تین دہائی قبل جب یہ عبادت گاہوں کا بل پارلیامنٹ میں پیش کیا گیا تھا تو بی جے پی نے اسے ‘سیاہ ترین ‘ بل قرار دیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیاتھا کہ یہ’مغل اور برطانوی دور حکومت میں ہندو مندروں پر کی جانے والی تمام تجاوزات کو قانونی حیثیت دینے’ کی کوشش کی کرتا ہے۔ جبکہ غیر بی جے پی ارکان پارلیامنٹ نے اس کی حمایت کرتے ہوئے اسے سیکولرازم اور ہم آہنگی کے تحفظ کے لیے ایک ضروری قدم قرار دیا تھا۔
جب تک ہندوستانی عدالتوں کو پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991 کی روح کو پامال کرنے کی اجازت دی جاتی رہے گی، تب تک تاریخ کے زخم کریدے جاتے رہیں گے، ہم آہنگی بگڑتی رہے گی اور خون خرابہ ہوتا رہے گا۔
عبادت گاہوں کے قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ نے کسی بھی قسم کے نئے سروے اور کیس کے اندراج پر پابندی لگاتے ہوئے مرکزی حکومت کو چار ہفتے کے اندر اپنا موقف واضح کرنے کو کہا ہے۔
ویڈیو: سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے سروے سے لے کر اجمیر میں درگاہ شریف میں مندر ہونے کے دعوے پر نوٹس بھیجے جانےکے پس پردہ عدالتی احکامات ہیں۔ کیا عدالتیں عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ کی خلاف ورزی کر رہی ہیں؟ اس موضوع پر دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایم آر شمشاد کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