رویش کا بلاگ: وہ کون ہے جس کے دباؤ میں ہم اس سسٹم کو اپنائے ہوئے ہیں جو امریکہ، فرانس، جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک تک نہیں اپناتے؟ کس کا پریشر ہے ؟؟؟ اتنا ہی بتا دو کہ دباؤ اندرون ملک سے ہی کسی کا ہے یا کوئی بیرون ملک بیٹھا ہوا سب کچھ سنبھال رہا ہے؟
سال 2009 میں لوک سبھا الیکشن ہارنے کے بعد بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کےعہدے کے امیدوار اڈوانی جی ای وی ایم کے خلاف سپریم کورٹ پہنچے۔ اس کے بعد اڈوانی جی آہستہ آہستہ پارٹی میں سائیڈ لائن ہوگئے۔
سنگھ کے نام نہاد دانشور اور انتخابی تجزیہ کار جی وی ایل نرسمہا راؤ نے 2010 میں ای وی ایم کے استعمال کی مخالفت کرتے ہوئے ایک کتاب لکھی، جس کا اجرا اس وقت کے بی جے پی کے قومی صدر نتن گڈکری نے کیا۔ اس کے بعد نتن گڈکری کو دوسری مدت کار نصیب نہیں ہوئی،لیکن صحیح لفظوں میں لکھوں تو سنگھ کی پوری کوششوں کے بعد بھی وہ نصیب نہیں ہوئی۔ وجوہات کچھ اور پیش کی گئیں۔
عام آدمی پارٹی نے 2017 میں پنجاب انتخاب کے بعد ای وی ایم پر سوال اٹھائے، عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے ودھان سبھا میں سیشن کے دوران ای وی ایم کو ہیک کرکے دکھایا۔ سوربھ بھاردواج نے دعویٰ کیا کہ کسی بھی الیکشن سے دو گھنٹے پہلے آپ ہمیں تمام ای وی ایم مشینیں دے دو، اور ودھان سبھا تو بہت دور کی بات ہے، کوئی بوتھ جیت کر دکھا دو۔
پتہ نہیں اس کے بعد کیا ہوا، سوربھ بھاردواج نے آج تک ای وی ایم کے خلاف بات نہیں کی۔
اس کے بعد الیکشن کمیشن کو ہیکاتھون کروانے کا ڈرامہ کرنا پڑا جس میں انہوں نے سب کو مدعو کیا کہ کوئی بھی ای وی ایم کو ہیک کرکے دکھائے۔ الیکشن کمیشن نے شرط بڑی شاندار رکھی تھی، آپ کو ای وی ایم کو ہیک کرنا ہے لیکن اسے ہاتھ لگائے بغیر۔
اب آپ ہی بتائیں کہ ای وی ایم کو کوئی آنکھ کے اشارے سے کیسے سیٹ کرے؟ اس شرط کی وجہ سے کوئی بھی اسے ہیک نہیں کرسکا اور ای وی ایم کو پاک صاف قرار دے دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے ہر ای وی ایم میں وی وی پی اے ٹی لگانے کا حکم دیا۔ اب وی وی پیٹ سے پرچی تو نکلتی تھی لیکن گنی نہیں جاتی تھی۔
اس کے بعد پھرکچھ لوگ سپریم کورٹ گئے، تب سپریم کورٹ نے ہر ودھان سبھا میں کم از کم پانچ بوتھوں کی وی وی پیٹ سلپس کوای وی ایم کے ساتھ رینڈم طریقے سے ملانے کا حکم دیا، جس کاکسی بھی الیکشن کی گنتی میں یا تو ملان نہیں ہوتا یا پھرآخر میں ہوتا ہے، تب تک حکومت بن جاتی ہے اور امیدوار عہدیداروں کے دباؤ میں آجاتے ہیں۔
سال 2019 کے انتخاب میں 370 سے زیادہ لوک سبھا سیٹوں پر ڈالے گئے ووٹ اور گنے گئے ووٹ آپس میں نہیں ملے۔ ہنگامہ مچ گیا۔ الیکشن کمیشن نے اپنی سائٹ سے ڈالے گئے ووٹوں کی معلومات ہی ہٹا دیں۔
بدایون لوک سبھا سیٹ پر ڈالے گئے ووٹوں اور گنے گئے ووٹوں کافرق 25 ہزار ووٹوں سے زیادہ تھا۔ ایس پی امیدوار دھرمیندر یادو اس کے خلاف ہائی کورٹ گئے، لیکن اس کے بعد اس معاملے میں کیا ہوا، نہ تو کسی کو معلوم ہے اور نہ ہی دھرمیندر یادو نے کبھی اس کا کوئی ذکر کیا ہے۔
اب میں آپ کو ای وی ایم کا سب سےکلاسک کیس بتاتا ہوں۔ ابھی چند ماہ قبل ہی مہاراشٹر کی قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر اور کانگریس کے رہنما نانا پٹولے نے قانون ساز اسمبلی کے فلور پر ای وی ایم کے حوالے سے ایک بل رکھا تھا، جس میں پاس ہونا تھا کہ مہاراشٹر کے کسی بھی انتخاب میں ای وی ایم کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔
بل پاس ہونے سےپہلے اگلے ہی دن اچانک کانگریس نے نانا پٹولے کو مہاراشٹر کا ریاستی صدر بنا دیا اور انہوں نے اسپیکر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ بل کہاں غائب ہوگیا، یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔
تقریباً ہر سیاسی پارٹی کا ماننا ہے کہ ای وی ایم کی وجہ سے منصفانہ انتخاب نہیں ہو تے، پھر بھی کوئی سیاسی پارٹی کھل کر اس کی مخالفت نہیں کرتی ہے۔
جب آپ کو ای وی ایم پر بھروسہ نہیں ہے، جب آپ کو ای وی ایم کی مسلسل نگرانی کرنی پڑتی ہے، جب آپ کو ہر الیکشن میں ای وی ایم کی خرابی کی شکایت ملتی ہے اور جب کوئی بھی بٹن دبانے پر کمل کو ووٹ جانے کی شکایت موصول ہوتی ہے، جب ہر الیکشن میں کسی نہ کسی وقت ای وی ایم کےبکسے کبھی بی جے پی لیڈر کے ہوٹل میں ،کبھی بی جے پی لیڈر کی گاڑی میں، کبھی ٹرک میں ملتے ہیں تو پھر آپ ای وی ایم سے الیکشن لڑنے کے لیےتیار کیوں ہوتے ہیں؟
ایسا کون سا دباؤ ہے کہ آپ کھل کر ای وی ایم کی مخالفت نہیں کر پا رہے ہیں؟
وہ کون ہے جس کے دباؤ میں ہم اس سسٹم کو اپنائے ہوئے ہیں جو امریکہ، فرانس، جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک تک نہیں اپناتے؟ کس کا پریشر ہے ؟؟؟ اتنا ہی بتا دو کہ دباؤ اندرون ملک سے ہی کسی کا ہے یا کوئی بیرون ملک بیٹھا ہوا سب کچھ سنبھال رہا ہے؟
نوٹ: بنگال میں ممتا جیتیں اور پنجاب میں عآپ جیتے اور یوپی میں ایس پی جیتے تب بھی میں ای وی ایم پر یقین نہیں کرتا۔ اس کا بی جے پی کی ہار یا جیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ الیکشن میں صرف وہی چیز استعمال کی جانی چاہیے جسے سب سمجھ سکیں، سمجھنے کے لیے انجینئر ہونا ضروری نہ ہو۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر