امریکہ کو خدشہ ہے کہ ہندوستان کے خلاف نرم رویہ اختیار کرنے سے اس کے دیگر حلیف سعودی عر ب اور متحدہ عرب امارات بھی روس سے جدید ترین اسلحہ حاصل کرنے کی لائن میں لگ جائیں گے۔
اگلے ہفتے روسی صدر ولادیمیر پوتن کا نئی دہلی کاطوفانی دورہ اور اس کے ساتھ ہی جدید ترین ایس-400 دفاعی مزائلوں کی پہلی کھیپ کی ترسیل، ہندوستانی سفارت کاری کے لیےامتحان کا مرحلہ ثابت ہو رہا ہے۔ہندوستانی وزارت خارجہ اس وقت اپنے دیرینہ سرد جنگ کے حلیف روس اور نئے اسٹریٹجک یار امریکہ کے درمیان تعلقات میں توازن قائم رکھنے کے مشکل ترین کام کو انجام دینے میں مصروف ہے۔
ہندوستان نے پچھلی دو دہائیوں سے گو کہ اپنا تژویراتی قبلہ امریکہ کی طرف تو موڑ لیا ہے، مگر اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ کے مطابق ابھی بھی اس کی سالانہ 58فیصد دفاعی ضروریات روس سے ہی پوری ہوتی ہیں۔ پوتن کے دورہ کے فوراً بعد ہی ہندوستانی وزرائے خارجہ اور دفاع ایک ساتھ ہی واشنگٹن روانہ ہونے والے ہیں، تاکہ امریکہ کو منایا جا سکے، کیونکہ امریکہ ایس-400میزائلوں کی خریداری اور ان کی تنصیب پر خاصا برہم ہے۔
پچھلے سال اس نے اسی معاملہ میں ناٹو اتحادی ہونے کے باوجود ترکی کے خلاف کئی پابندیا ں لگائی اور اس کو اپنے جدید ترین جنگی جہاز ایف-35کی تیاری کے عمل سے باہر کردیا۔ اس کے بیشتر پرزے ترکی کی ہی صنعتوں میں تیار ہو رہے تھے۔ ترکی نہ صرف 1952 سے مغربی دفاعی تنظیم ناٹو کا ایک اہم رکن ہے، بلکہ امریکہ کے بعد سب سے بڑی تعداد میں فوج ہونے کی وجہ سے اس اتحاد کے لیے جنوب مشرقی سرحد پر ایک دیوار کی طرح کام کرتا ہے۔
امریکہ کو خدشہ ہے کہ ہندوستان کے خلاف نرم رویہ اختیار کرنے سے اس کے دیگر حلیف سعودی عر ب اور متحدہ عرب امارات بھی روس سے جدید ترین اسلحہ حاصل کرنے کی لائن میں لگ جائیں گے۔
امریکی عہدیداروں نے اس سلسلے میں کئی بار خبردار کیا ہے کہ ایس-400میزائلوں کی تنصیب سے ہندوستان امریکی قانون سی اے اے ٹی ایس اےکی زد میں آسکتا ہے۔ مگر نئی دہلی میں ذرائع کے مطابق ان کو امید ہے کہ امریکی صدر جوائے بائیڈن اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرکے ہندوستان کو استنثا ء فراہم کروائیں گے۔
پچھلے ماہ جنوبی ایشیا کے دورہ پر آئی امریکی نائب وزیر خارجہ ونڈی شرمین نے ایس-400کو امریکی مفادات کے لیے خطرہ قرار دیا۔ مگر امید ظاہر کی کہ ہندوستان اور امریکہ اس کا کوئی حل نکال لیں گے۔ ہندوستان نے 2018میں 5.5 بلین ڈالر کے عوض پانچ ایس-400میزائل بیٹریوں کی فراہمی کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
ہندوستان میں سینٹر فار اسکیورٹی اسٹریجی اور ٹکنالوجی کی ڈائریکٹر راجیشوری پلائی راج گوپالن کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں توازن رکھنا نہات مشکل امر ہے۔ چین کے ساتھ روس کے بڑھتے اشتراک کے باوجود، ہندوستان اپنے دیرینہ حلیف کے ساتھ کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ مگر دوسری طرف ایشیاپیسفک میں چین کے بڑھتے خطرہ کے پیش نظر اس کے لیے امریکی اتحاد میں رہنا بھی ضروری ہے۔
گوپالن کا کہنا ہے کہ ہندوستان اور امریکہ کو اس مسئلہ کا کوئی حل نکالنا ہی پڑے گا، کیونکہ چین سے نمٹنا دونوں کی ترجیحات میں شامل ہے۔ سفارت کاروں کے مطابق امریکہ کے ساتھ پچھلی دو دہائیوں میں دفاعی تعلقات خاصے مضبوط ہوئے ہیں، مگر ہندوستان کا 70 فیصد ملٹری سا زو سامان ابھی بھی روسی ساخت کا ہے اور بس ایک حد تک ہی وہ روس کے ساتھ کنارہ کشی کرسکتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے عہد حکومت میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے اراکین نے ہی سی اے اے ٹی ایس اے کو امریکی پارلیامنٹ سے پاس کرواکے صدر کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ روس، ایران اور شمالی کوریا کے ساتھ دفاعی و دیگر رشتہ رکھنے والے ممالک کے خلاف کارروائی کرے۔ اس قانون کی دفعہ 231اور235کے مطابق امریکی صدر کے لیے لازم ہے کہ وہ ان ممالک کو جانے والی کریڈٹ لائن کی ترسیل کو روکنے کے علاوہ عالمی مالی اداروں پر دباؤ بناکر مالی امداد بھی رکوا دے، نیز جن اشیاء اور ٹکنالوجی کے لیے لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے اس پر پابندی لگا دے۔
