بتایا جا رہا ہے کہ شاہ فیصل نے اپنے تمام سابقہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیے ہیں، جو مرکزی حکومت کی تنقید میں لکھے گئے تھے۔ ساتھ ہی وہ سوشل میڈیا پر موجودہ بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے زبردست حامی نظر آ رہے ہیں۔ ان دنوں وہ اکثر اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی تقاریر، بیانات اور اعلانات کو شیئر کر رہے ہیں۔
آئی اے ایس کی نوکری سے استعفیٰ دینے کے بعد جموں اینڈ کشمیر پیپلس موومنٹ پارٹی بنانے والے شاہ فیصل جموں وکشمیر کاخصوصی درجہ ختم کیے جانے کے بعد سے نظربندی میں ہیں اور ان پر اس سال فروری میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی تھی۔
شاہ فیصل کو گزشتہ سال 14 اگست میں دہلی ایئر پورٹ سے حراست میں لیا گیا تھا۔
جموں کشمیر انتظامیہ نے 450 سے زیادہ کاروباریوں،صحافیوں، وکیلوں اور سیاسی کارکنوں کی ایک فہرست تیار کی ہے، جو کہ ایک طے شدہ مدت کے دوران غیر ملکی سفر نہیں کر سکیں گے۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ حراست میں لیے گئے جموں وکشمیر کے رہنماؤں کو ہالی ووڈ فلموں کی سی ڈی اور جم کی سہولیات دی گئی ہیں ۔ وہ ان سہولیات کا ستعمال کر رہے ہی ، جو ان کے گھر پر بھی نہیں ملتیں ۔
کشمیر پریس کلب نےصحافیوں اور میڈیا اداروں کے لیے انٹر نیٹ اور ٹیلی فون خدمات بحال کرنے کی مانگ کرتے ہوئے انتظامیہ کے ذریعے کچھ صحافیوں سے سرکاری رہائش گاہ خالی کرنے کے حکم کی تنقید کی ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے گزشتہ منگل کو جموں و کشمیر کے سرپنچ اور پنچوں کے ایک وفد سے ملاقات کی اور ریاست میں موبائل فون خدمات اگلے 15-20 دنوں میں بحال کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
گراؤنڈ رپورٹ : ایک مزدور کا کہنا تھاکہ،اگر دفعہ 370 ہٹانا اور ریاست کی تقسیم کا فیصلہ کشمیریوں کے حق میں ہوتا تو یہاں حالات اس قدر ابتر نہیں ہوتے۔ مواصلاتی خدمات پر پابندی عائد نہیں ہوتی۔ ہر جمعہ کو کرفیو نہیں لگایا جاتا۔ اسکول، دفاتر اور بینک بند نہیں ہوتے۔ سڑکوں پر اتنے فورسز اہلکار تعینات نہیں ہوتے۔
سرینگر میئر جنید عازم مٹو نے کہا کہ ، بی جے پی حکومت کی حراست میں لینے کی پالیسی پوری طرح سے آپریشنل ہے۔
ہانگ کانگ اور کشمیر دونوں ہی اس وقت تاریخ کے ایک جیسے دور سے گزر رہے ہیں ؛ دونوں کی خودمختاری کے نام پر کیا گیا معاہدہ خطرے میں ہے اور ان سے معاہدہ کرنے والے ممالک کی حکومت ان معاہدوں سے انکار کر رہی ہیں۔
ویڈیو: جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے بعد وہاں تمام رہنماؤں کو حراست میں رکھا گیا ہے ۔ دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی نے سرینگر واقع سینٹور ہوٹل میں نظربند سجاد لون ، عمران انصاری ،عمر عبداللہ کے صلاح کار تنویر صادق اور شاہ فیصل سے بات چیت کی ۔
سرینگر سے گراؤنڈ رپورٹ : مین اسٹریم میڈیا میں آ رہی کشمیر کی خبروں میں سے 90 فیصد جھوٹی ہیں۔ کشمیر کے حالات معمولی مظاہرہ تک محدود نہیں ہیں اور نہ ہی یہاں کوئی سڑکوں پر ساتھ ملکر بریانی کھا رہا ہے۔
کشمیری صحافی اور قلمکار گوہر گیلانی نے کہا کہ وہ جرمنی کی میڈیا تنظیم ڈائچے ویلے کے تربیتی پروگرام میں حصہ لینے جا رہے تھے لیکن ان کو دہلی کے آئی جی آئی ہوائی اڈے پر روک لیا گیا۔
کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر نذیر احمد رونگا کو خصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے سے ایک دن پہلے 4 اگست کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ الزام ہے کہ وہ اس فیصلے کو لےکرلوگوں کو متاثر کر سکتے تھے۔
