بتادیں کہ 17 جنوری 2018 کو جموں و کشمیر کے کٹھوعہ ضلع میں ایک آٹھ سالہ بچی کی لاش ملی تھی۔ میڈیکل رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ قتل سے قبل لڑکی کے ساتھ کئی بار گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ جون 2019 میں اس کیس کے کلیدی ملزم سانجی رام سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو قصوروارٹھہرایا گیا تھا۔
کٹھوعہ ریپ اور قتل معاملے میں قصوروار پولیس اہلکار کو ان کی پانچ سال کی جیل کی سزا مکمل ہونے سے پہلے ہی رہا کر دیا گیا اور عدالت نے ان کی باقی بچی سزا بھی رد کر دی ہے۔
کٹھوعہ گینگ ریپ اور قتل معاملے کی تفتیش کرنے والی ایس آئی ٹی کے ان ممبروں پر فرضی گواہ تیار کرنے، ان کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں رکھنےاور جھوٹے بیان دینے کے لئے مبینہ طور پر ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر ہراساں کرنے کا الزام ہے۔
بچیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی 6 تنظیموں کی ایک مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1994 میں بچیوں کے ساتھ ریپ کے 3986 واقعات سامنے آئے تھے، جو سال 2016 میں 4.2 گنا بڑھکر 16863 ہو گئے۔
انوپم کھیر جیسے کچھ فنکار تختی لےکر میڈیا کو مدعا دیتے ہیں۔ ان کی تصویر اسکرین پر دکھاکر گھر بیٹھے لوگوں کے ذہن میں زہر بھرا جاتا ہے۔ اس عمل میں مسلمان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے جن کے ذہن میں یہ کچرا بھرا جاتا ہے ان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جا چکا ہوتا ہے۔ اس لئے وسیع ہندو مفاد میں یہ ضروری ہے کہ تمام نیوز چینل دیکھنا بند کر دیں۔ کیونکہ چینلوں میں مذہب کے نام پر ہندوؤں سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔
وزارت داخلہ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ میڈیا میں جنسی استحصال کے معاملے میں متاثرین کے نام شائع نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ رشتہ داروں کی اجازت کے بعد بھی ایسا نہیں کیا جا سکتا ہے۔
متاثرہ بچی کے والد نے پٹھان کوٹ عدالت میں وکیل دیپیکا سنگھ راجاوت کو کیس سے ہٹانے کی گزارش کی تھی۔ جس کو کورٹ نے منظور کر لیا ہے۔
کٹھوعہ گینگ ریپ اور قتل معاملے کے ایک ملزم نے میٹرک سرٹیفیکٹ کا حوالہ دے کر خود کے نابالغ ہونے کا دعویٰ کیا تھا ،جس پر عدالت نے ا سکی ہڈیوں کی جانچ کا حکم دیا تھا۔
فورینسک ایکسپرٹس نے کہا ہے کہ کٹھوعہ میں متاثرہ بچی کے قتل سے پہلے اس کو جبراً نیند کی کافی گولیاں دی گئی تھی جس کی وجہ سے وہ کوما میں چلی گئی ۔
چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بنچ نے معاملے کو پٹھان کوٹ منتقل کرنے اور فاسٹ ٹریک کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا آرڈر دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت چنڈی گڈھ میں کرانے اور سی بی آئی کو تفتیش سونپنے کی عرضی پر غور کرنے کے بعد کٹھوعہ میں چل رہی کارروائی پر 7مئی تک روک لگا دی ہے۔
سپریم کورٹ نے کٹھوعہ میں بچی کے ساتھ ریپ اور اس کے قتل کے دو ملزمین کی اس عرضی پر غور کرنے کی حامی بھر دی ہے ،جس میں انہوں نے مقدمہ کی سماعت جموں سے باہر منتقل نہیں کرنے اور معاملے کی تفتیش سی بی آئی کو سونپنے کی گزارش کی ہے۔
وزارت محنت و روزگار کے مرکزی وزیر سنتوش گنگوار نے کہا کہ ایسے واقعات شرمناک ہیں ،لیکن ان کو کبھی روکا نہیں جا سکتاہے۔
کٹھوعہ ریپ اور قتل کی نئی میڈیا رپورٹ:اخبار کی اس رپورٹ اور ملزمین کی حمایت میں نکالی گئی ریلی میں کیا فرق ہے؟آپ کو کوئی فرق نظرآتا ہے؟تو کیابکاؤ میڈیاکے اس دور میں کسی بھی چیز کی توقع کی جا نی چاہیے؟
کٹھوعہ معاملے میں ریپ نہ ہونے کی میڈیا رپورٹ پر جموں و کشمیر پولیس نے کی وضاحت کہا ؛’میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر ہی دائر کی گئی چارج شیٹ۔‘
پاکسو ایکٹ میں بڑی تبدیلی، 12 سال سے کم عمر کے بچوں سے ریپ پر ہوگی پھانسی کی سزا۔
’وہ بےحد غریب لوگ ہیں۔ ان کو نہیں پتا کہ دنیا کیسے چلتی ہے۔ بکروال لوگ خانہ بدوش ہوتے ہیں، ہمیشہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے رہتے ہیں۔ وہ ان سنی سی زندگی جیتے ہیں اور ان سنے ہی مر جاتے ہیں۔ وہ بے بس محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ان کو اپنی بیٹی کے لئے انصاف چاہیے۔ جب میں ان سے ملی تب وہ یہ جانکر خوش ہوئے کہ کوئی ان کی بچی کے لئے انصاف کی لڑائی لڑنا چاہتا ہے۔‘