اس کے علاوہ تجارت، ویزاء، سفری پابندیا ں بھی ان دفعات کے زمرے ہیں آتی ہیں۔ حالانکہ ہندوستان کا سرکاری موقف ہے کہ وہ یک طرفہ پابندیوں کو تسلیم نہیں کرتا ہے اور صرف اقوام متحدہ کی طرف سے عائد پابندیوں کو ہی خاطر میں لاتا ہے، مگر 2019میں اس نے ایران اور وینزولا کے خلاف امریکہ کی طرف سے عائد پابندیوں پر من و عن عمل کیا۔ ہندوستان ایران کے چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کے لیے امریکہ سے استنثا ء حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔کیونکہ یہ بندر گاہ پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے ہندوستان کو افغانستان تک راہداری فراہم کرتی تھی۔ مگر چونکہ تعمیراتی ساز و سامان فراہم کرنے والی ایرانی کمپنیاں پابندیوں کی زد میں تھیں، اس لیے استنثاء کے باوجود اس پر کام کی رفتار سست رہی۔
راج گوپالن کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ کے لیے بھی سخت امتحان ہے، کیونکہ وہ بھی کوارڈ تنظیم کے کسی رکن کے خلاف پابندیاں لگانے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ہندوستان، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل کوارڈ دراصل چین کے خلاف ایشیا پیسیفک میں ایک اتحاد ہے۔ فی الحال ہندوستانی سفارت کار امریکی کانگریس میں پیش کیے گئے قانون سی آر یو سی آئی ایل پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ اس کے پاس ہونے کی صورت میں امریکی اتحاد کا رکن ہونے کی وجہ سے ہندوستان کو استنثا ء مل سکتا ہے۔
امریکی کانگریس کے چند اراکین کا بھی خیا ل ہے کہ ہندوستان کے خلاف پابندیوں کی وجہ سے خطے میں طاقت کا توازن کلی طور پر چین کے حق میں جائےگا۔ ایک سابق سفارت کار پینک چکرورتی کے مطابق چین اس وقت ایک متبادل عالمی طاقت کے بطور ابھر رہا ہے اور اس کو حد میں رکھنے کے لیے ہندوستان کا مضبوط ہونا لازمی ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق چین تبت کے نیاگری گر گوسا اور نیانگچی جو لداخ اور اروناچل پردیش سے متصل ہیں، میں پہلے ہی ایس-400کی تنصیب مکمل کر چکا ہے۔
فی الحال نئی دہلی میں ذرائع کے مطابق صدر بائیڈن ہندوستان کے خلاف پابندیوں کو مؤخر کرسکتے ہیں، مگر وہ سی اے اے ٹی ایس اےکی تلوار لٹکائے رکھیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی عہدیدارو ں نے ان کو عندیہ دیا ہے کہ استنثاء کی صورت میں دیگر ممالک خاص طور پر ترکی بھی اس کی مانگ کرسکتا ہے۔
سال 2018میں ہی ایس-400کی خریداری کے معاہدہ پر دستخط کرنے کے بعد ہی ہندوستان نے امریکہ کو خوش کرنے اور سی اے اے ٹی ایس اےسے بچنے کیلئے ایک بلین ڈالر کے امریکی این ایس اے ایم ایس کا بھی آرڈر دیا تھا۔ مگر فی الحال اس سے امریکی رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ روسی صدر اپنے دورہ کے دوران ہندوستان کو انتہائی جدید ترین ایس-550 دفاعی میزائل سسٹم کی بھی پیشکش کریں گے۔ ذرائع کے مطابق روس نے فیڈرل سرس اور ملٹری ٹیکنکل کارپوریشن کے سربراہ دئمتری شوگاویف کے سپرد بطور خاص یہ مشن سپرد کردیا ہے کہ وہ ہندوستانی فوج کو ایس-550خریدنے پر آمادہ کروائے۔ ان کو معلوم ہے کہ اگر ہندوستانی فوج کی طرف سے کسی ساز و سامان کو خریدنے پر دباؤ آجاتا ہے، تو سیاسی و سفارتی مجبوریوں کے ہوتے ہوئے بھی کسی بھی وزیر اعظم کے لیے انکار کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔
روس نے حال ہی میں دبئی ایر شو میں اس کی نمائش کی تھی اور دعوی کیا کہ بین البرعظمی میزائلوں کو خلا میں ہی ناکارہ بنانے میں یہ خاصا کار آمد ہے۔ چین اور پاکستان کے ساتھ کشیدگی جتنی بڑھتی جائے گی، ہندوستان کے لیے دفاعی ساز و سامان بیچنے والوں کی چاندی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ ممالک اپنے دیرینہ تنازعات حل کرکے کئی بلین ڈالر کی یہ رقوم عوامی بہبود پر خرچ کرتے۔ آخر یہ تمام رقوم تو عوام کا ہی پیٹ کاٹ کر نکالی جائیں گی، جو امریکی اور روسی دفاعی اداروں کی جیبوں میں چلی جائیں گی۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر