ادبستان

یوم مزاحمت نسوان کشمیر:کیا آپ کو کنن پوش پورہ یاد ہے؟

کنن پوش پورہ واقعی میں ایک تلخ یاد ہے جو کشمیر کی تاریخ میں کبھی مسخ نہیں ہو سکتی ہے۔

Photo : Free Press Kashmir

Photo : Free Press Kashmir

آج 23 فروری ہے اور آج کا دن “یوم مزاحمت نسواں کشمیر” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ در اصل 27 سال پہلے 1991 میں 23 -24 فروری کے درمیانی شب انڈین آرمی نے وادی کشمیر کے کنن اور پوش پورہ  گاؤں میں سرچ آپریشن کے دوران مبینہ طور پر 23 سے 100 کشمیری خواتین کا گینگ ریپ کیا تھا۔پیش نظر کتاب اسی بھیانک رات کی وہ داستان ہے جب کشمیر میں دو جڑواں گاؤں کنن اور پوش پورہ میں23 فروری 1991کی رات تقریباً 170سے زائد فوجیوں نے 55سے زائد عورتوں کے ساتھ کی زیادتی کی تھی اتنا ہی نہیں  مردوں کے ساتھ بھی اس رات  بے دردری سے جسمانی تشدد ہوا اور تکالیف دئے گئے۔ یہ کتاب دراصل ان مظلوم عورتوں کی داستان ہے ۔جو تقریباً پچیس سال گزرنے کے بعد بھی انصاف کی منتظر ہیں۔اس کتاب کی لکھنے والی کشمیر کی پانچ بہادر لڑکیاں ہیں۔جن کا نام ایثار بتول، افرابٹ، سمرینا مشتاق، منزہ رشید، اور نتاشا راتھر ہے۔ یہ کتاب انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ریسرچ سنٹر IRDC کینڈا کی طرف سے S.V.I یعنی sexual violence and impunity کے تین سالہ پروجیکٹ کے تحت لکھی گئی ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا میں تقریباً آٹھ کتابیں جنسی تشدد پر لکھی گئی ہیں۔

Do you remember kunun poshpora، سات ابواب پر مشتمل ہے ۔ کنن پوش پورہ کشمیر میں دو جڑواں گاؤں کے نام ہیں۔ یہ دونوں گاؤں کشمیر کی راجدھانی سری نگر کے شمال میں تقریباً 90 کلو میٹر کی دوری پرضلع کپوارہ میں آباد ہیں۔پہلے باب میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح فوج گاؤں کو حصار میں لے کر جنسی درندگی کو سر انجام دیتی ہیں۔پولیس کے بیان کے مطابق 23 فروری 1991میں تریہگام آرمی کیمپ سے 4 راج پوتانہ رائفلزاور 68 mountain brigde کنن پوش پورہ کو اپنے حصار میں لینے کے نکلتے ہیں ۔ پہلے وہ ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر آف پولیس محمد سلطان کو انفارم کرتے ہیں جس پر وہ ان دو پولیس کانسٹبل عبدالغنی اور بشر احمد کو ان کے ہمراہ بھیج دیتا ہے۔غنی اسی گا ؤں کا رہنے  ہے۔یہ رات بہت ہی سرد  ہے کیوں کہ ہر طرف برف کی وجہ سے ہر شے منجمد  ہے اور اسی رات میں فوج کنن پوش پورہ پہنج کر پورے گاؤں کو اپنے حصار میں لیتی ہے۔ رات کے گیارہ بجے مساجد سے اعلان کر کے مردوں کوعورتوں سے جدا کر کے عورتوں کو گھروں میں تن تنہا چھوڑ دیا جاتا ہیں۔اس کے بعد مردوں پر جسمانی تشدد کر کے گھروں کے اندر جاکر عورتوں کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے۔اس کتا ب  میں ایک مظلوم عورت کا کہنا ہے :

’’تین آرمی والوں نے مجھے پکڑ کر اور آٹھ سے لیکر دس آرمی والے مجھ سے باری باری ریپ کرتے رہے۔ان کے پاس بڑی بڑی بیٹریاں تھیں۔وہ ان کو جلا کر روشن کرتے تھے اور میری ننگےبدن  کو دیکھتے رہے اور پھر فحش کمنٹس پاس کرتے تھے۔وہ میرے ساتھ یہ حیوانیت  تقریباًچار گھنٹے کرتے رہے ۔جس سے میں بعد میں بے ہوش ہو کر گر پڑی تھی۔‘‘ (ص:88)

عبدالغنی  کانسٹبل جو چشم  دید گواہ تھا اس کو فوج نے 1993میں بربریت سے مار ڈالا۔کتاب میں صفحہ  85 پراس کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔غنی  فوج کے ساتھ اس رات موجود تھااوراس نے  ایک بچے کو برف سے اٹھایا تھا، جس کو فوجیوں نے ہوس کی آگ میں آکرباہر پھینک دیاتھا۔

اس کیس کا پہلا F.I.R بد قسمتی کی وجہ سے 15 دن کے بعد درج ہوا ۔اس کتاب  میں یہ سب تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔کتاب کے دوسرے باب میں بھی ریپ  اور جنسی تشدد کا بیان  ہے ۔اس باب میں یہ دکھا یا گیا کہ کس طرح 51 سے زائد عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد کو گورمنٹ مشینری نے جھوٹ  کا سہارا لے کر غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ، اور کیسےمظلوم عورتوں کو انصاف دینے کے بجائے ان پر ہی دغابازی اور غداری کا الزام لگا دیا۔ایف آئی آردرج کر نے کے بعد بھی کس طرح پولیس نے بعد میں اس کیس کو کہuntraced کہہ کر بند کیا۔2004میں ان لوگوں نے state human rights commission کی ایک verdict سے اس کیس کی دوبارہ جانچ پڑتال کرائی ۔لیکن تب بھی سرکاری ہتھکنڈوں سے اس کو روکنے کی سعی کی گئی۔ اس باب میں کنن پوش پورہ کی جغرافیہ کے ساتھ ساتھ کشمیر کی تاریخ کے کچھ اہم موڑ اور پنوں کا ذکر بھی کیا ہے،جیسے کہ armed struggle کیسے وجود میں آئی ۔ اس باب میں کنن پوش پورہ کے علاوہ کشمیر کے دیگر علاقوں میں فوج کے ہاتھوں ہوئی جنسی تشدد کا ذکر بھی ہوا ہے۔جس میں  ریشی پورہ اننت ناگ میں 1992 میں دو بہنوں کے ساتھ 5 راشٹریہ رائفلز نے کس طرح ریپ ک کرکے ان کے گھر کو جلا دیا ۔ جس کی وجہ سے ان  دوبہنوں کو ساری رات غسل خانے میں گزارنا پڑا۔ اس کے علاوہ 10 دسمبر 1992 میں چک پورہ شوپیاں میں9 عورتوں کے ساتھ 22 grenadiers آرمی نے ریپ کر دیا جس میں ایک گیارہ سال کی معصوم لڑکی کے ساتھ ایک ساٹھ سال کی بزرگ عورت بھی تھی۔اس کیس کو بعد میں untraced کہہ کر ختم کر دیا اور کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی ۔ کتاب کے صفحہ  52 اور 53 پر کشمیر کے پازی پورہ میں جب آرمی والوں نے گھات لگا کر آٹھ  سے لے کر نو عورتوں کا ریپ کیا اور پھر نعرے لگا ئے جے ہند جے ہند  ۔  ریپ کر کے جے ہند کا نعرہ لگانا ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کی آرمی نے کس طرح ریپ notion کو کس حد تک کتنا nationhood کے ساتھ جوڑا دیا ۔ کشمیری عورت کا ریپ کر کے ہندوستان کی عزت میں کیسےاضافہ ہوتا ہے۔

Photo : Kashmir Global

Photo : Kashmir Global

 کشمیر جیسے وار زون میں جنسی تشدد نہ صرف عورتوں کے ساتھ ہوا بلکہ اس جنسی تشدد کے ہزاروں کی تعداد میں مرد بھی شکار ہوئے ہیں۔لیکن ان کے ساتھ یہ ایک torture کے طور پر استعمال کیا گیا ہیں۔یہاں مردوں کو torture کے دوران ان کے private parts کو الکٹرکshocks دے کر  ہمیشہ کے لیے ناکارہ کر دیا ۔اس باب میں جنسی تشدد کود کھانے کی سعی کی گئی ہے کہ کس  طرح AFSPA کے آرڈ میں کشمیری، منی پوری اور چھتیس گڑھ کی عورتوں کے ساتھ  جنسی تشدد ہو رہے ہیں۔جنسی تشدد کے بعد بھی یہ لوگ سزا سے بری ہوتے ہیں۔ اسی لیے کبھی یہ mass rapes تو کبھی individual rapes انجام دیتے رہے ہیں۔

کنن پوش پورہ کی وہ رات،اس باب میں کنن پو ش پورہ کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اس رات کیا ہوا تھا ۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح آرمی نے لوگوں سے زبر دستی این او سی لیا ااور ان دونوں پولیس والوں سے بھی جو ان کے ہمراہ بھیج دیئے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ مردوں کی مار پیٹ کا وہ بھیانک منظر بھی دکھایا گیاکہ کس طرح رات ختم ہونے کے بعد مرد حضرات رینگتے ہوئے برف پر اپنے گھروں کی جانب جا رہے تھے ۔ ان کو اتنا torture کیا گیا تھا کہ وہ چلنے کے قابل نہیں تھے ۔اپنے گھروں میں انہوں نے اپنی عورتوں کو ننگی حالت میں خون میں لت پت دیکھ کر فلک بوس چیخے لگائے ۔durri,s story بھی اس باب میں ایک ایسی کہانی ہے جس سے اس کیس کی سچائی چھلکتی ہے۔یہ باب پولیس کی تفتیش،عبدالغنی کی کہانی کے ساتھ سا تھ مظلوموں کا medical examination اور گاؤں کا رپورٹ ٹھوس شواہد کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اس باب میں ان فو جیوں کے نام بھی افشا کر دے گئے ہیں جو اس کیس میں ملوث ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ گاؤں والوں کی دستخطی مہم اور ان کاغذات کی تصویروں کو پیش کیا گیا ہے۔اس میں گاؤں کا ایک چھوٹا سا نقشہ بھی بنایا گیا ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کن کن گھروں میں آرمی نے حیوانیت کا کام انجام دے کر انسانیت کو شرمسار کیا ہے۔

کنن پوش پورہ میں آج کی زندگی،اس باب کو سمرینا مشتاق نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ تحریر کیا ہے اور اس بستی کی سیاسی ،سماجی ، معاشی حالات پر روشنی ڈالنے کی سعی کی ہے۔انہوں نے یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح یہ لوگ 1990 سے لے کر آج تک اس رات کی اذیت سے گزر رہے ہیں۔ اس ماس ریپ (mass rape) سے ان دونوں گاؤں کی لڑکیوں اور لڑکوں کی تعلیم بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔  ان  گاؤں کے بچوں کو آج بھی دوسرے گاؤں کے بچے ماس ریپ والے گاؤں کے نام سے پکارتے ہیں۔جس سے یہ بچے ذہنی humiliation کا شکار ہوتے ہیں ۔اس باب میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح یہاں کے بچے اس حادثےسے متاثر ہوئے ہیں ۔صفحہ 108پرایک بچیّ کی داستان یوں بیان ہوئی ہے کہ ’’ میں نے یہ humiliationبچپن سے لے کر گریجویشن تک برداشت کی ہے اور مجھ سے کہا جاتا تھا کہ آپ ریپ والے گاؤں سے تعلق رکھتی ہے اورdiscrimination دن بہ دن بڑھتا رہتا ہے اب لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ  انٹرنیٹ پر آپ کی ماؤں اور بیٹیوں کی تصویریں بھی دستیاب ہیں۔اب ہم کو معلوم ہوا کہ کس کس عورت کے ساتھ ریپ ہوا ہے۔ ‘‘