راج بھون کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی آدمی کو حراست میں لئے جانے یا رہا کئے جانے میں جموں و کشمیر کے گورنر شامل نہیں ہیں۔ اس طرح کے فیصلے مقامی پولیس انتظامیہ کے ذریعے کئے جاتے ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق، ایک مجسٹریٹ نے بتایا کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم ہونے کے بعد سے کم سے کم 4000 لوگوں کو گرفتار کرکے پی ایس اے کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔
سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل کو واپس سرینگر بھیج دیا گیا ہے ، جہاں ان کو جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت نظر بند رکھا گیا ہے۔
لوک سبھا میں حکومت کے ذریعے پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق؛ مرکزی حکومت کی وزارتوں میں کل 93 ایڈیشنل سکریٹری ہیں، لیکن اس میں سے صرف چھ ایس سی اور پانچ ایس ٹی ہیں۔ وہیں ایک بھی ایڈیشنل سکریٹری او بی سی کمیونٹی سے نہیں ہے۔
عام طور پر یو پی ایس سی کے ذریعے منعقد آئی اے ایس، آئی ایف ایس یا دوسری مرکزی سروسوں کے امتحان میں منتخب افسروں کو کیریئر میں لمبا تجربہ حاصل کرنے کے بعد جوائنٹ سکریٹری کے عہدے پر تعینات کیا جاتا ہے۔
سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل نے کشمیر میں مسلسل قتل کے واقعات اور ہندوستانی مسلمانوں کے حاشیے پر ہونے کا الزام لگاتے ہوئے جنوری میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
شاہ فیصل کا استعفیٰ واقعی ایک انقلابی قدم ہے۔ تمام سیاسی قوتوں کو اس کا استقبال کرنا چاہئے ۔ مگر دیکھنا یہ ہے کیا وہ شیخ عبداللہ اور ان کے پیش رو کے برعکس اپنا وقار برقرار رکھ پائیں گے؟
لاء منسٹر روی شنکر پرساد نے کہا کہ یو پی ایس سی کے ذریعے ایک آل انڈیا جوڈیشیل سروس اگزام کے تحت ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹی کے لوگوں کی بھرتی کی جاسکتی ہے۔
اس وقت سول سروس کے لیے جنرل کٹیگری کے امیدوار کی عمر کی میعاد زیادہ سے زیادہ 30 سال ہے۔ نیتی آیوگ نے سبھی سول سروس کے لیے صرف ایک اگزام کرانے کا بھی مشورہ دیا ہے۔
مرکزی وزیر مملکت جتیندر سنگھ نے کہا کہ 1 جنوری 2018 کی صورتحال کے مطابق آئی اے ایس کٹیگری میں کل منظور شدہ عہدوں کی تعداد 6553 ہے جبکہ آئی پی ایس کٹیگری میں یہ تعداد 4940 ہے۔
2010 بیچ کے یو پی ایس سی کے ٹاپر فیصل نے ریپ کے بڑھتے واقعات کو لےکر ایک ٹوئٹ کیا تھا، جس پر ان کو مرکزی حکومت کےڈپارمنٹ آف پرسنل اینڈ ٹریننگ (ڈی او پی ٹی) کے ذریعے نوٹس بھیجا گیا ہے۔ فیصل نے ٹوئٹر پر نوٹس شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ جمہوری ہندوستان میں نوآبادیاتی رجحان سے بنائے اصولوں کے ذریعے اظہار آزادی کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔
جوائنٹ سکریٹری سطح کے دس پیشہ ور وں کو ایڈمنسٹریشن میں شامل کرنے کا خیال حکومت کے آخری سال میں کیوں آیا جبکہ اس طرح کے مشورے پہلے کی کئی کمیٹی رپورٹ میں درج ہیں۔
ہم بھی بھارت کے اس ایپی سوڈ میں سنیے مودی حکومت کے ذریعےجوائنٹ سکریٹری لیبل کے 10 عہدوں کے لیے یو پی ایس سی کے اگزام کے بغیر درخواست مانگے جانے پر سابق آئی اے ایس افسر سندر برا اور ہارڈ نیوز پتریکا کے مدیر سنجے کپور سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت