فکر و نظر

بجٹ کسانوں کو چکمہ دینے کے لئے ہوگا، وعدے لبالب اور نتیجے ٹھن ٹھن 

آپ کے ملک میں اکتوبر سے لےکر آدھی جنوری تک ایک فلم کو لےکر بحث ہوئی ہے۔  ساڑھے تین مہینے بحث چلی۔  نوکری پر اتنی لمبی بحث ہوئی؟  بہتر ہے آپ بھی تنخواہ کی نوکری چھوڑ کرہندومسلم ڈبیٹ کی نوکری کر لیجئے۔

Photo : PTI

Photo : PTI

متروں، حساب صاف ہے۔  نوجوانوں کی نوکری اور کسانوں کے دام کے سوال کو کچلنے کے لئے اب ضلع وار فرقہ وارانہ کشیدگی کی کہانی رچی جا رہی ہے۔آج دیر تک سویا۔  خواب میں کروڑوں کسان مجھے ٹوئٹ کر رہے تھے۔  پوچھ رہے تھے کہ میں کسانوں کے مسائل پر کیوں خاموش ہوں۔  ادھر کچھ لوگ گالی دے رہے تھے کہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے مسئلے پر کیوں خاموش ہوں۔  ادھر کچھ لوگ ٹرول کر رہے تھے کہ آپ بنگال کی نوکری کا مسئلہ نہیں دکھا رہے، بہار،جھارکھنڈ کی دکھا رہے ہیں۔  مودی جی کو بدنام کر رہے ہیں۔

کسانوں سے کہنا چاہا کہ آپ ہندوستان کے اب تک کے سب سے ناکام زراعتی وزیر سے کیوں نہیں پوچھتے ہیں زراعت کے بارے میں۔  رویش کمار کو کیوں تلخ پیغام  بھیجتے ہیں۔نوجوانوں سے کہنا چاہا کہ آپ ہندوستان کے وزیر اعظم سے کیوں نہیں پوچھتے ہیں، اپنی اپنی ریاستوں کے وزیراعلیٰ سے آپ کیوں نہیں پوچھتے ہیں کہ سیلکشن کمیشن کے ذریعے ان کو کیوں بیوقوف بنایا جا رہا ہے؟

تناؤ والے ٹرول سے کہنا چاہا کہ آپ اپنی ریاست کے وزیراعلیٰ سے پوچھیے کہ کیا ہو رہا ہے۔  کیوں ہو رہا ہے۔  کیوں کبھی اس شہر،کبھی اس شہر میں کشیدگی پھیل رہی ہیں۔میرے پاس کوئی وزیر اعظم کادفتر نہیں ہے کہ ہر محکمے پر نظر رکھنے کے لئے وزیر اور پچاس لاکھ ملازمین ہوں۔  نہ ہی میں اخبار ہوں کہ ہر خبرکو چھاپ لوں‌گا۔

میں ایک صحافی ہوں۔  بہت جگہ کی نہ تو اطلاع ہوتی ہے اور نہ ہی ہر خبر پڑھنے کا وقت۔ اس لیے خود اقتصادیات کی خبروں تک محدود رکھتا ہوں۔ستائیس دنوں تک یونیورسٹی پر سریز کیا۔  وہ کس کے لئے تھا۔  کیا نوجوانوں آپ کے لئے نہیں تھا؟ایک بار یوٹیوب پر اس سریز کے ویڈیو دیکھیے۔  دنیا بھرکی ٹی وی کی تاریخ میں کسی بھی چینل پر 27 دنوں تک یونیورسٹی کی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔  آپ جب اس کے ایپی سوڈ دیکھیں‌گے تو پتا چلے‌گا کہ آپ کے ساتھ کیا دھوکا ہوا ہے۔  دھوکا ابھی بھی ہو رہا ہے۔میں خواب میں نوجوانوں سے یہی بحث کر رہا تھا۔  نیند سے جاگا تو دیویندر شرما کا ٹربیون میں چھپا مضمون پڑھا۔  اس مضمون کا کچھ خلاصہ  آپ کے لئے پیش ہے۔  2016 کے اقتصادی سروے کے مطابق ہندوستان کا کسان سال میں محض 20000 روپے کماتا ہے۔  یہ اس کی کمائی کا اوسط ہے۔  مہینے کا دو ہزار بھی نہیں کماتا ہے۔2002-2003 اور 2013-13 کے درمیان کسانوں کی آمدنی 3.6 فیصد بڑھی ہے۔اب 2022 تک تو آمدنی دگنی ہونے سے رہی۔  اس کی جگہ گاؤں میں فساد کر دیا جائے‌گا تاکہ کسان اس سے پیدا ہونے والی بحث میں کھیتی کرنے لگے۔  کسان آلو کے دام مانگتا ہے، آلو پھینکنے لگتا ہے مگر اخباروں اور چینلوں کے ذریعے اس تک فسادات کے ٹاپک پہنچا دیا جاتا ہے۔کسان مجبوراً ہندو مسلم ٹاپک میں ایڈمیشن لے لیتا ہے اور صبح شام اسی ٹاپک پر بحث کرنے کے لئے مجبور کر دیا جاتا ہے۔  اس کی اقتصادی عدم تحفظ پر مذہبی عدم تحفظ کی مصنوعی پرت چڑھا دی جاتی ہے۔

