فکر و نظر

فیس بک اشتہارات معاملہ: فیس بک نے بی جے پی کو کانگریس کے مقابلے سستی شرحوں پر زیادہ ووٹروں تک پہنچنے میں مدد کی

سستی شرحوں پرفیس بک نے ہندوستان میں اپنے سب سے بڑے سیاسی کلائنٹ – بھارتیہ جنتا پارٹی کو کم لاگت والے سیاسی اشتہارات کے ذریعے زیادہ ووٹروں تک پہنچنے میں مدد کی۔

(فوٹوبہ شکریہ: سوشل میڈیا/رائٹرس)

(فوٹوبہ شکریہ: سوشل میڈیا/رائٹرس)

دی رپورٹرز کلیکٹو اور ایڈ واچ کے چار مضامین کی سیریز کا یہ تیسرا حصہ ہے۔ پہلا اور دوسرا حصہ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

فیس بک کا ریاضیاتی ماڈل (الگورتھم) ہندوستان کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے اشتہارات  کے نرخ کو کم رکھتا ہے۔ یہ بات 22 مہینوں اور 10 انتخابات کے دوران  اشتہارات کے اخراجات کے تجزیےمیں سامنے آئی ہے۔

دراصل لوک سبھا انتخابات سمیت 10 میں سے نو انتخابات، جن میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی،ان انتخابات میں پارٹی کے لیے اشتہارات کی شرح اس کے مخالفین سے کم رکھی گئی تھی۔ اس ترجیحی فیس نے ہندوستان میں فیس بک کے سب سے بڑے سیاسی کلائنٹ بی جے پی کو کم پیسوں میں زیادہ ووٹروں تک پہنچنے میں مدد کی۔ اس طرح فیس بک نے انتخابی مہم میں بی جے پی کو فائدے کو فائدہ پہنچانے  کا کام کیا۔

پچھلے ایک سال کے دوران  ہندوستان کی ایک غیر منافع بخش میڈیا تنظیم دی رپورٹرز کلیکٹو (ٹی آر سی) اور سوشل میڈیا پر سیاسی اشتہارات کا مطالعہ کرنے والے ایڈ-واچ نےفیس بک پر فروری 2019 سے نومبر 2020 تک سبھی سیاسی اشتہارات 536070 کا تجزیہ کیا ہے۔

اس چھان بین میں میٹا (فیس بک) کے تمام پلیٹ فارموں پر سیاسی اشتہارات کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے والے ٹول ایڈ لائبریری ایپلی کیشن پروگرامنگ انٹرفیس (اے پی آئی ) کا استعمال کیا گیا۔

فیس بک نے بی جے پی، اس کے امیدواروں اور اس سے منسلک تنظیموں سے ملنے والے اشتہارات کو دس لاکھ بار دکھانے کے لیے اوسطاً 41844 روپے لیے۔ لیکن اپوزیشن کانگریس، اس کے امیدواروں اور اس سے منسلک تنظیموں کو اتنے ہی ویوز کے لیے 53776 روپے  (702 امریکی ڈالر) یعنی تقریباً 29 فیصد زیادہ ادائیگی  کرنی پڑی۔

ہم نے بنیادی طور پرکانگریس کا موازنہ بی جے پی سے کیا کیونکہ وہ سیاسی اشتہارات پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والی سیاسی پارٹیاں تھیں۔جن  22مہینوں کی مدت کے لیے ڈیٹا دستیاب ہیں،اس مدت میں بی جے پی اور اس سے منسلک تنظیموں نے فیس بک پر اپنے بیشتر پیج کے ذریعے اشتہارات لگانے کے لیے 104.1 ملین روپے یعنی  (13.6 ڈالر) خرچ کیے۔

اس کے مقابلے  بی جے پی اور اس سے منسلک تنظیموں نے 6.44 کروڑ روپے (840897ڈالر) خرچ کیے۔

اگر کانگریس سےاشتہارات کے لیے بی جے پی کے برابر قیمت وصول کی جاتی تو اس کواتنے ہی ویوز کے لیے کم از کم 1.17 کروڑ روپے (152772 امریکی ڈالر) کم ادا کرنے پڑتے۔

