خبریں

کین-بیتوا لنک: مودی حکومت نے تباہ کن اثرات کی نشاندہی کرنے والی سپریم کورٹ کمیٹی کی رپورٹ کو نظر انداز کیا تھا

گزشتہ مارچ مہینے میں وزیراعظم نریندر مودی کی موجودگی میں اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے بیچ متنازعہ کین-بیتوا لنک پروجیکٹ سےمتعلق معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ سپریم کورٹ کی ایک کمیٹی نے اس پر سنگین سوال اٹھائے تھے، حالانکہ دستاویز دکھاتے ہیں کہ مودی حکومت نے انہیں نظرانداز کیا۔

کین-بیتوا لنک پروجیکٹ کے معاہدےپر دستخط کرتےجل شکتی کی وزارت کے مرکزی وزیر جناب گجیندر سنگھ شیکھاوت، مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ  شیوراج سنگھ چوہان اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فوٹو بہ شکریہ :پی آئی بی)

کین-بیتوا لنک پروجیکٹ کے معاہدےپر دستخط کرتےجل شکتی کی وزارت کے مرکزی وزیر جناب گجیندر سنگھ شیکھاوت، مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ  شیوراج سنگھ چوہان اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فوٹو بہ شکریہ :پی آئی بی)

(انٹرنیوز کے ارتھ جرنلزم نیٹ ورک کے تعاون  سے کی گئی یہ رپورٹ کین-بیتوا ندی جوڑو پروجیکٹ پر چھ رپورٹ  کی سیریزکا پہلا حصہ ہے۔)

نئی دہلی: آبی بحران سے جوجھ رہے بندیل کھنڈ علاقے کو پانی کا خواب دکھاتے ہوئے سرکار ایک اور منصوبہ لاگو کر رہی ہے، جس کا نام کین-بیتوا ندی جوڑو پروجیکٹ ہے۔اس متنازعہ پروجیکٹ کو لےکرمودی سرکار نے اسی سال 22 مارچ کوعالمی یوم آب کے موقع پر اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے بیچ ایک ڈیل سائن کروائی تھی۔

لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی  میں ہوئے اس معاہدے میں سپریم کورٹ کمیٹی کی اس رپورٹ کو پوری طرح سےنظر انداز کیا گیا ہےجس نے پروجیکٹ کی کمیوں کو اجاگر کرتے ہوئے مرکز کو آگاہ کیا تھا کہ اگر اسے لاگو کیا جاتا ہے تو بڑے پیمانے پر پرماحولیاتی تباہی ہوگی اور اندازے سے زیادہ پیسہ خرچ ہوگا۔

کمیٹی نے کہا تھا کہ سرکار اس پروجیکٹ کےتحت جن مقاصدکو حاصل کرنا چاہتی ہے، وہ بہتر طریقوں یا اس شعبہ میں بنے موجودہ منصوبوں کی صلاحیت  کی توسیع کرکے کی جا سکتی ہے۔

لیکن جب دی وائر نےآر ٹی آئی قانون کے تحت اس پروجیکٹ  کو لےکروزارت میں دستیاب تقریباً2000 سے زیادہ  دستاویزوں کی جانچ کی تو اس میں کہیں بھی ان نتائج پر تفصیلی غوروخوض  کرنے کاکوئی سیاق و سباق دکھائی نہیں دیتا ہے۔

اس دوران کین-بیتوا لنک پروجیکٹ کو لےکرجل شکتی کی وزارت کے مرکزی وزیرسے لےکرسکریٹری کی سطح کی جو بھی بیٹھکیں ہوئی تھیں،اس میں سپریم کورٹ کمیٹی  کی رپورٹ پر چرچہ کرنے یا اس کے سنگین  پہلوؤں پر آزادانہ  مطالعہ کرانے پر کوئی زور نہیں دیا گیا۔ رہنماؤں اور حکام کی بات چیت مدھیہ پردیش اور یوپی کے بیچ آبی تقسیم کرانے تک ہی محدود رہی۔

ملک بھر کے تمام ندی جوڑو منصوبوں  کے کام میں تیزی لانے کے لیے بنائی گئی خصوصی کمیٹی کی ایک بیٹھک میں ضرور اس رپورٹ کا ذکر کیا گیا تھا، لیکن بنا کسی مطالعہ کے ممبروں  نے ایک آوازمیں اس کو خارج کر دیا اور خود کو کلین چٹ دے دی۔

ماحولیات کے ماہرین  کا کہنا ہے کہ اس طرح کے‘تباہ کن’منصوبےپر سپریم کورٹ  کی کمیٹی  کی اتنی اہم  رپورٹ کو سنجیدگی  سے نہ لینا اور عدالت  کے آخری فیصلے کا انتظار کیے بنا معاہدہ سائن کرانا دکھاتا ہے کہ سرکار اپنی ضد کے آگے جمہوری اداروں کو کمترسمجھتی ہے۔

یمنا جیےمہم کے منوج مشرانے کین-بیتوا لنک پروجیکٹ کو ملی وائلڈ لائف منظوری کو سپریم کورٹ میں چیلنج  دیا تھا، جس کی بنیاد پر عدالت نے اپنے سینٹرل امپاورڈ کمیٹی(سی ای سی)سے اس معاملے میں جانچ کرنے کو کہا تھا۔

تقریباً دو سالوں کی اسٹڈی  کے بعد کمیٹی نے 30 اگست 2019 کو اپنی رپورٹ سونپی تھی، جس میں انہوں نے وائلڈ لائف منظوری دینے میں ہوئے ضابطوں کی خلاف ورزی،جنگلات کاٹنے سے پنا ٹائیگر ریزرو اور اس کے حیوانات پر پڑنے والے اثرات، پروجیکٹ کی لاگت میں ممکنہ اضافہ، اکولاجیکل نقصان وغیرہ  کی  تفصیلات کاتذکرہ حقائق کے ساتھ  کیا ہے۔

کین ندی۔ (فوٹو: دھیرج مشرا/دی وائر)

کین ندی۔ (فوٹو: دھیرج مشرا/دی وائر)

اس کے20دن بعد ہی آبی وسائل ،دریاؤں کی ترقی اور گنگا کی بحالی کی وزارت(اب جل شکتی کی وزارت)کے سکریٹری کی صدارت میں کین-بیتوا ندی جوڑومنصوبےپر اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے بیچ رضامندی  کے لیے بیٹھک ہوئی تھی، لیکن یہ بات چیت دونوں صوبوں کے بیچ پانی کے بٹوارے تک ہی محدود رہی۔

اس پروجیکٹ کےتصور کے بعد سے ہی مدھیہ پردیش اور یوپی کے بیچ پانی کےبٹوارے کو لےکرتنازعہ رہا ہے۔ اتر پردیش کی مانگ تھی کہ نان مانسون سیزن(اکتوبر سے مئی)میں انہیں935 میلین کیوبک میٹر(ایم سی ایم)پانی دیا جانا چاہیے،لیکن مدھیہ پردیش انہیں700 ایم سی ایم ہی پانی دینے پر تیار ہو رہا تھا۔

ایک کیوبک میٹر میں ایک ہزار لیٹر اور ایک ایم سی ایم میں ایک ارب لیٹر پانی ہوتا ہے۔

اس تنازعہ کوسلجھانے کے لیےیہ فیصلہ لیا گیا کہ جل شکتی کی وزارت کے حکام زمین پر جاکر جائزہ لیں گے کہ کس صوبے کو کتنا پانی دیا جانا چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی بیٹھک میں اس وقت کے سکریٹری  یوپی سنگھ نےوزارت ماحولیات کی جانب سے پروجیکٹ کو پرائمری لیول  کے جنگلات منظوری دیتے ہوئے لگائی گئی شرطوں پر تشویش  ظاہر کی اور اس میں نرمی دلانے پر زور دیا۔ لیکن کہیں پر بھی سی ای سی کی رپورٹ کا ذکر نہیں کیا گیا۔

اس سے پہلے23اپریل2018 کو کین-بیتواپروجیکٹ پرسکریٹری کی سطح کی بیٹھک ہوئی تھی،تب تک سی ای سی نے متنازعہ پروجیکٹ پر کام کرنا شروع کر دیا تھا، لیکن منٹس آف میٹنگ سے پتہ چلتا ہے کہ سرکارکمیٹی کی جانب سے کی جا رہی جانچ کو لےکر ذرا بھی فکرمند نہیں تھی۔

اس بیٹھک میں بھی مرکز اور صوبے کے حکام  کی بات چیت صوبوں  کے بیچ پانی کےبٹوارے اور جنگلات کی  کٹائی کو لےکر لگائی شرطوں پرتشویش  ظاہر کرنے تک محدود رہی۔

سی ایس ای رپورٹ کےتقریباً ایک سال بعد سال 2020 کےستمبر مہینے کی تین تاریخ کو جل شکتی کی وزارت کے سکریٹری  کی صدارت میں دونوں صوبوں  اور اس پروجیکٹ کو لاگو کر رہی وزارت کی ایجنسی نیشنل واٹر ڈیولپمنٹ (این ڈبلیوڈی اے)کے بیچ ایک اور بیٹھک ہوئی۔

اس میٹنگ میں مرکز اورصوبے کو ملاکر 23 اعلیٰ افسران شامل تھے، لیکن ایک نےبھی سپریم کورٹ کمیٹی کے ذریعے  آگاہ کیے گئے اقدامات پر غورکرنے پر کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ایک بار پھر ان کی بات چیت صوبوں  کے بیچ پانی کےسمجھوتہ اور وزارت ماحولیات  کی شرطوں میں ڈھیل دلانے کی بات پر محدود رہی۔

اس کے بعد ندی جوڑو پروجیکٹ پرسمجھوتے کو حتمی شکل  دینے کے لیےجل شکتی کےمرکزی وزیر گجیندرسنگھ شیکھاوت کی صدارت میں22 ستمبر 2020 کو مدھیہ پردیش کے جل وزیرتلسی رام سلاوت اور اتر پردیش کے جل وزیر مہیندر سنگھ کے ساتھ بیٹھک ہوئی تھی۔

میٹنگ کی شروعات میں ہی انہوں نے پروجیکٹ لاگو کرنے کے لیے مودی سرکار کی سنک کو ظاہر کیا اور کہا کہ ‘کین-بیتوا لنک پروجیکٹ ہمارے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا ڈریم پروجیکٹ تھا’تاکہ قحط متاثرہ بندیل کھنڈ میں پانی کی پریشانی  کو دور کیا جا سکے۔

اس سے پہلے بھی کئی سرکاروں میں بندیل کھنڈ میں پانی کی پریشانی  کو دور کرنے کاخواب  دکھاتے ہوئے کئی منصوبے  لاگو کیے گئے ہیں، حالانکہ اس کے باوجود ابھی بھی علاقےکے کئی لوگوں کو پانی کی ضروریات کے لیے لمبی دوری طے کرتے ہوئے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

کین-بیتوا لنک پروجیکٹ کے معاہدہ  پر دستخط کرتے جل شکتی کے مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیکھاوت۔ (فوٹو بہ شکریہ :این ڈبلیوڈی اے)

کین-بیتوا لنک پروجیکٹ کے معاہدہ  پر دستخط کرتے جل شکتی کے مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیکھاوت۔ (فوٹو بہ شکریہ :این ڈبلیوڈی اے)

بہرحال اس بیٹھک کو آگے بڑھاتے ہوئے گجیندر سنگھ شیکھاوت نے صوبوں کےوزیروں سے کہا کہ وہ پانی، ہائیڈروپاور کے بٹوارے جیسے چھوٹے مدعے کو نہ اٹھائیں، کیونکہ یہ پروجیکٹ کو لاگو کرنے میں مشکلیں  پیدا کر رہی ہیں۔

منٹس آف میٹنگ سے پتہ چلتا ہے کہ جل شکتی کے مرکزی وزیر کی بیٹھک میں بھی سپریم کورٹ کمیٹی پر ایک بار بھی چرچہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے پروجیکٹ کے سمجھوتے پر چرچہ کو لےکرحتمی  مہر لگائی اور بیٹھک ختم کر دی۔

اس میٹنگ کے بعد ہی کین-بیتوا ندی جوڑو پروجیکٹ کے میمورینڈم آف اگریمنٹ(ایم اواے)کو حتمی شکل  دیا گیا تھا، جس پرغور کرنے کے بعد 22 مارچ 2021 کو شیکھاوت سمیت دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ  نے اس پردستخط کیے تھے۔

اس سے پہلے اس معاملے کو لےکرمرکزی وزیر نے اتر پردیش کے وززیر اعلیٰ  یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ 25 فروری 2020 کو ایک بیٹھک کی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ  شیوراج سنگھ چوہان سے بھی بات کی تھی۔