 سمرینا مشتاق نے اس باب میں ان عورتوں کے مسائل کو بھی اجاگر کیا ہے، کس طرح اس گاؤں کی لڑکیاں شادی سے محروم ہو جاتی ہیں اور شاد یوں میں کتنے کمپرمائز کرنے پڑتے ہیں۔صفحہ 114میں بیاتا گیا کہ یہ لوگ بڑے سے لے کر بچے تک post traumic stress ,disorder ( ptsd) جیسی بیماریوں کے شکار ہیں جن میں blackouts, dizzy spells, forgotfulness ,short term memory loss, اور hypertension کے بھی سخت شکار ہیں۔ان میں کچھ عورتیں جو ریپ کے شکار ہوئی تھیں۔وہ آج بھی جسمانی طور پرمعذور ہیں اور آج بھی عزت سےمحروم ہیں۔

اس کیس کی کل ملا کر 4 بار انکوائری ہوئی ہیں۔ جس میں سب سے پہلی5 مارچ کو ، جب ڈی سی Y.M Yaseen اور کچھ سرکاری افسر کنن پوش پورہ میں جاتے ہیں تب وہ لوگوں سے بیان درج کراتے اور عورتوں کا medical examination بھی کراتے ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان عورتوں کے ساتھ ماس ریپ ہوا ہے۔ صفحہ 120 پر یہ واقعہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔اور اسی رپورٹ سے کپوارہ پولیس سٹیشن میں فوج کے خلاف ایف آئی آرلانچ کیا جاتا ہے۔ جو اس طرح بیان ہوا ہے۔ جب یہ خبر پہلے ٹیلی گراف میں چھپی تو اس کے بعد U.K کے ایک نیوز پیپر THE INDEPENDENT نے اس کو ایک کہانی کے طور پر پیش کیا جس کا عنوان اس طرح تھاIndian villages tell of mass rape by soldiers۔

انٹرنیشل میڈیا میں یہ جب خبر آگ کی طرح پھیلی تب آرمی کی طرف سے Brigadier HK Sharmaکی قیادت میں  بھی ایک کمیشن بٹھائی گئی انہوں ایسی رپورٹ پیش کی کہ اس کیس کو بند کر دیاگیا۔ اس کے فوراً بعد و جاہت حبیب اللہ جو اس وقت ڈویثرنل کمشنر کشمیر کے عہدے پر مامور ہوتے ہیں۔وہ18 مارچ کو دونوں گاؤں کا دورہ کر کے اور گاؤں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ ان مظلوم عورتوں سے بات چیت کر کے ایکrt confident repo تیا ر کر کے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ؛

’’ گاؤں کے لوگ بہت ہی سیدھے سادے ہیں۔انہوں نے آرمی پر یہ الزام ملی ٹنٹوں کے اکسانے پر لگایا ہے۔آرمی لوگوں کی بہبودی کے لیے کام کرتی ہے مگر ان کی امیج خراب کرنے کے لیے یہ الزام لگائے گئے۔اور یہہی رپورٹ پیش کر کے اس سارے کیس کو
underactedکہہ کر closure reportبناکر بند کیا جاتا ہے اس کے بعد پریس کونسل آف انڈیا نے ایک خودمختار کمیشن بٹھاتا ہے جس کے سر پرست B.G .Vergheseتھے ۔ وہ شہادتیں اکٹھا کر اپنی رپورٹ اس طرح پیش کر تے ہیں؛

