فرقہ وارانہ سیاست

کیا مودی کی واپسی سے مسلمان بے وجہ ڈرے ہوئے ہیں؟

کیا نریندر مودی یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو جس ڈر کی سیاست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کریں‌گے؟ اگر ان کو سنجیدگی کے ساتھ اس کے لیے کام کرنا ہے تو اس کی شروعات سنگھ پریوار سے نہیں ہونی چاہیے؟

کیا بی جے پی کی واپسی نے ہندوستان کے چہرے سے ’سیکولرازم کا نقاب‘ اتار دیا ہے؟

آخر بی جے پی نے اتنی بڑی جیت کیسے درج کی؟ پارٹی کے ایک سینئر لیڈر کے مطابق پچھلے سال اہم صوبوں کے انتخابات کے بعد یہ طے ہوگیا تھا کہ کسان اور بی جے پی کا اپنا اعلیٰ ذات کا ہندو ووٹ بینک اس سے ناراض ہے۔ دوسری طرف اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد نے بھی گھنٹی بجائی تھی۔ اس لئے ان طبقات کو را م کرنے کے لیے وزیر اعظم مودی اور پارٹی صدر امت شاہ نے پارلیامنٹ سے ایک آئینی ترمیمی بل پاس کروایا،جس کی رو سے اقتصادی طور پر پسماندہ اعلیٰ ذاتوں کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں نشستیں مخصوص کروائی گیئں۔

بی جے پی کیسے جیتتی ہے…؟

مودی ایک ایسے قائد کے طو رپر سامنے لائے گئے جو پاکستان کو سبق دے سکتا تھا اور اعلیٰ ذات کی خواہشات کی تکمیل بھی کرسکتا تھا۔ قوم پرستی کے جذبے کو اس حد تک پروان چڑھایاگیاکہ’نوٹ بندی’ اور’جی ایس ٹی’ کے بداثرات نظر انداز کرکے لوگوں کے ووٹ بی جے پی کو گئے۔

آر ایس ایس رہنما اندریش کمار نے کہا؛نوجوت سنگھ سدھو ، نصیر الدین شاہ اور عامر خان ملک کے غدار ہیں

آر ایس ایس رہنما نے رام مندر معاملے میں کانگریس ،کمیونسٹ پارٹیوں اور ججوں کو ذمہ دار بتاتے ہوئے سادھو سنتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کے دفتر اور ججوں کے گھروں کے باہر دھرنا دیں ۔

یوگی آدتیہ ناتھ کے اس دعوے میں کتنی سچائی ہے کہ ان کی  مدت کار  میں کوئی فساد نہیں ہوا؟

وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ٹوئٹر پر دعویٰ کیا کہ ان کے دو سال کی حکومت میں کوئی فساد نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ سرکاری رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف سال 2017 میں ہی اتر پردیش میں فرقہ وارانہ تشدد کے کل 195 واقعات ہوئے ہیں۔ اس دوران 44 لوگوں کی موت ہو گئی اور 542 لوگ زخمی ہوئے۔

راجستھان: حکومت بدلنے کے باوجود ماب لنچنگ کا سلسلہ جاری

الور ضلع‎ کے کشن گڑھب اس تھانہ حلقہ کے بگھیری کھرد گاؤں میں گزشتہ اتوار کی صبح محمد صغیر کو مبینہ گئورکشکوں نے بےرحمی سے پیٹا۔ شدیدطور پر زخمی صغیر ضلع ہاسپٹل کے آئی سی یو میں زندگی اور موت کے درمیان جدو جہد کر رہے ہیں۔

کیا پولیس اکبر خان کے قتل کے ملزمین کو بچا رہی ہے؟

الور ماب لنچنگ معاملے میں پولیس کی طرف سے داخل ادھوری چارج شیٹ نہ صرف جیل میں بند ملزمین کے لئے قانونی طور پر مفید ہے، بلکہ اس سے یہ بھی صاف ہوتا ہے کہ پولیس کا باقی ملزمین کو پکڑنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے۔

عام انتخابات میں بی جے پی کی جیت کے ساتھ ہی ’فرقہ وارانہ ایمرجنسی‘ کا آغاز ہوچکا تھا

2014 کے پہلے تک’سیاسی اکثریت’اور’فرقہ وارانہ اکثریت’کے بیچ کی کھائی رسمی طور پر بنی رہی۔زمین پر جو بھی حالات رہے ہوں لیکن انتخاب غلط فہمی پیدا کرنے والے ایک مکھوٹا کے طور پر کام کرتا رہا۔لیکن مرکز میں بی جے پی کے آنے کے بعد یہ مکھوٹا بھی اتر گیا۔

کیا بیف کے بہانے آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار ماب لنچنگ کو جائز ٹھہرا رہےہیں؟

اندریش کماراور ان جیسوں کے رد عمل پر حیرت نہیں ہوتی لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ قرآن اور حدیث کا حوالہ دے کر جھوٹ گڑھ رہے ہیں اور ان کے ارد گرد بیٹھے مدرسوں کے فارغین عالم فاضل لوگ خاموش ہیں تو حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے۔

اکبر کے گاؤں سے گراؤنڈ رپورٹ: یقین و اعتماد کی ٹوٹتی سانسیں اور انصاف کی امید

اکبر خان اپنے گھر کے اکیلے کمانے والے تھے، اب ان کے 60 سال کے والد پر بیمار بہو، بزرگ بیوی، 7 پوتے پوتیوں اور 5 گایوں کی ذمہ داری ہے۔ بیٹے کی موت نے ان کو اتنا ڈرا دیا ہے کہ وہ کسی پر یقین نہیں کر پا رہے ہیں۔ ہر ملنے آنے والے سے بس یہی پوچھ رہے ہیں کہ کہیں کوئی جگہ ہے جہاں انصاف کی فریاد کی جا سکے۔

لوگ بیف کھانا چھوڑ دیں تو رک سکتی ہے ماب لنچنگ :  آر ایس ایس رہنما

آر ایس ایس رہنما اندریش کمار نے رانچی میں سوموار کو ایک پروگرام میں کہا کہ’ماب لنچنگ کو صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن اگر لوگ بیف کھانا چھوڑ دیں تو ‘شیطانوں’کے ذریعے کیے جانے والے اس طرح کے جرائم کو روکا جا سکتاہے۔’

فری لانس احتجاج، بنگال کی برہنہ تصویریں اور پاکستانی پرائم منسٹر کی برہنگی  کا سچ

فیک نیوز:تصویر کو فرقہ وارانہ رنگ اس وقت دیا گیا جب بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے لڑکےکومسلمان قرار دیا گیا ۔ انڈیا ٹی وی نےبھی اس کے مسلمان ہونے پر مہر لگا دی !صحافی کنچن گپتا نے بھی ٹی وی کی تعریف کرتے ہوئے لڑکے کی شناخت سے پردہ اٹھانے کی مبارکباد دی۔ حالانکہ بعد میں ان کواپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے ٹوئٹ ڈیلیٹ کر کے معافی مانگی۔