فکر و نظر

ضمنی انتخابات:کیا منڈل سیاست کے تیسرے دور کا آغاز ہوچکا ہے؟

گورکھ پور، پھولپور اور ارریہ لوک سبھا ضمنی انتخاب کا نتیجہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ منڈل سیاست کا تیسرا دور شروع ہو رہا ہے۔

maya_akhilesh

گورکھ پور اور پھولپور لوک سبھا  ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی ہار‌کو لے کر طرح طرح کی وضاحت پیش کی جا رہی ہیں۔ اس میں سب سے دلچسپ وضاحت یہ ہے کہ مودی خیمہ نے یوگی اور موریہ کو اوقات میں رکھنے کے لئے یہ انتخاب جان بوجھ کر ہرایا! ویسے مبصروں  کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور 2019 کے انتخاب میں وہ اسی طرح کی  اکثریت سے جیتیں گے۔  لیکن کیا مودی کا کرشمہ  اب بھی  بر قرارہے اور ان کے سامنے سچ مچ کوئی چیلنج نہیں ہے؟  اس کا جواب کئی ‘ اگر ‘ ‘ لیکن ‘ سے جڑا ہے لیکن اتنا تو طے ہے کہ اگر کئی ‘ اگر ‘، ‘ لیکن ‘ میں سے ایک دو بھی صحیح ہو جائے، تو مودی کے لئے اگلا لوک سبھا انتخاب کافی مشکل بھرا ہوگا۔  اگر ارریہ کے لوک سبھا نتیجے کو شامل کر لیا جائے تو یہ صرف تین لوک سبھا سیٹوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ 134 سیٹوں کا معاملہ بن جاتا ہے جس میں فی الحال بی جے پی اتحاد کے پاس 119 سیٹیں ہیں اور اکیلی بی جے پی کے پاس 107 سیٹیں ہیں۔  اگر اس فارمولے کو صحیح سے جوڑگھٹاؤ کریں تو پورے ملک سے بی جے پی کو محض 167 سیٹیں اور ملی ہیں!

اس ہار کو سمجھنے کے لئے ہمیں منڈل سے پہلے کے دور میں جانا پڑے‌گا کیونکہ جب تک ہم تاریخ میں نہیں جھانکیں گے ، تب تک ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی ہار کو سمجھنے میں پریشانی ہوگی۔  جب وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کی سفارش کو نافذ کیا تھا تو اس کا واحد مقصد نوکری میں ریزرویشن دینا تھا۔  وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ منڈل کمیشن کی سفارشات  کی تعریفیں بھی بدلتی چلی گئیں۔  بات نوکری میں ریزرویشن سے آگے بڑھ‌کے اقتدار میں حصے داری تک پہنچ گئی۔  ریزرویشن کا مقصد اب صرف یہ نہیں رہا کہ پچھڑوں کو کتنا روزگار ملا، بلکہ ریزرویشن اس شکل میں متعارف ہوا کہ پچھڑوں اور دلتوں کو اقتدار میں کتنی حصہ داری ملی! منڈل کے شروعاتی سالوں میں اگر بہار میں لالو یادو کی لگاتار جیت کو دیکھیں تو ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ بنا روزگار کی گارنٹی دیے لالورابڑی 15 سالوں تک انتخاب کیوں جیتتے رہے؟  اسی طرح رام مندر تحریک کے چوٹی پر ہونے کے باوجود کیوں کانشی رام اور ملائم سنگھ کا اتحاد پوری طرح پولرائزڈ ہندوتوا کو انتخاب ہرانے میں کامیاب رہا؟  ہمیں یہ بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیےکہ ملائم اور کانشی رام،مایاوتی کے الگ ہونے کے باوجود کیوں بی جے پی آخری اسمبلی انتخاب سے پہلے تک واضح اکثریت نہیں پا سکی؟

