ادبستان

ڈاکٹر کفیل خان کی کتاب کا سرورق

اسپتال سے جیل تک: گورکھپور اسپتال سانحہ کی المناک یادوں پر ڈاکٹر کفیل خان کی کتاب

یہ ایک ڈاکٹر کے عزم اور حوصلے کی داستان ہے، یہ ایک خاندان کے مایوسی سے ابھرنے اور لوگوں میں امید کی جوت جگانے کی داستان ہے، یہ کرپشن اور ناانصافی و تعصب کے خلاف جدوجہد کی داستان ہے۔ یہ داستان پڑھی جانی چاہیے تاکہ لوگوں میں امید بندھے کہ انصاف کے لیے طاقتور لو گوں سے بھی لڑائی لڑی جا سکتی ہے، اور لڑ کر جیتی بھی جاسکتی ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: amazon.in/Pixabay)

مساجنیز: اسمتھ کی یہ کتاب معاشرے میں رائج خواتین کی تضحیک کو بے نقاب کرتی ہے

بک ریویو: 1989 میں انگلینڈ کی صحافی جون اسمتھ کی تحریر کردہ ‘مساجنیز’ زندگی کے ہر شعبے — عدالت سے لے کر سنیما تک میں عام اور رائج خواتین کی تضحیک کی چھان بین کرتی ہے۔ ہندوستانی تناظر میں دیکھیں تو خواتین کی تضحیک کا یہ دائرہ لامحدود نظر آتا ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: Simon & Schuster)

مائی نیم از سیلما: یہ صرف اس یہودی خاتون کی داستان بھر نہیں ہے …

سال2021 میں 98 سال کی عمر میں ایک یہودی خاتون سیلما نے اپنے نام کو سرنامہ بناکر کتاب تحریر کی اور جرمنی اور یورپ میں 1933 سے 1945 کے درمیان یہودیوں کے حالات کو قلمبند کیا۔ ہزاروں کلومیٹر اور کئی دہائیوں کی مسافت کے باوجود یہ کتاب 2023 کے ہندوستان میں کسی نامانوس دنیا کی سرگزشت نہیں لگتی۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

زنجیر زَن پیرو، افیون اور صدر ایوب خان

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے مقتبس؛ کربلا والوں کے دُکھ میں شامل ہونا ہماری تہذیب کا لازمی جزو تھا۔سوگ کی اس تہذیب کے اپنے تقاضے تھے۔ میں نے تو اپنے شہر کے غیر مسلموں کو بھی اس سوگ کا حصہ بنتے دیکھا تھا۔تب ہمارے دِل نرم تھے۔عزادار جہاں سے گزرتے انہیں احترام دِیا جاتا۔

قاضی نذرالاسلام۔ (فوٹو بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس)

قاضی نذرالاسلام:  ہندو ہیں یا مسلمان، یہ سوال کون پوچھتا ہے؟

یوم وفات پر خاص: تحریک عدم تعاون کے پس منظر میں لکھی گئی نظم میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی پکار کے بعد نذرالاسلام ‘باغی شاعر’ کہلائے۔ استعماریت، مذہبی انتہا پسندی اور فسطائیت کے خلاف ان کی شاعری سے ہی انڈو-اسلامک نشاۃ ثانیہ کا آغاز تصور کیا جاتا ہے۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

چرمی دستانے والا

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے مقتبس؛ ملک یار محمد، نیزہ بازی اور گھڑ سواری سے شہرت پانے والے کوٹ فتح خان والے ملک عطا محمد خان کے والد تھے؛ تاہم یہ بات مجھے بہت بعد میں پتہ چلی تھی۔ ملک عطا محمد خان کی شہرت ہندوستان میں ہونے والے ایشیائی کھیلوں میں پاکستان کو چاندی کا تمغہ دلانے کی وجہ سے ہوئی اور پھر اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جنہیں نیزہ بازی یا گھڑ سواری میں دلچسپی نہ تھی وہ پی ٹی وی کے مشہور ڈرامے ‘الفا، براوو ،چارلی’ کی وجہ سے انہیں پہچاننے لگے تھے۔ اس ڈرامے میں انہوں نے کیپٹن فراز کے جاگیردار والد کا کردار ادا کیا تھا۔