اس سیریز کے دوسرے حصے میں، ہم نے دکھایا تھاکہ کس طرح فیس بک نے بڑی تعداد میں گمنام (گھوسٹ) اور سروگیٹ ایڈورٹائزرز کو بی جے پی کے لیے پروپیگنڈہ  اوراس کی تشہیر کی اجازت دی تھی، جس سے انتخابات میں اس کی وزیبلٹی  اور رسائی میں غیر معمولی اضافہ ہوا، جبکہ اس نے اپوزیشن اوراس کے امیدواروں کاپروپیگنڈہ کرنے والے تمام ایڈورٹائزر  پر پابندی لگا دی۔

اگر ہم دوسرے نام والےایڈورٹائزر  سے اشتہارات کے لیے لی گئی فیس کو پارٹیوں کے آفیشل اکاؤنٹ کے ساتھ جوڑ دیں تو  بی جے پی سے لی جانے والی فیس اور زیادہ منافع بخش ہو جاتی ہے۔ فیس بک نے بی جے پی کی تشہیر کرنے والے تمام ایڈورٹائزر سے ایک اشتہار کے 10 لاکھ ویوزکے لیے39552 روپے (517ڈالر) چارج کیا۔

لیکن اس نے کانگریس کے لیے مہم چلانے والے تمام ایڈورٹائزر  سے اوسطاً 52150 روپے (681ڈالر) یعنی تقریباً 32 فیصد زیادہ چارج کیا۔

یہ انکشافات سپریم کورٹ کےان خدشات کو تقویت دیتے ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم،جن میں فیس بک کی پالیسیاں اور الگورتھم بھی شامل ہیں ، انتخابی سیاست اور جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں۔

گزشتہ سال جولائی میں سپریم کورٹ نے  24 کروڑ سے زیادہ صارفین کے ساتھ ایک غیر جانبدار اور مساوی نظریہ پلیٹ فارم ہونے کے فیس بک کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ،انتخابات اور ووٹنگ کا عمل، جو جمہوری حکومت کی بنیاد ہیں، سوشل میڈیا کی  دھاندلی کی وجہ سے خطرے میں ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ فیس بک نے دہلی حکومت کی طرف سے2020 کے فسادات اور ان  الزامات؛ کہ فیس بک کا استعمال فسادات کو بھڑکانے کے لیے کیا گیا تھا، کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی ایک کمیٹی کے سامنے پیشی سے چھوٹ  حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

سپریم کورٹ کافیصلہ دیگر ممالک، بالخصوص امریکہ کے تجربات ،تنازعات اور مباحث پر مبنی تھا۔ تب  امریکہ ان انکشافات سے دنگ رہ  گیا تھاکہ 2016 کے صدارتی انتخابات کو متاثرکرنے کے لیے فیس بک کااستعمال کیا گیا تھا۔

بی جے پی کو ہوافائدہ

پہلی بار دی رپورٹرز کلیکٹو کو ڈیٹا بیکڈ شواہد ملے ہیں کہ فیس بک کے اشتہارات کے نرخ کا تعین کرنے والا الگورتھم بی جے پی کو انتخابی مہم میں فائدہ پہنچا  رہا ہے۔

فیس بک صارفین کو جو اشتہارات دکھاتا ہے، وہ دراصل سیاسی جماعتوں یا ان کے بدلے کام کرنے والے سروگیٹ ایڈورٹائزر  کی طرف سےدیے گئے پیسے پردکھائی جانے والی  پوسٹ ہوتی ہیں۔

روایتی پرنٹ یا براڈکاسٹ میڈیا کے برعکس، جو ایڈورٹائزر سے پہلے سے طے شدہ نرخوں پر چارج کرتے ہیں، فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا اشتہارات کے لیے غیرمناسب طریقے سےالگ الگ فیس کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ چارج فیس بک کی نیوز فیڈ اور اس کے دوسرے پلیٹ فارم پر اسپیس  کی ریئل ٹائم نیلامی پر مبنی ہوتا ہے۔

ایڈورٹائزر ٹارگیٹ آڈینس  کی وضاحت کر سکتے ہیں، لیکن صارفین کی اسکرین پرایک  اشتہار کتنی بار دکھایا جائے گا اور کس قیمت پر دکھایا جائے گا، اس کا تعین ایک مبہم الگورتھم کی بنیاد پرکیا جاتا ہے۔

الگورتھم ایک اشتہار کی قیمت کا تعین بنیادی طورپردو باتوں کی بنیاد پر کرتے ہیں: ٹارگیٹ آڈینس کے دیکھنے کی قیمت کتنی ہے اور ٹارگیٹ آڈینس  کے لیےاشتہار کا مواد یا کنٹینٹ کتنا  ‘اہم’ ہے۔ تاہم،  کسی خاص اشتہار کی فیس کا تعین کیسے کیا جاتا ہے، میٹا اس بات کو اجاگر نہیں کرتا۔

اشتہارات پر خرچ کی گئی رقم اور ان کوملے ویوزکےتجزیے میں دی رپورٹرز کلیکٹو اور ایڈ واچ نے پایا  کہ ہم نے جن 10انتخابات کا جائزہ لیا، ان میں سے 9 کےنتیجے ایک جیسے تھے: یعنی بی جے پی سے اشتہارات کےلیے کم  قیمت وصول کی گئی تھی۔

سیاسی اشتہارات بشمول سروگیٹ اشتہارات کے بارے میں ای میل پر بھیجے گئے مفصل سوالوں کی ایک فہرست کے جواب میں میٹانے کہا،ہم اپنی پالیسیاں کسی فرد کی سیاسی حیثیت یا پارٹی سے وابستگی سے قطع نظریکساں طور پر لاگو کرتے ہیں۔انٹیگرٹی ورک یا کنٹینٹ کو فروغ دینے کے فیصلے کسی ایک فرد کے ذریعےیکطرفہ طور پر نہیں کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کیے جاتے ہیں۔ بلکہ ان میں کمپنی میں موجود تمام مختلف خیالات  کوشامل  کیا جاتا ہے۔

اس نے بی جے پی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے اپنے پلیٹ فارم کے لیےوصول کی گئی الک الگ قیمتوں کے سلسلے میں کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔۔میٹا کا مکمل جواب یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔

(بہ شکریہ: الجزیرہ)

(بہ شکریہ: الجزیرہ)

سال 2019 کے قومی انتخابات سے پہلے کےتین ماہ کی انتخابی مہم کے دوران، جس کے ساتھ  اڑیسہ، اروناچل پردیش، سکم اور آندھرا پردیش کے انتخابات بھی ہوئے، فیس بک کے الگورتھم نے بی جے پی اور اس کے امیدواروں سے ایک اشتہار کے دس لاکھ ویوز کے لیے اوسطاً 61584 روپے لیے۔ لیکن کانگریس کو اتنے  ہی ویوزکے لیے66250 روپے (865ڈالر) ادا کرنے پڑے۔

سال 2019 میں ہندوستان کی شمالی ریاست ہریانہ کے تین مہینے کی انتخابی مہم کے دوران کانگریس اور اس کے امیدواروں نے فیس بک کو دس لاکھ ویوز کے لیےاوسطاً 42303 روپے ادا کیے۔ لیکن بی جے پی اور اس کے امیدواروں سے اتنے ہی ویوز کے لیے 35856 روپے لیے گئے۔

بعد میں اسی سال مشرقی ریاست جھارکھنڈ میں بی جے پی اور اس کے امیدواروں نےدس لاکھ ویوز کے لیے34905 روپے ادا کیے، جبکہ کانگریس اور اس کے امیدواروں نے تین ماہ کی مہم کے دوران اتنے ہی ویوز کے لیے51351 روپے (671ڈالر) اداکیے، یعنی 47 فیصدزیادہ ۔

سال 2020 کے دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران کانگریس اور اس کے امیدواروں نے فیس بک کو 10 لاکھ ویوز کے لیے 39909 روپے (521ڈالر) ادا کیے، جبکہ بی جے پی نے اتنے ہی ویوز کے لیے صرف 35595 روپے (465ڈالر)ادا کیے۔

تیسری پارٹی، عام آدمی پارٹی، جو الیکشن میں کامیاب رہی،سے دس لاکھ  ویوز کے لیےسب سے زیادہ 64173 روپے یعنی  بی جے پی سے 80 فیصد زیادہ پیسے لیے گئے۔