اس پروجیکٹ کے تحت نان مانسون سیزن میں مدھیہ پردیش کو 1834ایم سی ایم اور اتر پردیش کو 750 ایم سی ایم پانی دیا جائےگا۔

جب دی وائر نے این ڈبلیوڈی اے کے ڈائریکٹرجنرل بھوپال سنگھ سے پوچھا کہ کیاکین-بیتوا لنک پروجیکٹ پر میمورینڈم آف اگریمنٹ سائن کرنے سے پہلےسپریم کورٹ کی سی ای سی رپورٹ پر غور کیا گیا تھا، تو انہوں نے کہا کہ ندی جوڑو پروجیکٹ کی خصوصی  کمیٹی  کی بیٹھک میں اس پر چرچہ ہوئی تھی اور یہ فیصلہ  لیا گیا تھا کہ بندیل کھنڈعلاقے کو پانی دلانے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور پروجیکٹ نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا، ‘خصوصی کمیٹی  کی یہ رائے تھی کہ کین-بیتوا لنک پروجیکٹ پر ڈی پی آر(ڈٹیلڈ پروجیکٹ رپورٹ)تیار کرتے وقت تمام ممکنہ متبادل پرغور کیا گیا تھا اور قحط زدہ بندیل کھنڈعلاقے کو راحت پہنچانے کے لیےکین-بیتوا لنک پروجیکٹ سب سے اچھا متبادل  ہے۔’

حالانکہ اس کے منٹس آف میٹنگ میں ایسی کوئی تفصیلات درج نہیں ہے کہ آخر کس بنیاد پر کمیٹی  نے اپنی یہ‘رائے’ بنائی تھی۔ یہ فیصلہ  لینے سے پہلے کسی بھی طرح کے نئے ریسرچ یا مطالعےکا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔

بتادیں کہ 26 فروری2020 کو ہوئی خصوصی کمیٹی  کی اس 17ویں بیٹھک کی صدارت جل شکتی کےوزیر رتن لال کٹاریہ نے کی تھی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر بنی یہ کمیٹی رہنماؤں، بابوؤں اور کچھ سرکاری ماہرین  سے بھری پڑی ہے۔

اس میٹنگ میں67 لوگوں نے حصہ لیا تھا، جس میں سے 64 لوگ مرکز اور صوبےکے سرکاری محکموں کے تھے۔ باقی کے تین خصوصی طور پر مدعو کیے لوگوں  میں سے ایک سینٹرل واٹرکمیشن(سی ڈبلیوسی)کےسابق  چیئرمین، ایک آئی آئی ٹی دہلی کےسابق  پروفیسر اور انٹرنیشنل کمیشن آن ایریگیشن اینڈ ڈرینز (آئی سی آئی ڈی)کے ایک سابق سکریٹری  شامل تھے۔

سنگھ نے کہا کہ سرکار کی بات رکھتے ہوئے محکمہ  کی جانب  سے سپریم کورٹ کمیٹی کو غور کرنے کے لیے24 جولائی 2020 کو ایک جواب بھیجا گیا ہے۔

عالم یہ ہے کہ این ڈبلیوڈی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل  ایم کے شری نواس نے پانی سےمتعلق منصوبوں کوماحولیاتی منظوری ملنے میں آنے والی مبینہ پریشانیوں پر ایک پریزنٹیشن تیار کیا تھا، جس میں کین-بیتوا پروجیکٹ کو ایک کیس اسٹڈی کے طور پر دکھایا گیا اور اسی میں ایک جگہ پر سی ای سی کا بھی ذکر آتا ہے۔

پانی سے متعلق منصوبوں کو متعلقہ وزارتوں یا ایجنسی سے ٹیکنو اکانومک کلیرنس،ماحولیاتی منظوری،وائلڈلائف منظوری،جنگلات منظوری،وزارت قبائلی امور سے منظوری اور سرمایہ کاری کی منظوری لینی پڑتی ہے۔ ایسے اہتمام  اس لیے کیے گئے ہیں تاکہ کسی پروجیکٹ سے ماحولیات اور اکولاجی کو خطرہ  نہ ہو، اور اس میں بےجا خرچ نہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ایک پائیدار ترقی کو یقینی بنایا جائے۔

پنا ٹائیگر ریزرو کے باہر لگا کین-بیتوا لنک پروجیکٹ کا بورڈ۔ (فوٹو: دھیرج مشرا/دی وائر)

پنا ٹائیگر ریزرو کے باہر لگا کین-بیتوا لنک پروجیکٹ کا بورڈ۔ (فوٹو: دھیرج مشرا/دی وائر)

حالانکہ اکتوبر 2018 کے اس پریزنٹیشن میں کین-بیتوا لنک پروجیکٹ کو تمام منظوریاں ملنے میں لگی مبینہ  دیری کو اس طرح پیش کیا گیا ہے یہ کہ یہ مبینہ ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ  کی طرح ہے۔اس میں عدالت  میں دیے گئے تمام چیلنجز اور سی ای سی کے ذریعے اس پروجیکٹ کو جانچنے کو اسی سیاق  میں ذکر کیا گیا ہے۔

بتا دیں کہ کین-بیتوا ندی جوڑوں پروجیکٹ کو دومرحلوں میں لاگو کیا جانا ہے، جس میں سے پہلے مرحلے میں کین ندی کے پاس میں واقع  دودھن گاؤں میں ایک باندھ بنایا جائےگا، جو 77 میٹر اونچا اور 2031 میٹر لمبا ہوگا۔

اس کے علاوہ 221 کلومیٹر لمبی کین-بیتوا لنک نہر بنائی جائےگی، جس کے ذریعے کین کا پانی بیتوا بیسن میں ڈالا جائےگا۔ دودھن باندھ کی وجہ سے9000 ہیکٹر کا علاقہ  ڈوبےگا، جس میں سے سب سے زیادہ5803 ہیکٹر پنا ٹائیگر ریزرو کا ہوگا، جو کہ ٹائیگرز کا اصل مسکن مانا جاتا ہے۔

اس منصوبےکی وجہ سے6017 ہیکٹر جنگلات کی اراضی  کو پوری طرح صاف کر دیا جائےگا، جس میں بےحد حساس پنا ٹائیگر ریزرو کا 4141 ہیکٹر جنگلی علاقہ  بھی شامل ہے۔ دوسرے لفظوں  میں کہیں توتقریباً8427 فٹ بال فیلڈ کے برابر کی زمین میں لگے پیڑوں کو ختم کیا جانا ہے۔

فارسٹ ایڈوائزری کمیٹی کی شریک کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق کین-بیتوا لنک پروجیکٹ کے تحت کم سے کم 23 لاکھ پیڑوں کو کاٹا جائےگا، جو ممبئی کی آرے کالونی میں کاٹے گئے پیڑوں کے مقابلےتقریباً ایک ہزار گنا (1078 گنا)زیادہ  ہے۔

مودی سرکار کا دعویٰ ہے کہ اس پروجیکٹ سے مدھیہ پردیش میں 6.53 لاکھ ہیکٹر اور اتر پردیش میں2.51 لاکھ ہیکٹر میں سینچائی کی سہولت ہو سکےگی۔ اس کے علاوہ تقریباً62 لاکھ لوگوں کو پینے کا پانی بھی ملےگا۔

حالانکہ بندیل کھنڈ کی ترقی کے نام پرمشتہراس پروجیکٹ کے تحت جہاں ایک طرف علاقے کے 13ضلعوں میں سے آٹھ ضلع کو ہی فائدہ  ملنے کاامکان ہے، وہیں دوسری طرف ایسے علاقوں کو بھی فائدہ  دینے کا اہتمام کیا گیا ہے، جو بندیل کھنڈ سے باہر ہیں۔

دستاویزوں کے مطابق،پروجیکٹ کے پہلے مرحلےسے مدھیہ پردیش کے دموہ، چھترپور، پنا اور ٹیکم گڑھ اور اتر پردیش کے باندہ، جھانسی، للت پور اور مہوبا کو فائدہ  دیا جا سکتا ہے۔

وہیں اس کے دوسرے مرحلے میں لوور اور باندھ، کوٹھا براج اور بینا کمپلیکس ملٹی پرپز پروجیکٹ بنایا جانا ہے، جو بندیل کھنڈ کے باہر ہیں شیوپوری، ودیشا، رائےسین اور ساگر ضلع کو فائدہ  پہنچائیں گے۔

وہ مقام جہاں کین ندی پر دودھن باندھ بنایا جانا ہے۔ (فوٹو: دھیرج مشرا/دی وائر)

