خبریں

’امر جوان جیوتی‘ کو نیشنل وار میموریل میں ضم کرنے کے فیصلے پر سابق فوجی آمنے سامنے

سابق فوجیوں کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ ‘امر جوان جیوتی’کی پرانی یادگارپہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں شہید ہوئےان فوجیوں کے اعزاز میں تھی، جنہوں نے انگریزوں کے لیے جنگ لڑی، جبکہ دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ 1971کی  جنگ میں اپنی جان قربان کرنے والے ہندوستانی فوجیوں کی شہادت کی توہین ہے۔

(فوٹو بہ شکریہ: Wikimedia Commons/KCVelaga)

(فوٹو بہ شکریہ: Wikimedia Commons/KCVelaga)

نئی دہلی: انڈیا گیٹ پر ‘امر جوان جیوتی’ کو قومی جنگی یادگار (نیشنل وار میموریل )کی لوکے ساتھ ضم کرنے کے مرکز کے فیصلے پر سابق فوجیوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

سابق ایئر وائس مارشل منموہن بہادر نے ٹوئٹر پر وزیر اعظم کو ٹیگ کرتے ہوئے ان سے اس فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے کہا، جناب، انڈیا گیٹ پر جل رہی لو ہندوستانی نفسیات کا حصہ ہے۔ آپ، میں اور ہماری نسل کے لوگ وہاں ہمارے بہادر جوانوں  کو سلامی دیتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔

بہادر نے کہا کہ، جہاں قومی جنگی یادگارکی اپنی اہمیت ہے وہیں دوسری طرف امر جوان جیوتی کی یادیں بھی بے مثال ہیں۔

انہوں نے یہ بھی لکھا، کامن ویلتھ مونومنٹ کمیشن دنیا بھر میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں مارے گئے فوجیوں کی قبروں کی دیکھ بھال کرتا ہے اورکرتا رہے گا۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ انڈیا گیٹ پر ہمارا ‘مشعل’ بجھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ایک نسل بڑی ہوئی  ہے۔ اوہ! کتنا افسوسناک دن ہے!

سابق کرنل راجندر بھادوری نے کہا کہ امر جوان جیوتی مقدس ہے اور اسے بجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔

بھادوری نے ٹوئٹر پر لکھا، انڈیا گیٹ پر ان ہندوستانی فوجیوں کے نام ہیں جنہوں نے جنگ کے دوران اپنی جان گنوائی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے کس نے بنایا ہے۔ 1971 کی جنگی یادگار امر جوان جیوتی، 1972 میں اس میں شامل کی گئی۔ یہ مقدس ہے اور اسے بجھانے کی ضرورت نہیں ہے، چاہے امر جوان جیوتی کے ساتھ ایک نئی جنگی یادگار بن جائے۔

حالاں کہ، سابق چیف آف انٹیگریٹڈ ڈیفنس اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ستیش دوا (ریٹائرڈ)نے مرکز کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک درست فیصلہ ہے۔اس پر کوئی تنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ غیر ضروری تنازعہ کھڑا کیا جا رہا ہے۔ امر جوان جیوتی کی لو کو قومی جنگی یادگار میں ملایا جا رہا ہے، بجھایا نہیں جا رہا ہے۔نیشنل وار میموریل ماضی، حال اور مستقبل کے تمام ہندوستانی بہادرجوانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے قومی سطح پر بنائی گئی جنگی یادگار ہے۔

دوا نے کہا،قومی جنگی یادگار کے ڈیزائن کےانتخاب اور تعمیر میں کردار ادا کرنے والے ایک شخص کے طور پر میرا خیال ہے کہ انڈیا گیٹ پہلی جنگ عظیم کے شہید ہیروز کی یادگار ہے۔

