حقوق انسانی

اعظم گڑھ:ISISکے نام پر ابو زید کی گرفتاری سوالوں کے گھیرے میں

 بےگناہوں کی رہائی کے لئے کام کرنے والی تنظیم ‘رہائی منچ’ کے جنرل سیکریٹری راجیو یادو کے مطابق خفیہ ایجنسیوں کی آئی ایس آئی ایس (داعش) کے نام موجودہ مہم فرقہ وارانہ بنیادوں پر چلائی جا رہی ہے۔

Lucknow: Suspected ISIS Terrorist Abu Zaid, arrested in Mumbai by the ATS, being produced in a local court in Lucknow on Tuesday. PTI Photo by Nand Kumar (PTI11_7_2017_000172B)

PTI  Photo by Nand Kumar

لکھنؤ: داعش(ISIS) سے تعلق رکھنے کے الزام میں ابوزید کو 3 نومبر کو اتر پردیش اےٹی ایس نے ممبئی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا ،اسے ٹرانزٹ ریمانڈ پر لکھنؤ لایا گیا جہاں 8 تاریخ کو مقامی عدالت نے چار روز کی پولیس ریمانڈ پر بھیج دیا۔اے ڈی جی (لا اینڈ آرڈر)آنند کمار کے مطابق ابوزید کا نام اپریل ماہ میں داعش کے مبینہ دہشت گردوں عمرعرف ناظم، غازی بابا عرف مزمل، مفتی عرف فیضان اور زکوان عرف احتشام کی گرفتاری کے بعد پوچھ تاچھ کے نتیجے میں سامنے آیا تھا اور اسکے خلاف لک آؤٹ نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔

آنند کمار کے مطابق ابوزید داعش کا ’ماسٹر مائنڈ‘ہے اور وہ نوجوانوں کو ورغلا کر انھیں داعش کی طرف متوجہ کرتا تھا۔ مستقبل قریب میں وہ اور اسکے ساتھی ہندوستان کے کئی شہروں میں دہشتگردانہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ لیکن ابو زید کے والد پورے اعتماد کے ساتھ ان الزامات کی نفی کرتے ہیں۔ حقوق انسانی اور شہری حقوق کےلئے کام کرنے والے رضاکار ایسی بیشتر کارروائیوں میں حکومتی اداروں کی منشا پر ہی سوال اٹھاتے ہیں۔

گرفتاری کے بعد اعظم گڑھ کے موضع چھاؤں کے رہنے والے ابوزید کے والد 55 سالہ کسان علاؤالدین سے بات کی گئی تو انکا کہنا تھا کہ انکے بیٹے نے گاؤں کے اسکول تک درجہ پانچ تک پڑھائی کی۔ اسکے بعد پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ وہ زراعت کے کام میں انکی مدد کرنے لگا اور علاؤالدین چونکہ الیکٹرک وائرنگ کا کام بھی گاؤں میں کر لیا کرتے تھے چنانچہ انکی معاونت کرتے ہوئے اس نے بھی کام سیکھ لیا تھا۔ اسی بنیاد پر وہ سعودی عرب گیا لیکن کمپنی نے اسے الیکٹرک کا کام نہیں دیا بلکہ ٹیلیفون بچھانے کے کام میں لگا دیا۔ 2009 میں ابوزید نے پہلا سفر کیا۔ تین سال بعد چھٹی پر گھر آیا تو والدین نے اسکی شادی کردی۔ 14 مہینے وہ دوبارہ چھٹی پر گھر آیا۔ تقریبا ًاتنے ہی عرصے بعد تیسری بار وہ کمپنی سے خروج لگوا کر واپس اپنے گھر آرہا تھا۔

ریاض سے ممبئی اور ممبئی سے کنیکٹنگ فلائٹ سے اسے بنارس آنا تھا لیکن ممبئی ایئرپورٹ سے ہی یوپی اے ٹی اے ایس نے اسے گرفتار کر لیا۔ علاؤالدین نے یہ بھی بتایا کہ کمپنی میں اسے پہلے سفر کے بعد باقاعدگی سے تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ کبھی کبھی تو کئی مہینے تک تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ گھر پیسے نہیں بھیج پاتا تھا اور ایک دو بار تو اسے اپنے خرچ کے لئے ساتھیوں سے قرض تک لینا پڑا تھا۔ تنگ آکر انھوں نے اپنے بیٹے سے خروج لگوا کر واپس آنے کے لئے کہا کیونکہ تکنیکی اعتبار سے اگر وہ بغیر خروج کے واپس آجاتا تو اگلے تین سالوں تک سعودی عرب نہیں جا سکتا تھا۔

علاؤالدین نے ابوزید کے کسی دہشت گرد تنظیم سے جڑے ہونے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ انکا بیٹا چھٹیوں میں گھر آنے کے بعد ایک دو دن کے لئے بھی کسی ایسی جگہ نہیں جاتا تھا جس سے اس پر شبہ کیا جاسکے۔  پڑوس کے ایک بزرگ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اے ٹی ایس والے اسے داعش کا ماسٹر مائنڈ کہہ رہے ہیں لیکن زید کو تو شاید یہ بھی نہ پتہ ہو کہ ‘نظریہ’ کس کو کہتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف جو زیادتیاں ہو رہی ہیں ممکن ہے کہ اس نے اس پر اپنی صلاحیت کے مطابق کوئی تنقید یا تبصرہ کیا ہو لیکن یہ کہنا کہ وہ دہشت گرد اور ماسٹر مائنڈ ہے، بالکل مضحکہ خیز الزام ہے۔