منڈل کے نافذ ہونے کے بعد کی سیاسی اور سماجی مساوات کو دیکھیں تو یہ جواب ہندوستانی سیاست میں پچھڑوں اور دلتوں کاAssertion  کا دور تھا۔  پہلی بار سیاسی لڑائی کی وجہ سے پچھڑوں میں بیداری  بڑھ رہی تھی اور وہ اقتدار میں حصےداری کے لئے جدو جہد کر رہے تھے۔  منڈل سیاست کے سارے مہارتھی ایک ہی پارٹی جنتا دل کے پرچم کے تلے ساتھ ساتھ کھڑے تھے۔  لیکن لالو یادو، شرد یادو، ملائم سنگھ یادو، نتیش کمار، رام ولاس پاسوان جیسے لوگوں کے آپسی اختلاف سے آہستہ آہستہ اتنے تیز ہونے لگے کہ ان کا ساتھ رہنا مشکل ہو گیا۔  اس فولڈ سے سب سے پہلے ملائم سنگھ نکلے، اس کے بعد رام ولاس پاسوان نکلے، پھر شرد یادو نکلے اور لالو یادو سب سے آخر میں نکلے۔  جنتا دل کا کنبہ پوری طرح بکھر گیا تھا، سارے رہنما اپنےاپنے مفاد کے لئے سماج سے لگاتار دور ہوتے جا رہے تھے۔  ان کی پہلی ترجیح اپنے اور اپنی فیملی کے مفادات کے حصول بھر رہ گیا تھا۔

  سماجی انصاف کا تصور عملی سطح پر پوری طرح سےغائب ہو گیا تھی۔  پھر بھی اقتدار کے شروعاتی وقت میں اٹھائے گئے قدم سے سماجی انصاف کا نعرہ تھوڑا بہت آگے تو بڑھ رہا تھا، لیکن اپنی چمک کھو چکاتھا۔  پھر بھی، اس دور کے دلت وپچھڑوں کی نوجوان نسل کو سماجی انصاف کی جدو جہد کا مطلب سمجھ میں آتا تھا۔  ان کو اس بات کی جانکاری تھی کہ اقتدار میں حصے داری کے لئے ان سے پہلے کی نسل نے کتنی لڑائی لڑی ہے! لیکن جیوں جیوں وقت گزرتا گیا، سماجی انصاف کا نعرہ دینے والے رہنماؤں کا کھوکھلاپن صاف صاف دکھائی دینے لگا۔  ویژن کی کمی کی وجہ سے بد عنوانی اور بھائی بھتیجا پرستی اپنے انتہا پر پہنچ رہی تھی۔  ایک طرف تعلیم اور صحت کے شعبے میں کسی طرح کی مثبت تبدیلی نہیں دکھ رہی تھی تو دوسری طرف لوگوں کو روزگار بھی نہیں مل رہا تھا۔  بی جے پی نے سماج میں ہو رہی اس پریشانی کو سمجھا اور ‘ سوشل انجینئرنگ ‘ کے ذریعے سماج میں موجود ذاتی تضاد کو ہوا دینا شروع کیا۔  بہار اور اتّر پردیش میں یادو اور جاٹوں کے خلاف ماحول بنایا جانے لگا۔  یادو اور جاٹووں کے خلاف یہ ماحول بنایا گیا کہ پچھڑوں میں ریزرویشن کا فائدہ صرف یادو کو ملا ہے جبکہ دلتوں میں اس کا پورا فائدہ جاٹوں نے لے لیا ہے۔  چونکہ نوکری مل نہیں رہی تھی اور اقتدار میں لالورابڑی،ملائم اور مایاوتی کے ہونے کی وجہ سے اگر تھوڑی بہت نوکریاں ملی بھی تو موازنے کے طوپر کہہ سکتے ہیں کہ  سچ مچ ان دونوں کمیونٹی کے لوگوں کو ہی زیادہ نوکری مل رہی تھی۔  جس کو بی جے پی لگاتار ہوا دیتی رہی۔