وہ مقام جہاں کین ندی پر دودھن باندھ بنایا جانا ہے۔ (فوٹو: دھیرج مشرا/دی وائر)

اس پروجیکٹ کو عدالت  میں چیلنج دینے والے ماحولیات کے ماہر منوج مشرا کہتے ہیں کہ اس پروجیکٹ کا اصلی مقصد بیتوا بیسن کے اوپری علاقوں میں پانی پہنچانا ہے، جو بندیل کھنڈ سے باہر ہیں۔

انہوں نے دی وائر سے کہا، ‘بہت لوگ یہ سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں کہ کین-بیتوا لنک کا اصلی مقصد ودیشا، رائےسین، ساگر جیسے ضلعوں کو پانی دینا ہے، جو بندیل کھنڈ میں ہے ہی نہیں۔ یہ بات خود اس کے ڈی پی آر میں لکھی ہوئی ہے۔ بندیل کھنڈ کے جن علاقوں میں یہ لوگ پانی پہنچانے کے لیے کہہ رہے ہیں وہ پہلے کےمنصوبوں کے تحت سیراب شدہ علاقےکے دائرے میں ہیں۔ چونکہ جب بیتوا کے اوپری علاقے میں باندھ بناکر اس کے پانی کو روک دیا جائےگا تو بیسن کے نچلے علاقے میں پانی کی کمی ہو جائےگی اور اسی کی بھرپائی کے لیے دودھن باندھ بنایا جائےگا۔ اس پورے تام جھام کا بندیل کھنڈ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔’

مشرا نے آگے کہا، ‘یہ وزارت  کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں ہے کہ وہ ایسی کوئی وائلڈ لائف منظوری دیں۔ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ قانون واضح طورپر کہتا ہے کہ کسی نیشنل پارک میں صرف ایسے ہی کاموں کو منظوری دی سکتی ہے جو وائلڈ لائف کے مفاد میں ہو۔ سی ای سی رپورٹ میں بھی اس کی تصدیق  کی گئی ہے۔ پنا ٹائیگر ریزرو میں باگھوں کے تحفظ کی  ایک شاندار اورکامیاب کہانی ہے، یہاں باگھوں کو لاکر بسایا گیا تھا، لیکن یہ پروجیکٹ اس علاقے  کو بیچ سے کاٹ رہا ہے، اس سے سب برباد ہو جائےگا۔’

سپریم کورٹ کی جانب سے سی ای سی رپورٹ پر غور  کرنے کے حتمی فیصلہ  لیا جانا ابھی باقی ہے۔

سی ای سی نے کیا کہا تھا

سینٹرل امپاورڈ کمیٹی نے کہا تھا کہ کین-بیتوا ندی جوڑو پروجیکٹ کے تحت جنگلات کی اراضی  کے 6017 ہیکٹئر قطعہ، جو پنا ٹائیگر ریزرو کے باگھوں کا اہم مسکن ہے کو ختم کرنے سے 10500 ہیکٹر میں پورے جنگلی جانوروں کا گھر اجڑ جائےگا اور یہ نیشنل پارک کے باقی علاقےسے کٹ آف ہو جائےگا۔

انہوں نے کہا تھا کہ باندھ بنانے کی وجہ سے جو جنگلی زمین  ڈوبےگی، وہ علاقے کی بےحدثروت مند بایوڈائیورسٹی(حیوانی تنوعات)ہے، جس کو پھر سے نہیں بنایا جا سکتا ہے۔

کمیٹی  نے کہا تھا کہ اس پروجیکٹ کو وائلڈلائف منظوری دینے والی کمیٹی نے اس بات پر دھیان نہیں دیا کہ یہ پروجیکٹ نیشنل پارک کے ایک دم کور (اہم مقام)میں واقع ہے، جس کی وجہ سےبڑے پیمانے  پر فلورا اینڈ فونا (جانوراورپیڑ)کی بربادی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اس علاقے کو بنایا ہی اس لیے گیا تھا تاکہ قدرت کے اصولوں کےنفاذ کو یقینی کیا جا سکے اور اس میں انسانوں کی دخل اندازی  نہ ہو۔

سی ای سی نے کہا تھا کہ کین-بیتواپروجیکٹ فیز1کے تحت پورے 6017 ہیکٹر کے جنگلی جانوروں کے ٹھکانے کو موڑنے کی منظوری دینا،وائلڈلائف(تحفظ)ایکٹ 1972 کی دفعہ35 (6)کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ یہ کام وائلڈ لائف  کی بہتری کے لیے نہیں کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بربادی کے بدلے بھرپائی کرنے کی جو پیش کش رکھی گئی ہے وہ بےحد ہی نامناسب اور ناکافی  ہے۔ پنا ٹائیگر ریزرو کے اس اکوسسٹم کو دوبارہ نہیں پایا جا سکتا ہے۔

پنا ٹائیگر ریزرو میں کئی سارے ایسے جانور پائے جاتے ہیں جو ختم  ہونے کے دہانے پر ہیں۔ (فوٹو: دھیرج مشرا/دی وائر)

پنا ٹائیگر ریزرو میں کئی سارے ایسے جانور پائے جاتے ہیں جو ختم  ہونے کے دہانے پر ہیں۔ (فوٹو: دھیرج مشرا/دی وائر)

کمیٹی نے تشویش  ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرکار نے اس پروجیکٹ کے متبادل  پر غور ہی نہیں کیا تھا۔ اس کے تحت جس طرح کا فائدہ  دینے کاہدف  رکھا گیا ہے، وہ کسی اور بہتر طریقے سے حاصل کیا جا سکتا تھا۔

سی ای سی نے این ڈبلیوڈی اے،نیشنل وائلڈلائف بورڈ کی مستقل  کمیٹی اور وزارت ماحولیات کی اس دلیل کو سرے سے خارج کیا کہ اس پروجیکٹ سے باگھوں پر مثبت اثر پڑےگا۔ انہوں نے کہا کہ گرمی میں بھی سیلاب زدہ علاقے میں بہت زیادہ  پانی رہےگا کیونکہ یہ باندھ میں پانی کی سب سے نچلی سطح سے بھی نیچے ہے۔

کمیٹی  نے کہا کہ اس پروجیکٹ کی وجہ سے گھڑیال سینکچوری اور گدھوں کے نسل افزائش کے مرکز پر پڑنے والے سنگین نتائج  کا کوئی اندازہ  نہیں کیا گیا ہے اور اس کی بھرپائی کا بھی کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے۔

صرف سی ای سی ہی نہیں، بلکہ نیشنل وائلڈلائف بورڈ کی مستقل کمیٹی کے ذریعےبنی ایک کمیٹی نے بےحد سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا، ‘ملک کے کسی بھی ترقی سےمتعلق پروجیکٹ کو باگھوں کےاہم مسکن اور نازک اکو سسٹم کی اکولاجی کو تباہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔اگر ہم مثالی صورتحال کو دیکھتے ہیں تو ایسے پروٹیکٹیڈ جنگلی علاقوں میں اس طرح کے پروجیکٹ سے بچنا سب سے بہتر ہوگا۔ یہ وائلڈ لائف کے مفادمیں نہیں ہوگا اور کچھ ملاکر دیکھیں گے تو آنے والے وقت میں سماج کے بہتری کے لیے درست نہیں ہے۔’

اس کمیٹی نے آگے کہا کہ اس علاقے کی ترقی کے لیے ایسے پروجیکٹ سہی نہیں ہوں گے۔ آزاد ماہرین کی ایک ٹیم تیار کر کین-بیتوا ندی جوڑو پروجیکٹ کی ہائیڈرولوجی پہلوؤں کی جانچ کرائی جانی چاہیے۔

سرکار کا دعویٰ ہے اس کے ذریعےکل 9.04 لاکھ ہیکٹر کی سینچائی ہوگی۔ اس پر سی ای سی نے کہا کہ کین بیسن میں پہلے سے ہی11 بڑے اور متوسط پروجیکٹ171 چھوٹی سینچائی منصوبے چل رہےہیں، ان کی ہی صلاحیت کی توسیع کرکے اس مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

کمیٹی نے یہ بھی کہا تھا کہ اس پروجیکٹ میں سرکار جتنامنافع کمانے کا دعویٰ کر رہی ہے، وہ حقائق کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا ہے۔