سال 2020 کے بہار اسمبلی انتخابی مہم میں بی جے پی اور اس کے امیدواروں نے فیس بک کو دس لاکھ  ویوز کے لیے 37285 روپے ادا کیے، جبکہ کانگریس کو اتنے ہی ویوز کے لیے 45207 روپے ادا کرنے پڑے۔

اسی انتخابی سال میں بی جے پی کے اہم علاقائی اتحادی جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) سے دس لاکھ ویوز کے لیے  سب سے زیادہ 66704 روپے (871 ڈالر) مانگے گئے۔ کانگریس کی علاقائی اتحادی راشٹریہ جنتا دل نے کوئی اشتہار نہیں دیا۔

صرف مہاراشٹر انتخاب میں کانگریس کو ایک سستا سودا ملا، جب اس نےدس لاکھ ویوز کے لیے38124 روپے (498ڈالر) ادا کیے ، جبکہ بی جے پی نے اسی تین ماہ کی مہم کے دوران اتنے ہی ویوز کے لیے 43482 روپے (568ڈالر) ادا کیے۔

ہندوستانی انتخابی قانون انتخابات میں سب کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے انتخابی مہم میں امیدواروں کی جانب سے کیے جانے والے اخراجات کی ایک حد مقرر کرتا ہے۔ لیکن فیس بک نے بی جے پی اور اس کے امیدواروں کو ایک روپے کے خرچ پر دوسری پارٹیوں اور ان کے امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ لوگوں تک رسائی کو ممکن بنانے  کا کام کیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو دیا جانے والا یہ غیر منصفانہ فائدہ سیاسی مقابلہ آرائی  کو غیر متوازن کرتا ہے، جو کسی بھی انتخابی جمہوریت کی بنیاد ہے۔

نیو یارک میں سافٹ ویئر فریڈم لا سینٹر میں ٹکنالوجی اٹارنی اور قانونی ڈائریکٹر مشی چودھری کہتی ہیں؛ انتخابی اخراجات میں قیمتوں میں خاطر خواہ فرق کا کوئی بھی ثبوت الیکشن کمیشن کے لیےجانچ کا ایک اہم ترین موضوع ہے، اور یہ مسٹر نک کلیگ (برطانیہ کے سابق نائب وزیر اعظم، جو فی الحال میٹامیں عالمی امور اور مواصلات کے نائب صدر ہیں) اور دیگر ٹیک ماہرین کے ساتھ گمبھیر  بات چیت کی ضرورت کو سامنے لاتا ہے۔

انہوں نےانتخابی مہم کو منظم کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کی طرف سے بنائے گئے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ایک ماڈل انتخابی ضابطہ اخلاق  صرف اس صورت میں اہمیت رکھتا ہے جب اسے منصفانہ انداز میں لاگو کیا جائے، چاہے کوئی  بھی پارٹی اقتدار میں ہو۔

سیاسی مقابلے میں سب کو یکساں مواقع دینے کی ہندوستان کی قانونی تاریخ میں ایک نظیر موجود ہے۔

سال 1975 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے لوک سبھا میں  انتخاب کو غیرقانونی قرار دیا تھا، کیونکہ اس نے پایا کہ دیگر چیزوں کے علاوہ، مسز گاندھی کی طرف سے اٹھایا گیا ایک بہت ہی معمولی فائدہ – ایک تقریر کرنے کا پلیٹ فارم – بدعنوانی کےزمرے میں آتاہے۔

ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے اپنی کتاب ‘دی کیس دیٹ شوک انڈیا’ میں لکھا ہے کہ، عدالت نے کہا کہ ریاستی حکومت کے عہدیداروں کے ذریعے وزیر اعظم کی  تقریر کے لیے بنوائے گئے پلیٹ فارم نے انہیں دوسروں کے مقابلے  زیادہ طاقتور پوزیشن سے ایک (انتخابی) جلسے کو خطاب کرنے میں معاونت کی ، اس لیے  یہ ایک کرپٹ پریکٹس کے تحت آتا ہے۔

