فکر و نظر

مدھیہ پردیش: این ایس اے کے تحت کارروائی ’سسٹم‘کے بھگواکرن کی علامت ہے

مدھیہ پردیش مبینہ گئوکشی معاملہ:حقیقت یہ ہے کہ پندرہ سال تک بی جے پی کی سرکار رہنے کے بعد،  کانگریس  بھی سافٹ ہندوتواکی پالیسی کے تحت حکومت چلا رہی ہے۔اور ‘سسٹم’پوری طرح سے اس  کا عادی ہو چکا ہے۔

فوٹو :پی ٹی آئی

فوٹو :پی ٹی آئی

مدھیہ پردیش کے کھنڈوا میں مبینہ گئو کشی میں این ایس اے (National Security Act)جیسے سخت قانون کے استعمال نے پورے ملک کےلوگوں کو اس معاملے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ملزمین پر انسداد گئو کشی قانون کے تحت کیس درج کیا گیا بلکہ ان پر  این ایس اے کی دفعات بھی لگا دی گئیں۔

  مدھیہ پردیش اور اس کے باہر ہوئے رد عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست داں اور سماجی کارکن  اس بات پر زیادہ حیران تھے کہ یہ کارروائی  کانگریس سرکار کے دور میں ہوئی ہے۔ درحقیقت یہ صرف پارٹیوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک طویل عرصے تک ہندوتوا سیاست کے زیر اثر رہنے والے سسٹم کا ایک نمونہ ہے جہاں ‘گائے’ کا ذکر آتے ہی، افسران بے انتہا ‘حساس’اور ‘فعال ‘ہو جاتے ہیں۔

ان معاملات میں کانگریس اور بی جے پی  میں’انیس’یا ‘بیس’ کا فرق ہو سکتا ہے مگر وہ  افسران  جو  بڑے سے بڑے معاملے میں فوری کارروائی  کرنے سے اجتناب کرتےہو ں وہ   ‘گائے’ کنورژن’یا’ مشتبہ نعرےبازی کے الزامات  پر فوراً بیدار  ہو جاتے  ہیں – جلد از جلد  سخت ترین کارروائی ہو جاتی ہے چاہے جرم کے ثبوت ہوں یا نہ ہوں۔

المیہ یہ ہے کہ بغیر کسی جانچ یا لیب ٹیسٹ کے گوشت کو گائے کا مان لیا جاتا ہے، گویا کہ الزام ہر حال میں صحیح ہوگا! این ایس اے کے تحت ملزم کو سال بھر تک کسٹڈی میں رکھا جا سکتا ہے – ظاہر ہے کہ الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی ملزم کو ایک اور سزا دینے کا یہ طریقہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پندرہ سال تک بی جے پی کی سرکار رہنے کے بعد،  کانگریس  بھی سافٹ ہندوتواکی پالیسی کے تحت حکومت چلا رہی ہے۔اور ‘سسٹم’پوری طرح سے اس سلوک کا عادی ہو چکا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف لگائے الزام پر فوری کارروائی اور دائیں بازو کی تنظیموں کے مطالبات پر عمل پیرا ہونے کا ایک رویہ بن چکا ہے۔

شہروں اور قصبوں میں دائیں بازو کی تنظیموں کے رکن مسلسل بوچڑ خانوں کے خلاف صف آرا رہتے ہیں اور اس وجہ سے پولیس کو مسلم قصابوں کے ساتھ پوچھ تاچھ اور چھاپے مارنے میں آسانی ہوتی ہے۔ حتیٰ کسی بھی شکایت پر ، بغیر تفتیش کے فوری کارروائی کر دی جاتی ہے، جس میں اکثر یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ گوشت ممنوعہ ہے یا نہیں، اور فارنسک جانچ سے قبل ہی انسان کو محض الزام کی بنیاد پر مجرم بنا کر سزا  دے دی جاتی ہے۔

حالیہ معاملے میں ندیم عرف راجو، اس کے بھائی شکیل سمیت تین لوگوں پر یہ کیس درج کیا گیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس کو  مخبر  سےگائے کی اسمگلنگ کی خبر ملی تھی اور جب پولیس ٹیم پہنچی تب اس نے دو ملزموں کا پکڑا اور تیسرا   شخص اعظم فرار ہو گیا جو بعد میں گرفتار ہوا-  پولیس کا کہنا ہے کہ وہاں جانور کے باقیات بھی ملے ۔

