئر کے برابر ہوں گے۔ پولیس وغیرہ کا انتظام براہ راست وزیر داخلہ کے پاس ہوگا۔
مجھے یاد ہے کہ 90 کی دہائی کے اوائل میں تعلیم اور روزگار کی تلاش میں جب میں وارد دہلی ہوا، تو ایک روز معلوم ہوا،کہ کانسٹی ٹیوشن کلب میں ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی اسٹوڈنٹ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کی طرف سے کشمیر پر مذاکرہ ہو رہا ہے۔ بطور سامع میں بھی حاضر ہوگیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سلجھے ہوئے اور اعتدال پسند مانے جانے والے لیڈر ارون جیٹلی خطاب کر رہے تھے۔ وہ ان دنوں ابھی بڑے لیڈروں کی صف میں نہیں پہنچے تھے اور تب تک سپریم کورٹ کے زیرک وکیلوں میں ہی شمار کئے جاتے تھے۔ چونکہ وہ مقتدر ڈوگرہ کانگریسی لیڈر گردھاری لال ڈوگرہ کے داماد ہیں، اس لئے جموں و کشمیر کے ساتھ ان کا تعلق بنتا ہے۔ اپنے خطاب میں جیٹلی صاحب کا شکوہ تھا کہ پچھلے 50سالوں میں مرکزی حکومتو ں نے کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کو بسانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر ہندوستان کے دیگر علاقوں سے لوگوں کو کشمیر میں بسنے کی ترغیب دی گئی ہوتی، اور اس کی راہ میں قانونی اور آئینی پیچیدگیوں کو دور کیا جاتا، تو کشمیر کا مسئلہ کبھی بھی سر نہیں اٹھاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیریت اور کشمیری تشخص کو بڑھاوادینے سے کشمیری نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو برتر اور الگ سمجھتے ہیں اور ہندوستان میں ضم نہیں ہو پاتے ہیں۔ اسی طرح مجھے یاد ہے کہ من موہن سنگھ کی وزارت اعظمیٰ کے دور میں ایک بار پارلیامنٹ میں کشمیر پر بحث ہو رہی تھی۔ اپوزیشن بی جے پی نے اتر پردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بطور مقرر میدا ن میں اتارا تھا۔ تقریر ختم کرنے کے بعد وہ پارلیامنٹ کمپلکس کے سینٹرل ہال میں آکر سوپ اور ٹوسٹ نوش کررہے تھے، کہ میں نے جاکر ان سے کہا کہ؛
آپ نے بڑی دھواں دھار تقریر کرکے حکومت کے چھکے تو چھڑائے، مگر کوئی حل پیش نہیں کیا۔
یوگی جی نے میر ی طرف دیکھ کر مسکرا کر کہا کہ؛
اگر میں حل پیش کرتا تو ایوان میں آگ لگ جاتی۔
میں نے پوچھا کہ؛ایسا کون سے حل ہے کہ جس سے دیگر اراکین پارلیامان بھڑک جاتے؟ یوگی مہاراج نے فلسفیانہ انداز میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کھنگالنا شروع کیا،اور نتیجہ اخذ کیا کہ؛
مسلمان جہاں بھی اکثریت میں ہوتے ہیں یا ان کی آبادی کچھ زیادہ ہوتی ہے، تو جہادی، جھگڑالو اور امن عامہ کیلئے خطرہ ہوتے ہیں۔ ایک طویل تقریر کے بعد یوگی جی نے فیصلہ صاد ر کر دیا کہ مسلمانو ں کی آبادی کو کسی بھی معاشرہ میں پانچ فیصد سے زیادہ نہیں بڑھنے دینا چاہئے۔ اس لئے ہندوستان اور دیگر تمام ممالک کو مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے طریقے ڈھونڈنے چاہئے۔ ا ن کو مختلف علاقوں میں بکھرا کر اور ان کی افزائش نسل پر پابندی لگا کر ہی دینا میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے۔ بس یہی مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔وہاں کی آبادی کو پورے ملک میں بکھرا کر وہاں بھاری تعداد میں ہندو آبادی کو بسایا جائے۔
ان دوواقعات کو بیان کرکے کا مقصد یہی ہے کہ معلوم ہو کہ کس ذہنیت کے افراد ملک کے تخت پر برا جمان ہیں۔ملک میں اس وقت کی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جب سے وجود میں آئی ہے، وہ لگا تار تین نکاتی ایجنڈہ پر انتخابات لڑتی آئی ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، یونیفار سول کوڈ کا نفاذ اور کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت ختم کرنا۔ گو کہ اس سے قبل بی جے پی دوبار اقتدار میں رہی ہے، مگر دونوں بار اس نے اپنے اتحادیو ں کی وجہ سے ان تین ایشوز کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کیا۔ اب جب2019 میں اکثریت کے ساتھ ان کو اقتدار میں واپس بھیجا گیا، تو بی جے پی کے لیڈران کا کہنا ہے کہ ان کے کور ایجنڈہ کو نافذ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ 2014 میں جب کشمیر میں مقامی پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ (پی ڈی پی) اور بی جے پی کے اتحاد سے مفتی محمد سعید کی حکومت تشکیل پائی تھی، تو بتایا گیا تھا کہ بی جے پی آئین کی دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو دیے گئے خصوصی اختیارات کو موضوع بحث نہیں لائے گی۔
بظاہر یہ وعدہ ایفا تو ہوا مگر چور دروازے سے بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ایک تھنک ٹینک اور ان کے اپنے ہی ایک عہدیدار نے الگ الگ کورٹ میں رٹ دائر کی۔ آر ایس ایس کی تھنک ٹینک نے دفعہ 370 کے بدلے دفعہ 35 اے کو نشانہ بنایا گیا اور عدالت نے یہ پٹیشن سماعت کے لئے منظور بھی کر لی۔ اسی دفعہ کے تحت ریاستی قانون ساز اسمبلی کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں اور اسی قانون کی رو سے ہی جموں و کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کے نوکری حاصل کرنے، ووٹ دینے اور جائیداد خریدنے پر پابندی عائد ہے۔ اگر یہ دفعہ ختم کر دی گئی تو اس کے نتائج دفعہ 370 کے خاتمے سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ مسلم دشمنی اور متعصب ذہنیت کے حامل افراد کوآئین کی اسی طرح کی اور شقیں نظر نہیں آتیں جو دیگر علاقوں یعنی ناگالینڈ، میزورم، سکم، اروناچل پردیش، آسام، منی پور، آندھرا پردیش اورگوا کو خاص اور منفرد حیثیت عطا کرتی ہیں اور وہاں بھی دیگر شہریوں کو غیر منقولہ جائیدادیں خریدنے پر پابندی عائد ہے یا اس کے لئے خصوصی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔اور تو اور بی جے پی کے جس عہدیدار نے جموں و کشمیر کی جموں بینچ کے سامنے دفعہ 370کو چلینج کیا، وہ اس وقت جموں و کشمیر کے گورنر کے مشیر ہیں۔ فاروق خان پولیس کی نوکری سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ مارچ 2000میں جنوبی کشمیر میں دہلی میں امریکی صدر بل کلنٹن کی آمد پر سکھوں کے قتل عام کے بعد پیش آنے والے واقعات کے لیے ایک عدالتی کمیشن نے ان کو ذمہ دار ٹھہرا کر ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔
فاروق عبداللہ حکومت نے ا ن کو برخاست کر دیا تھا، بعد میں مفتی محمد سعید حکومت نے بھی ا ن کے خلاف چارہ جوئی کی کوشش کی ہی تھی، کہ کانگریس نے ان کی حکومت سے حمایت واپس لی اور غلام نبی آزاد وزیر اعلیٰ بنائے گئے۔کرسی سنبھالتے ہی آزادنے نئی دہلی کے کہنے پر فاروق خان کو بحال کیا۔
جموں و کشمیر میں غیر ریاستی باشندو ں پر جائیدادیں خریدنے پر پابندی کا قانون 1927ء میں ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے کئی عوامل کی وجہ سے لاگوکیا تھا۔ ایک وجہ کشمیری پنڈتوں کا اس بات پر احتجاج تھا کہ سرکاری نوکریوں میں پنجابی اور دیگر غیر ریاستی باشندوں کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے‘ جس سے پنڈتوں کی نمائندگی پر اثر پڑ رہا ہے۔ کشمیری مسلمان عموماً ان پڑھ اور سرکاری ملازمتوں میں برائے نام ہی تھے، اس لئے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مشرقی پنجاب کے مسلمان زمیندار، کشمیری لڑکیوں سے شادیاں کرکے زمینوں کے مالکانہ حقوق مانگتے تھے۔ وقا ئع نگاروں کے مطابق تیسری وجہ مہاراجہ کا یہ خوف تھا کہ کہیں برطانوی افسران کشمیر میں مستقل رہائش اختیار نہ کر لیں، کیونکہ کشمیر اور انگلینڈ کا موسم خاصی حد تک مماثلت رکھتا تھا۔ستم ظریفی ہے کہ کشمیر ی پنڈتوں نے ہی20ویں صدی کے اوائل میں ”کشمیر،کشمیریوں کا ہے“ کا نعرہ بلند کرکے خصوصاً سیالکوٹ و لاہور سے غیر ریاستی افراد کی نوکریوں اور غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر پابندی لگوائی۔ سو سال بعد یہی کشمیر پنڈت اس شق کو ہٹانے پر بضد تھے۔ اب ریاست کے مسلمان غیر ریاستی باشندو ں کے آنے سے خائف تھے۔
معروف قانون دان اے جی نورانی کے بقول آرٹیکل 370 گو کہ ایک عبوری انتظام تھا کیونکہ حکومت ہند کی 60 کی دہائی تک یہ پالیسی تھی کہ جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے سے کیا جائے گا۔ 1948ء میں جموں و کشمیر پر حکومت نے ایک وہائٹ پیپر جاری کیا تھا‘ جس میں سردار پٹیل کا یہ بیان موجود ہے؛
الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت ہند نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے بالکل عارضی مانتی ہے جب تک کہ اس بارے میں ریاست کے لوگوں سے ان کی رائے نہیں معلوم کی جائے گی۔
نورانی کے بقول؛
جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی نے‘ جن کا نام آرٹیکل 370 کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اچھالتی ہے‘ نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔ بی جے پی اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کا نام بھی اس پروپیگنڈہ کے لئے استعمال کرتی ہے کہ انہوں نے اس مسئلے پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی مخالفت کی تھی‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پٹیل نے بھی آئین کی اس دفعہ کی مکمل تائید کی تھی۔ نورانی کا کہنا ہے کہ کشمیر واحد ریاست تھی جس نے الحاق کے لئے اپنی شرائط پر حکومت سے مذاکرات کئے تھے۔ وہ ہندوستان میں ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے الحاق کیا تھا، اس لئے ان کے مطابق آرٹیکل 370 دونوں کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے‘ جس کی کسی شق کو کوئی بھی فریق یکطرفہ ترمیم نہیں کر سکتا۔ نورانی اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ این گوپال سوامی نے 16اکتوبر 1949ء کو اس سلسلے میں پہلی’خلاف ورزی‘ اس وقت کی جب انہوں نے یکطرفہ طور پر مسودے میں تبدیلی کے لیے پارلیامنٹ کی لابی میں حتمی شکل دی تھی۔ جیسے ہی شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کو اس تبدیلی کا علم ہوا وہ دونوں ایوان کی طرف دوڑے لیکن تب تک یہ ترمیمی بل پاس ہو چکا تھا۔ بقول ان کے یہ ایک افسوسناک اعتماد شکنی کا معاملہ تھا جس نے بداعتمادی کو جنم دیا۔ اگر اصل مسودہ پاس کیا جاتا تو 1953ء میں شیخ عبداللہ کو اقتدار سے بے دخل کیا جانا ممکن نہ تھا۔
اس آرٹیکل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور اس کی حیثیت مجروح کرنے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ آئین کی دفعہ 249 کے تحت جاری کردہ صدارتی حکم نامہ‘ جس کا اطلاق کشمیر پر بھی کیا گیا‘ کا تعلق ریاست کی فہرست سے تھا۔ مرکز کے مقرر کردہ گورنر جگ موہن نے اس کی توثیق کر دی تھی۔ یہ چالاکی لا سکریٹری کی مخالفت اور ریاستی کابینہ کی عدم موجودگی میں انجام دی گئی تھی۔1951ء میں کشمیر اسمبلی کے لئے جو انتخابات منعقد کئے گئے، ان سے ہندوستان کے جمہوری دعووں کی کشمیر میں قلعی کھل گئی۔ انتخابی دھاندلیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گئے۔ تمام امیدوار ‘بلامقابلہ‘ ‘منتخب‘ قرار پائے۔ یہ وہی اسمبلی تھی جس نے ریاست کا دستور وضع کیا اور الحاق کے دستاویز کی توثیق کی تھی۔ اس اسمبلی کے جواز پر سوال کھڑا کیا جا سکتا ہے کیونکہ پانچ فیصد سے بھی کم لوگوں نے اس کی تشکیل میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔ یہ اسمبلی ریاست کی مستقبل گری اور اس کی حیثیت طے کرنے کے سلسلے میں دستور ساز اسمبلی کا درجہ رکھتی تھی۔ کشمیر کی اس آئین ساز اسمبلی کی حقیقت اور حیثیت کی قلعی خود اس وقت کے انٹلی جنس سربراہ بی این ملک نے کھول دی۔ ان کے بقول ”ان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا‘ جو حزب مخالف کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے“۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ الحاق کی دستاویز کی توثیق اور کشمیر کے آئین کی منظوری کو کوئی عوامی تائید حاصل نہیں تھی۔
