اڑیسہ حکومت سنبل پور کےسملیشوری مندر کےری ڈیولپمنٹپروجیکٹ پر کام کر رہی ہے، جس کی وجہ سے قریبی بستی میں برسوں سے جھگیاں بناکر رہ رہے تقریباً 200 دلت خاندان متاثر ہوں گے ہیں ۔ سماجی کارکنوں کے مطابق، کم از کم ایک سو گھروں کو پہلے ہی منہدم کیا جاچکا ہے۔ دیگر خاندانوں نے اپنے گھروں کو بچانے کے لیےاڑیسہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
نئی دہلی: مغربی اڑیسہ کے سنبل پور میں سملیشوری مندر کے ری ڈیولپمنٹپروجیکٹ کے درمیان دہاڑی دلت مزدوروں کو شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بتادیں کہ 250 کروڑ روپے کا پروجیکٹ2021 میں شروع کیا گیاتھا۔ اس پر اڑیسہ حکومت کی سملیشوری ٹیمپل ایریا مینجمنٹ اینڈ لوکل اکانومی انیشی ایٹو (ایس اےایم اے ایل ای آئی) اسکیم کے تحت کام ہو رہا ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد مندر کے احاطے کے ارد گرد کے علاقے کو ایک نئی شناخت دینا ہے۔
حالاں کہ، مندر کے احاطے کو خوبصورت بنانے کی مہم کی وجہ سے گھنگھٹی پارہ کے جھگی میں رہنے والوں کے مکانات کو مسمار کر دیا گیا ہے۔ علاقے میں رہنے والے زیادہ تر خاندان دلت کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر دہاڑی مزدوری کرتے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق، اس سکیم سے تقریباً 200 خاندان متاثر ہوں گے۔ وکیلوں اور سماجی کارکنوں کے مطابق، کم از کم 100 مکانات پہلے ہی منہدم کیے جا چکے ہیں۔
دیگر خاندانوں نے اپنے گھروں کو بچانے کے لیے اڑیسہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 27 جون کو جاری ایک عبوری حکم میں ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو ہدایت دی تھی کہ وہ درخواست گزاروں کے خلاف کوئی سخت قدم نہ اٹھائیں۔ تاہم، 12 جولائی کو ایک اور عبوری حکم نامے میں ہائی کورٹ نے گھنگھٹی پارہ جھگی بستی کو مسمار کرنے کے خلاف حکم امتناعی کو منسوخ کردیا۔ عدالت نے حکومت کو اسکیم پر آگے بڑھنے کی ہدایت دی ہے ۔
دی وائر نے گھنگھٹی پارہ کے لوگوں سے بات کی، جنہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں 400 سالوں سے زیادہ سے جھگیاں موجود ہیں۔ اس علاقے میں کم از کم 200 اسکولی بچے سمیت 1200 سے زیادہ لوگوں کی آبادی ہے۔
ایک مقامی رہائشی پردیپ کمار نے کہا، ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ آپ کو کسی بھی قیمت پر جانا پڑے گا۔ توڑ پھوڑ اور بے دخلی کے اس بڑھتے ہوئے خطرے سے ہم بہت پریشان ہیں، ہم نہ تو سوپا رہے ہیں اور نہ کھا پا رہے ہیں۔ اس علاقے میں رہنے والے ہم سبھی مزدور، یومیہ اجرت والے مزدور، بڑھئی، تعمیراتی مزدور اور گھریلو ملازم ہیں۔ ہم اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتے۔
انہوں نے مزید کہا، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ دلت بستی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ منصوبہ چاروں اطراف سے جگہ خالی کرانے کا تھا لیکن اسے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اصل میں صرف ہماری ہی کالونی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کسی دوسرے علاقے کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور نہ ہی وہاں کے مکینوں کو ہماری طرح نکالا گیا ہے۔
سنبل پور ضلع میں 12 جولائی کو 18 سے زیادہ دلت، آدی واسی اور بہوجن تنظیموں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف مظاہرہ کیا۔
سماجی کارکن بالاکشور چھتر نے دی وائر کو بتایا کہ طویل عرصے سے حکومت سے زمین کی ملکیت کے لیے (جھگی میں رہنے والوں کی طرف سے) مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم حکومت نے ان کے مطالبے کو نظر انداز کر دیا اور اب ری ڈیولپمنٹ کے نام پروہ کمپنیوں کو زمین سونپ سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، اس کے علاوہ حکومت نے ابھی تک بے دخل کیے جا ر ہے لوگوں کی بازآبادی کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہے۔ اگر گھنگھٹی پارہ کے جھگی جھونپڑیوں میں رہنے والوں کو بے دخل کیا جاتا ہے تو اس سے ان کی زندگی، معاش اور بچوں کی تعلیم پر منفی اثر پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسکیم کے تحت گھنگھٹی پارہ میں 400 سالوں سے رہنے والے لوگوں کو بے دخل کرنے کا مطلب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ حکومت ان کے حق کی زمین کو کوڑیوں کے دام پر کارپوریٹس کو فروخت کرنے والی ہے۔
دریں اثنا، ریاستی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ہر بے گھر خاندان کو پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت 75000 روپے کی رقم اور 3 لاکھ روپے کی امداد دی جائے گی۔
وہیں، سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے دعوے کافی نہیں ہیں اور اس کے علاوہ اس نے مقامی باشندوں کے مطالبے کو بھی نظر انداز کر دیا ہے جو بے دخل نہیں ہونا چاہتے۔
اڑیسہ میں پسماندہ کمیونٹی کے ساتھ کام کرنے والے ایک کارکن مدھوسودن نے بتایا، یہ پروجیکٹ طویل عرصے سے چل رہا ہے۔ حکومت نے بےدخل لوگوں کو معاوضہ اور ان کی باز آبادی کا دعویٰ کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اسکیم (پی ایم آواس کے تحت معاوضہ) کے لیےرجسٹریشن کرایا ہے، جبکہ کچھ کو ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ کم از کم 100 خاندان اپنے گھروں سے بے دخل ہونے اور انہیں گرائے جانے کے خلاف جد وجہد کر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے رجسٹریشن کرائی تھی انہیں ہٹایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 400 سالوں سے آباد لوگوں کو مذہب اور عقیدے کے نام پر ان کی روزی روٹی، آمدنی، تعلیم اور تحفظ سے محروم کیا جا رہا ہے۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: خبریں