انہوں نے کہا کہ امر جوان جیوتی اسی جگہ 1972 میں قائم کی گئی تھی، کیونکہ ہمارے پاس کوئی دوسری یادگار نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ قومی جنگی یادگار ملک کی آزادی کے بعد جنگ میں شہید ہونے والے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے اور خراج تحسین کی تمام تقریبات کو پہلے ہی نئی یادگار میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ 25 فروری 2019 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے نیشنل وار میموریل کا افتتاح کیا تھا، جہاں گرینائٹ کےپتھروں پر 25942 فوجیوں کے نام سنہری حروف میں کندہ ہیں۔

اس دوران سابق آرمی چیف جنرل وید ملک نے بھی مرکز کے فیصلے کی حمایت کی۔ انہوں نے ٹویٹر پر کہا کہ فطری بات ہے کہ نیشنل وار میموریل کا قیام عمل میں آچکا ہے اور وہاں شہید فوجیوں کی یاد اور اعزاز سے متعلق تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

سابق لیفٹیننٹ جنرل کمل جیت سنگھ نے بھی اس فیصلے کی حمایت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی جنگی یادگار کے افتتاح کے بعد دونوں جیوتی کا ایک ہونا لازمی ہے۔

وہیں ٹوئٹر پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سابق لیفٹیننٹ کرنل انیل دوہن نے لکھا کہ اگر آپ کسی کی طرح کچھ نہیں بنا سکتے تو اسے ہی توڑ دو، یہ بی جے پی کے نیو انڈیا کا منتر ہے۔ امر جوان جیوتی اتنی مقدس ہے کہ اسے چھوا یا منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں کو کیوں بنے نہیں رہنے دیا جا سکتا؟ ان کے (بی جے پی) کام کرنے کا طریقہ فہم سے بالا تر ہے۔

ریٹائرڈ جنرل اشوک مہتہ نے اس فیصلے کی حمایت میں انڈین ایکسپریس کو بتایا،کانگریس واضح طور پر اس فیصلے کی مخالفت کرے گی کیونکہ امر جوان جیوتی ان کے دور میں آئی تھی۔لیکن اب جنگی یادگار کے ساتھ، فوجیوں کی یاد میں دو الگ الگ جیوتی  رکھنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ دونوں کو ضم کرنے کا فیصلہ درست ہے۔ حکومت نے اسے نوآبادیاتی ڈھانچہ مانتے ہوئے سیاسی فیصلہ کیا ہے، وہ چاہتے تو اس کےآس پاس ہی یادگار بھی بنا سکتے تھے۔

سابق میجر جنرل امرجیت سنگھ نے کہا، میرے خیال میں یہ ٹھیک ہے کیونکہ آپ کے پاس دو ادارے نہیں ہو سکتے۔ ایک جگہ کا  ہونا بہتر ہے۔ نئی جنگی یادگار واقعی ایک اچھی پہل ہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ دو الگ الگ جگہوں کے بجائے اس کا بہتر خیال رکھا جانا چاہیے۔ جنگی یادگار میں سب کو جگہ دی گئی ہے۔ اس میں حالیہ شہیدوں کے نام بھی ہیں جو انڈیا گیٹ کی یادگار میں نہیں تھے۔ دو مختلف جگہوں کو سنبھالنے میں بہت زیادہ انسانی وسائل لگتے ہیں۔

ایئر مارشل انل چوپڑہ  بھی اس کی حمایت میں نظر آئے اور انہوں نے بھی اسے ایک اچھا قدم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دو یادگاروں کو ایک میں ملا دیا ہے، امر جوان جیوتی کی توہین نہیں کی ہے۔ اب تمام شہداء کو ایک ہی جگہ پہچانا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس ایک قومی جنگی یادگار ہے اور یہ واحد جگہ ہونی چاہیے جہاں جیوتی جلنی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ دونوں جگہوں کو رہنے دیا جاتا۔ یہ ہو سکتا تھا، لیکن ایک دوسرے کے قریب ہی دو جگہوں کے ہونے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ یہ صرف لوگوں کو الجھائے گا۔ میں 40 ممالک کا دورہ کر چکا ہوں۔ دو یادگاروں کے درمیان کا فاصلہ 20-30 کیلومیٹر ہو تاہے۔