نتیجہ یہ ہوا کہ 2014 کی لوک سبھا انتخاب سے پہلے ہی دلت اور پچھڑا جیسا اہم گروہ پوری طرح ایک گروہ کی شکل میں تباہ ہو گیا تھا۔  اگر کچھ بچا تھا تو صرف ذات پات کا ڈھانچہ ؛ جس میں تمام ذات کے لوگ اپنی سہولت سے سیاسی حصے داری کی کوشش کر رہے تھے۔  انا آندولن کے دوران بی جے پی کافی کمزور سی دکھ رہی تھی لیکن نریندر مودی کے 2012 کی اسمبلی انتخاب جیتنے کے بعد ملک میں یہ ماحول بنایا جانے لگا کہ اگر کسی رہنما کے پاس کوئی ویژن ہے تو ان کا نام نریندر مودی ہے اور ان کے پاس ‘ گجرات ماڈل ‘ ہے۔  ساتھ ہی، اتّر پردیش اور بہار کے ہر انتخابی جلسہ میں مودی نے بےشمار وعدے کے علاوہ اپنے کو ‘ چھوٹی ذات کا پچھڑا ‘ اور پچھڑوں کا رہنما بتایا۔  ایک طرف بہوجن سماج میں اپنے رہنماؤں سے مایوسی تھی تو دوسری طرف ان کو اپنی کمیونٹی کا ویژن والا بڑا رہنما مودی کی شکل میں دکھائی پڑ رہا تھا جن کے پاس ‘ گجرات ماڈل ‘ تھا۔  اس لئے پورے شمالی ہندوستان میں پچھڑوں اور دلتوں نے بھی بھاری تعداد میں مودی کو ووٹ کیا جس میں یادو اور جاٹ بھی شامل تھے۔

مودی جب وزیر اعظم بنے تو بہوجن کمیونٹی ان کے ان دیکھے گجرات ماڈل کو پورے ملک میں دیکھنا چاہتی تھی ۔  ان کو لگ رہا تھا کہ ان کے لئے ‘ ترقی کا پٹارا ‘ کھلے‌گا، لیکن ویسا کچھ نہیں ہوا۔  اس بیچ سال 2006 میں تعلیمی شعبے میں منڈل-2 کی بنیاد ارجن سنگھ نے رکھ دی تھی۔  انہوں نے پچھڑوں کے لئے 27 فیصدی ریزرویشن اسکولوں او رکالجوں میں نافذ کر دیا۔  ریزرویشن کا کوٹہ نافذ نہ ہو، اس میں طرح طرح سے رکاوٹ لگائی گئی، جس کو پسماندہ اسٹوڈنٹ کمیونٹی دیکھ بھی رہی تھی اور سمجھ بھی رہی تھی، پھر بھی تین سال کے اندر ساری مرکزی یونیورسیٹیوں میں دلتوں اور پچھڑوں کی تعداد 50 فیصدی کو پار‌کر گئی۔

sp

وہ نسل جو ریزرویشن سے پہلی بار یونیورسٹی پہنچی تھی وہ روزگار کے لئے تیار تھی لیکن اس کو روزگار نہیں مل رہا تھا۔  حیدرآباد یونیورسٹی میں روہت ویمولا کی خودکشی سے دلتوں اور پچھڑوں کی آنکھ کھلنے کی شروعات ہوئی۔  مودی کے دورحکومت میں سرکاری نوکریوں میں لگاتار کٹوتی ہوتی رہی۔  تعلیم اور صحت کے بجٹ میں مودی کے دورحکومت میں ہرسال کٹوتی ہوئی، نوکریوں کے مواقع گھٹے۔  جن پڑھےلکھے پچھڑوں اور دلتوں نے مودی کو پچھڑا یا ‘ اپنا ‘ سمجھ‌کر ووٹ دیا تھا، آہستہ آہستہ ان کو سمجھ میں آنے لگا کہ یہ حکومت سچ مچ ان کے لئے نہیں ہے۔  اس کی مثال یونیورسٹیوں کے انتخاب میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں بی جے پی یا آر ایس ایس کی طلبا تنظیم پچھلے تین سالوں میں ہر یونیورسٹی میں انتخاب ہار گئی۔

وزیر اعظم بننے کے پہلے اور بعد میں بھی بی جے پی اور نریندر مودی نے لالو یادو اور مایاوتی سمیت زیادہ تر غیر بھاجپائی رہنماؤں پر بد عنوانی کے الزام لگائے لیکن جب وہی غیربھاجپائی رہنما بی جے پی میں شامل ہو گیا تو اس کے خلاف خاموشی اختیارکرلی گئی جبکہ بی جے پی کے سامنے سرینڈر نہ کرنے والے لالو یادو اور مایاوتی کے خلاف جانچ مستقل جاری ہے۔  اس سے ان کمیونٹی کے لوگوں کو دال میں کالا نظر آنے لگا۔  مودی کو ووٹ دینے والے دلت اور بہوجن کا پڑھالکھا کمیونٹی مایوسی محسوس کرنے لگا۔  دوسری طرف اقتدار میں لگاتار ان کی حصےداری کم ہوتی گئی۔انڈین ایکسپریس میںChristophe JaffrelotاورGilles Verniersکا مضمون ‘ The  Representation Gap‘ پڑھیے تو کئی چونکانے والی باتیں سمجھ میں آ سکتی ہے۔  منڈل کے لگنے کے بعد لگاتار پچھڑے رکن پارلیامان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور 2004 میں تو لوک سبھا میں پچھڑے رکن پارلیامنٹ کی تعداد 26 فیصدی تک ہو گئی تھی جو 2014 میں گھٹ‌کر 20 فیصدی سے بھی کم ہو گئی۔  جبکہ منڈل کے لگنے کے بعد اعلیٰ ذاتوں کی تعداد لگاتار گھٹتی رہی لیکن 2014 میں ان کی تعداد بڑھ‌کر 45 فیصدی ہو گئی ہے۔  یہی حال اتّر پردیش اور بہار اسمبلی کے ایم ایل اے کا ہوا ہے۔

گورکھ پور، پھولپور اور ارریہ لوک سبھا ضمنی انتخاب کا نتیجہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ منڈل سیاست کا تیسرا دور شروع ہو رہا ہے۔  جس کی قیادت اس بار رہنما نہیں بلکہ طلباکمیونٹی کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔  پچھڑے ‘ سرنیم ‘ کے بہت سے رہنما آج بھی بی جے پی میں ہیں، لیکن پڑھے لکھے طلبا کے دباؤ میں وہ اپنی کمیونٹی کا ووٹ بی جے پی کو دلانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ 2015 میں لالو یادو نے نتیشکمار کے ساتھ مل‌کر منڈل دو کا اعلان کیا تھا جس میں بی جے پیکی  بری طرح شکست ہوئی۔  لیکن بعد میں لالو سے الگ ہٹ‌کر نتیش نے پھر سے بی جے پی کا ہاتھ تھام لیا ہے،  دلت اور بہوجن رائےدہندگان نے اس کو مسترد کر دیا ہے۔  دوسری مثال اس شکل میں دیکھی جا سکتی ہے کہ مایاوتیا ور اکھلیش یا سپا اور بسپا کے کسی بھی رہنما نے نہ تو کوئی جوائنٹ پریس کانفرنس کیا اور نہ ہی کوئی جوائنٹ پبلک میٹنگ کی، پھر بھی پورا ووٹ بی جے پی کے خلاف چلا گیا اور بی جے پی نے وزیراعلیٰیوگی اور نائب وزیر اعلیٰ موریہ دونوں کی سیٹیں گنوا دی۔