’’ فوج گاؤں میں گئی تھی اور محاصرہ ختم ہونے کےبعد فوج نے بچوں میں مٹھائی بانٹی تھی یہ کچھ عجیب و غریب رپورٹ تھی جو اس کمیشن کی طرف سے پیش ہوئی  اور اس کے بعد یہ کیس پوری طرح سے بند کر دیا گیا۔واضح ہو کہ ڈی سی یاسین کی رپورٹ کے مطابق اور medical examination سے یہ ثابت ہوا تھا کہ پچاس سے زائد عورتوں کے ساتھ ماس ریپ ہوا  اور یہ ساری عورتیں جنسی تشدد کا شکار ہوئیں تھیں۔ یا سین کے ساتھ جسٹس بہاؤ الدین نے بھی سچائی پر مبنی رپورٹ پیش کیا جس کو بعد یاسین کی رپورٹ کی طرح مسترد کیا گیا تھا۔2013 جون میں JKCCS اور SGKP نے اس کیس کو دوبارہ اوپن کیا۔اور B.G .Verghese کی رپورٹ کے خلاف آواز بلند کی اور اس مہم میں B.G .verges کے رپورٹ کا سارا جھوٹ عوام کے سامنے لایا گیا۔ ابھی تک ایک ہی رپورٹ تھی جس نے حقیقت کے ساتھ کنن پوش پورہ کو پیش کیا ہے۔ڈی ،سی ،یاسین نے 23فروری کو ایک دن اپنی تقریر میں کہا یہ B.G .Vergheseہی تھا جب وہ پہلی بار کشمیر آیا اور مجھ سے ملنے کے لیے میرے ریزڈنسی پر آیا اور مجھ سے بولا ؛

’’ڈی سی صاحب یہ کیا لکھا ہے آپ نے کہ کوئی ریپ نہیں ہوا ،یہ کیا لگا رکھا ہے  DC sahib what you have written , no rape has happened there ص:131

ان سب غلط رپورٹ سے اس کیس کو بعد میں untraced کہہ کر بند کر دیا جاتا ہے۔ اور گورمنٹ مشینری کے ساتھ اس کیس کو ہمیشہ ہمیشہ ان مظلوموں پر نا انصافی کے پہاڑ گرا دیئے جاتے ہیں۔جس سے یہ مایوس ہوتے ہیں لیکن کم ہمت نہیں ہوتے۔

اگلےباب میں افرا بٹ نے جو کتاب کی ایک مصنفہ بھی ہیں، انہوں ان لوگوں کے انٹر یوز قلم بندکیے ہیں جو لوگ اس کیس کی قریب سے جانکاری رکھتے تھے۔اس میں ایک mysterious dairy سے بھی مدد لی گئی ہے جو اس وقت تحصیلدار کپوارہ سکندر فاروق نے تحریر کی تھی ۔صفحہ 150 پریہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہیں۔انہوں نے یوسف جمیل کی وہ کہانی بھی بیان کی ہے کہ کس طرح انہوں پہلے اس خبر کو ٹیلی گراف کلکتہ میں چھاپ کر قومی سے لے کر بین الاقوامی خبر بنایا۔ جس کے فوراً بعد The Independent نے اس خبر کو اپنی خبر بنائی جس سے یہ انٹرنیشل خبر بن گئی تھی۔ اس باب میں جسٹس بہاؤ الدین کے رپورٹ کی بات کی گئی ہے جو DC Yaseenکی طرح سچائی پر مبنی تھی ۔اس کے علاوہ آسیہ اندرابی کا انٹرویو بھی  ہے جس نے وہاں جاکر اس وقت ان عورتوں سے شواہد اکٹھا کئے تھے۔اس باب میں یہ دکھایا گیا کہ کس طرح یوسف جمیل کے گھر پر بمباری کی گئی، اور کس طرح اس کیس سے جڑے کچھ نگارشات آگ کی نذر ہوئے۔