جب سی ای سی نے پوچھا تھا کہ اتنی بڑے پروجیکٹ کے بجائے سینچائی کے لیے زیادہ بہتر تکنیکی جیسے کہ مائیکرو ایریگیشن سسٹم اور آب وہوا کے مطابق فصل بوائی منصوبہ  لاگو کرنے پر غور کیوں نہیں کیا، اس پر این ڈبلیوڈی اے کا جواب تھا کہ مائیکرو/ڈرپ ایریگیشن انگور، کیلا، سنترہ، آم جیسوں کے لیے ٹھیک ہے۔

ایجنسی کے اس بیان پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے سی ای سی نے کہا تھا کہ یہ دکھاتا ہے کہ این ڈبلیوڈی اے نے اس پروجیکٹ کے متبادل  کو نہیں تلاش کیا ہے۔

حکومت ہند کی وزارت آبی وسائل نے سال 1980 میں ایک قومی پلان بنایا تھا، جس میں پانی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ندیوں کو جوڑ نے کا تصور کیا گیا تھا۔

اسی کی بنیادپراس وقت کی اندرا گاندھی سرکار نےسال 1982 میں نیشنل واٹر ڈیولپمنٹ ایجنسی(این ڈبلیوڈی اے)کا قیام کیا، جس کا کام ملک بھر کی ان ندیوں(کم اور زیادہ پانی والے)کی پہچان کر رپورٹ دینا تھا، جن کو جوڑا جا سکتا ہے۔

سال 1995میں این ڈبلیوڈی اے نے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ کین کو بیتوا ندی سے جوڑا جا سکتا ہے۔ کین مدھیہ پردیش میں کٹنی ضلع کے کیمور پہاڑیوں سے نکل کر اتر پردیش کے باندہ ضلع میں چلا گاؤں کے پاس یمنا میں مل جاتی ہے۔ یہ ندی جوڑو پروجیکٹ کے تحت ممکنہ30 لنک میں سے ایک ہے۔

کین-بیتوا لنک پروجیکٹ کے تحت اسٹرکچرکے نام سمیت تعمیراتی مقامات کو دکھاتا نقشہ۔

کین-بیتوا لنک پروجیکٹ کے تحت اسٹرکچرکے نام سمیت تعمیراتی مقامات کو دکھاتا نقشہ۔

حالانکہ اس دعوے کی صداقت اور اس سے ہونے والے سنگین نتائج  کو لےکر سوال اٹھنے لگے تھے۔ اس بیچ اس وقت کےوزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ٹاسک فورس بنایا، جس کا کام اس پروجیکٹ میں تیزی لانا تھا۔

آگے چل کراپریل2010 میں این ڈبلیوڈی اے نے کین-بیتوا لنک کے فیز1 کا ڈی پی آر تیار کیا، جو اس بات پر مبنی ہے کہ کین میں پانی کی مقدارزیادہ ہے۔ ماہرین نے کہا کہ جس بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے اس کے اعدادوشمارہی دستیاب نہیں ہیں۔

اپنے انہی‘تباہ کن’فطرت کی وجہ سے یہ لاگو نہیں ہو پا رہا تھا اور کئی سطحوں پر اسے جھٹکا مل رہا تھا۔ کانگریس کی سربراہی  والی اس وقت کی یو پی اے سرکار میں وزیر ماحولیات جئےرام رمیش نے اس پروجیکٹ کو منظوری دینے سے منع کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر اسے لاگو کیا جاتا ہے تو بڑے پیمانے  پر ماحولیات کو نقصان ہوگا۔

لیکن مودی سرکار کے آتے ہی08.07.2016 کو اسے ٹیکنو اکانونامک کلیرنس ملا۔ اس کے بعد 25.08.2017 کو اسے ماحولیاتی منظوری ملی۔ وہیں23.08.2016 کو اسے وائلڈلائف منظوری مل گئی تھی۔ وزارت ماحولیات نے پروجیکٹ کو 25.05.2017 کو کچھ شرطوں کے ساتھ پہلی سطح  کی جنگل کی  منظوری دی تھی۔

اس کے علاوہ پروجیکٹ کو جنوری 2017 میں وزارت قبائلی امور کی منظوری مل گئی تھی۔

اس کے بعد اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے بیچ پانی کےبٹوارے کو لےکر کچھ سالوں تک اٹھاپٹک ضرور چلی، لیکن تمام وارننگ کو سرے سے خارج کرتے ہوئے آخرکار مودی سرکار نے کین-بیتوا ندی جوڑو پروجیکٹ کے سمجھوتے پر دستخط کروا ہی دیے۔