فوٹو بہ شکریہ فیس بک، السٹریشن؛ دی وائر

استفسار: نیر مسعود کی ہمہ رنگی پر ایک یادگار شمارہ

بک ریویو: ’استفسار‘ کا یہ شمارہ ثبوت ہے اس کے مدیران کی اہلیت اور محنت کا، اور اس یقین کا کہ نیر مسعود جیسے نقاد، محقق اور فکشن نگار پر وہ ایک ایسا بھرپور اورخصوصی شمارہ نکال سکتے ہیں، جو آنے والے دنوں میں طلباء کے لیے اور شائقین ادب کے لیے ریفرنس کا ایک قیمتی ذریعہ بن سکے۔

ارتضیٰ نشاط، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

’کرسی ہے، تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے…‘ جیسے حوالہ جاتی شعر کے خالق ارتضیٰ نشاط کی یاد میں

قمر صدیقی لکھتے ہیں؛ ارتضیٰ نشاطؔ بنیادی طور پر حسیت اور عصری شعور کے شاعر ہیں۔ لیکن انھوں نے عصری سچائیوں کو سپاٹ نہیں ہونے دیا۔ آج کے دور میں گم ہوتے انسانی رشتوں کی عظمت کو ارتضیٰ نشاط نے اپنے شعری اسلوب میں زندہ کردیا ہے۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے مقتبس؛ کچھ روز پہلے میرے ہاتھ مسو لینی کی آپ بیتی لگی تو اسے پڑھنے بیٹھ گیا۔ اُس نے بالکل آغاز کے صفحات میں لکھا تھا کہ اُس کے حافظے میں بچپن کی کوئی ایسی یاد باقی نہ تھی جس سے اُس کی کوئی ایسی خصوصیت واضح ہوتی جو اُس کے والدین کے لیے خوشی اور آسودگی کا باعث ہوئی ہو۔ میں یہ پڑھ کر بہت دیر اپنے بچپن کی گلیوں میں بھٹکتا رہا تھا۔ میرے پاس بھی کوئی ایسی یاد نہیں تھی۔

Gulzar_PTI

گلزار کا انٹرویو: زبان بچے گی تو اسکرپٹ بچے گا، زبان اگر زندہ ہے تو اسکرپٹ آپ سیکھ لیں گے…

انٹرویو: ‘ زبان بچے گی تو اسکرپٹ بچے گا، زبان اگر زندہ ہے تو اسکرپٹ آپ سیکھ لیں گے۔ مجھے بنگلہ زبا ن خوبصورت لگتی تھی میں بولنا چاہتا تھا تو میں نے سیکھ لی…’ آج نامور شاعر اور نغمہ نگار گلزار کا یوم پیدائش ہے۔ اس موقع پر پیش ہے ان کے ساتھ زمرد مغل کی بات چیت۔

شیخ امام بخش ناسخ

امام بخش ناسخ: جن کا کلام چٹان کی طرح ٹھوس سہی، لیکن خشک اور بے فیض نہیں

قند مکرر؛ ناسخ کا نام آتے ہی کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کرنا اور لیڈری کرنا ناسخ کا پیدائشی حق تھا۔ ناسخ مفکر نہ سہی،حقیقی معنوں میں زبردست شاعر بھی نہ سہی اس کی تمام توجہ تمام کوشش اور تمام زندگی نذر فروعات سہی لیکن وہ کسی ماحول ،کسی ملک ،کسی طبقے اور کسی زمانے میں ہوتا تو بھی اس کی ہستی غیر معمولی ما نی جاتی اور اس کی شخصیت کو نظر انداز کرنا آسان نہ ہو تا۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