ساتویں باب میں حال کی جدو جہد اور اس کیس کے بارے میں واقف کاروں کی رائےپر بات کی گئی ہے،اس باب میں کل ملاکر مظلوموں کی نا انصافی کی بات کی گئی ہے۔ یہ دکھانے کی سعی کی گئی ہے کہ کس طرح وار زون میں افپسا کے آرڈ میں 1990 سے لے کر آج تک سینکڑوں کی تعداد میں کشمیر میں عورتوں کے ساتھ فوج نے  زیادتی کی ہے ۔صفحہ 170پر خرم پرویز یوں کہتا ہے کہ کیا ہندوستان میں ریپ کرنا سزا یافتہ ہوتا ہے اور کشمیر میں یہی ریپ وردی میں ملبوس ہو کر کر نا جائز بن جاتا ہےاس باب میں اس کیس سے متعلق حال کی بات کی گئی ہے۔2013میں مشہور وکیل اور ہیومین رائٹس اکٹوسٹ پرویز امروز کی نگرانی میں پہلے سو سو عورتیں جموں و کشمیر کے ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل رٹ دائر کرتی ہیں جب ہائی کورٹ ان کی شناخت مانگتی ہے تو پچاس عورتیں اپنا نام واپس لے لیتی ہیں مگر باقی پچاس عورتیں ثابت قدم رہ کر جن میں اس کتاب کی مصنفین بھی شامل ہوتی ہیں۔اس بار بھی ہائی کورٹ 1992 پولیس کا closure report کو بیس بنا کر اس کیس کو بند کر دیتا ہے،جس سے یہ سب لوگ مایوس تو ہوجاتے ہیں مگر ہمت نہیں ہارتے ۔

اس کے بعد jkccs نے نچلی عدالت کپوارہ کی طرف رجوع کیا جس پر کورٹ نے پولیس کی رپورٹ کو مسترد کیا اور کیس کی جانچ پڑتال نئے سرے سے کرنے کی طلب کی۔اس بعد پہلے فوج نومبر 2013میں کپوارہ کورٹ میں اس کیس کو بند کرنے کے لیے ایک رٹ دائر کی جس کو کورٹ نے خارج کر دیا اس کے بعد فوج نے بڑے ہتھکنڈے استعمال میں لائے اور کنن اور پوش میں دھماکہ بھی کرایا تاکہ یہ لوگ ڈر کے مارے اس کیس کو واپس لے لیں مگر ایسا نہیں ہوا ور یہ سب تدابیر پھیکے پڑ گئے ،مئی 2014میں ہائی کورٹ کی جانب سے ایک حکم صادر ہوا جس میں کہا گیا 1:ہائی کورٹ اس کیس کا خود خیال رکھے گا اور پولیس پوری طرح اس کیس کی تفتیش میں ناکام ہو گئی ہیں ۔2: اس کیس لیے لیے ایک ٹیم تشکیل دی گئی جو اس کیس کے cover up کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی ۔یہ چوبیس سالوں کے بعد واقعی میں ان لوگوں کے لیے فتح تھی جو اس کیس کو چوبیس سالوں سے ایک سٹیٹ اور طاقت کے خلاف  بہادری کے ساتھ لڑتے آرہے تھے۔یہ کیس ابھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا ہے انصاف ہنوز دور ہے۔مگر راحت تو مل گئی ہے۔اس لیے 23فروری 2013کو پہلی بار ’’ یوم مزاحمت خواتین کشمیر ‘‘ منایا گیا جو ہر سال اب منایا جاتا ہے اور اسی دن ڈی سی یاسین نے اس کیس کی حقیقت سب کے سامنے رکھ دی تھی۔ ڈی سی یاسین کی رپورٹ سچائی پر مبنی ہے جس کو وقتاًفوقتاً مسترد کیا گیا ہے۔

یہ کتاب دراصل 25سال کے نا انصافی کی وہ داستان ہے جس کو ان لڑکیوں نے بڑی محنت اور بنیادی اور ثانوی مآخذ کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ جس میں تفصیل کے ساتھ کنن پوش پورہ کے علاوہ کشمیر میں فوج کی طرف سے عورتوں پر ہوئے جنسی تشدد پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔اس کتاب میں افسپا زدگان علاقوں میں عورتوں کی جنسی تشدد کی بات بھی گئی ہیں۔کنن پوش پورہ واقعی میں ایک تلخ یاد ہے جو کشمیر کی تاریخ میں کبھی مسخ نہیں ہو سکتی ہے۔