خبریں

اس صدی کی سب سے خونریز جنگ آٹھویں سال میں داخل

بین الاقوامی قوتوں کے درمیان ’طاقت اور  رسہ کشی کی وجہ‘ سے شام میں جاری خونریز اور لاکھوں زندگیاں کھا جانے والی خانہ جنگی اپنے آٹھویں سال میں داخل ہو گئی ہے۔

Syria_DW

15 مارچ 2011 کو ملکی صدر بشار الاسد کی جانب سے پُر امن احتجاجی مظاہرین کے خلاف کریک ڈاون سے شروع ہونے والی خونریزی کے بعد یہ ملک انتہائی پیچیدہ جنگ کا شکار ہو گیا تھا۔ حال ہی میں انقرہ کی افواج عفرین پر شدید بمباری کے بعد مرکزی شہر کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ دوسری جانب ماسکو کی حمایت یافتہ ملکی افواج نے باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی غوطہ  کا ستر فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا ہے۔

باغیوں کے زیر قبضہ  اس علاقے کا کنٹرول واپس حاصل کرنے کے لیے 18 فروری سے حکومی فورسز کی جانب سے شدید زمینی اور فضائی حملے کیے گئے جس کے باعث 1220 شہری ہلاک ہوئے۔بین الاقوامی سطح پر اس صدی کی سب سے خونریز جنگ روکنے کے لیے کئی کوششیں کی گئیں، جو ناکام رہیں۔ یہ جنگ اب تک ساڑھے تین لاکھ سے زائد اموات اور ملک کی 20 ملین کی آبادی میں سے نصف کی مہاجرت کے باوجود اب بھی جاری ہے۔گو کہ گزشتہ چند مہینوں میں جہادی تنظیم داعش اور دیگر عسکری گروپوں کا اثرو رسوخ اس ملک میں کم ہوا ہے لیکن اب اس خطے میں دیگر ممالک اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں ہیں۔

امریکا کے حمایت یافتہ کردوں نے ملک میں تیل کی دولت سے مالا مال شمال مشرقی علاقے پر اپنا کنٹرول قائم رکھا ہوا ہے جبکہ ترکی کے حمایت یافتہ  عرب باغی شمال مغربی خطے میں اپنے قدم جمانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں انقرہ کی جانب سے کردوں کے اکثریتی علاقے عفرین پر 20 جنوری سے شدید حملے جاری ہیں اور اب ترک صدر نے اعلان کیا ہے کہ بہت جلد مرکزی شہر کا محاصرہ مکمل کر لیا جائے گا۔

ملک میں جاری اس جنگ پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی کوششیں ایک بار پھر کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں  ترکی، روس اور ایران کے صدور شام کی صورتحال پر ہونے والی ایک سمٹ میں ملاقات کریں گے۔ ترک حکومت کے مطابق چار اپریل کو یہ سمٹ استنبول میں منعقد کی جائے گی۔  تینوں ممالک کے رہنما اس ملاقات میں شامی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوشش کریں گے۔