بہرحال پچھلے 70 برسوں میں حکومتوں نے آرٹیکل 370 کو اس بری طرح سے مسخ کر دیا کہ اس کا اصلی چہرہ اب نظر ہی نہیں آتا۔ کئی مواقع پر خود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزت نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے ان آئینی خلاف ورزیوں کے لئے راہ ہموار کی۔ اگر ایک طرح سے کہا جائے کہ آئین کی اس شق نے کشمیریوں کو سیاسی گرداب سے بچنے کے لئے جوکپڑے فراہم کئے تھے، وہ سب اتر چکے ہیں اور اب صرف دفعہ 35 اے کی صورت میں ایک نیکر بچی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ فرقہ پرست عناصر اب اسی نیکر کو اتارنے، کشمیریو ں کی عزت نیلام کرنے اور ان کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے کے لئے ایک گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔حکومت کے موجودہ قدم سے سب سے بری حالت کشمیر کی ہند نواز نیشنل کانفرنس اور پیلز کانفرنس کی ہوئی ہے۔ ان کی پوری سیاست ہی دفعہ 370اور کشمیریوں کے تشخص کو نئی دہلی کی گزند سے بچانے پر مشتمل تھی۔
اب اگلے مرحلے کے طور پر حکومت کی کوشش، مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مذاکرات کے عمل سے خارج کروانے کی ہے۔ افواہیں گشت کررہی ہیں کہ جس طرح 1973ء کے شملہ سمجھوتہ میں آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس مسئلے کی بین الا قوامی نوعیت کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ معاملے میں تبدیل کرواکے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا تھا، اسی طرح اب نریندر مودی نے بھی اپنا نام امرکروانے کے لئے کشمیر کو پوری طرح ہندوستان میں ضم کراکے کردیا۔کشمیرکی بین الاقوامی حیثیت کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ مودی کے دست راست اور حکمران بی جے پی کے صدر امت شاہ نے چند روز قبل ہی چنندہ صحافیوں کو بتایا تھاکہ وہ کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت کو ختم کرکے ہی دم لیں گے اور اسی لئے ہی وزارت داخلہ ان کے سپرد کر دی گئی ہے۔ وہ ایک اور پلان پر بھی کام کررہے ہیں۔
اس کے تحت غالباً نومبر، دسمبر میں کشمیر میں ہونے والے برائے نام اسمبلی کیلئے انتخابات میں ہندو اکثریتی خطے جموں کی تمام نشستوں پر بی جے پی کے امیدواروں کو کامیاب بنانا ہے۔ اس کے علاوہ وادی کشمیر کی ایسی نشستوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان نشستوں پر جموں اور دہلی میں مقیم کشمیری پنڈتوں کے ووٹوں کی رجسٹریشن کا کام سرعت سے جاری ہے تاکہ ان کے پوسٹل بیلٹوں کے ذریعے ان علاقوں میں بھی بی جے پی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائی جائے۔ امت شاہ کی حکمت عملی کا مقصد ریاست میں مسلمان ووٹوں کو بے اثرکرناہے۔کشمیر اسمبلی کی اب 82 نشستیں رہ گئی ہیں۔ امت شاہ نے جو بل پارلیامنٹ میں پیش کیا، اس میں بتایا گیا کہ اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی ہوگی۔فی الحال37جموں، 45 وادی کشمیر خطے سے ہیں۔ کشمیر اسمبلی میں 24مزید سیٹیں آزاد کشمیر و گلگت کیلئے مختص رکھی گئی ہیں، جو خالی رہیں گی۔ امت شاہ کے مطابق ان میں سے 8سیٹیں وہ پاکستان سے 1947، 1965اور 1971میں آئے ہندو پناہ گزینوں کو وقف کی جائیگی، تاکہ اسمبلی میں ان کو نمائندگی ہو اور ہندو ممبرا ن کی تعداد میں بھی اضافہ ہو۔
Categories: فکر و نظر