اس سے پہلے جب بی پے کی حکومت تھی تب بھی ایسا ہو چکا ہےکئی  لوگوں پر ایسی کارروائی ہوئی۔ ایسے ہی ایک واقعے میں گئوکشی کی الزام میں 9 لوگوں پر این ایس اے کے تحت کارروائی کی گئی تھی، ساتھ ہی انسداد گئوکشی قانون کی دفعات بھی لگائی گئی تھیں۔ ان میں ایک ملزم انور میو کا تعلق بی جے پی کے اقلیتی سیل سے تھا۔انور کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ یہ واقعہ بھی مدھیہ پردیش کے مالوہ علاقے کے دیواس ضلع کا تھا۔ مالوہ کے زیادہ تر اضلاع حساس مانے جاتے ہیں اور آر ایس ایس کا اثر یہاں زیادہ ہے

kamal-nath-cow-mp-congres-tweet

فوٹو: بہ شکریہ ٹوئٹر

کانگریس نے  صوبائی انتخاب سے قبل ہی اپنا رخ صاف کر دیا تھا۔  راہل گاندھی کے مندروں کے دورے تو خیر اسی لیے تھے کہ ان پر اور ان کی پارٹی کی امیج ہندو نواز بنے اور بی جے پی یہ نہ کہہ پائے کہ کانگریس ہندو مخالف ہے۔مگر مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ نے ہر پنچایت میں  گئو شالاکے قیام جیسے اعلانات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ گئوبھکتی میں کانگریس کسی طرح بی جے پی سے پیچھے نہیں ہے۔

عام مسلمانوں کو یہ امید تھی کہ کانگریس کی سرکار آنے کے بعد گئو بھکتی چاہے جاری رہے کم از کم اسے مظالم اور فرضی معاملات سے تو راحت ملےگی۔ مگر افسوس یہ بھی نہیں ہوا۔ گزشتہ مہینے راج گڑھ کے کھجنیر میں ایک معمولی جھگڑے کو دایئں بازو کی تنظیموں نے مذہبی رخ دے دیا۔ اس کے بعد مقامی لوگوں کو بھڑکا کر ایک نہایت ہی اشتعال انگیز مطالبہ کیا گیا کہ مسلمان اب اس علاقے میں داخل نہ ہوں۔

یہ سب ہونے  کے بعد بھی انتظامیہ نے تناؤ کو کم کرنے کی  کوئی خاص کوشش نہیں کی۔اس معاملے میں  بھی ایف آئی آر ہوئیں اور مقامی دائیں بازو کی تنظیموں کے دباؤ میں پولیس صاف نظر آئی۔حد تو تب ہوئی جب سابق وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے وہاں جا کر ایک ایسی تقریر کی جو ماحول  کو پر سکون بنانے کے بجائے ہیجان پیدا کرتی نظر آئی- اب یہی حالات کھنڈوا میں پیدا ہوئے ہیں۔

 کھنڈوا ایک حساس علاقہ رہا ہے اور پہلے بھی پولیس کی  مبینہ زیادتیوں کے باعث وہاں مقامی لیول پر کمیونیٹیز کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو گئی تھی۔ حالات بہتر ہونے میں سالوں لگ گئے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مناسب کارروائی  کے بجائے  ایک طرفہ یا  انتہائ سخت گیرکارروائی ہوئی ہے جس سے صحیح پیغام نہیں جاتا ہے۔

سرکار بنے  دو مہینے بھی نہیں ہوئے مگر آج پورے ملک میں کمل ناتھ حکومت پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ابھی وقت ہے کہ سرکار افسر شاہی پر لگام لگائے اور امتیازی یا غلط کارروائی کرنے والے افسروں پر یہ بات واضح کی جائے۔

ایک بات صاف ہے کہ کھنڈوا میں ہوئے واقعے کے بعد مدھیہ پردیش کے مسلمانوں میں شدید ناراضگی ہے اوراب  کانگریس سرکار کے لئے لازم ہے کہ اقلیتوں میں یہ تاثر نہ پیدا ہو کہ ان کے ساتھ دوئم درجے کے شہری  کا سلوک ہو رہا ہے۔اسمبلی الیکشن میں کانگریس کے لیڈران مسلمانوں سے نوے فیصد ووٹ کی توقع کر رہے تھے اب نہیں کم از کم یہ تو ثابت کرنا ہوگا کہ ان کی حکومت اور پہلے کی  حکومت میں کوئی فرق ہے۔