سویڈن کے اس انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق سال 2014 میں بی جے پی اور نریندر مودی کی فتح کے بعد سے ملک کا جمہوری ڈھانچہ کافی کمزور ہوا ہے اور اب یہ‘آمریت ’ کی حالت میں ہے۔
نئی دہلی: سویڈن واقع ایک انسٹی ٹیوٹ نے اپنے ریسرچ میں کہا ہے کہ ہندوستان اب ‘انتخابی جمہوریت’(الیکٹورل ڈیموکریسی)نہیں رہا، بلکہ ‘انتخابی آمریت’(الیکٹورل آٹوکریسی)میں تبدیل ہو گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق سال 2014 میں بی جے پی اور نریندر مودی کی فتح کے بعد سےملک کا جمہوری ڈھانچہ کافی کمزور ہوا ہے اور اب یہ‘تاناشاہی’یا آمریت کی حالت میں ہے۔
گوتھن برگ یونیورسٹی واقع ایک آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ وی ڈیم نے بڑے پیمانے پر اعدادوشمار کا تجزیہ کرکے یہ رپورٹ شائع کیاہے۔اس نے اپنی سابقہ رپورٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان اپنی جمہوریت کا درجہ کھونے کے دہانے پر ہے۔ اس سال کی رپورٹ نے اس خدشے کی تصدیق کر دی ہے۔ یہ سال 2020 کے اعدادوشمارپرمبنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خاطر خواہ اعدادوشمار نہیں ہونے کی وجہ سے پچھلے سال ہندوستان کی تصویرزیادہ صاف نہیں ہو پائی تھی، لیکن نئےاعدادوشمار کی وجہ سے اب پورے دعوے کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان ‘انتخابی آمریت’ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
اس کی وجہ سے وی ڈیم کی رپورٹ میں 180ممالک میں سے ہندوستان نچلے 50 فیصدی ممالک کے زمرے میں شامل ہو گیا ہے۔ اس سال یہ 97ویں پائیدان پر ہے۔
سویڈش رپورٹ میں کہا گیا کہ ہندوستان ‘آمریت کی تیسری لہر’کی قیادت والے ممالک میں شامل ہے۔ اس وقت دنیا کی 68 فیصدی عوام تاناشاہی میں زندگی بسر کر رہی ہے۔
وی ڈیم نے کہا کہ دنیا کی ایک تہائی آبادی2.6ارب والے 25ممالک پرآمرانہ تسلط قائم ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ جی20 والے ملک مثلاً برازیل، ہندوستان ، ترکی اور امریکہ بھی اس لہر کے زمرےمیں ہیں۔
وی ڈیم نے کہا کہ مختلف حالات ہونے کے باوجود تاناشاہی ایک ہی طرح کے پیٹرن کی پیروی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی شروعات وہاں سے ہوتی ہے، جب حکومت میڈیا اور شہری سماج پر حملے کرنے لگتی ہے، مزاحمت کااحترام کیے بنا سماج کو بانٹا جاتا ہے اور جھوٹی خبریں نشر کی جاتی ہیں۔
اس رپورٹ میں مکمل ایک باب ہندوستان پر ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ‘دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اب انتخابی تاناشاہی میں تبدیل ہو چکی ہے۔’ انہوں نے کہا کہ ملک میں دھیرے دھیرے میڈیا، تعلیمی دنیا اور سول سوسائٹی کی آزادی کو چھینا جا رہا ہے۔
سویڈش رپورٹ نے کہا گیا،‘سال 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی جیت اور ہندونیشنلسٹ ایجنڈہ آگے بڑھانے کے بعد سے ہی زیادہ تر گراوٹ آئی ہے۔ سال 2020 کے آخرتک ہندوستان کی جمہوریت کا نمبر 0.34 رہا، جبکہ 2013 میں یہ اپنی انتہاپر 0.57 تھی۔ اس طرح لبرل ڈیموکریسی انڈیکس میں 23 فیصدی کی کمی واقع ہوئی ہے۔’
وی ڈیم نے کہا کہ میڈیا کا سرکاری سینسرشپ، سول سوسائٹی کا استحصال اورالیکشن کمیشن کی خودمختاریت میں کمی کی وجہ سےہندوستان کی یہ حالت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں بہت زیادہ جانبداری ہو رہی ہے اور اکیڈمک اورمذہبی آزادی میں کمی آئی ہے۔
رپورٹ میں حکومت ہند کی جانب سےسیڈیشن ،ہتک عزت اوریو اے پی اے قوانین کے لگاتار استعمال کرنے کو لےکر بھی اس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘مثال کے طور پر اقتدار میں بی جے پی کے آنے کے بعد سے 7000 لوگوں پرسیڈیشن کا مقدمہ کیا گیا ہے۔’
اس کے ساتھ ہی وی ڈیم نے متنازعہ شہریت قانون کے خلاف چل رہے احتجاج پر حکومت کے جبرکوبھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔یہ رپورٹ ایسے وقت پر آئی ہے جب کچھ دن پہلے ہی امریکی حکومت کی جانب سے مالی اعانت حاصل غیر سرکاری تنظیم فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہندوستان میں شہری آزادیوں کا مسلسل نقصان ہوا ہے۔
اس نے ہندوستان کے درجے کو آزاد سے گھٹاکر جزوی طور پر آزاد کر دیا ہے۔ ایسا میڈیا،ماہرین تعلیم ، شہری سماج اور مظاہرین کے اختلافات کے اظہار کرنے پر حملے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: خبریں