Minimum Support Priceصرف 6 فیصد کسانوں کو ملتا ہے۔  Minimum Support Priceبھی لاگت سے زیادہ نہیں ہوتا ہے۔  بی جے پی کا یہ وعدہ ہی رہ گیا کہ لاگت میں پچاس فیصدی جوڑ‌کر ایم ایس پی دیں‌گے۔  ایک بھی اناج کی ایم ایس پی  لاگت سے پچاس فیصدی زیادہ نہیں ملی، ایک بھی۔ زیرو رکارڈ ہے حکومت کا اس بارے میں۔

دیویندر شرما کہتے ہیں کہ حکومت اب ہر کسان فیملی کو مہینے کا 18000 روپے دے ورنہ زراعت کا بحران کسانوں کو تباہ کر دے‌گا۔  تلنگانہ کی طرح ہر کسان کو فی ایکڑ 4000 روپے مدد کی رقم دی جائے۔  تلنگانہ میں ہر کسان کو سال میں 8000 روپے ملتے ہیں۔  کرناٹک کی طرح تمام دودھ پروڈکٹ کو 5 روپیے فی لیٹر اضافی مدد کی رقم دی جائے۔

اس وقت ملک میں 7600 زراعتی مصنوعات بازار سمیتی(اے پی ایم سی) ہے۔  جبکہ ضرورت ہے کہ 42000 مارکیٹ بنائے جائیں۔  2018 کے بجٹ میں کم سے کم 20000 منڈی بنانے کے اہتمام کئے جائیں۔  ریاستی حکومتیں ہر پروڈکٹ کو خریدنے کے لئے مجبور ہوں۔  خرید کا سارا پیسہ مرکز اٹھائے ورنہ سب نوٹنکی ہی ثابت ہوگی۔

کہا جا رہا ہے کہ اس بار کے بجٹ میں زراعت پر دھیان دیا جائے‌گا۔  چار سال سے کیا دھیان دیا جا رہا ہے جو ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں۔  اس بار اور اس بار کب تک چلے‌گا۔  ظاہر ہے اب جو بھی ہوگا وہ کسانوں کو چکمہ دینے کے لئے ہوگا۔  وعدے لبالب ہوں‌گے اور نتیجہ ٹھن ٹھن۔

دیویندر شرما نے لکھا ہے کہ 2014 میں کسانوں کے 628 مظاہرے ہوئے تھے۔  2016 میں کسانوں کے 4837 مظاہرے ہوئے ہیں۔  670 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔  یہ نیشنل کرائم برانچ بیورو کے اعداد و شمار ہیں۔آپ نے کتنے مظاہرے کی تصویریں نیوز چینلوں پر دیکھی ہیں۔  نیوز چینل کسانوں کی بات نہیں کریں‌گے۔  ان کو ہرہفتہ ہندو مسلم ٹاپک چاہیے ہوتا ہے، وہ اب پدماوت کے بعد مل گیا ہے۔

دوستوں، حساب صاف ہے۔  نوجوانوں کی نوکری اور کسانوں کے دام کے سوال کو کچلنے کے لئے اب ضلع وار فرقہ وارانہ کشیدگی کی کہانی رچی جا رہی ہے۔آپ میں سے کوئی گاؤں دیہات کا ہے تو اس پوسٹ کو کروڑوں کسانوں تک پہنچا دیجئے تاکہ وہ فساد پر مبنی بحث کو ہوا دینے والی منڈی سے نکل‌کر اس منڈی میں جا سکیں جہاں پیداوار پر مبنی قیمت پر بحث ہو رہی ہو۔ نوجوانوں آپ کو میرا چیلنج ہے۔  آپ چاہ‌کر بھی اس فرقہ وارانہ ڈبیٹ کے ماحول سے نہیں نکل پائیں‌گے۔  آپ کے لئے سارے راستے بند ہو چکے ہیں۔

آپ کے ملک میں اکتوبر سے لےکر آدھی جنوری تک ایک فلم کو لےکر بحث ہوئی ہے۔  ساڑھے تین مہینے بحث چلی۔  نوکری پر اتنی لمبی بحث ہوئی؟  بہتر ہے آپ بھی تنخواہ کی نوکری چھوڑ کر ہندو مسلم ڈبیٹ کی نوکری کر لیجئے۔

آپ کے ماں باپ روز شام کو ٹی وی پر اسی ڈبیٹ میں اپنا وقت گزار رہے ہیں۔  آپ بھی ان کے بغل میں بیٹھ جاؤ، بنا نوکری،تنخواہ کی زندگی کٹ جائے‌گی۔ جاگو دوستوں جاگو! ٹی وی دیکھنا بند کرو۔  کیبل کنیکشن کٹوانا شروع کرو۔  ان جھگڑوں میں کوئی نہ کوئی بات صحیح ہوتی ہے، کوئی نہ کوئی بات غلط ہوتی ہے۔  ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ان سے کشیدگی والی بحث پیدا کی جائے تاکہ آپ اس میں جٹ جائیں۔  بھول جائیں نوکری کے سوال اور اپج‌کے دام۔