تعطل میں پڑا حاصل

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ تایا جی بہت دلچسپ شخصیت کے مالک تھے ہنستے مسکراتے بات کرتے اورباتوں میں ہنستے مسکراتے ہی گالیوں کے پیوند بھی لگاتے جاتے۔اپنازیادہ وقت شکارپور، خیرپور یا سکھر میں گزارتے تھے جہاں اُن کے ارادت مندوں کا حلقہ تھا۔ کئی سال بعد وہ مجھے اپنے مریدوں سے ملوانے وہاں لے گئے تھے ۔ مجھے تب یوں لگا تھا جیسے مردوں کے مقابلے میں عورتیں اُن کی زیادہ مرید تھیں۔ وہ اُن پر نذرانوں کی بارش کردیتیں اور اپنے لیے دم دُعا کرواتی تھیں۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

ماں بیٹی

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ مجھے لگتاہے جیسا رشتہ ایک ماں اپنی بیٹی کے ساتھ یا ایک بیٹی اپنی ماں کے ساتھ قائم کرتی ہے؛ ہم گداختی کا رشتہ، کچھ نہ کہہ کر سب کچھ کہہ لینے والا رشتہ، ایسا کوئی بیٹا چاہے بھی تو اپنے ماں باپ سے قائم نہیں کر سکتا۔ ایسا اس کے بس میں ہے ہی نہیں۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

تختی تختی دو دانڑیں

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ سلیٹ، قاعدہ، تختی، سکول کی پیتل کی گھنٹی، چھٹی کے وقت زور دے دے کر پہاڑے یاد کرنا، اونچے شملے والے ہیڈ ماسٹر صاحب اور بہت کچھ ایسا ہے جسے عمر بھر یاد رکھا جا سکتا ہے۔ میں ان یادوں سے ہمیشہ توانائی کشید کرتا رہا ہوں۔

Milan Kundera (1929-2023). Photo: Twitter/@Ian_Willoughby

’میلان کنڈیرا کی موت سے ناول کا عظیم الشان قلعہ مسمار ہوگیا‘

خالد جاوید لکھتے ہیں ؛ میلان کنڈیرا کو دائیں بازو یا بائیں بازو کے جھگڑے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کنڈ یرا دنیا کے لیے جو سب سےبڑا خطرہ سمجھتا ہے، وہ آمری حکومت کا وجود ہے۔خمینی، ماؤ، اسٹالن یہ سب کون ہیں؟ یہاں دائیں بازو اور بائیں بازو کا فرق کیا معنی رکھتا ہے ؟

radio-Thumb

کس طرح ریڈیو کو برصغیر میں سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے

ویڈیو: برصغیر پاک و ہند میں ریڈیو کی تاریخ کو مؤرخ اور کولمبیا یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ایزابیل الونسو نے اپنی کتاب ‘ریڈیو فار دی ملینز: ہندی-اردو براڈکاسٹنگ اکراس بارڈر’ میں قلمبند کیا ہے۔ ان سے اس کتاب، آزادی سے پہلے اور بعد کی براڈ کاسٹنگ پالیسیوں اور ان پر سامعین کے ردعمل کے بارے میں بات چیت۔​

حسرت موہانی، فوٹو: وکی پیڈیا

’سیاست کوئلہ کا کاروبار ہے جس میں سبھی کا ہاتھ اور بہتوں کا منھ کالا ہوتا ہے سوائے حسرت کے‘

ایسا نڈر، سچا، محبت کرنے والا اور محبت کا گیت گانے والا اب کہاں سے آئے گا۔ کسی سے نہ دبنے والا، ہر شخص پر شفقت کرنے والا، زبان کا فیاض، شاعروں کا والی، غزل کا امام، ادب کاخدمت گزار۔ کیسی سچی بات ایک عزیز نے کہی کہ سیاست کوئلہ کا کاروبار ہے جس میں سبھی کا ہاتھ اور بہتوں کا منھ کالا ہوتا ہے سوائے حسرت کے۔

Illustration: Pariplab Chakraborty.

منٹو نے کیوں کہا؛ہندوستان کو لیڈروں سے بچاؤ…

یہ لیڈر جلسوں میں سرمائے اور سرمایہ داروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں صرف ا س لئے کہ وہ خود سرمایہ اکٹھا کر سکیں۔ کیا یہ سرمایہ داروں سے بدترین نہیں؟ یہ چوروں کے چور ہیں، رہزنوں کے رہزن۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام ان پر اپنی بے اعتمادی ظاہر کر دیں۔

کیفی اعظمی، ٖفوٹو: ٹوئٹر/ @AzmiShabana

’ہیومنزم‘ کیفی اعظمی کا شعری شناس نامہ ہے

ایسی شاعری جس کی ہمہ وقت ضرورت محسوس ہو جس کی لذت، جس کا لطف کبھی کم نہ ہو جو ذہن کو مہمیز کرے۔ بہت معصوم، بہت پیاری ہوتی ہے جو شریانوں میں لہو کی طرح دوڑتی ہے، آنکھوں سے آنسو کی طرح ٹپکتی ہے۔ اکیلی رات میں چاند کا روپ دھار لیتی ہے۔ ایسی کیفیت کیفی اعظمی کی شاعری میں ہے جس کی ساحری میں، میں اب تک قید ہوں۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

لفظ جادو مثال ہوتے ہیں

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ اباجان کتاب پر نظریں جما کر پڑھتے ہوئے بیچ بیچ میں ہمیں دیکھے جاتے ۔ اُن کا کبھی کتاب کو اور کبھی ہمیں دیکھنا اگرچہ اچھا لگتا تھا مگر میں ہمیشہ اُن کی نفاست سے تراشیدہ مونچھوں اور داڑھی کے بیچ جنبش کرتے ہونٹوں کو دِیکھا کرتا تھا۔ مجھے اس میں لطف آتا کہ وہ کبھی پھیلتے کبھی سکڑتے ، کبھی کھلتے اور کبھی بند ہوتے تھے ۔ایک بچے کے لیے یہ کتنی عجیب بات تھی کہ اس کے باپ کے جنبش کرتے ہونٹ کتاب میں لکھے ہوئے کو آواز میں تبدیل کر رہے تھے۔ یہ آواز اس بچے کےتصور کے پردے پر تصویریں بناتی تھی ۔ بچہ جب تجسس میں کتاب کو جھانک کر دیکھتا تو وہاں محض لفظ ہوتے تھے ۔ کتاب کے صفحے پر تیرتے ہوئے لفظ

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

لالہ او لالہ: چٹے خمور غبارے

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ اباجان کے زمانے میں استاد اور شاگرد کا رشتہ کچھ ایسا تھا جیسے دونوں ایک گھر کے افراد تھے۔ استاد کی قدرو منزلت کبھی کبھی توماں باپ سے بھی بلند لگا کرتی تھی۔ اساتذہ کی خدمت کے حوالے سے بعد ازاں اگرچہ کئی ناگفتہ باتیں بھی مشہور ہو گئیں مگر بالعموم اس رشتے میں اخلاص تھا۔ ہماری نسل تک آتے آتے یہ رشتہ قدرے کمزور پڑا مگرمجھے یاد ہے یہ پوری طرح تلف نہیں ہوا تھا جیسا کہ آج کل ہو چکا ہے۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

برباد ہوا، آباد ہوا

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ سائنسدانوں نے ہمیں محبت کے ہارمون کی خبر دی ہے۔ اس ہارمون کا نام ‘آکسی ٹوسین’ہے۔ جسے ہم ماں کی ممتا سمجھتے رہے اب پتہ چلا کہ یہ تو وہ ہارمون ہے جو ماؤں کے اندر زچگی اور بچوں کو دودھ پلانے کےعمل کے دوران خارج ہوتا ہے۔ ایک اور تحقیق بھی سامنے آئی ہے جس کے مطابق محبت کا یہ ہارمون اگر کسی کو سونگھایا جائے تو اس کے اندر جھوٹ بولنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے؛ ہت تیرے کی۔

Shrikant-Verma-24-Feb-2023-Thumb

او ٹی ٹی اب پوری فیملی کا ہوگیا ہے، اسی سے مجھے پہچان ملی – شری کانت ورما

ویڈیو: آنکھوں دیکھی، دم لگا کے ہیشہ اور لال سنگھ چڈھا جیسی فلموں کے ساتھ–ساتھ پنچایت، مرزا پور اور برید: ان ٹو دی شیڈو زجیسی ویب سیریز میں اپنی اداکاری کا جوہر دکھا چکےاداکار شری کانت ورماسے ان کی زندگی، تھیٹر، ریڈیو، سنیما اوراوٹی ٹی پر ان کے تجربات اور سفر کے بارے میں بات چیت۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

عشق اولڑا جی جنجال

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ رشتے اور تعلقات دوپیڑھیوں تک تو کسی حد تک نبھ جاتے ہیں، اس سے اگلی پیڑھی کو عادتاً یا مجبوری میں رسم نبھانا ہوتی ہے اور بس۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

قبروں پر اُگی گھاس اور انسانی زندگی

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ ایک بات سمجھنے کی ہے کہ معاشرے میں مسائل کی اصل جڑ ثقافتی رنگارنگی کو تسلیم نہ کرنا ہے ۔ دنیا کے یک رنگ ہونے سے یہ رہنے کے قابل کہاں رہے گی، اس کا حسن ہی اس تنوع میں ہے ۔

اشونی ایر تیواری، گنیت مونگا، کارتیکی گونسالویس، امی پٹیل، شانو شرما، پونم دھامانیہ اورنیہا ویاس، فوٹو: سوشل میڈیا

  بالی وڈ کی آف اسکرین خواتین

فلمی تاریخ دان نریش تنیجا کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ تربیت یافتہ خواتین بالی ووڈ کے ایسے شعبوں میں کارنامے دکھا رہی ہیں، جو ابھی تک صرف مردوں کے ہی کنٹرول میں ہوتے تھے۔ ان میں کیمروں کو سنبھالنا، ایڈیٹنگ جیسا مشکل اور صبر آزما کام اور حتیٰ کہ لائٹنگ میں بھی خواتین نے قدم جمائے ہیں۔

تصویر بہ شکریہ: بک کارنر جہلم/فیس بک

یوں مری قبر بنا

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ جن چیزوں سے منع کیا جاتا ہے وہی کرنے کو جی کیوں چاہتا ہے ؟ شایداس لیے کہ یہی اِنسانی فطرت ہے ۔ یہ مناعی اور روک ٹوک ہی انسانی تجسس اور ترغیب کی بنیاد ہے۔ یہی سبب رہا ہو گا کہ ہمارے ایمان کی بنیاد ی اینٹ’لا’ ہے۔ اقرار اور تصدیق کی منزل بعد میں کہیں آتی ہے؛نفی پہلے اثبات بعد میں۔ یہیں سے تجسس اور تشویق کو تحریک ملتی ہے۔

ضیا محی الدین، فوٹو فیس بک/ Zia Mohyeddin

ضیا محی الدین: جدید اردو نثر خوانی کے بانی و خاتم

نثری ادب کو باقاعدہ خطابت کی شکل دینا ضیا صاحب کا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے اپنے مغربی اسٹیج اور فلم کی اداکاری کےتجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو تحاریر کے جسم میں گویا روح پھونک دی۔ کردار کاغذ سے اٹھ کر حاضرین سےہم کلام ہوگئے اور سامعین چشمِ تصور سے ان کرداروں کی جزئیات میں کھو گئے۔

FotoJet (2)

نام محض وجود کا خول نہیں ہے

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ میں نہیں جانتا تھا کہ جس چھوٹے بھائی کا نام میں نے اپنے نام کا حصہ بنایا تھا ، ایسے وقت نے آنا تھا کہ وہ نہیں رہے گا۔مجھے اس کے بدن کے لوتھڑے اپنی آنکھوں سے دیکھنے تھے ۔ اس کا جنازہ پڑھنا تھا مگر اس کی تدفین میں شرکت سے معذور رہنا تھا ۔مجھے نہیں معلوم اس کی قبر کہاں ہے مگر یوں لگتا ہے وہ میرے وجود کے اندر ہی کہیں ہے۔ میں جب جب اسے یاد کرتا ہوں بے اختیار میرے آنسو بہہ نکلتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ مجھے اپنے نام کے اس حصے سے بھی محبت ہو گئی ہے۔