اس طرح کے مقدمات سے لمبے عرصے سے جڑے رہنے والے لکھنؤ کے معروف وکیل محمد شعیب کا کہنا ہے کہ اس طرح کے فرضی مقدمات قائم کرنے کا سلسلہ کافی پرانا ہے۔ پہلے ہوجی، القاعدہ اور دیگر بیرونی تنظیموں سے جوڑ کر مقدمات بنائے جاتے تھے اور اس وقت ایجنسیوں کا سارا فوکس داعش پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا تو ثبوت کہاں سے آئے گا۔ نتیجے کے طور پر ایجنسیاں پہلے فرضی مقدمہ قائم کرتی ہیں پھر اس کی حمایت میں ثبوت گڑھتی ہیں۔ ایسے ثبوت عدالتوں میں ٹک نہیں پاتے۔ ملزم کو رہائی ملتی ہے لیکن تب تک عدالتی داؤپیچ میں اسکی زندگی کے قیمتی سال ضائع ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے بےقصوروں کی آٹھ دس سال بعد رہائی مکمل انصاف نہیں ہے، پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کی جوابدہی طے ہونی چاہیئے تاکہ بےقصوروں کو پورا انصاف مل سکے۔

 بےگناہوں کی رہائی کے لئے کام کرنے والی تنظیم ‘رہائی منچ’ کے جنرل سیکریٹری راجیو یادو کے مطابق خفیہ ایجنسیوں کی آئی ایس آئی ایس (داعش) کے نام موجودہ مہم فرقہ وارانہ بنیادوں پر چلائی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک بھر میں گائے، گوشت، لو جہاد وغیرہ کے نام پر لوگوں کو بھیڑ کے ذریعہ مار دیا جاتاہے۔ ٹرینوں میں داڑھی اور برقع دیکھکر لوگوں پر حملے کئے جاتے ہیں۔ ایجنسیوں کو اچھی طرح سے معلوم ہےکہ یہ لوگ کس تنظیم اور پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن انکو ریڈیکلائز ہونا نہیں کہا جاتا۔ دوسری طرف اگر کوئی مسلمان صرف اتنا کہہ دیتا ہے کہ ملک کے حالات بہت خراب ہوتے جا رہے ہیں اس کے لئے کچھ کیا جانا چاہیئے تو اسے ریڈیکلائز اور گمراہ ہونا مان لیا جاتا ہے اور ہماری ایجنسیاں ایسے گمراہ نوجوانوں کے سدھار کا اشتہار کرکے اس پر تصدیق کی مہر بھی لگانے کا کام کرتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اکثر ایسے نوجوانوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ کسی درگاہ یا امام باڑے کو دھماکے سے اڑانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس طرح وہ ایک طرف ہندو مسلم منافرت پیدا کرانھیں ایک دوسرے سے بالکل الگ کر دینا چاہتے ہیں تو دوسری طرف اکثر مسلم مسائل پر تمام مسلم فرقوں کے غول بند ہو جانے کے امکان کو ہی ختم کر دینے کےلئے کوشاں نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان اور مشرک وسطی کے کچھ ممالک میں مسلمانوں میں مسلکی ٹکراؤ جیسی صررت حال ہندوستان میں کبھی نہیں رہی۔ ان ممالک میں مسلکی بنیاد پر اقتدار کی جنگ سے اس طرح کے حالات پیدا ہوئے ہیں لیکن ہندوستان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ یہاں انکے اتحاد کی بنیاد مظلومیت ہوتی ہے۔

راجیو یادہ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر ابوزید اپریل ماہ میں گرفتار آئی ایس آئی ایس کے مبینہ دہشت گردوں سے رابطے میں تھا اور کسی دہشت گردانہ واقعے کو انجام دینے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا تو وہ کیسا ماسٹر مائنڈ تھا کہ اپنے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد ہندوستان آنے کی حماقت کرتا؟ اسکے علاوہ جب ابوزید کچھ ہی گھنٹوں بعد اگلی فلائٹ سے بنارس آنے والا تھا تو اے ٹی ایس نے اسے بنارس کے بجائے ممبئی سے گرفتار کرنا کیوں مناسب سمجھا ؟

اس طرح کے کئی سوالات پہلے بھی اٹھتے رہے ہیں اور بیشتر اب تک جواب کے منتظر ہیں۔ اس خبر کے بعد کہ ابوزید کی گرفتاری کے بعد اسکے پڑوسی اور رشتہ دار نوجوانوں کو ممبئی میں خفیہ ایجنسیاں اپنی تحویل میں لیکر پوچھ تاچھ کر رہی ہیں، چھاؤں اور اعظم گڑھ میں تشویش کا ماحول ہے۔ یہ سوال بھی کہ گزشتہ دنوں آئی ایس آئی کو ملک کے فوجی نوعیت کے حساس رازفراہم کرنے کے الزام میں مدھیہ پردیش سے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے عہدیداران و کارکنان کی گرفتاری عمل میں آئی تھی تو ان کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے بھی کیا اسی طرح کا سلوک کیا گیا تھا؟