خبریں

گئو کشی میں این ایس اے کے تحت گرفتار تین لوگوں کو رہا کرنے کا الہ آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا

یہ معاملہ اتر پردیش کے سیتاپورضلع کا ہے، جہاں پچھلے سال جولائی میں مبینہ گئو کشی کے الزام میں عرفان، رحمت اللہ  اور پرویز کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش سرکار کے ذریعےاین ایس اےکے استعمال پر سوال اٹھایا ہے، جو صوبےکو بنا الزام یاشنوائی کے گرفتاری کا اختیار دیتا ہے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے گئو کشی معاملے میں این ایس اےکےتحت گرفتار کیے گئےتین لوگوں کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ کورٹ نے کہا کہ کسی کے گھر کے اندر گئو کشی کرنے سےنظم ونسق کا مسئلہ پیداہو سکتا ہے، لیکن یہ عوامی نظم ونسق کےبگڑنے کا معاملہ نہیں ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، کورٹ پچھلے سال جولائی میں اتر پردیش کے سیتاپور ضلع میں مبینہ طور پر گئو کشی کے معاملے میں گرفتار کیے گئے عرفان، رحمت اللہ اور پرویز کے گھر والوں  کی عرضیوں  پرشنوائی کر رہا تھا۔

گزشتہ پانچ اگست کو جاری اپنے آرڈر میں کورٹ نے کہا کہ ممکنہ طور پر غریبی یا بےروزگاری یا بھوک کی وجہ سے چپ چاپ کسی کے گھر کے اندر گائے کاذبیحہ نظم ونسق کا معاملہ ہو سکتا ہے، لیکن اس بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی وجہ سے عوام  میں نظم ونسق بگڑ رہا ہے۔

عدالت نے کہا کہ اس طرح کا کام کھلے طور پر لوگوں کے سامنے ڈھیر سارے جانوروں  کی قربانی دینے اور ان کے گوشت کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ لے جانے کا برابرنہیں ہے۔

اس کے بعد عدالت نے تینوں افراد کو رہا کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ ‘اس نتیجہ  پر پہنچنے کے لیے کوئی مواد نہیں ہے کہ عرضی گزار مستقبل میں یہ چیزیں دہرا سکتے ہیں۔’

معلوم ہو کہ این ایس اے جیسا سخت قانون سرکار کو رسمی طورپر الزام یا مقدمے کے بنا کسی کو گرفتار کرنے کی طاقت  دیتا ہے۔

ان تینوں کے خلاف یوپی گئو کشی روک تھام ایکٹ،1955 اور فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ،2013 کی دفعہ7 کی مختلف  دفعات  کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔ عدالت کو مطلع کیا گیا تھا کہ یو پی گینگسٹر ایکٹ اور اینٹی سوشل ایکٹیوٹیز (روک تھام) ایکٹ،1986 کے تحت ایک اور ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

عدالت کے دستاویز میں کہا گیا ہے کہ سیتاپور ضلع میں تلگاؤں پولیس کو جانکاری  ملی تھی کہ عرفان، رحمت اللہ اور پرویزاور بسواں گاؤں کے دو قصائی بیچنے کے لیےگائے کاگوشت کاٹ رہے ہیں اور عرضی گزاروں  کے گھر پر چھاپےماری کی گئی تھی۔ پرویز اور عرفان کو بیف کے ساتھ موقع پر ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

عدالت  نے کہا کہ جب حلقہ میں گئو کشی کی خبر پھیلی تو ہندو کمیونٹی  کےلوگ اکٹھا ہو گئے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی  متاثر ہوئی، جس کے بعد پولیس بڑی کوششوں سے عوامی نظم ونسق  بحال کرنے میں کامیاب رہی۔

ملزمین کے وکیل نے دلیل دی کہ چونکہ عرضی گزار ایک جرم  کے لیے پولیس کی حراست میں تھے اور گینگسٹر ایکٹ کے تحت ایک ایف آئی آر بھی درج کی گئی تھی، اس لیے‘اپنے گھر میں چپ چاپ گائے کے ذبیحہ کےواحد واقعہ کی بنیادپر انہیں حراست میں رکھنے کی ہدایت نہیں دی جا سکتی ہے۔’

وہیں سرکار کی جانب  سے پیش ہوئے وکیل نے کہا کہ اگرانتظامیہ محض اس بات سے مطمئن ہو جاتا ہے کہ متعلقہ شخص کے فعل  سے سماجی ماحول بگڑ سکتا ہے تو انہیں نظربند کرنے کا آرڈر پاس کیا جا سکتا ہے۔

حالانکہ کورٹ نے دلیلوں کو خارج کر دیا اور کہا کہ تینوں گرفتار کیے گئےافراد کو رہا کیا جائے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش سرکار کے ذریعےاین ایس اےکے استعمال پرسوال اٹھایا ہے، جو صوبے کو بنا رسمی  الزام یا شنوائی کے گرفتاری کا اختیار دیتا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی ایک تفتیش  کے مطابق، پولیس اور عدالت کے ریکارڈس دکھاتے ہیں کہ ایسے معاملوں میں ایک ڈھرے پر عمل کیا جا رہا ہے،جس میں پولیس کی جانب سے الگ الگ ایف آئی آر میں اہم جانکاریاں کٹ پیسٹ کرنا، مجسٹریٹ کی جانب سے دستخط شدہ ڈٹینشن آرڈرمیں صواب دید کا استعمال نہ کرنا، ملزم کو متعینہ عمل مہیا کرانے سے انکار کرنا اور ضمانت سے روکنے کے لیے قانون کا لگاتار غلط استعمال شامل ہے۔

جنوری 2018 اور دسمبر 2020 کے بیچ الہ آباد ہائی کورٹ نے این ایس اے کے تحت احتیاطی حراست کو چیلنج دینے والی120 ہیبیس کارپسکی عرضیوں  میں فیصلہ سنایا، جس میں سے 94 معاملوں میں حراست میں رکھے گئے لوگوں کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا۔

ریکارڈس دکھاتے ہیں کہ این ایس اے لگانے کے معاملے میں گئو کشی کا معاملہ پہلے نمبر پر ہے، جس میں41 معاملے درج کیے گئے جو کہ ہائی کورٹ میں پہنچنے والے معاملوں کا ایک تہائی تھا۔ان معاملے میں تمام ملزم اقلیتی کمیونٹی کے تھے اور گئو کشی کا الزام لگانے والی ایف آئی آر کی بنیاد پر ضلع حکام نے انہیں حراست میں رکھا تھا۔

اس میں سے 30 معاملوں(70 فیصدی سے زیادہ)میں ہائی کورٹ نے اتر پردیش انتظامیہ  کو سخت سرزنش کی  اور این ایس اے آرڈر کو رد کرتے ہوئے عرضی گزارکی رہائی کا حکم  دیا۔’