بنگلہ دیش جنگ کے سابق فوجی میجر جنرل ڈاکٹر جی سی دویدی نے کہا کہ امر جوان جیوتی 1971 کی جنگ میں شہید ہونے والے فوجیوں کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس کے بعد ہم نے کارگل اور سیاچن میں فوجی گنوائے، لیکن ہمارے پاس قومی شناخت والی جنگی یادگار نہیں تھی، لیکن اب ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ، اگر جیوتی کو ملانے اور نہ ملانے کی بات ہے تو غیر سیاسی طور پر یہ سوچنا درست ہے کہ ہمارے پاس ایک جگہ ہونی چاہیے جہاں ہم اپنے تمام شہداء کو ایک ہی جگہ پر خراج عقیدت پیش کر سکیں۔ لیکن دوسرا نظریہ کہتا ہے کہ دونوں الگ الگ بنے رہتے لیکن یہ درست نہیں ہوتا کیونکہ پھر وہاں کوئی نہیں جاتا۔ آدمی  صرف ایک یادگار پر جاتا ہے۔ سیاست سے ہٹ کر دیکھیں تو یہ ایک منطقی قدم ہے۔

و ہیں ایک اور سابق فوجی لیفٹیننٹ جنرل منوج چنن نے بھی اس قدم کو تاریخی قرار دیا ہے۔

ساتھ ہی ریٹائرڈ بریگیڈیئر کے ایس کہلوں کا ماننا ہے کہ امر جوان جیوتی کو بجھانا ایک غلط فیصلہ تھا۔ یہ پہلی جنگ عظیم یا افغان جنگوں میں مارے گئے ہندوستانی فوجیوں کی توہین تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی فوج  کوان سےحوصلہ ملتا ہے اور یہ افسوس کی بات ہے کہ ان اقدار کو کچلا جا رہا ہے۔

ریٹائرڈ کرنل ڈی پی کے پلئی نےتو ایک قدم آگے بڑھ کر پہلی جنگ عظیم کے ہندوستانی فوجیوں کو بھی ‘بھاڑے کے فوجی’تک کہہ دیا۔

انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ امر جوان جیوتی پہلی جنگ عظیم کے کرائے کے فوجیوں کا احترام کرتی تھی۔ آزاد ہندوستان میں جنگوں کے لیے ایک قومی جنگی یادگار ہے، جو ہندوستانی فوجیوں کے اعزاز کے لیے موزوں جگہ ہے۔

بہرحال، سابق لیفٹیننٹ جنرل تیج سپرو نے کہا کہ وہ دونوں متبادل سے مطمئن تھے کہ امر جوان جیوتی کو جلتے رہنےدیا جائے یا ضم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جلنے دیتے تو بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا، حالانکہ مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ اب نئی یادگار کو شہداء کی شہادت کا مرکز تصور کیاجائے گا۔ ہم ہمیشہ ہی موجودہ انفراسٹرکچر کو بہتر بنا کر نئی چیزیں شامل کرتے ہیں، اس لیے اس پر تنازعہ  نہیں ہونا چاہیے۔

وہیں سابق کرنل انل تلوار کے مطابق کوئی بیچ کا راستہ نکالا جا سکتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا گیٹ پر سابق فوجیوں کا دن یا سیز فائر ڈے منایا جا سکتا تھا۔ جیساکہ  تین مورتی پر حیفہ میموریل ڈے منایا جاتا ہے جو پہلی جنگ عظیم سے متعلق ہے۔

وہیں، سابق فوجی شکایات سیل کے چیئرمین لیفٹیننٹ کرنل ایس ایس سوہی (ریٹائرڈ) نے کہا کہ غیر ملکی سرزمین پر دو عالمی جنگوں میں لڑتے ہوئے مرنے والے ہندوستانی فوجیوں کو وہ ممالک عزت دیتے ہیں جہاں وہ لڑتے ہوئے مرے، لیکن انہی ہندوستانی فوجیوں کو ان کے ہی ملک میں نیچا دکھایا جاتا ہے۔ یہ شرم کی بات ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دارالحکومت میں سیاستدانوں کی درجنوں یادگاریں ہوسکتی ہیں، جنہیں دلکش نام دیے جاتے ہیں۔ لیکن فوجیوں کی دو یادگاروں کو ساتھ دیکھ کر ان کے پیٹ میں درد ہوتا ہے۔ جیوتی کو بجھانا ایک مضحکہ خیز فیصلہ تھا۔