اس سلسلے میں بی جے پی کے چیف ترجمان انل بلونی اور آئی ٹی اور سوشل میڈیا کے سربراہ امیت مالویہ نے کئی بار یاد دہانی کے باوجود رپورٹرز کلیکٹیو کی طرف سے بھیجے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ہم نے ڈیٹا کیسے حاصل کیا اور اس کا تجزیہ کس طرح کیا

اس سیریز کی دوسری قسط میں ہم نے بتایا ہے کہ ہم نے فروری 2019 اور نومبر 2020 کے درمیان فیس بک پر لگائے گئے 536000 سیاسی اشتہارات کے لیے ایڈورٹائزر کا ڈیٹااکٹھا کیا، اور سیاسی عنوانات کے تحت ان کی درجہ بندی کی۔

فیس بک کی جانب سے بی جے پی اور کانگریس سے مانگے گئے اشتہار کی قیمتوں کا موازنہ کرنے کے لیے ہم نے تمام انتخابات کے لیے تمام جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ایڈورٹائزر  کے تمام اشتہارات پر مجموعی اخراجات اور مجموعی ویوز کا موازنہ کیا۔

ہم نے اس مجموعی اعداد و شمار کا استعمال تمام پارٹیوں کے لیےدس لاکھ ویوز پر کیے گئے خرچ (یا لاگت) کا حساب لگانے کے لیے کیا۔

ایڈ لائبریری ایک اشتہار کے اخراجات یا ویوز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کرتی ہے۔ ہر اشتہار کے لیےیہ خرچ اور ویوز کے اعداد و شمار کو 500 کےضربی عمل میں 0-500 سے شروع کرکے999500 سے 1000000 تک کی تعداد کی حد میں مہیا کراتا ہے۔ ہم نے ان اوسطوں کا استعمال  اپنے حساب کے لیے کیا۔

لائبریری میں کچھ اشتہارات ایسے تھے، جن کے بارے میں فیس بک کا کہنا ہے کہ انہیں دس لاکھ سے زیادہ ویوز ملے اور کچھ ایسے تھے جن کے لیے دس لاکھ سے زیادہ روپے  خرچ کیےگئے۔ ہم نے ان تمام اشتہارات کو ہٹا دیا جن کی کوئی اوپری حد مقررہ نہیں تھی۔

باقی اشتہارات کے لیےکانگریس اور اس کے امیدواروں نے 5.296 کروڑ  روپے(691520ڈالر) خرچ کیے، جن سے انہیں 98.48 کروڑ ویوز ملے۔ لیکن بی جے پی اور اس کے امیدواروں نے صرف 4.205 کروڑ روپے (549064ڈالر) ہی خرچ کرکے 1.005 ارب ویوز  حاصل کرلیے۔

ان اعداد و شمار کی بنیاد پر ہم نے دونوں جماعتوں کے لیے فی دس لاکھ ویوز پر  کیےگئے خرچ کا حساب لگایا۔

نیویارک یونیورسٹی ایڈ آبزرویٹری کے ذریعےایڈ لائبریری اے پی آئی ڈیٹا کے اسی طرح کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے جو بائیڈن کے مقابلے کم پیسے لیے گئے۔

ہمارے نتائج اور طریقہ کار کا تجزیہ کرنے والی ایڈ آبزرویٹری پروجیکٹ کی لیڈ ریسرچر لارا ایڈلسن نے کہا،یہ انکشاف سیاسی اشتہارات کی قیمتوں کے نمایاں تضاد کو ظاہر کرتا ہےاور مختلف جماعتوں اور امیدواروں کے اپنے پیغامات کے ساتھ ووٹرز تک پہنچنے کی صلاحیت پر اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ،جمہوری عمل کے لیے فکرمند کسی بھی شخص کو ان انکشافات پر تشویش ہونی چاہیے اور فیس بک کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے کہ وہ سیاسی اظہار کے لیے تمام جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کرے۔

(کمار سمبھو رپورٹرز کلیکٹو کے ممبر ہیں اور نین تارا رنگناتھن ایڈ واچ کے ساتھ وابستہ ریسرچ اسکالر ہیں۔)

اس پورٹ کو الجزیرہ پر انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