سابق فوجی افسر اور اس وقت سپریم کورٹ کے وکیل میجر گنیت چودھری کا کہنا ہے کہ اگر امر جوان جیوتی کو جلتے رہنے دیا جاتا تو کوئی نقصان نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ،یہ ہماری تاریخ کا ایک حصہ ہے، جو 1971 میں اس کے قیام سے متعلق ہے۔

انہوں نے اپنے متعلق ایک واقعہ بھی بتایا کہ 1971 کی جنگ کے بعد ایک مہاویر چکر جیتنے والے کی بیوی کے ساتھ بچپن میں انہوں نےاس جگہ کا دورہ کیا تھا۔ چودھری کے مطابق، شہید کی اس بیوی کو اس بات پر فخر تھا کہ ان کے شوہر کی قربانی کو امر جوان جیوتی نے تسلیم کیا۔ چودھری نے کہا ہے کہ ہم تاریخ کو اس طرح درکنار نہیں کر سکتے۔

سرکاری ذرائع نے کہا ہے کہ یہ عجیب بات ہے کہ امر جوان جیوتی پر 1971 اور دیگر جنگوں کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، لیکن ان میں سے کسی کابھی  نام وہاں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا گیٹ پر صرف چند شہیدوں کے نام درج ہیں جنہوں نے پہلی جنگ عظیم اور اینگلو افغان جنگ میں انگریزوں کے لیے جنگ لڑی تھی اور اس طرح یہ ہمارے نوآبادیاتی ماضی کی علامت ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1971 اور اس سے پہلے اور بعد کی جنگوں سمیت تمام جنگوں میں شہید ہوئے ہندوستانیوں کے نام نیشنل وار میموریل میں کندہ ہیں۔ وہاں شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہی حقیقی خراج ہے۔

امر جوان جیوتی کو لے کر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع

انڈیا گیٹ پر امر جوان جیوتی کی لو کوقومی جنگی یادگار کی لو کے ساتھ ملائے جانے  پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا۔

دوسری طرف مرکزی وزیروں سے لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے لیڈروں نے ان پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے قومی جنگی یادگار پر خراج عقیدت پیش نہیں کیا، وہ آج حب الوطنی کا سبق پڑھا رہے ہیں۔

راہل گاندھی نے ٹوئٹ کیا،یہ بہت افسوسناک ہے کہ ہمارے بہادر جوانوں کے لیے جو امیر جیوتی جلتی تھی، اسے بجھا دیا جائے گا۔ کچھ لوگ حب الوطنی اور قربانی کو نہیں سمجھ سکتے – کوئی بات نہیں… ہم ایک بار پھر اپنے جوانوں کے لیے امر جوان جیوتی روشن کریں گے!

اس ٹوئٹ کے چند گھنٹے بعد انڈیا گیٹ پر امر جوان جیوتی کو قومی جنگی یادگار کی لو میں ضم کر دیا گیا۔

راہل گاندھی پر حملہ کرتے ہوئے مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے ٹوئٹ کیا،جن لوگوں نے… جوانوں کے سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت مانگا، شہیدوں کو وقف پہلی قومی جنگی یادگار پر خراج عقیدت  پیش  نہیں کی، سنا ہے کہ وہ آج حب الوطنی کا سبق پڑھا رہے ہیں۔

وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے راہل گاندھی پرگمراہ کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ ان کااس معاملے میں کوئی جواب نہیں ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا،امر جوان جیوتی کی  لازوال لو کو بجھایا نہیں جارہا ہے راہل جی۔ اسے قومی جنگی یادگار پر جلنے والے شعلے کے ساتھ ملایا جا رہا ہے۔ وہی نیشنل وار میموریل جس کی کانگریس لیڈروں نے مخالفت کی تھی۔ قومی سلامتی سے کھلواڑ کرنے والے اور فوج کی بہادری پر سوال اٹھانے والے آج محبت اور قربانی کی باتیں کر رہے ہیں۔ ملک کے فوجی حوصلے کو کمزور کرتے ہوئے سیاست چمکانے کی جلدی میں کانگریس کے یوراج سے ہمیشہ گڑبڑی  ہوجاتی ہے۔

بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے راہل گاندھی پر غیر ضروری تنازعہ پیدا کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ انہیں تاریخ کی بنیادی سچائی کا علم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا گیٹ پہلی جنگ عظیم میں قربانیاں دینے والے ہندوستانی فوجیوں کی یادگار ہے، جبکہ امر جوان جیوتی ان فوجیوں کی یاد میں بنائی گئی ہے جو 1971 میں پاکستان کے خلاف جنگ میں ہندوستان  کی فتح میں مارے گئے تھے کیونکہ اس وقت کوئی جنگی یادگار نہیں تھی۔

بی جے پی کے ترجمان سمبیت پاترا نے ٹوئٹ کیا، امر جوان جیوتی کے حوالے سے کئی طرح کی غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ امر جوان جیوتی کی لو کو بجھایا نہیں  جارہا ہے۔ اسے قومی جنگی یادگار کی لو کے ساتھ ملایا جا رہا ہے۔

مغربی بنگال کی غیر بی جے پی پارٹیوں نےمرکز کے اس قدم کی نکتہ چینی کی

مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس سمیت غیر بی جے پی جماعتوں کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ یہ 1971 کی پاکستان کے ساتھ جنگ میں شہید ہوئے ہندوستانی فوجیوں کی بے عزتی کے مترادف ہے جنہوں نے بنگلہ دیش کو آزاد کرانے میں مدد کی تھی۔

اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے ترنمول کانگریس کے ترجمان کنال گھوش نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ فیصلہ ہندوستان کی تاریخ اور 1971 کی بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں ملک کے فوجیوں کی شہادت کی توہین ہے۔

گھوش نے دعویٰ کیا،وہ لوگ جن کا ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں کوئی حصہ نہیں ہے، جنہیں ہماری آزادی کی جدوجہد اور فوجیوں کی بہادری کا کوئی احترام نہیں ہے، وہ امر جوان جیوتی کو انڈیا گیٹ پر واقع اس کی اصل جگہ سے منتقل کر سکتے ہیں۔ یوم جمہوریہ کی پریڈ سےریاست سے نیتا جی کی جھانکی کو ہٹاسکتے ہیں۔

مغربی بنگال ریاستی  کانگریس کے صدر ادھیر چودھری نے بھی اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مودی کی قیادت والی حکومت اربوں ہندوستانیوں کے جذبات کا خیال کیے بغیر من مانی فیصلے کر رہی ہے۔

سی پی آئی (ایم) کے ریاستی سکریٹری سوریہ کانت مشرا نے کہا، مودی حکومت آر ایس ایس کے نظریے سے رہنمائی حاصل کرتی ہے، جس کا ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں کوئی کردار نہیں تھا۔ ہم بار بار کہہ رہے تھے کہ بی جے پی نے ہندوستان کی تاریخ کا مذاق بنایا ہے۔ یوم جمہوریہ سے پہلے ان کا یہ عمل اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

بی جے پی کے قومی نائب صدر دلیپ گھوش نے حالاں کہ اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے کہا، جنگی یادگار ہمارے فوجیوں کا احترام کرنے کے لیے صحیح جگہ ہے۔ یہ پہلے کی جگہ کے بہت قریب ہے اور اپوزیشن پارٹیاں مودی حکومت کے ہمارے ہیروز کو اعزاز دینے کے قدم پر سیاست کر رہی ہیں۔

گھوش نے کہا، یہ بی جے پی حکومت ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستانی تحریک آزادی کی شاندار تاریخ کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہی ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)